Sunday, 13 October 2019

گھر جاکر بچوں کو قرآن (قاعدہ اور سپارہ) پڑھانے کے بدلے اجرت لینے کا حکم

گھر جاکر بچوں کو قرآن (قاعدہ اور سپارہ) پڑھانے کے بدلے اجرت لینے کا حکم

سوال: بچوں کو گھر جاکر قاعدہ اور سپارہ پڑھانے میں جو پیسے لیے جاتے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ اور آخرت میں کوئی نقصان تو نہیں ہوگا؟ اور جو حدیثیں آئی  ہیں جیسے دونوں کاندہوں کے درمیان چنگاریاں وغیرہ اور قرآن کی آیت {لایشترون بایات اللہ ثمناً قلیلاً وغیرہ اس میں داخل تو نہیں ہوگا یہ پیسہ؟ راہ نمائی فرمادیں!
الجواب وباللہ التوفیق:
پہلے تو یہ  کوشش کرنی چاہیے کہ  بچوں کے گھر جاکر قرآن پڑھانے کی بجائے بچوں کو اپنے گھر یا مدرسہ بلاکر وہاں ان کو قرآن پڑھایا جائے، تاکہ بچوں کے دل میں قرآنِ کریم کی تعلیم  اور اس کے پڑھانے والے استاذ  کی عظمت باقی رہے، چوں کہ عام طور سے گھر گھر جاکر قرآن کی ٹیوشن پڑھانے سے لوگوں کے دلوں میں قرآن کے معلم اور قرآنی تعلیم کی عظمت باقی نہیں رہتی؛ اس لیے علمائے کرام نے گھر گھر جاکر قرآن کریم کی ٹیوشن پڑھانے کو پسندیدہ قرار نہیں دیا ہے، لیکن  اگر کسی عذر کی وجہ سے کوئی شخص گھر جاکر قرآن کریم پڑھاتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ چند باتوں کی رعایت رکھے:
(۱) گھر جاکر قرآن پڑھانے کے دوران اپنا دینی تشخص اور دینی وقار برقرار رکھے اور استغنا کا مظاہرہ کرے۔ کوئی ایسا طرزِعمل نہ اپنائے جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے قرآن پڑھانے والوں کی عظمت واہمیت ختم ہوجائے، مثلاً ایسا نہ ہو کہ اسے صرف اپنی فیس لینے سے مطلب ہو اور بچے جب چاہیں چھٹی کرلیں، اور جتنا چاہیں اسے بٹھاکر انتظار کرواتے رہیں، اور خود کھیل کود میں مصروف ہوں، لیکن قاری صاحب کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ اسی طرح مقررہ مشاہرے کے علاوہ گھر والوں سے صراحتاً یا اشارۃً  سوال نہ کرے۔
(۲) کسی بالغہ یا قریب البلوغ لڑکی کو نہ پڑھائے۔
(۳) لوگوں کے گھر آتے جاتے پردہ کا بہت زیادہ خیال رکھے  اور نگاہوں کی خوب حفاظت کرے کہ کسی اجنبی عورت پر نگاہ نہ پڑ جائے، اور گھر والوں کو بھی تلقین کرے کہ وہ اس کے آنے جانے کے اوقات میں پردہ کا خیال رکھا کریں۔
  اب رہی بات اس پر اجرت لینے کی تو تعلیمِ قرآن یعنی قرآنِ کریم کی تعلیم دینے، حفظ و ناظرہ پڑھانے پر اجرتلینے کو متأخرینِ احناف نے بوجہ ضرورت جائز قرار دیا ہے، لیکن یہ اجرت اصل میں قرآن پڑھانے کی نہیں ہوتی، بلکہ ان کاموں کے لیے  اپنے آپ کو محبوس  اور دیگر کاموں سے فارغ رکھ کر وقت دینے کی ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص اللہ کی رضا کے لیے بچوں کو قاعدہ اور سپارہ پڑھاتا ہے، پیسے لینا مقصود نہیں ہو تو وہ اگر اپنے اس وقت کے بدلہ جو وہ دیتا ہے اور بچوں کے گھر آنے جانے کی مشقت کے بدلے بطورِ اجرت کچھ پیسے لے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ پیسے لینا سوال میں مذکور قرآن کی آیت اور حدیث کی وعید میں داخل نہیں ہوگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 55 ):
"(و) لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعليم القرآن والفقه)، ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان.
 (قوله: ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به»، وفي آخر ما عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم  إلى عمرو بن العاص: «وإن اتخذت مؤذناً فلا تأخذ على الأذان أجراً»؛ ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل، ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة، هداية. مطلب تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه.
(قوله: ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم؛ لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن، وعليه الفتوى اهـ، وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضاً في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار".
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 22):
قال - رحمه الله -: "(والفتوى اليوم على جواز الاستئجار لتعليم القرآن)، وهذا مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك، وقالوا: بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم؛ ولأن الحفاظ والمعلمين كان لهم عطايا في بيت المال وافتقادات من المتعلمين في مجازات التعليم من غير شرط، وهذا الزمان قل ذلك واشتغل الحفاظ بمعائشهم فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوا بالجواز، والأحكام تختلف باختلاف الزمان".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 144003200448

No comments:

Post a Comment