Sunday 13 October 2019

معاف کرنے کی عادت: ذہنی دباؤ سے نجات کا ذریعہ Is it better to forgive and forget?

معاف کرنے کی عادت: ذہنی دباؤ سے نجات کا ذریعہ
ماہر نفسیات کے مطابق معاف کرنا انسان کی ایک شعوری کوشش ہے اور ایسے فرد سے ناراضگی یا شکوہ ختم کرنے کا نام ہے جس نے اپنے رویے اور عمل سے کسی انسان کو بہت تکلیف اور دکھ دیا ہو۔ اگرچہ کسی کو تکلیف دینے یا نقصان پہنچانے والے کا رویہ قابلِ قبول نہیں ہوتا مگر پھر بھی غصہ اور نفرت ختم کرکے اس انسان کو کھلے دل سے معاف کرنا آسان کام نہیں ہے۔ جب ہم کسی کے رویے سے تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں تو ہمارے اندر بڑی مقدار میں غصے اور نفرت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں جو کہ ذہنی دباؤ، پریشانی اور ڈپریشن کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن اگر ان کو کنٹرول کیا جائے تو انسان بہت سے نقصانات سے بچ سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ  سَیِّئَۃٌ  مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَ اَصۡلَحَ  فَاَجۡرُہٗ  عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ  لَایُحِبُّ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۴۰﴾
سورہ الشُّورٰی آیت نمبر 40
ترجمہ: اور کسی برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے۔ (٨) پھر بھی جو کوئی معاف کردے، اور اصلاح سے کام لے تو اس کا ثواب اللہ نے ذمے لیا ہے۔ یقینا وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
تفسیر: 8: یعنی اگر کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی جائے تو مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اتنی ہی تکلیف ظالم کو پہنچادے جتنی اس نے پہنچائی تھی لیکن آگے اس بات کی بڑی فضیلت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ انسان بدلہ لینے کے بجائے صبر کر کے معاف کردے۔
وَ لَمَنۡ صَبَرَ  وَ غَفَرَ اِنَّ  ذٰلِکَ لَمِنۡ عَزۡمِ  الۡاُمُوۡرِ ﴿٪۴۳﴾
سورہ الشُّورٰی آیت نمبر 43
ترجمہ: اور یہ حقیقت ہے کہ جو کوئی صبر سے کام لے، اور درگزر کر جائے تو یہ بڑی ہمت کی بات ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے حیائی کی باتیں طبعاً کرتے تھے نہ تکلفاً اورنہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے، اوربرائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور درگذر فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بہ شرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی جائیں اورجب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے، اورآپ کو جب بھی دوچیزوں کا اختیار دیاگیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔ (جامع الترمذی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب بھی حضور الصلوٰۃ والسلام کو دوچیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو، اگر وہ گناہ ہوتی تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتیں تو آپ ان کا انتقام لیتے تھے۔ (سنن ابودائود)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، میںنے ابتداً آپ کا ہاتھ پکڑلیا، اورمیں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم مجھے فضیلت والے اعمال بتائیے، آپ نے فرمایا: اے عقبہ، جوتم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو، جو تم کو محروم کرے، اس کو عطاکرو، اورجو تم پر ظلم کرے اس سے اعراض کرو۔ (مسند احمد بن حنبل)
حضرت زین العابدین علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی لونڈی وضو کرواتے ہوئے ان پر پانی ڈال رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے برتن آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے چہرے پر گرگیا جس سے چہرہ زخمی ہوگیا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی طرف سر اٹھاکر دیکھا تو اس نے عرض کی: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَالْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ ’’ اور غصہ پینے والے‘‘ حضرت زین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: میں نے اپنا غصہ پی لیا۔ اس نے پھر عرض کی: وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ’’اور لوگوں سے در گزر کرنے والے‘‘ ارشادفرمایا: اللہ تعالیٰ تجھے معاف کرے۔ پھر عرض گزار ہوئی: وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ’’اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے.‘‘ ارشاد فرمایا: جا! تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آزاد ہے۔ (ابن عساکر، ذکر من اسمہ علی، علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب، ۴۱ / ۳۸۷)
معاف کرنے کے بہت سے فوائد ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
(1)  جب ہم دُکھ دینے والے فرد کو معاف کرتے ہیں تو اصل میں اپنے آپ کو منفی جذبات، ذہنی دباؤ، پر یشانی اور ڈپریشن سے آزاد کرواتے ہیں جو اگر ختم نہ ہوں تو انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات چھوڑتے ہیں۔
(2)  معاف کردینے سے انسان ماضی کی تکلیف دہ یادوں سے باہر نکل آتا ہے اور زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ آجاتا ہے۔
(3)  معاف کردینے سے انسان کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کتنی تکلیف کو برداشت کرسکتا ہے اور اس میں تکلیف سے مقابلہ کرنے کی کتنی صلاحیت ہے!
( 4)  معاف کرنے کی عادت سے رشتے خوب صورت اور مضبوط ہوتے ہیں اور انسان کو سکون ملتا ہے۔
(5)  انسان کو پرسکون نیند آتی ہے جوکہ بہت سی ذہنی اور جسمانی بیماریوں سے بچاتی ہے۔
(6)  دینِ اسلام میں معاف کرنے والے کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ بہترین انسانوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جو لوگ آسانی میں، تنگی میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے ہیں اور لوگوں کو معاف (درگزر) کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (سورہ آل عمران)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہُ علیہ نے فرمایا: ’’صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کو معاف کرنے سے اللہ عزت بڑھادیتا ہے اور اس کے درجات بلند کردیتا ہے ۔‘‘ (صحیح المسلم)
جبکہ حضرت علی رضی اللہُ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ: ’’طاقت کے ہوتے ہوئے معاف کرنا بہترین نیکی ہے ۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ انسان ان لوگوں کو کیسے معاف کرے جنہوں نے کسی وجہ سے تکلیف یا دکھ دیا ہو۔ خاص طورپر ان افراد کو جنہوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ ان کے رویے سے دوسرے افراد تکلیف اور اذیت ملی ہے اور انہوں نے اس پر کبھی معافی بھی نہیں مانگی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے خود کو سوچیں اور اپنا تجزیہ کریں کہ جن لوگوں نے آپ کو تکلیف دی ہے تو اس تکلیف دہ واقعہ یا احساسات سے ان کی زندگی زیادہ متاثر ہوئی ہے یا آپ کی؟ اور کیا آپ ان لوگوں کی وجہ سے ابھی تک ماضی میں قید ہیں اور زندگی میں آگے نہیں بڑھ نہیں رہے؟
۔  آپ سوچیں کہ کیا میں ضرورت سے زیادہ حساسیت کا مظاہر ہ تو نہیں کررہا؟
۔ اس تجزیہ کے بعد ان افراد کو معاف کرنا شروع کریں جن کی چھوٹی باتوں سے آپ دکھی ہوتے ہیں۔ اس سے آپ کے دل میں وسعت پیدا ہوجائے گی۔
۔  جن واقعات اورافراد سے آپ دکھی ہوئے ہیں ان کے بارے میں اپنے مخلص دوستوں سے بات کریں۔
۔  اگر ہوسکے تو ان افراد کو بتائیں کہ ان کے رویے یاعمل سے آپ کو کتنی تکلیف ہوئی ہے۔ کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ ان کا نقطہ نظر مختلف ہو۔
     سب سے اہم یہ ہے کہ کسی دوسرے کو معاف کردینے سے نہ صرف خدا خوش ہوتا ہے بلکہ انسان بھی ذہنی اور جسمانی بیماریوں سے دور رہتا ہے۔

Is it better to forgive and forget?
(مرتب :ایس اے ساگر)

No comments:

Post a Comment