Monday, 14 October 2019

سجدہ تلاوت کیوں کیا جاتا ہے؟

سجدہ تلاوت کیوں کیا جاتا ہے؟
ذیل کے مسئلہ میں رہنمائی فرمائیں، قرآن کریم کی جن آیات کی تلاوت کرنے سے سجدہ کرنا واجب ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ یعنی کوئی پس منظر، یا سبب وجوب سجدہ کوئی تو وجہ ہوگی،کیوں کہ ان مخصوص آیتوں کے علاوہ دوسری کی تلاوت میں یہ حکم نہیں ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
جن آیات میں سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہ حکم بعض مقامات پر تو اس لئے دیا گیا ہے کہ جب اللہ رب العزت نے کفار کو سجدہ کرنے کا حکم دیا لیکن انہوں نے انکار کردیا تو اللہ رب العزت نے موٴمنین کو حکم دیا کہ کفار کی مخالفت میں اور ان کو ذلیل کرنے کے لئے وہ اس مقام پر سجدہ کریں، جیسا کہ سورہٴ فرقان (آیت نمبر: ۶۰) میں ہے۔ (وإذَا قِیْلَ لَہُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰن)۔
اور بعض مقاماتِ سجدہ وہ ہیں کہ جن میں انبیاء کرام یا ملائکہ کے سجدہ کرنے کی حکایت نقل کی گئی ہے اور ان کی اقتداء میں عام موٴمنین کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ بھی سجدہ کریں، جیسا کہ سورہ ”صٓ“ (آیت نمبر: ۲۴) میں ہے ۔ (وَاسْتَغْفَرَ رَبَّہُ وَخَرَّ رَاکِعاً وَّأنَاب)۔ مفسرین نے اس سلسلے میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس سے یہی خلاصہ نکلتا ہے۔ 
واللہ اعلم بالصواب
وقد جاء الأمر بالسجدة لآیة أمر فیہا بالسجود امتثالاً للأمر، أو حکیٰ فیہا استنکاف الکفرة عنہ مخالفة لہم، أو حکی فیہا سجود نحو الأنبیاء علیہم الصلاة والسلام تأسیاً بہم ۔ (روح المعاني: ۱۰/۱۵۵، ط: دار إحیاء التراث، بیروت لبنان)
وقد دل استقراء المواقع (مواقع سجود القرآن) أنہا لاتعدو أن تکون إغاظة للمشرکین أو اقتداء بالأنبیاء أو المرسلین کما قال ابن عباس- رضی اللہ عنہما- في سجدة (فاسْتَغْفَرَ رَبَّہُ وَخَرَّ رَاکِعاً وَّأنَاب) أن اللہ تعالی قال (فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہ) فداود ممن أمر محمد - صلی اللہ علیہ وسلم- بأن یقتدی بہ ۔ (التحریر والتنویر لابن عاشور: آخر سورة الأعراف: ۱۰/۲۴۴، ط: الدار التونسیة للنشر) ۔
--------------------------------
جواب صحیح ہے اور مزید تفصیل کے لئے رحمة اللہ الواسعة (۳/۴۶۸، ۴۶۹) دیکھیں۔ (ن)
--------------------------------------------------------------------------------
سجدہِ تلاوت واجب ہونے کے تین اسباب ہیں
١. آیتِ سجدہ کو خود تلاوت کرنا، جس طرح پوری آیتِ سجدہ کی تلاوت سے سجدہِ تلاوت واجب ہوتا ہے آیت سجدہ کا بعض حصہ تلاوت کرنے سے بھی سجدہِ تلاوت واجب ہو جاتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ جو لفظ سجدہ پر دلالت کرتا ہے اس کے ساتھ ایک کلمہ شروع میں یا بعد میں ملاکر پڑھا ہو، آیت سجدہ لکھنے یا اس پر نظر کرنے یا زبان کے بغیر صرف دل میں پڑھنے یا بچوں کو ہجے کروانے کے طرح ایک ایک حرف کرکے پڑھنے سے سجدہِ تلاوت واجب نہیں ہوتا اگر سجدہ کی آیت کا ترجمہ اردو فارسی وغیرہ کسی زبان میں پڑھا تو پڑھنے والے پر سجدہِ تلاوت واجب ہو گا خواہ اس کو معلوم ہو کہ یہ آیت سجدہ کا ترجمہ ہے یا معلوم نہ ہے، لیکن سننے والے پر آیت سجدہ کے ترجمے سے اس وقت سجدہِ تلاوت واجب ہوگا جبکہ اس کو معلوم ہو جائے کہ یہ آیت سجدہ کا ترجمہ ہے اسی پر فتویٰ ہے اگر بہرے آدمی نے آیت سجدہ پڑھی تو اس پر سجدہِ تلاوت واجب ہے، کسی نے سوتے ہوئے آیت سجدہ پڑھی اگر کسی نے اس کو جاگنے پر خبر دے دی تو سجدہِ تلاوت واجب ہو گا ورنہ نہیں
٢. آیت سجدہ کا کسی انسان سے سننا، خواہ قصداً سنے یا بغیر قصد کے سننے میں آجائے اس پر سجدہِ تلاوت واجب ہو گا، کسی پرندے سے آیت سجدہ سنی یا گنبد کے اندر یا پہاڑ یا جنگل میں بلند آواز سے پڑھنے والے کی آواز ٹکرا کر جب واپس لوٹی تو آیت سجدہ اس گونج کی آواز سے سنی تو اس پر سجدہِ تلاوت واجب نہیں ہے، اگر کسی نے نشے کی حالت میں آیتِ سجدہ پڑھی تو پڑھنے اور سننے والے پر سجدہِ تلاوت واجب ہو گا، اگر بےوضو آیتِ سجدہ پڑھی یا سنی تو اس پر بھی سجدہِ تلاوت واجب ہوگا اگر کسی نے سوتے ہوئے آدمی سے آیتِ سجدہ سنی تو اصح یہ ہے کہ اس پر سجدہِ تلاوت واجب نہیں
٣. ایسے شخص کی اقتدا کرنا جس نے آیت سجدہِ تلاوت کی ہو خواہ اس کی اقتدا سے پہلے تلاوت کی ہو یا اقتدا کے بعد کی ہو، خواہ امام نے آہستہ تلاوت کی ہو، پھر سب مقتدیوں پر امام کے ساتھ سجدہِ تلاوت کرنا واجب ہے، عورت نے اگر اپنی نماز میں سجدے کی آیت پڑھی اور ابھی سجدہ نہیں کیا تھا کہ اس کو حیض آگیا تو وہ سجدہ اس سے ساکت (ساقط) ہوگیا-
----------------------------------------------------------------------------
سجدہِ تلاوت کا مسنون طریقہ
جس طرح نماز کا سجدہ کیا جاتا ہے سجدہِ تلاوت بھی اسی طرح کرنا چاہئے، بعض لوگ قرآن شریف پر ہی سجدہ کر لیتے ہیں اس سے سجدہ ادا نہیں ہوتا پس جب سجدہِ تلاوت کرے تو کھڑا ہو کر سجدہِ تلاوت کی نیت دل میں کرے اور زبان سے بھی کہہ لینا بہتر ہے نویت ان اسجد للّٰہ تعالٰی عن تلاوت القران (اردو میں یوں کہے کہ اللّٰہ تعالی کے واسطہ سجدہِ تلاوت کرتا ہوں) پھر ہاتھ اٹھائے بغیر اللّٰہ اکبر کہتا ہوا سجدہ میں جائے اور کم سے کم تین مرتبہ سبحان ربی الاعلی کہے پھر اللّٰہ اکبر کہتا ہوا سجدے سے سر اٹھائے اور کھڑا ہوجائے، سجدہِ تلاوت میں تشہد پڑھنے اور سلام پھیرنے کی ضرورت نہیں، اگر بیٹھ کر اللّٰہ اکبر کہتا ہوا سجدہ میں چلا جائے اور سجدہ کے بعد اللّٰہ اکبر کہتا ہوا سجدے سے سر اٹھائے اور بیٹھ جائے کھڑا نہ ہو تب بھی درست ہے لیکن کھڑا ہوکر سجدہ میں جانا اور پھر کھڑا ہوجانا بہتر ہے اگر نماز میں آیت تلاوت کے بعد فی الفور سجدہِ تلاوت کرے تو نیت ضروری نہیں ہے.
---------------------------------------------------------------------------------
١. اگر امام سجدے کی آیت پڑھے تو اسی وقت سجدہ کرے اور مقتدی بھی اس کے ساتھ سجدہ کریں خواہ وہ آیت سجدہ سنیں یا نہ سنیں، اور جہری نماز ہو یا سری، لیکن سری نماز میں مستحب یہ ہے کہ امام ایسا رکوع یا سورت یا اس کا حصہ تلاوت نہ کرے جس میں سجدے والی آیت ہو
٢. اگر امام کے آیت سجدہ تلاوت کرنے کے بعد اور سجدہِ تلاوت ادا کرنے سے پہلے کوئی شخص اس نماز میں شریک ہوا تو وہ بھی امام کے ساتھ سجدہ کرے اور امام کے سجدہِ تلاوت کر لینے کے بعد شامل ہوا تو اب یہ سجدہ تلاوت نہ کرے نہ نماز میں اور نہ نماز کے بعد ، امام کا سجدہ اس کے لئے بھی کافی ہے
٣. اگر مقتدی نے آیت سجدہ پڑھی تو نہ خود اس پر سجدہ واجب ہو گا اور نہ اس کے امام اور دوسرے مقتدیوں پر ، نہ نماز میں اور نہ نماز کے بعد
٤. لیکن اگر اس مقتدی سے آیت سجدہ سننے والا اس مقتدی کی نماز میں شریک نہیں ہے تو اس پر سجدہِ تلاوت واجب ہوگا خواہ سننے والا کوئی دوسری نماز اکیلا پڑھ رہا ہو یا کسی دوسری نماز کا امام یا مقتدی ہو یا بلکل نماز میں نہ ہو لیکن دوسری نماز میں سننے کی صورت میں نماز کے بعد اس پر سجدہِ تلاوت کرنا واجب ہے، اگر نماز میں کیا تو ادا نہیں ہو گا بلکہ نماز کے بعد اس کا اعادہ کرنا واجب ہوگا اور اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی لیکن کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہونے کی وجہ سے اس نماز کا بھی اعادہ واجب ہوگا
٥. سجدہِ تلاوت نماز کے اندر رکوع کرنے سے یا سجدہ کرنے سے ادا ہوجاتا ہے لیکن سجدہ کرنا افضل ہے اور رکوع سے سجدہِ تلاوت ادا ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ فوراً بلا تاخیر ہو اگر تاخیر کرے گا تو رکوع سے ادا نہیں ہو گا بلکہ اس کو سجدہ کرنا ہی متعین ہو جائے گا، تاخیر سے مراد آیت سجدہ کے بعد تین آیت یا اس سے زیادہ پڑھ لینا ایک یا دو آیت کے پڑھ لینے سے تاخیر لازم نہیں آتی بلکہ وہ فی الفور ہی کے حکم میں ہی ہے
٦. سجدے کی آیت پڑھ کر رکوع کر دے تو رکوع میں سجدہِ تلاوت ادا ہونے کے لئے رکوع کرتے وقت سجدہِ تلاوت کی نیت کرنا بھی ضروری ہے اگر نیت نہ کی تو رکوع میں سجدہِ تلاوت ادا نہیں ہو گا اور اگر رکوع میں جانے کی بعد سجدہِ تلاوت کی نیت کی تو اظہر یہ ہے کہ جائز نہیں اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد نیت کی تو بالاجماع جائز نہیں، مقتدی کے لئے بھی یہی حکم ہے
٧. رکوع کرتے وقت سجدہِ تلاوت کی نیت کرتے ہوئے نماز کے رکوع کی بھی نیت کرے ورنہ نماز کا رکوع ادا نہیں ہو گا
٨. نماز کے سجدے سے بھی سجدہِ تلاوت ادا ہو جاتا ہے جبکہ آیتِ سجدہ کی تلاوت کے بعد فوراً رکوع کر کے پھر سجدہ کرے اور اس کے لئے نیت کرنا بھی ضروری نہیں ہے پس اگر امام نے رکوع میں سجدہِ تلاوت کی نیت نہ کی ہو تو نماز کے سجدے سے سجدہِ تلاوت بھی ادا ہو جائے گا اور مقتدیوں کے سجدہ نماز سے مقتدیوں کا بھی سجدہِ تلاوت ادا ہو جائے گا خواہ امام اور مقتدیوں نے سجدہِ تلاوت کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو، اس لئے امام کے چاہئے کہ اگر آیتِ سجدہ کے بعد فوراً رکوع کرے تو اس میں سجدہِ تلاوت کی نیت نہ کرے تاکہ سجدہِ نماز میں سب کا سجدہِ تلاوت بھی ادا ہو جائے
٩. اگر امام نے جہری نماز میں آیت سجدہ پڑھی تو سجدہِ تلاوت کرنا اولیٰ ہے اور اگر سری نماز میں پڑھی تو آیت سجدہ پڑھنے کے بعد رکوع کرنا اور اس میں سجدہِ تلاوت کی نیت نہ کرنا اولیٰ ہے تاکہ مقتدیوں کو دھوکا نہ لگے اور نماز کے سجدے سے سب کا سجدہِ تلاوت ادا ہوجائے گا.
١٠. جمعہ و عیدین و سری نمازوں اور جس نماز میں جماعت عظیم ہو امام کو سجدے کی آیت پڑھنا مکروہ ہے لیکن اگر آیت کے فوراً بعد نماز کے رکوع و سجود کر دے اور رکوع میں سجدہِ تلاوت کی نیت نہ کرے تو کراہت نہیں ہے
١١. کسی نے نماز کے اندر سجدے کی آیت پڑھی اگر وہ آیت سورت کی بیچ میں ہے تو افضل یہ ہے کہ آیت سجدہ پڑھنے کے بعد سجدہِ تلاوت کرے پھر کھڑا ہو کر سورة ختم کرے اور رکوع کرے اور اگر اس وقت سجدہِ تلاوت نہیں کیا بلکہ نماز کے لئے رکوع کر لیا سجدہِ تلاوت کی نیت بھی کر لی تب بھی جائز ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا اور اگر اسی وقت سجدہ یا رکوع نہ کیا اور سورة پوری کرنے کے بعد رکوع کیا تو اب رکوع میں سجدہِ تلاوت کی نیت سے ادا نہیں ہو گا اب اس کو سجدہِ تلاوت الگ سے کرنا ہی متعین ہوگا اور تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو کرنا بھی واجب ہے اور اگر آیتِ سجدہ سورت کے آخر میں ہے تو افضل یہ ہے کہ اس کے پڑھنے کے بعد رکوع کر دے اور منفرد ہو تو رکوع میں سجدہِ تلاوت کی بھی نیت کر لے اور اگر امام ہو تو بہتر یہ ہے کہ رکوع میں سجدہِ تلاوت کی نیت نہ کرے کیونکہ نماز کے سجدے میں امام اور مقتدیوں سب کا سجدہِ تلاوت بھی ادا ہو جائے گا اور اگر وہ آیتِ سجدہ کی تلاوت کے بعد سجدہِ تلاوت کرے تو اس کو چاہئے کہ سجدے سے سر اٹھانے اور کھڑا ہونے کی بعد اگلی سورت میں سے کچھ پڑھے پھر رکعت کا رکوع کرے اگر سجدہِ تلاوت سے کھڑا ہونے کے بعد اگلی سورت میں سے کچھ نہ پڑھا اور رکوع کر دیا تب بھی جائز ہے
١٢. اگر سجدہِ تلاوت فوراً یا ایک دو آیت پڑھنے کے بعد ادا نہیں کیا بلکہ اس سے آگے تین آیت یا اس سے زیادہ تلاوت کر گیا تو اب نماز کے اندر جب بھی سجدہِ تلاوت کرے تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو بھی واجب ہو گا حتیٰ کہ اگر قعدہ اخیرہ کرے اس پر قعدہ اخیرہ کا اعادہ فرض ہے، اگر نماز کا سلام پھیرنے کے بعد یاد آیا تو جب تک اس سے کوئی منافی نماز فعل سرزد نہیں ہوا اس پر سجدہِ تلاوت ادا کرنا واجب ہے اور تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو بھی واجب ہو گا اگر سورت کی ختم ہونے سے دو تین آیتیں پہلے آیت سجدہ ہو تو اختیار ہے کہ اس وقت سجدہِ تلاوت کرے یا ختم سورت کے بعد کرے اور اگر ختم سورت کی بعد سجدہِ تلاوت کرے تو پھر کھڑا ہو کر دوسری رکعت کا رکوع کرنا افضل ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا
١٣. اگر نماز میں سجدہِ تلاوت اس کی جگہ پر کرنا بھول گیا اور تین آیت یا زیادہ آگے بڑھنے کے بعد یاد آیا، یا رکوع یا سجدہ یا قعدہ میں یاد آیا تو جس وقت یاد آیا اسی وقت سجدہِ تلاوت کر لے پھر جس رکن میں تھا اسی رکن میں آ جائے اور استحساناً اس رکن کا اعادہ کرے اگر اس رکن کا اعادہ نہ کیا تب بھی اس کی نماز جائز ہو گی، سوائے قعدہ اخیرہ کے کہ اس کا اعادہ فرض ہے اور ان سب صورتوں میں اس پر تاخیر کی وجہ سے سجدہِ سہو واجب ہو گا، عمداً تاخیر کرنے کی صورت میں بھی سلام سے پہلے تک یہی حکم ہے اور عمداً تاخیر کرنے کا گناہ بھی ہو گا اگر نماز میں پڑھی ہوئی آیتِ سجدہ کا سجدہِ تلاوت نماز میں ادا نہ کیا تو سلام پھیرنے اور منافیِ نماز فعل سرزد ہونے کے بعد اب ادا نہیں کر سکتا اور سوائے توبہ استغفار کے اس کی اور کوئی معافی کی صورت نہیں ہے
١٤. جو سجدہِ تلاوت نماز سے باہر واجب ہوا ہو وہ نماز میں ادا نہیں ہو گا اور جو سجدہِ تلاوت نماز میں واجب ہوا وہ نماز سے باہر ادا نہیں ہو گا بلکہ دوسری نماز میں بھی ادا نہیں ہو گا اس کے لئے توبہ استغفار کرتا رہے ١٥. اگر نماز میں پڑھی ہوئی آیتِ سجدہ کا سجدہِ تلاوت ادا کرنے سے پہلے حیض و نفاس کےعلاوہ کسی اور وجہ سے اس کی نماز فاسد ہو گئی تو اب یہ سجدہ نماز سے باہر ادا کرنا واجب ہے حیض و نفاس کی وجہ سے عورت کی نماز فاسد ہونے کی صورت میں سجدہِ تلاوت اس سے ساقط ہو جائے گا
١٦. اگر امام نے سجدہ کی آیت پڑھی اور سجدہِ تلاوت نہ کیا تو مقتدی بھی نہ کرے-
-----------------------------------------------
١. تداخل کا مطلب یہ ہے کہ ایک سجدہِ تلاوت دوسرے کی تابع ہو کر ایک ہی سجدہِ تلاوت کافی ہو جائے اور اس کی بنا آیت و مجلس کا متحد ہونا ہے پس ایک ہی آیت کو ایک ہی مجلس میں مکرر پڑھنے یا مکرر سننے سے ہر پڑھنے یا سننے والے پر ایک ہی سجدہ واجب ہو گا اسی طرح اگر ایک آیت کو خود پڑھا اور اسی آیت کو اس مجلس میں کسی دوسرے سے سنا تب بھی ایک ہی سجدہ واجب ہو گا اور جہاں ایک سجدہ کافی ہوتا ہے اس کا مکرر کرنا مندوب بھی نہیں ہے
٢. کئے سجدوں کے لئے ایک سجدہ کافی ہونے کی شرط یہ ہے کہ ایک ہی آیت ایک ہی مجلس میں متعدد مرتبہ پڑھی جائے، خواہ جتنی دفعہ پڑھی ہو ایک ہی سجدہ کافی ہے، خواہ اخیر میں سجدہِ تلاوت کر لے یا پہلی دفعہ پڑھنے کے بعد کر لے اور پھر اُسی آیت کو بار بار پڑھتا رہے اور درمیان میں کسی وقت سجدہ کر لے اور اس کے بعد بھی اس آیت کو پڑھتا رہے ان سب صورتوں میں وہی ایک سجدہِ تلاوت کافی ہے اگر نماز میں سجدے کی ایک ہی آیت کو کئی دفعہ پڑھے تب بھی ایک ہی سجدہ کافی ہو گا خواہ سب دفعہ کے بعد اخیر میں سجدہ کرے یا پہلی دفعہ بیچ میں سجدہ کر لے
٣. سجدے کے مکرر ہونے کے لئے تین باتوں میں سے ایک بات کا پایا جانا ضروری ہے
اول: اختلافِ تلاوت یعنی ایک ہی مجلس میں سجدہ کی مختلف آیتین تلاوت کرنا
دوم: اختلافِ سماعت یعنی ایک ہی مجلس میں مختلف آیات سجدہ کا سننا
سوم: اختلافِ مجلس یعنی ایک ہی آیت کا مختلف مجلسوں میں سننا،
اس سے معلوم ہوا کہ ایک سجدہ کافی ہونے کے لئے آیت و مجلس کا متحد ہونا شرط ہے پس اگر ایک ہی آیت مختلف مجلسوں میں پڑھی یا سنی یا مختلف آیتیں ایک ہی مجلس میں پڑھی یا سنی ہوں تو اتنے ہی تلاوت کے سجدے واجب ہوں گے، اگر سننے والے کی مجلس بدل گئی اور پڑھنے والے کی نہ بدلی تو ایک آیت کے مکرر سننے سے سننے والے پر مکرر سجدہ واجب ہو گا اور پڑھنے والے پر ایک ہی سجدہ واجب ہو گا اور اگر پڑھنے والے کی مجلس بدل گئی سننے والی کی نہ بدلی تو پڑھنے والے پر مکرر سجدہ ہو گا سننے والے پر ایک ہی سجدہ واجب ہو گا
٤. مجلس بدلنے کی دو قسمیں ہیں
اول: حقیقی یعنی ایک ہی مجلس سے دوسری مجلس میں دو قدم سے زیادہ چل کر جانا، اب اگر اسی جگہ آ کر دوبارہ وہی آیت پڑھے تب بھی دو سجدے واجب ہوں گے اور بعض کے نزدیک تین قدم سے زیادہ چل کر جانا ہے لیکن اگر وہ جگہ مکان واحد کے حکم میں ہو مثلاً چھوٹی مسجد یا چھوٹا گھر یا کمرہ یا کوٹھری ہو تو اس میں جگہ تلاوت سے ایک ہی سجدہ واجب ہو گا، یہی حکم کشتی پر تلاوت کرنے والے کا ہے اگرچہ چل رہی ہو اور یہی حکم سواری پر نماز پڑھنے والے کا ہے جبکہ وہ جنگل میں گزر رہا ہو اور ایک ہی آیت سجدہ چند بار تلاوت کرے کہ اس پر بھی ایک ہی سجدہ واجب ہو گا، بڑی مسجد یا بڑے مکان میں جگہ بدل جانے سے مکرر سجدہِ تلاوت واجب ہوگا
دوم: حکمی یعنی ایک ہی آیت سجدہ دو دفعہ پڑھنے کے درمیان میں عمل کثیر کرنا مثلاً خرید وفروخت کرنا ایک دو لقمے سے زیادہ کھانا، لیٹ کر سونا، عورت کا بچہ کو دودہ پلانا وغیرہ تو اس صورت میں بھی سجدہِ تلاوت مکرر واجب ہوگا، اگر عمل قلیل کیا ہو مثلاً ایک دو لقمہ کھایا یا ایک دو گھونٹ پیا یا بیٹھ کر سویا یا بیٹھا ہو آدمی کھڑا ہو گیا وغیرہ تو ان صورتوں میں ایک ہی سجدہِ تلاوت کافی ہوگا-
----------------------------------------------------------------------
١. اگر غیر مکروہ، مباح وقت میں آیت سجدہ پڑھی اور مکروہ وقت میں سجدہ کیا تو جائز نہیں ہے اور اگر مکروہ وقت میں پڑھی اور اسی وقت میں سجدہ کیا تو جائز ہے
٢. اگر آیتِ سجدہ نماز سے باہر پڑھی تو فوراً سجدہ کرنا واجب نہیں ہاں بہتر وافضل ہے اور تاخیر کرنا مکروہِ تنزیہی ہے کیونکہ شاید بعد میں یاد نہ رہے لیکن جب بھی سجدہِ تلاوت کرے گا ادا ہو جائے گا قضا نہیں کہلائے گا، اگر اس وقت سجدہ نہ کر سکے تو تلاوت کرنے اور سننے والے کو یہ کہہ لینا مستحب ہے سمعنا و اطعنا غفرانک ربنا و الیک المصیر . لیکن عمر بھر میں کسی وقت وہ سجدہ کر لینا چاہئے ورنہ گناہگار ہو گا
٣. اگر تلاوت کرنے والے کے پاس ایسے لوگ بیٹھے ہوں جن کو سجدہ کرنے کی عادت ہو اور وہ وضو سے ہوں تو وہ آیتِ سجدہ جہر سے تلاوت کرے اور اگر وہ لوگ بےوضو ہوں یا یہ گمان ہو کہ یہ لوگ سجدہ نہیں کریں گے یا ان پر سجدہ گراں ہو گا یا ان کا حال معلوم نہ ہو تو آیتِ سجدہ آہستہ سے تلاوت کرے خواہ نماز میں ہو یا نماز سے باہر تلاوت کر رہا ہو
٤. قران مجیح کی تلاوت کرتے وقت صرف آیت سجدہ کی تلاوت چھوڑ دیا اور باقی سورت آگے پیچھے سے پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے کیونکہ سجدہ سے بچنا گویا سجدہ سے انکار ہے اور اگر سورت میں کوئی اور آیت نہ پڑھے صرف سجدہ کی آیت پڑھے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن نماز میں ایسا کرنا اس وقت جائز ہے جبکہ وہ آیت اتنی بڑی ہو کہ تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہو ورنہ جائز نہیں ہو اور بہتر یہ ہے کہ سجدہ کی آیت کو ایک دو آیت کے ساتھ ملا کر پڑھے
٥. اگر کسی عورت نے حیض و نفاس کے حالت میں سجدہ کی آیت سنی تو اس پر سجدہِ تلاوت واجب ہی نہیں ہو گا اور اگر کسی جنبی مرد یا عورت نے آیتِ سجدہ سنی تو اس پر سجدہِ تلاوت واجب ہو گا لیکن اس کا ادا کرنا نہانے کے بعد واجب ہو گا
٦. اگر نماز سے باہر آیت سجدہ تلاوت کرنے کے بعد سجدہ نہیں کیا پھر اسی جگہ نماز کی نیت باندھ لی اور وہی آیت پھر نماز میں پڑھی اور نماز میں سجدہ تلاوت کیا تو یہی سجدہ دونوں دفعہ کی تلاوت کو لئے کافی ہے لیکن اگر اس جگہ کی بجائے کسی اور جگہ نماز کی نیت باندھی اور وہی آیت پھر نماز میں پڑھی تو اس کا سجدہ نماز میں ادا کرے اور نماز سے باہر کی تلاوت کا سجدہ نماز سے باہر الگ ادا کرنا واجب ہے اور اگر سجدہ کی آیت پڑھ کر سجدہ کرلیا پھر اسی جگہ نماز کی نیت باندھ لی اور وہی آیت نماز میں پڑھی تو اب نماز میں پھر سجدہ کرے.

No comments:

Post a Comment