اسپتال میں مرد ڈاکٹر کا زچگی اور علاج کروانے کا حکم
ولادت کا وقت ہو اور اس اسپتال میں صرف ڈاکٹر ہو ڈاکٹرنی نہ ہو اور امرجنسی کیس ہوتو ایسی مجبوری میں مرد ڈاکٹر کا ڈیلیوری کرنا شرعا درست ہے یا نہیں، مدلل جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائے
فقط والسلام
المستفتی: عبد اللہ
مرسل: اشتیاق
الحواب وباللہ التوفیق:
کسی ایسے اسپتال میں ڈیلیوری کروائیں جہاں لیڈی ڈاکٹرنیاں ہوں. اگر کسی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو اور زچہ بچہ کو خطرہ درپیش ہو تو پھر مجبوری ہے اور اس مجبوری کے تحت مرد ڈاکٹر سے ڈیلیوری کروانے میں رفع اثم کی امید ہے
کذا فی فتاوی دارالعلوم دیوبند۔
ینظر الطبیب إلی موضع مرضھا بقدر الضرورة؛ إذ الضرورات تتقدر بقدرھا، وکذا نظر قابلة وختان، وینبغي أن یعلم امرأة تداویھا؛ لأن نظر الجنس إلی الجنس أخف (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس،۹: ۵۳۲، ۵۳۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”وینبغي الخ“: کذا أطلقہ فی الھدایة والخانیة۔ وقال فی الجوھرة: إذا کان المرض في سائر بدنھا غیر الفرج یجوز النظر إلیہ عند الدواء؛ لأنہ موضع ضرورة، وإن کان في موضع الفرج فینبغي أن یعلم امرأة تداویھا، فإن لم توجد وخافوا علیھا أن تھلک أو یصیبھا وجع لا تحتملہ یستتروا منھا کل شییٴ إلا موضع العلة ثم یداویھا الرجل ویغض بصرہ ما استطاع إلا عن موضع الجرح اھ فتأمل، والظاھر أن ینبغي ھنا للوجوب (رد المحتار)، والطبیب إنما یجوز لہ ذلک إذا لم یوجد امرأة طبیبة فلو وجدت فلا یجوز لہ أٴن ینظر؛ لأن نظر الجنس إلی الجنس أخف، وینبغي للطبیب أن یعلم أمرأة إن أمکن وإن لم یکن ستر کل عضو منھا سوی موضع الوجع ثم ینظر ویغض ببصرہ عن غیر ذلک الموضع إن استطاع ؛لأن ما ثبت للضرورة یتقدر بقدرھا (تکملة البحر الرائق، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس، ۸:۳۵۲، ۳۵۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
فتاوی دارالعلوم دیوبند
Fatwa: 1220-1363/N=1/1439
------------------------------------------------
خواتین کے لیے مرد ڈاکٹر سے علاج کروانے کی شرعی حیثیت
سوال… آج کل مسلمان عورتیں غیر مسلموں کی طرح بچے جننے کے لیے اسپتال جاتی ہیں، جہاں مرد ڈاکٹر بھی بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات آپریشن مرد ڈاکٹر سے کروایا جاتا ہے اور ہر قسم کی عورتیں آتی ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرم وحیا کا احساس بھی جاتا رہا۔ اگر ہند پاک کی عورتوں کو یوں کہا جائے کہ اچھے ملک میں جاکر دائی یا مسلمان نرس سے عمل زچگی کراؤ اور بعض ہند پاک کی عورتیں خاص طور پر عمل زچگی کے لیے دوسرے ملک جاتی ہیں، یہاں یعنی دوسرے ممالک برطانیہ وغیرہ میں ننانوے فیصد ڈاکٹرونرسیں غیر مسلم ہوتی ہیں۔
الحواب وباللہ التوفیق:
بچے کی پیدائش اگر آپریشن کے بغیر ممکن نہ ہو تو ایسے وقت میں اس اسپتال کا انتخاب کرنا چاہیے جس میں عملہ مسلمان خواتین پر مشتمل ہو، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم خواتین ہی موجود ہوں، چاہے غیرمسلم ہوں اور یہ ممکن ہوسکتا ہے، ایسی صورت میں مرد ڈاکٹر سے علاج کروانا ناجائز اور حرام ہوگا۔ اگر ڈاکٹر عورت یا نرس دست یاب نہ ہو اور آپریشن کے بغیر پیدائش ممکن نہ ہو اور حالت اضطرار ہو تو مرد ڈاکٹروں سے علاج کروانے کی بھی گنجائش ہے۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
---------------------------------
خواتین کے خصوصی امراض کا مرد ڈاکٹر سے علاج کروانے کا شرعی حکم
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
خواتین کے خصوصی امراض کا مرد ڈاکٹر سے علاج کروانے کا شرعی حکم
عورتوں کے خصوصی امراض کا مرد ڈاکٹر سے علاج کرانا مثلاً حمل کے دوران فالواپ اور ولادت کا عمل، اسی طرح مردوں کے ایسے امراض کا علاج عورت ڈاکٹر سے کرانا جن میں مرد کے جسم خاص کر ستر والے حصہ کو دیکھنا ضروری ہو، یہ ایسے مسائل ہیں جن سے واقفیت اِن دنوں بعض شرعی پابندیوں کی وجہ سے بے حد ضروری ہے کیونکہ اس میں دو جنسوں کا اختلاط ہوتا ہے اور مرد عورت کے ستر اور عورت مرد کے ستر کو دیکھتی ہے جو عمومی حالات میں ناجائز ہے۔ نیز شرم وحیا کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ مردوں کے ایسے امراض کا علاج مرد ڈاکٹر ہی کرے جن میں انسان کے جسم کے پردے والے اعضاء کا دیکھنا ضروری ہو، اور عورتوں کے وہ امراض جن میں جسم کے اعضاء کا کھولنا ضروری ہو عورت ڈاکٹر ہی کرے تاکہ کسی طرح کافتنہ پیدا نہ ہو اور شرم وحیا کا احترام بھی باقی رہے۔ یہ مسئلہ صرف حمل وولادت تک محدود نہیں بلکہ دیگر امراض، ایکسرے، الٹراساؤنڈ، ای سی جی، ایم آر آئی، سٹی اسکین اور دیگر آپریشن وغیرہ کے متعلق بھی ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے کہا ہے کہ انتقال کے بعد عورت کو غسل عورتیں اور مرد کو غسل مرد حضرات دیں، یہ شرم وحیا اور بنی نوع انسان کے اُس تقدس کو باقی رکھنے کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ حمل اور ولادت کے مسائل خصوصی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ اس میں عورت کے اُس حصہ کو متعدد مرتبہ دیکھا جاتا ہے جس کا دیکھنا شوہر کے علاوہ کسی دوسرے شخص حتی کے اس کے ماں باپ کے لئے بھی جائز نہیں ہے۔
قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کی روشنی میں اصل قاعدہ یہی ہے کہ عورت اپنے جسم کے اعضاء کو شوہر کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے سامنے نہ کھولے اور اسی طرح مرد اپنے جسم کے اعضاء خاص کر ناف سے لے کر گھنٹے تک کسی دوسرے شخص کے سامنے نہ کھولے۔ ہاں بعض بیماریوں کے علاج کے لئے ضرورت کے مطابق اجازت ہے۔ عورتوں کے وہ امراض جن میں جسم کے اعضاء کو دکھانا ضروری ہو تو ہمیں حتی الامکان یہی کوشش کرنی چاہئے کہ عورت ڈاکٹر سے ہی علاج کروایا جائے۔ اسی میں ہماری اور معاشرہ کی بھلائی ہے۔ عورت ڈاکٹر مہیا نہ ہونے پر بدرجہ مجبوری مرد ڈاکٹر سے بھی رجوع کرنے کی گنجائش ہے لیکن اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ جسم کے صرف اُسی حصہ کو دکھلایا جائے جس کی ضرورت ہو، نیز اُس موقع پر نرس کے علاوہ شوہر یا کوئی دوسرا محرم یا کم ازکم کوئی دوسری عورت بھی ساتھ میں رہے۔ عورت تنہا اس نوعیت کے علاج کے لئے مرد ڈاکٹر کے پاس ہرگز نہ جائے۔ اسی طرح مرد کے ایسے امراض کے علاج کے لئے جن میں جسم کے خاص اعضاء کا دیکھنا ضروری ہو، مرد ڈاکٹر سے ہی رجوع کیا جائے۔ مرد ڈاکٹر کے نہ ملنے پر بدرجہ مجبوری عورت ڈاکٹر کو بھی نرس کی موجودگی میں جسم کے اعضاء حتی کے ناف سے گھنٹے تک کے حصہ کو بھی دکھایا جاسکتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمیں حتی الامکان یہی کوشش کرنی چاہئے کہ مریض کی جنس سے ہی ڈاکٹر کو تلاش کیا جائے۔ مثلاً جس اسپتال میں علاج چل رہا ہے وہاں الٹراساؤنڈ کرنے والے دو حضرات ہیں، ایک مرد اور دوسری عورت۔ لیکن جس وقت عورت الٹراساؤنڈ کروانے کے لئے گئی وہاں مرد ڈاکٹر ڈیوٹی پر ہے، اور فوری طور پر الٹراساؤنڈ کروانا ضروری نہیں ہے تو انتظار ہی کرنا چاہئے تاکہ عورت ڈاکٹر سے ہی مریضہ کا الٹراساؤنڈ کروایا جائے۔ ہاں اگر الٹراساونڈ ایکسرے یا اسی نوعیت کا کوئی دوسرا ٹیسٹ فوری طور پر کرانا صحت کے لئے ضروری ہے تو بدرجہ مجبوری گنجائش ہے۔ اسی طرح بدرجہ مجبوری مرد مریض کا علاج یا اس کا الٹراساونڈ یا ایکسرے عورت ڈاکٹر یا نرس بھی کرسکتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا خوف انتہائی ضروری ہے۔
ڈاکٹر کی بھی دینی واخلاقی وانسانی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ دوسری جنس کے مریض کا علاج کررہا ہے تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے دستانوں کا استعمال کرکے صرف جسم کے اُسی حصہ کو دیکھے جس کی اشد ضرورت ہو اور نرس کو اپنے اور مریض کے درمیان زیادہ سے زیادہ شامل کرے۔
ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے والوں سے درخواست ہے کہ مرد ڈاکٹر حضرات حتی الامکان ایسے امراض کے علاج کے لئے تخصص کریں جو امراض مردوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح خواتین ڈاکٹر اُن امراض کے علاج میں تخصص کریں جو عورتوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں مثلاً حمل وولادت۔ ہسپتالوں کے مالکوں سے درخواست ہے کہ حتی الامکان عورتو ں کے امراض کے علاج کے لئے خواتین ڈاکٹر ہی رکھیں خواہ اُس کے لئے انہیں کچھ خرچہ زیادہ ہی برداشت کرنا پڑے۔ شہر کے ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ اپنے شہر میں ایسے ہسپتال یا نرسنگ ہوم قائم کرنے کی ضرور کوشش کریں جن میں ہر جنس کے خاص امراض کے لئے اُسی جنس کے ڈاکٹر مہیا کئے جائیں۔ عام لوگوں سے درخواست ہے کہ اپنے بچیوں کو ایسی تعلیم بھی دلائیں جس کے بعد وہ عورتوں کے امراض کے لئے متخصص بنیں تاکہ ہماری ماں اور بہنیں مرد ڈاکٹروں کے پاس جانے سے بچ سکیں۔ آخر میں مریض یا مریضہ سے عرض ہے کہ بدرجہ مجبوری دوسری جنس کے ڈاکٹر کے پاس علاج کرانے کی صورت میں یہ اچھی طرح جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ بہت سخت ہے۔ اس پوری کائنات کو پیدا کرنے والے نے شوہر بیوی کے علاوہ ہر شخص کے لئے حرام قراد دیا ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کو جسم کے پردے والے اعضاء کو دکھائے، سوائے علاج کی ضرورت کے لئے بدرجہ مجبوری۔ عورتوں کے خصوصی امراض کے علاج کے لئے حتی الامکان عورت ڈاکٹر سے ہی رجوع کیا جانا چاہئے تاکہ عورت بھی اپنی بیماری کو صحیح طور پر بتاسکے اور اس کا صحیح علاج ممکن ہو۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی
---------------------------------------
اسپتالوں میں مرد و زن کے اختلاط کے باوجود طبی تعلیم حاصل کرنے اور شعبہ طب میں کام کرنے کا حکم
سوال: ہم میڈیکل کالج کے طلبا ہیں، ہم آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ ایسے اسپتالوں میں کام کرنے کا کیا حکم ہے جہاں شرعی طور پر حرام خلوت سے بچنے کا امکان ہونے کے باوجود ڈاکٹر کو مرد و زن سب کا یکساں علاج کرنا پڑتا ہے، ہمارے ملک میں سب اسپتالوں میں یہی نظام رائج ہے، اس لیے کوئی بھی مسلم ڈاکٹر کسی ایسے اسپتال میں کام نہیں کرسکتا جہاں صرف مرد حضرات ہی ہوں، کیونکہ ایسے اسپتال ہمارے ہاں موجود ہی نہیں ہیں، جس کی وجہ سے کچھ مسلم ڈاکٹروں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ شعبہ طب کو خیرباد ہی کہہ دیا جائے، لیکن ایسا کرنا مناسب بھی نہیں ہوگا؛ کیونکہ شعبہ طب چھوڑنے سے جتنی خرابیاں پیداہوں گی اور مفاد عامہ کو نقصان ہوگا وہ مخلوط اسپتالوں میں کام کرنے سے زیادہ ہوگا، اس لیے ہم شدید تناؤ کا شکار ہیں، ہمیں اس بارے میں کسی کے جواب سے کوئی تشفی نہیں ہوئی ، آپ کے سامنے سوال اس لیے رکھا ہے کہ شاید اللہ تعالی ہمیں آپ کی وجہ سے رہنمائی عطا فرمادے۔
الحواب وباللہ التوفیق:
اول: سب سے پہلے ہم آپ کی اس کوشش کو سراہتے ہیں کہ آپ نے ایسے مسئلے کے بارے میں شرعی حکم دریافت کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ اس وقت بالکل عام ہوچکا ہے، ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور آپ کیلیے قول و فعل میں رہنمائی اور کامیابی کا سوال کرتے ہیں۔
دوم: کسی مرد ڈاکٹر کیلیے عورت کا علاج کرنا صرف اسی حالت میں جائز ہے جب کوئی عورت ڈاکٹر میسر نہ ہو چاہے مسلم ہو یا غیرمسلم ، یہی فیصلہ اسلامی فقہی اکیڈمی کی جانب سے ایک قرار داد میں بیان کیا گیا ہے جو کہ درج ذیل ہے:
"اصولی طور پر اگر کوئی خاتون اسپیشلسٹ ڈاکٹر میسر ہو تو پھر وہی خاتون مریض کی تشخیص کرے، اور اگر اسپیشلسٹ ڈاکٹر میسر نہ ہو تو پھر غیرمسلم لیکن معتمد خاتون جنرل ڈاکٹر مرض کی تشخیص کرے، اگر وہ بھی میسر نہ ہو تو مسلمان مرد ڈاکٹر تشخیص کرے، اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو پھر غیرمسلم ڈاکٹر مریض کی تشخیص کرے، بشرطیکہ عورت کے جسم میں سے صرف اتنی جگہ ہی دیکھے جتنی علاج کیلیے ضرورت ہو اس سے زیادہ مت دیکھے، نیز بقدر استطاعت نظروں کی حفاظت کرے، نیز مرد ڈاکٹر عورت کا علاج کرے تو عورت کا محرم، یا خاوند یا معتمد خاتون ساتھ ہو تاکہ خلوت کا اندیشہ نہ رہے۔
نیز درج ذیل امور کی سفارش بھی کی جاتی ہے:
محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کو علوم طب کے تمام شعبہ جات سے منسلک ہونے کیلیے ترغیب دے، خصوصی امراضِ زچہ وبچہ، اور تولید کے شعبہ میں لازمی آئیں؛ اس لیے کہ خواتین کی تعداد ان طبی شعبوں میں بہت کم ہے، اس طرح سے ہمیں مذکورہ بالا استثنائی صورتیں ذکر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی" انتہی
ماخوذ از: "مجلۃ المجمع" (8/1/49)
ہمیں اس بارے میں جتنے بھی سوالات موصول ہوئے ہیں ہم نے اسی بات پر اعتماد کیا ہے، جیسے کہ سوال نمبر: (2152) اور (20460) میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
سوم: اگر کسی ملک میں مسلمانوں کو ایسی صورت حال کا سامنا ہو کہ وہاں تمام کے تمام اسپتال ہی مرد و زن سے مخلوط ہیں تو یہ ایک استثنائی لیکن افسوسناک صورت ہے، ایسی صورت میں سابقہ قواعد وضوابط لاگو کرنا مشکل ہے؛ کیونکہ خواتین کو لازمی طور پر اسپتالوں میں ان کے پاس جانا پڑے گا اور مرد ڈاکٹروں سے میڈیکل چیک اپ کروائیں گی، ایسی صورت میں یہ کہنا کہ نیک سیرت ڈاکٹر ایسے اسپتالوں میں کام نہ کریں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ برے لوگوں کو وہاں کھلی آزادی دے دی جائے! جنہیں کسی بھی اعتبار سے اللہ تعالی کا ڈر اور خوف بالکل بھی نہ ہو، اسی طرح اس موقف کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ انہیں بے روز گار رکھا جائے، یا طبی کالجوں کو دیندار ڈاکٹروں سے خالی کردیا جائے، چنانچہ یہ بات تو مسلّمہ ہے کہ اس طرح سے بہت زیادہ نقصانات لازم آئیں گے جو کہ مرد کی عورت کے جسم پر ایسی نگاہ پڑنے سے کہیں سنگین ہونگے جو ضرورت کے وقت جائز بھی ہے۔
اس لیے -واللہ اعلم- ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ ان اسپتالوں میں کام کرسکتے ہیں، لیکن ساتھ میں ان حالات کو بدلنے کیلیے سنجیدہ کوشش بھی جاری رکھیں، یعنی خواتین کیلیے مخصوص طبی مراکز اور اسپتال قائم کیے جائیں، جہاں پر اختلاط نہ ہو، اور ذمہ داران کو اس بات کا احساس دلائیں کہ کچھ اسپتالوں کو خواتین کیلیے مختص کرنے کے مثبت نتائج برآمد ہونگے، نیز اس کیلیے ممکنہ حد تک شرعی قواعد و ضوابط کی پابندی کریں، تا کہ خلوت کے مواقع کم سے کم ہوں، مریضہ کی صرف ضروری جگہ پر اپنی نظر پڑنے دیں، بقیہ جگہوں پر بالکل نظر نہ جائے، جیسے کہ ہم پہلے سوال نمبر: (5693) کے جواب میں بتلا چکے ہیں۔
ہمارے اس جواب کے دو بنیادی نکات ہیں:
1- اہل علم کے ہاں یہ بات مسلمہ ہے کہ شریعت مفادِ عامہ کے حصول اور اسے پایہ تکمیل پہنچانے کیلیے بھر پور کوشش کرتی ہے، اسی طرح خطرات و نقصانات کو جڑ سے ختم کرتی ہے یا انہیں کم سے کم کرتی ہے، یعنی کہ شریعت دو خرابیوں سے میں کم تر خرابی کا ارتکاب کرنے کی اجازت اس وقت دیتی ہے جب کم تر خرابی کی وجہ سے بڑی خرابی کو روکا جا سکتا ہو۔
2- دوسرا -جو کہ پہلے کا ہی نتیجہ ہے- نکتہ یہ ہے کہ کچھ اہل علم نے متوقع نقصانات کو کم سے کم حد تک لانے کیلیے ممنوعہ ملازمتوں پر براجمان ہونے کو جائز قرار دیا ہے، جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایسے شخص کے بارے میں فتوی دیا جسے ایک علاقے کا سربراہ بنا کر لوگوں سے حرام ٹیکس وصول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن اس کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ عدل ہو ظلم نہ ہو، جتنا ہوسکے ٹیکس کٹوتی کم سے کم صرف اس لیے کرتا ہے کہ اگر اس کی جگہ کوئی اور آیا تو وہ اس سے بھی زیادہ ظلم کریگا، تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فتوی دیا کہ ایسے شخص کیلیے علاقے کی سربراہی پر قائم رہنا جائز ہے، بلکہ اگر اُسے اس سے اچھی ذمہ داری نہیں ملتی تو اسے چھوڑنے سے زیادہ افضل یہی ہے کہ وہ اس پر قائم رہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" ایسے منصبوں پر جمے رہنا اس وقت واجب ہوتا ہے جب کوئی اور اس منصب کا حق ادا نہ کرے ۔ اس لیے عدل قائم کرنا اور ظلم ختم کرنا ہر کسی پر اپنی استطاعت کے مطابق فرض کفایہ ہے، چنانچہ شخص اپنی ذمہ داری اور منصب کے لحاظ سے قیامِ عدل اور خاتمۂِ ظلم کیلیےکوشش کرے ۔۔۔" انتہی
"مجموع الفتاوى" (30/356- 360)
یہ بات سب کیلیے عیاں ہے کہ ٹیکس وصولی سخت حرام ہے، بلکہ یہ کبیرہ گناہ ہے؛ لیکن اگر کوئی نیک مسلمان اس منصب کو سنبھالے تو خرابی قدرے کم پیدا ہوتی ہے، اور ممکنہ حد تک ٹیکس وصولی کم کی جاتی ہے تو مسلمان کیلیے یہ منصب سنبھالنا جائز ہوگا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس گفتگو پر ایسا ہی تبصرہ فرمایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ:
"مفاد عامہ کا خیال رکھنا واجب ہے، مثال کے طور پر اگر نیک لوگ طبی علوم سیکھنا ہی چھوڑ دیں اور یہ کہیں کہ: "ہم نرسوں اور میڈیکل کی دیگر طالبات کے جھرمٹ میں طبی علوم کس طرح حاصل کرسکتے ہیں" تو ہم انہیں کہیں گے کہ اگر آپ طبی علوم حاصل نہیں کرینگے تو شعبۂِ طب آپ جیسے نیک لوگوں سے خالی ہوجائے گا، اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بدنیت لوگ اس میدان میں آئیں گے اور خرابیاں پیدا کرینگے، لیکن آپ کے طبی علوم سیکھنے پر عین ممکن ہے کہ آپ کے ساتھ اور بھی ساتھی مل جائیں اور پھر اللہ تعالی حکمرانوں کے ہدایت دے تو وہ مردوں اور خواتین کیلیے الگ الگ اسپتال قائم کردیں" انتہی
"شرح كتاب السياسة الشرعية" ص 149
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ہم ڈاکٹر حضرات ریاض میں کام کرتے ہیں، ہماری ڈیوٹیوں کے دوران مرد و خواتین مریض کی تشخیص کیلیے آتے ہیں ، بسا اوقات مریضہ کو سر درد یا پیٹ درد کی شکایت ہوتی ہے، جس کیلیے مکمل طبی معائنہ ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ پہلے سر درد کا سبب معلوم کیا جائے، اسی طرح پیٹ یا سر وغیرہ کا معائنہ کیا جائے، نیز یہ معائنہ اپنی ذمہ داری پوری طرح نبھانے کیلیے بھی ضروری ہوتا ہے؛ کیونکہ اگر مریضہ کا پیٹ یا سر چیک نہ کیا گیا تو اس سے بسا اوقات زیادہ نقصان کا خدشہ نہیں ہوتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ذمہ داری سے اچھی طرح ادا نہیں ہوگی، تاہم اپنی پیشہ وارانہ طبی خدمات فراہم کرنے کیلیے مریضہ کو اچھی طرح چیک کرنا ضروری ہوتا ہے۔۔۔"
تو انہوں نے جواب دیا:
"لازمی طور پر اسپتال کی انتظامیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ڈیوٹیوں کے دوران مرد وخواتین دونوں ڈاکٹروں کو رکھا جائے تا کہ اگر کوئی مریضہ تشخیص کیلیے آئے تو اسے خاتون ڈاکٹر کی جانب بھیجا جائے، لیکن اگر اسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے اس بارے میں توجہ نہیں دی جاتی تو پھر آپ خواتین کا چیک اپ کرسکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ طبی معائنہ کے دوران خلوت اور شہوت نہ ہو، اسی طرح طبی معائنہ کی ضرورت پڑنے پر ہی معائنہ کیا جائے، لہذا اگر باریک بینی سے طبی معائنہ کو مؤخر کرنا ممکن ہو تو خاتون ڈاکٹر کے آنے تک مؤخر کرنا بہتر ہے، لیکن اگر مؤخر کرنا ممکن نہ ہو تو پھر ضرورت کے تحت مرد مریضہ کا طبی معائنہ کر سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
"لقاءات الباب المفتوح " (1/206)
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمارے اور سب مسلمانوں کے حالات ساز گار بنائے، اور ہمیں ظاہری و باطنی تمام فتنوں سے محفوظ رکھے، بیشک وہ سننے والا، قریب اور دعائیں قبول کرنے والا ہے۔
واللہ اعلم.
-------------------------------------------------------
عورت کے لیے مرد ڈاکٹر سے آپریشن کروانا
سوال: میری خالہ کے پتّے میں پتھری ہے اور ڈاکٹر نے ایک ہی حل بتایا ہے آپریشن، لیکن وہ بےپردگی کی وجہ سے نہیں کروا رہیں، لیکن اب ان کی حالت ایسی ہے کے ان کی جان بھی جاسکتی ہے اور آپریشن مرد ہی کرے گا تو آپ اس کا جواب جلدازجلد بتادیں کہ جان بچانے کے لیے وہ آپریشن کروالیں؟ اور یاد رہے آپریشن مرد ہی کرے گا؟
الحواب وباللہ التوفیق:
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ علاج کے لیے کوئی خاتون ڈاکٹر موجود نہ ہو یا موجود تو ہو، لیکن وہ ماہر نہ ہو اور مرد ڈاکٹر سے علاج معالجہ یا سرجری کروانا ناگزیرہو تو ضرورت کے بقدر مرد ڈاکٹر کے سامنے بھی جسم کا مستور حصہ کھولنے کی گنجائش ہے، لہذا اگر آپ کی خالہ کے علاج کے لیے کوئی ماہر خاتون ڈاکٹر دست یاب نہیں ہے تو ضرورت کی وجہ سے آپ کی خالہ کے لیے مرد ڈاکٹر سے آپریشن کروانا جائز ہے، اس سے انہیں بے پردگی کا گناہ نہیں ہوگا۔
الفتاوى الهندية (5/ 330):
"ويجوز النظر إلى الفرج للخاتن وللقابلة وللطبيب عند المعالجة ويغض بصره ما استطاع، كذا في السراجية. ... امرأة أصابتها قرحة في موضع لايحل للرجل أن ينظر إليه لايحل أن ينظر إليها لكن تعلم امرأة تداويها، فإن لم يجدوا امرأة تداويها، ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت وخيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنه يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، ولا فرق في هذا بين ذوات المحارم وغيرهن؛ لأن النظر إلى العورة لايحل بسبب المحرمية، كذا في فتاوى قاضي خان".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 144007200438 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
------------------------------------------------
خواتین کے لیے مرد ڈاکٹر سے علاج کروانے کی شرعی حیثیت
سوال… آج کل مسلمان عورتیں غیر مسلموں کی طرح بچے جننے کے لیے اسپتال جاتی ہیں، جہاں مرد ڈاکٹر بھی بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات آپریشن مرد ڈاکٹر سے کروایا جاتا ہے اور ہر قسم کی عورتیں آتی ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرم وحیا کا احساس بھی جاتا رہا۔ اگر ہند پاک کی عورتوں کو یوں کہا جائے کہ اچھے ملک میں جاکر دائی یا مسلمان نرس سے عمل زچگی کراؤ اور بعض ہند پاک کی عورتیں خاص طور پر عمل زچگی کے لیے دوسرے ملک جاتی ہیں، یہاں یعنی دوسرے ممالک برطانیہ وغیرہ میں ننانوے فیصد ڈاکٹرونرسیں غیر مسلم ہوتی ہیں۔
الحواب وباللہ التوفیق:
بچے کی پیدائش اگر آپریشن کے بغیر ممکن نہ ہو تو ایسے وقت میں اس اسپتال کا انتخاب کرنا چاہیے جس میں عملہ مسلمان خواتین پر مشتمل ہو، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم خواتین ہی موجود ہوں، چاہے غیرمسلم ہوں اور یہ ممکن ہوسکتا ہے، ایسی صورت میں مرد ڈاکٹر سے علاج کروانا ناجائز اور حرام ہوگا۔ اگر ڈاکٹر عورت یا نرس دست یاب نہ ہو اور آپریشن کے بغیر پیدائش ممکن نہ ہو اور حالت اضطرار ہو تو مرد ڈاکٹروں سے علاج کروانے کی بھی گنجائش ہے۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
---------------------------------
خواتین کے خصوصی امراض کا مرد ڈاکٹر سے علاج کروانے کا شرعی حکم
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْم
اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
خواتین کے خصوصی امراض کا مرد ڈاکٹر سے علاج کروانے کا شرعی حکم
عورتوں کے خصوصی امراض کا مرد ڈاکٹر سے علاج کرانا مثلاً حمل کے دوران فالواپ اور ولادت کا عمل، اسی طرح مردوں کے ایسے امراض کا علاج عورت ڈاکٹر سے کرانا جن میں مرد کے جسم خاص کر ستر والے حصہ کو دیکھنا ضروری ہو، یہ ایسے مسائل ہیں جن سے واقفیت اِن دنوں بعض شرعی پابندیوں کی وجہ سے بے حد ضروری ہے کیونکہ اس میں دو جنسوں کا اختلاط ہوتا ہے اور مرد عورت کے ستر اور عورت مرد کے ستر کو دیکھتی ہے جو عمومی حالات میں ناجائز ہے۔ نیز شرم وحیا کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ مردوں کے ایسے امراض کا علاج مرد ڈاکٹر ہی کرے جن میں انسان کے جسم کے پردے والے اعضاء کا دیکھنا ضروری ہو، اور عورتوں کے وہ امراض جن میں جسم کے اعضاء کا کھولنا ضروری ہو عورت ڈاکٹر ہی کرے تاکہ کسی طرح کافتنہ پیدا نہ ہو اور شرم وحیا کا احترام بھی باقی رہے۔ یہ مسئلہ صرف حمل وولادت تک محدود نہیں بلکہ دیگر امراض، ایکسرے، الٹراساؤنڈ، ای سی جی، ایم آر آئی، سٹی اسکین اور دیگر آپریشن وغیرہ کے متعلق بھی ہے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے کہا ہے کہ انتقال کے بعد عورت کو غسل عورتیں اور مرد کو غسل مرد حضرات دیں، یہ شرم وحیا اور بنی نوع انسان کے اُس تقدس کو باقی رکھنے کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔ حمل اور ولادت کے مسائل خصوصی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ اس میں عورت کے اُس حصہ کو متعدد مرتبہ دیکھا جاتا ہے جس کا دیکھنا شوہر کے علاوہ کسی دوسرے شخص حتی کے اس کے ماں باپ کے لئے بھی جائز نہیں ہے۔
قرآن وحدیث کی واضح تعلیمات کی روشنی میں اصل قاعدہ یہی ہے کہ عورت اپنے جسم کے اعضاء کو شوہر کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے سامنے نہ کھولے اور اسی طرح مرد اپنے جسم کے اعضاء خاص کر ناف سے لے کر گھنٹے تک کسی دوسرے شخص کے سامنے نہ کھولے۔ ہاں بعض بیماریوں کے علاج کے لئے ضرورت کے مطابق اجازت ہے۔ عورتوں کے وہ امراض جن میں جسم کے اعضاء کو دکھانا ضروری ہو تو ہمیں حتی الامکان یہی کوشش کرنی چاہئے کہ عورت ڈاکٹر سے ہی علاج کروایا جائے۔ اسی میں ہماری اور معاشرہ کی بھلائی ہے۔ عورت ڈاکٹر مہیا نہ ہونے پر بدرجہ مجبوری مرد ڈاکٹر سے بھی رجوع کرنے کی گنجائش ہے لیکن اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ جسم کے صرف اُسی حصہ کو دکھلایا جائے جس کی ضرورت ہو، نیز اُس موقع پر نرس کے علاوہ شوہر یا کوئی دوسرا محرم یا کم ازکم کوئی دوسری عورت بھی ساتھ میں رہے۔ عورت تنہا اس نوعیت کے علاج کے لئے مرد ڈاکٹر کے پاس ہرگز نہ جائے۔ اسی طرح مرد کے ایسے امراض کے علاج کے لئے جن میں جسم کے خاص اعضاء کا دیکھنا ضروری ہو، مرد ڈاکٹر سے ہی رجوع کیا جائے۔ مرد ڈاکٹر کے نہ ملنے پر بدرجہ مجبوری عورت ڈاکٹر کو بھی نرس کی موجودگی میں جسم کے اعضاء حتی کے ناف سے گھنٹے تک کے حصہ کو بھی دکھایا جاسکتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمیں حتی الامکان یہی کوشش کرنی چاہئے کہ مریض کی جنس سے ہی ڈاکٹر کو تلاش کیا جائے۔ مثلاً جس اسپتال میں علاج چل رہا ہے وہاں الٹراساؤنڈ کرنے والے دو حضرات ہیں، ایک مرد اور دوسری عورت۔ لیکن جس وقت عورت الٹراساؤنڈ کروانے کے لئے گئی وہاں مرد ڈاکٹر ڈیوٹی پر ہے، اور فوری طور پر الٹراساؤنڈ کروانا ضروری نہیں ہے تو انتظار ہی کرنا چاہئے تاکہ عورت ڈاکٹر سے ہی مریضہ کا الٹراساؤنڈ کروایا جائے۔ ہاں اگر الٹراساونڈ ایکسرے یا اسی نوعیت کا کوئی دوسرا ٹیسٹ فوری طور پر کرانا صحت کے لئے ضروری ہے تو بدرجہ مجبوری گنجائش ہے۔ اسی طرح بدرجہ مجبوری مرد مریض کا علاج یا اس کا الٹراساونڈ یا ایکسرے عورت ڈاکٹر یا نرس بھی کرسکتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا خوف انتہائی ضروری ہے۔
ڈاکٹر کی بھی دینی واخلاقی وانسانی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ دوسری جنس کے مریض کا علاج کررہا ہے تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے دستانوں کا استعمال کرکے صرف جسم کے اُسی حصہ کو دیکھے جس کی اشد ضرورت ہو اور نرس کو اپنے اور مریض کے درمیان زیادہ سے زیادہ شامل کرے۔
ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے والوں سے درخواست ہے کہ مرد ڈاکٹر حضرات حتی الامکان ایسے امراض کے علاج کے لئے تخصص کریں جو امراض مردوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح خواتین ڈاکٹر اُن امراض کے علاج میں تخصص کریں جو عورتوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں مثلاً حمل وولادت۔ ہسپتالوں کے مالکوں سے درخواست ہے کہ حتی الامکان عورتو ں کے امراض کے علاج کے لئے خواتین ڈاکٹر ہی رکھیں خواہ اُس کے لئے انہیں کچھ خرچہ زیادہ ہی برداشت کرنا پڑے۔ شہر کے ذمہ داروں سے درخواست ہے کہ اپنے شہر میں ایسے ہسپتال یا نرسنگ ہوم قائم کرنے کی ضرور کوشش کریں جن میں ہر جنس کے خاص امراض کے لئے اُسی جنس کے ڈاکٹر مہیا کئے جائیں۔ عام لوگوں سے درخواست ہے کہ اپنے بچیوں کو ایسی تعلیم بھی دلائیں جس کے بعد وہ عورتوں کے امراض کے لئے متخصص بنیں تاکہ ہماری ماں اور بہنیں مرد ڈاکٹروں کے پاس جانے سے بچ سکیں۔ آخر میں مریض یا مریضہ سے عرض ہے کہ بدرجہ مجبوری دوسری جنس کے ڈاکٹر کے پاس علاج کرانے کی صورت میں یہ اچھی طرح جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ بہت سخت ہے۔ اس پوری کائنات کو پیدا کرنے والے نے شوہر بیوی کے علاوہ ہر شخص کے لئے حرام قراد دیا ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کو جسم کے پردے والے اعضاء کو دکھائے، سوائے علاج کی ضرورت کے لئے بدرجہ مجبوری۔ عورتوں کے خصوصی امراض کے علاج کے لئے حتی الامکان عورت ڈاکٹر سے ہی رجوع کیا جانا چاہئے تاکہ عورت بھی اپنی بیماری کو صحیح طور پر بتاسکے اور اس کا صحیح علاج ممکن ہو۔
محمد نجیب قاسمی سنبھلی
---------------------------------------
اسپتالوں میں مرد و زن کے اختلاط کے باوجود طبی تعلیم حاصل کرنے اور شعبہ طب میں کام کرنے کا حکم
سوال: ہم میڈیکل کالج کے طلبا ہیں، ہم آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ ایسے اسپتالوں میں کام کرنے کا کیا حکم ہے جہاں شرعی طور پر حرام خلوت سے بچنے کا امکان ہونے کے باوجود ڈاکٹر کو مرد و زن سب کا یکساں علاج کرنا پڑتا ہے، ہمارے ملک میں سب اسپتالوں میں یہی نظام رائج ہے، اس لیے کوئی بھی مسلم ڈاکٹر کسی ایسے اسپتال میں کام نہیں کرسکتا جہاں صرف مرد حضرات ہی ہوں، کیونکہ ایسے اسپتال ہمارے ہاں موجود ہی نہیں ہیں، جس کی وجہ سے کچھ مسلم ڈاکٹروں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ شعبہ طب کو خیرباد ہی کہہ دیا جائے، لیکن ایسا کرنا مناسب بھی نہیں ہوگا؛ کیونکہ شعبہ طب چھوڑنے سے جتنی خرابیاں پیداہوں گی اور مفاد عامہ کو نقصان ہوگا وہ مخلوط اسپتالوں میں کام کرنے سے زیادہ ہوگا، اس لیے ہم شدید تناؤ کا شکار ہیں، ہمیں اس بارے میں کسی کے جواب سے کوئی تشفی نہیں ہوئی ، آپ کے سامنے سوال اس لیے رکھا ہے کہ شاید اللہ تعالی ہمیں آپ کی وجہ سے رہنمائی عطا فرمادے۔
الحواب وباللہ التوفیق:
اول: سب سے پہلے ہم آپ کی اس کوشش کو سراہتے ہیں کہ آپ نے ایسے مسئلے کے بارے میں شرعی حکم دریافت کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ اس وقت بالکل عام ہوچکا ہے، ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور آپ کیلیے قول و فعل میں رہنمائی اور کامیابی کا سوال کرتے ہیں۔
دوم: کسی مرد ڈاکٹر کیلیے عورت کا علاج کرنا صرف اسی حالت میں جائز ہے جب کوئی عورت ڈاکٹر میسر نہ ہو چاہے مسلم ہو یا غیرمسلم ، یہی فیصلہ اسلامی فقہی اکیڈمی کی جانب سے ایک قرار داد میں بیان کیا گیا ہے جو کہ درج ذیل ہے:
"اصولی طور پر اگر کوئی خاتون اسپیشلسٹ ڈاکٹر میسر ہو تو پھر وہی خاتون مریض کی تشخیص کرے، اور اگر اسپیشلسٹ ڈاکٹر میسر نہ ہو تو پھر غیرمسلم لیکن معتمد خاتون جنرل ڈاکٹر مرض کی تشخیص کرے، اگر وہ بھی میسر نہ ہو تو مسلمان مرد ڈاکٹر تشخیص کرے، اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو پھر غیرمسلم ڈاکٹر مریض کی تشخیص کرے، بشرطیکہ عورت کے جسم میں سے صرف اتنی جگہ ہی دیکھے جتنی علاج کیلیے ضرورت ہو اس سے زیادہ مت دیکھے، نیز بقدر استطاعت نظروں کی حفاظت کرے، نیز مرد ڈاکٹر عورت کا علاج کرے تو عورت کا محرم، یا خاوند یا معتمد خاتون ساتھ ہو تاکہ خلوت کا اندیشہ نہ رہے۔
نیز درج ذیل امور کی سفارش بھی کی جاتی ہے:
محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کو علوم طب کے تمام شعبہ جات سے منسلک ہونے کیلیے ترغیب دے، خصوصی امراضِ زچہ وبچہ، اور تولید کے شعبہ میں لازمی آئیں؛ اس لیے کہ خواتین کی تعداد ان طبی شعبوں میں بہت کم ہے، اس طرح سے ہمیں مذکورہ بالا استثنائی صورتیں ذکر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی" انتہی
ماخوذ از: "مجلۃ المجمع" (8/1/49)
ہمیں اس بارے میں جتنے بھی سوالات موصول ہوئے ہیں ہم نے اسی بات پر اعتماد کیا ہے، جیسے کہ سوال نمبر: (2152) اور (20460) میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
سوم: اگر کسی ملک میں مسلمانوں کو ایسی صورت حال کا سامنا ہو کہ وہاں تمام کے تمام اسپتال ہی مرد و زن سے مخلوط ہیں تو یہ ایک استثنائی لیکن افسوسناک صورت ہے، ایسی صورت میں سابقہ قواعد وضوابط لاگو کرنا مشکل ہے؛ کیونکہ خواتین کو لازمی طور پر اسپتالوں میں ان کے پاس جانا پڑے گا اور مرد ڈاکٹروں سے میڈیکل چیک اپ کروائیں گی، ایسی صورت میں یہ کہنا کہ نیک سیرت ڈاکٹر ایسے اسپتالوں میں کام نہ کریں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ برے لوگوں کو وہاں کھلی آزادی دے دی جائے! جنہیں کسی بھی اعتبار سے اللہ تعالی کا ڈر اور خوف بالکل بھی نہ ہو، اسی طرح اس موقف کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ انہیں بے روز گار رکھا جائے، یا طبی کالجوں کو دیندار ڈاکٹروں سے خالی کردیا جائے، چنانچہ یہ بات تو مسلّمہ ہے کہ اس طرح سے بہت زیادہ نقصانات لازم آئیں گے جو کہ مرد کی عورت کے جسم پر ایسی نگاہ پڑنے سے کہیں سنگین ہونگے جو ضرورت کے وقت جائز بھی ہے۔
اس لیے -واللہ اعلم- ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ ان اسپتالوں میں کام کرسکتے ہیں، لیکن ساتھ میں ان حالات کو بدلنے کیلیے سنجیدہ کوشش بھی جاری رکھیں، یعنی خواتین کیلیے مخصوص طبی مراکز اور اسپتال قائم کیے جائیں، جہاں پر اختلاط نہ ہو، اور ذمہ داران کو اس بات کا احساس دلائیں کہ کچھ اسپتالوں کو خواتین کیلیے مختص کرنے کے مثبت نتائج برآمد ہونگے، نیز اس کیلیے ممکنہ حد تک شرعی قواعد و ضوابط کی پابندی کریں، تا کہ خلوت کے مواقع کم سے کم ہوں، مریضہ کی صرف ضروری جگہ پر اپنی نظر پڑنے دیں، بقیہ جگہوں پر بالکل نظر نہ جائے، جیسے کہ ہم پہلے سوال نمبر: (5693) کے جواب میں بتلا چکے ہیں۔
ہمارے اس جواب کے دو بنیادی نکات ہیں:
1- اہل علم کے ہاں یہ بات مسلمہ ہے کہ شریعت مفادِ عامہ کے حصول اور اسے پایہ تکمیل پہنچانے کیلیے بھر پور کوشش کرتی ہے، اسی طرح خطرات و نقصانات کو جڑ سے ختم کرتی ہے یا انہیں کم سے کم کرتی ہے، یعنی کہ شریعت دو خرابیوں سے میں کم تر خرابی کا ارتکاب کرنے کی اجازت اس وقت دیتی ہے جب کم تر خرابی کی وجہ سے بڑی خرابی کو روکا جا سکتا ہو۔
2- دوسرا -جو کہ پہلے کا ہی نتیجہ ہے- نکتہ یہ ہے کہ کچھ اہل علم نے متوقع نقصانات کو کم سے کم حد تک لانے کیلیے ممنوعہ ملازمتوں پر براجمان ہونے کو جائز قرار دیا ہے، جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایسے شخص کے بارے میں فتوی دیا جسے ایک علاقے کا سربراہ بنا کر لوگوں سے حرام ٹیکس وصول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن اس کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ عدل ہو ظلم نہ ہو، جتنا ہوسکے ٹیکس کٹوتی کم سے کم صرف اس لیے کرتا ہے کہ اگر اس کی جگہ کوئی اور آیا تو وہ اس سے بھی زیادہ ظلم کریگا، تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فتوی دیا کہ ایسے شخص کیلیے علاقے کی سربراہی پر قائم رہنا جائز ہے، بلکہ اگر اُسے اس سے اچھی ذمہ داری نہیں ملتی تو اسے چھوڑنے سے زیادہ افضل یہی ہے کہ وہ اس پر قائم رہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" ایسے منصبوں پر جمے رہنا اس وقت واجب ہوتا ہے جب کوئی اور اس منصب کا حق ادا نہ کرے ۔ اس لیے عدل قائم کرنا اور ظلم ختم کرنا ہر کسی پر اپنی استطاعت کے مطابق فرض کفایہ ہے، چنانچہ شخص اپنی ذمہ داری اور منصب کے لحاظ سے قیامِ عدل اور خاتمۂِ ظلم کیلیےکوشش کرے ۔۔۔" انتہی
"مجموع الفتاوى" (30/356- 360)
یہ بات سب کیلیے عیاں ہے کہ ٹیکس وصولی سخت حرام ہے، بلکہ یہ کبیرہ گناہ ہے؛ لیکن اگر کوئی نیک مسلمان اس منصب کو سنبھالے تو خرابی قدرے کم پیدا ہوتی ہے، اور ممکنہ حد تک ٹیکس وصولی کم کی جاتی ہے تو مسلمان کیلیے یہ منصب سنبھالنا جائز ہوگا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس گفتگو پر ایسا ہی تبصرہ فرمایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ:
"مفاد عامہ کا خیال رکھنا واجب ہے، مثال کے طور پر اگر نیک لوگ طبی علوم سیکھنا ہی چھوڑ دیں اور یہ کہیں کہ: "ہم نرسوں اور میڈیکل کی دیگر طالبات کے جھرمٹ میں طبی علوم کس طرح حاصل کرسکتے ہیں" تو ہم انہیں کہیں گے کہ اگر آپ طبی علوم حاصل نہیں کرینگے تو شعبۂِ طب آپ جیسے نیک لوگوں سے خالی ہوجائے گا، اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بدنیت لوگ اس میدان میں آئیں گے اور خرابیاں پیدا کرینگے، لیکن آپ کے طبی علوم سیکھنے پر عین ممکن ہے کہ آپ کے ساتھ اور بھی ساتھی مل جائیں اور پھر اللہ تعالی حکمرانوں کے ہدایت دے تو وہ مردوں اور خواتین کیلیے الگ الگ اسپتال قائم کردیں" انتہی
"شرح كتاب السياسة الشرعية" ص 149
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ہم ڈاکٹر حضرات ریاض میں کام کرتے ہیں، ہماری ڈیوٹیوں کے دوران مرد و خواتین مریض کی تشخیص کیلیے آتے ہیں ، بسا اوقات مریضہ کو سر درد یا پیٹ درد کی شکایت ہوتی ہے، جس کیلیے مکمل طبی معائنہ ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ پہلے سر درد کا سبب معلوم کیا جائے، اسی طرح پیٹ یا سر وغیرہ کا معائنہ کیا جائے، نیز یہ معائنہ اپنی ذمہ داری پوری طرح نبھانے کیلیے بھی ضروری ہوتا ہے؛ کیونکہ اگر مریضہ کا پیٹ یا سر چیک نہ کیا گیا تو اس سے بسا اوقات زیادہ نقصان کا خدشہ نہیں ہوتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ذمہ داری سے اچھی طرح ادا نہیں ہوگی، تاہم اپنی پیشہ وارانہ طبی خدمات فراہم کرنے کیلیے مریضہ کو اچھی طرح چیک کرنا ضروری ہوتا ہے۔۔۔"
تو انہوں نے جواب دیا:
"لازمی طور پر اسپتال کی انتظامیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ڈیوٹیوں کے دوران مرد وخواتین دونوں ڈاکٹروں کو رکھا جائے تا کہ اگر کوئی مریضہ تشخیص کیلیے آئے تو اسے خاتون ڈاکٹر کی جانب بھیجا جائے، لیکن اگر اسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے اس بارے میں توجہ نہیں دی جاتی تو پھر آپ خواتین کا چیک اپ کرسکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ طبی معائنہ کے دوران خلوت اور شہوت نہ ہو، اسی طرح طبی معائنہ کی ضرورت پڑنے پر ہی معائنہ کیا جائے، لہذا اگر باریک بینی سے طبی معائنہ کو مؤخر کرنا ممکن ہو تو خاتون ڈاکٹر کے آنے تک مؤخر کرنا بہتر ہے، لیکن اگر مؤخر کرنا ممکن نہ ہو تو پھر ضرورت کے تحت مرد مریضہ کا طبی معائنہ کر سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
"لقاءات الباب المفتوح " (1/206)
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمارے اور سب مسلمانوں کے حالات ساز گار بنائے، اور ہمیں ظاہری و باطنی تمام فتنوں سے محفوظ رکھے، بیشک وہ سننے والا، قریب اور دعائیں قبول کرنے والا ہے۔
واللہ اعلم.
-------------------------------------------------------
عورت کے لیے مرد ڈاکٹر سے آپریشن کروانا
سوال: میری خالہ کے پتّے میں پتھری ہے اور ڈاکٹر نے ایک ہی حل بتایا ہے آپریشن، لیکن وہ بےپردگی کی وجہ سے نہیں کروا رہیں، لیکن اب ان کی حالت ایسی ہے کے ان کی جان بھی جاسکتی ہے اور آپریشن مرد ہی کرے گا تو آپ اس کا جواب جلدازجلد بتادیں کہ جان بچانے کے لیے وہ آپریشن کروالیں؟ اور یاد رہے آپریشن مرد ہی کرے گا؟
الحواب وباللہ التوفیق:
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ علاج کے لیے کوئی خاتون ڈاکٹر موجود نہ ہو یا موجود تو ہو، لیکن وہ ماہر نہ ہو اور مرد ڈاکٹر سے علاج معالجہ یا سرجری کروانا ناگزیرہو تو ضرورت کے بقدر مرد ڈاکٹر کے سامنے بھی جسم کا مستور حصہ کھولنے کی گنجائش ہے، لہذا اگر آپ کی خالہ کے علاج کے لیے کوئی ماہر خاتون ڈاکٹر دست یاب نہیں ہے تو ضرورت کی وجہ سے آپ کی خالہ کے لیے مرد ڈاکٹر سے آپریشن کروانا جائز ہے، اس سے انہیں بے پردگی کا گناہ نہیں ہوگا۔
الفتاوى الهندية (5/ 330):
"ويجوز النظر إلى الفرج للخاتن وللقابلة وللطبيب عند المعالجة ويغض بصره ما استطاع، كذا في السراجية. ... امرأة أصابتها قرحة في موضع لايحل للرجل أن ينظر إليه لايحل أن ينظر إليها لكن تعلم امرأة تداويها، فإن لم يجدوا امرأة تداويها، ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت وخيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنه يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، ولا فرق في هذا بين ذوات المحارم وغيرهن؛ لأن النظر إلى العورة لايحل بسبب المحرمية، كذا في فتاوى قاضي خان".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 144007200438 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
Male doctor doing caesarean for Muslim woman
Answered according to Hanafi Fiqh by DarulIftaBirmingham
Recently my wife gave birth to a boy alhamdulillah at 11AM in the morning. She was in labour for at least 14 hours and was in huge pain before the 14 hours and during it (first child). After about 11 hours of labour the midwife decided that she couldnt deliver the baby, because during the labour at some point the baby’s head changed a little direction and was stuck and therefore was finding it difficult to come out. Due to this my wife was in huge pain and agony. At the same time I was concerned about the baby’s well being e.g. the head, brain etc and wanted the baby to be delivered as we went through a tough n ight.
So the midwife said a doctor will get involved where he will assess the situation and suck the baby out or do a caesarean.
When the doctor’s (one man and a woman junior doctor) came to have a look, the doctor’s said the same as the midwife, which was that the baby’s head had changed direction and due to this it was very difficult to come out in normal labour and my wife was in pain. So he said that he will cut the bottom part of the vagina and deliver the baby and after that he will stitch it up again.
I asked if we could have a female doctor and they replied that the male doctor was the only one working that particular shift and the female doctor with him was a junior doctor and if she did do it he will still have to repeat the procedure, because she was a junior, and the next female doctor would start late evening or next day.
I was not happy with that, but/however because I was concerned about the baby’s health and my wifes health, I asked my wife her decision and she said fine let the male doctor do the delivery. Although I was not happy with that I still let the male doctor do the cutting and stitching of my wifes vagina and deliver the baby and get the labour over and done with.
I feel I made a huge mistake asking a male doctor to do this, and have asked forgiveness and will never do such thing again unless its
a life death situation.
My question is that is our Nikkah affected? And are me and my wife sinful letting the MALE doctor do what he had to do to deliver the baby or did we make the right choice?
In the name of Allah, the most Beneficent, the most Merciful.
Answer
If a Muslim female is in need of medical treatment, then one should endeavour and try that she is treated by a female doctor, or by a male Muslim doctor who is a relative of the female. (Raddul Muhtar P.529 V.9)
However, if that is not possible then in extreme and dire situations it will be permissible for a male doctor to examine and treat a female patient.
Allahmah Ibn Abideen Shami (RA) has written in his Raddul Muhtar:
“…And for the medical treatment in that a male doctor may look at (and treat) the effected area but only to the extent of need… And it is preferable that the male doctor teaches and instructs a female to treat her, for looking at someone from the same gender is a lesser of an evil.” (P.533 V.9)
He goes on to say; “If the treatment is on her private parts; then he should teach and instruct a female to treat her. If this is not possible and it is feared that the woman patient may die or undergo unbearable pains, only then it will be permissible for a male doctor to treat her, provided her non effected parts of the body are covered and provided he keeps his gaze as low as much as possible except from the effected area.” (Ibid)
From the aforementioned text we can derive that if the woman’s life is at risk or she may undergo unbearable pain, then it is permissible for a male doctor to treat her private parts. With regards to your question, we can see that your wife was undergoing great difficulties in delivering the child; therefore, it was permissible for both you and your wife to let the male doctor treat her. Insha Allah, you will not be considered sinful for you action.
Finally, the aforementioned scenario does not affect the validity of your marriage.
Only Allah Knows Best
Mohammed Tosir Miah
No comments:
Post a Comment