Monday 14 October 2019

بینک ملازم کی پینشن کا حکم؟

بینک ملازم کی پینشن کا حکم؟
ایک آدمی ۷۲ سال کا ہے. پہلے بینک میں کام کرتا تھا. ابھی تو کئی سال سے ریٹائر ہوگیا ہے. پینشن آتی رہتا ہے. ایسے آدمی اگر ہدیہ دیوے تو قبول کرسکتے ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
صورت مسئولہ میں ہدیہ قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا ضِمَامُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ مُوسَى بْنَ وَرْدَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ‏:‏ تَهَادُوا تَحَابُّوا‏.‏
حـسـن (الألباني) حكم
واللہ اعلم بالصواب
ابوحنیفہ توحید قاسمی
ریاض سعودی عرب
---------------------------------------------------------
بکر کے والد صاحب اسٹیٹ بینک سے ریٹائر ہوئے، کیا ان کو وہاں سے جو پنشن ملتی ہے، وہ حرام ہے؟ الجواب و باللہ التوفیق: ”پنشن“ درحقیقت عطیہ ہے، اجرتِ عمل نہیں ہے اور ایسے شخص یا ادارے کی طرف سے پیش کردہ عطیہ لینے کی گنجائش ہے، جس کا مملوکہ غالب مال حلال ہو، بینک کا بنیادی کاروبار اگرچہ ”سود“پر مبنی ہوتا ہے؛ لیکن اس کا جو مجموعہ سرمایہ ہوتا ہے اس میں سود کی آمدنی نسبةً کم ہوتی ہے اور دیگر مال (مثلاً ڈیپازیٹرس کی جمع کردہ رقمیں) جو بہ حکم قرض ہیں) اور بینک کا اصل سرمایہ اس طرح مباح خدمات کی اجرتیں) نسبةً زیادہ ہوتا ہے؛ اس لیے صورتِ مسئولہ میں آپ کے والد کے لیے سابقہ ملازمت کے باعث بینک کی طرف سے ملنے والی پنشن لینے کی گنجائش ہے۔ (دیکھیں: فتاوی عثمانی، ۳/ ۳۹۴تا ۳۹۶، ط: کراچی، کتاب الاجارہ) واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
------------------------------------------------------------------
درج ذیل مسئلہ کے بارے میں علماء کرام کیا فرماتے ہیں: (۱) زید ایک قومیائے بینک میں بطور آفیسر کے کام کررہا تھا۔ اس نے اس نوکری سے استعفی دے دیا ہے اور پنشن لے رہا ہے۔ کیا یہ پنشن شریعت کی نظر میں جائز ہے؟ (۲) ریٹائر منٹ کے بعد موصول ہونے والی رقم جیسے پی ایف، گریچوٹی، تنخواہ، پنشن وغیرہ پر زکوة کا کیا حکم ہے؟ الجواب وباللہ التوفیق: (۱) ”پنشن“ چونکہ اجرتِ عمل نہیں ہے؛ بلکہ ”عطیہ“ ہے اور عطیہ کے بارے میں ضابطہٴ شرعی یہ ہے کہ اگر عطیہ دہندہ کی غالب آمدنی حرام کی نہیں ہے تو اس کا عطیہ لینا شرعاً جائز ہے اور تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ بینک کی جو ”آمدنی “ ہے اس میں غالب سود نہیں ہے؛ بلکہ غالب دیگر غیر حرام آمدنی ہے مثلاً ڈپازیٹر کے جمع شدہ پیسے جو بہ حکم قرض ہیں، اسی طرح بینک کا اپنا اصل سرمایہ اور دیگر خدمات کی اجرتیں؛ اس لیے بینک کی ملازمت کی بنیاد پر جو پنشن ملے اس سے آدمی فائدہ اٹھا سکتا ہے، ناجائز نہیں ہے۔ (فتاوی عثمانی: ۳/۳۹۴ تا ۳۹۶، ط: معارف القرآن/ کراچی) ۔ (۲) دورانِ ملازمت اگر آپ کے ذمہ سودی حساب کتاب کی لکھا پڑھی یا کوئی ایسا کام تھا جس کا تعلق براہ راست سودی لین دین سے ہے تو بطور تنخواہ ملنے والی رقم کو تو آپ صدقہ کردیں، اسی طرح ”پی ایف فنڈ“ سے وہ حصہ جو آپ کی تنخواہ سے کٹوتی کا ہے اسے بھی صدقہ کردیں، پی ایف فنڈ کی مابقیہ رقم، اسی طرح گریچوٹی اور پنشن کے طور پر ملنے والی رقوم کے آپ مالک ہیں، آپ پر ان کی زکوة حسب شرائط واجب ہے؛ لیکن سنین ماضیہ کی نہیں؛ بلکہ آئندہ یعنی وصول ہونے کے بعد سے اس پر زکوة واجب ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
https://saagartimes.blogspot.com/2019/10/blog-post_14.html


No comments:

Post a Comment