کارٹون، اسمائیلی اور ایموجی کا حکم
۱) آج کل لوگ موبائل سے ٹیکسٹ میسیج کرتے ہوئے چہروں کیے شکلیں بھیجتے ہیں جو مختلف جذبات کے اظہار کیلئے چھوٹی شکلیں ہوتی ہیں۔ کیا ایسی شکلیں بھیجنے کی اجازت ہے؟ کیا یہ تصویر کے زمرے میں نہیں آئیں گی؟
۲) دوسری بات یہ کہ کیا کارٹون کو تصویر کہیں گے؟ میرے ایک دوست نے کوئی فتوی پڑھا جس میں کارٹون کو تصویر میں شمار نہیں کیا گیا۔ کارٹون بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جو اخبارات میں چھپتے ہیں دوسرے وہ جو ٹی وی پر آتے ہیں۔ دونوں کے متعلق وضاحت فرمادیں کہ آیا یہ حرام ہیں؟
۳) کسی نے یہ بتایا کہ اگر کارٹون کی آنکھیں چھپادی جائیں تو ایسے کارٹون کی اجازت ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
۴) اگر جاندار کا کارٹون یا تصویر اتنی چھوٹی ہو کہ اس کا چہرا واضح نہ ہورہا ہو تو کیا ایسی تصویر یا کارٹون کی اجازت ہے؟
براہ کرم ان تمام باتوں کی وضاحت فرمادیں۔
الجواب وباللہ التوفیق:
(۱) ٹیکسٹ میسیج کرتے ہوئے چہروں کی جو شکلیں بھیجی جاتی ہیں اگر ان میں ناک کان، آنکھ اور چہرے کے نقوش نمایاں ہوں اور ان کی شناخت جاندار کے چہرے کے طور پر ہو تو ایسی شکلیں بھیجنا ناجائز ہے یہ بھی تصویر کے استعمال کی ایک شکل ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔
(۲) جاندار اشیاء کے کارٹون اگر اس طرح بنائے جائیں کہ ان کی آنکھ، ناک، کان وغیرہ واضح ہوں اور جاندار کے چہرے کے طور پر ان کی شناخت ہورہی ہو تو ایسے کارٹون بھی تصویر کے حکم میں ہیں، ان کا بنانا اور استعمال کرنا دونوں ناجائز ہیں، خواہ وہ کارٹون اخبار میں چھپتے ہوں یا ٹی وی پر آتے ہوں
وظاہر کلا النووي الإجماع علی تحریم تصویر الحیوان وقال سواءٌ صنعہ لما یُمْتَہَنُ أو لغیرہ فصنعتہ حرام بکل حل وسواء کان في ثوب أو بساط أو دراہم أو إناء أو حائط (رد المحتار علی الدر المختار: ۲/۴۱۶، مکروہات الصلاة)
وظاہر کلا النووي الإجماع علی تحریم تصویر الحیوان وقال سواءٌ صنعہ لما یُمْتَہَنُ أو لغیرہ فصنعتہ حرام بکل حل وسواء کان في ثوب أو بساط أو دراہم أو إناء أو حائط (رد المحتار علی الدر المختار: ۲/۴۱۶، مکروہات الصلاة)
(۳) جاندار کے کارٹون کی صرف آنکھیں چھپادینے سے وہ تصویر کے حکم سے خارج نہیں ہوگا، البتہ اگر مکمل سر ہی ختم کردیا جائے یا آنکھ ناک، کان اور چہرہ کے خد وخال کو اس طرح سپاٹ کردیا جائے کہ وہ جاندار کا چہرہ معلوم نہ ہو تو پھر اس کو بنانے اور استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی
قال في البحر: وقید بالرأس لأنہ لا اعتبار بإزالة الحاجبین أو العینین․․․ وکذا لا اعتبار یقطع الیدین أو الرجلین (۲/ ۵۰ ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیہا)
(۴) اگر جاندار کا کارٹون یا اس کی تصویر اتنی چھوٹی ہو کہ زمین پر رکھے ہونے کی حالت میں متوسط بینائی والا شخص کھڑے ہوکر دیکھے تو تصویر کے اعضاء کی تفصیل معلوم نہ ہو تو ایسے کارٹون اور تصویر کے استعمال کی گنجائش ہے، البتہ ایسے کارٹون اور تصویر کا بنانا پھر بھی ناجائز ہی رہے گا الا یہ کہ کوئی شرعی ضرورت ہو۔
أو کانت صغیرة لا تتبین تفاصیل أعضائہا للناظر قائماً وہي علی الأرض (الدر مع الرد: ۲/ ۴۱۸، مکروہات الصلاة، جواہر الفقہ ۷/ ۲۵۸، زکریا)
أو کانت صغیرة لا تتبین تفاصیل أعضائہا للناظر قائماً وہي علی الأرض (الدر مع الرد: ۲/ ۴۱۸، مکروہات الصلاة، جواہر الفقہ ۷/ ۲۵۸، زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
---------------------------------------------------
کیا ایموجی یا بیٹموجی (emoji, bitmoji) استعمال کرنا جائز ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
بیٹموجی کے تحت جو شکلیں ہوتی ہیں وہ تو سر سمیت پورے بدن کی تصویریں ہوتی ہیں گو کسی قدر کارٹون کے مشابہ، ان کا استعمال بلاشبہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ بھی شرعاً تصاویر ہیں اور تصویر بنانے اور استعمال کرنے پر احادیث میں وعیدیں آئی ہیں، اور ایموجی کے تحت جو سر اور چہرے کی شکلیں ہوتی ہیں ان میں بھی اکثر بہ حکم تصویر ہی ہیں؛ کیونکہ ان میں سر، پیشانی، آنکھ اور منھ وغیرہ جیسے اعضاء نمایاں ہوتے ہیں؛ لہٰذا ان کا استعمال بھی ممنوع ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
-------------------------------------------------------------
ایموجی والے آپشن کی موجودگی میں واٹس ایپ کا استعمال
سوال: میں نے آپ کی سائٹ پر ایموجیز کا فتوی پڑھا تھا ، سوا ل یہ ہے کہ کیا ایسی ایپ استعمال کرنا جائز ہے جہاں ایموجیر سینڈ کرنے کا مستقل آپشن جو بذات خود تصویر ہے موجود ہوتا ہے جیسے واٹس ایپ، میسنجر، ٹیلیگرام وغیرہ؟
اور کیا دین کی تبلیغ ان کے ذریعے جائز ہے؛ کیوں اس میں بے ادبی ہوگی کیوں کہ یہ حرام تصویر ہر وقت موجود رہتی ہے، ایپلی کیشن کے استعمال میں اسے بند یا بلاک کرنے کا آپشن بھی نہیں ہوتا ہے، اور اگر کوئی ایسی صورت نکل آتی ہے ہم ان کارٹون کو بلاک کرلیں، مگر جن کو ہم دین کی باتیں بھیجتے ہیں وہ ضروری نہیں بلاک کرے تو کیا حکم ہے؟ ہم گناہ گار ہوں گے بے ادبی کے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
ایسی ایپ کا جائز مقاصد کے لیے استعمال جائز ہے جس میں ایموجیز کا آپشن بھی موجود ہو۔ الأشباه والنظائر لابن نجيم ہے:
"القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها كما علمت في التروك. وذكر قاضي خان في فتاواه:إن بيع العصير ممن يتخذه خمراً إن قصد به التجارة فلا يحرم، وإن قصد به لأجل التخمير حرم، وكذا غرس الكرم على هذا . (انتهى) ".(ص:12، الفن الاول، القاعدۃ الثانیۃ، ط: سعید) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 143909201793 دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
-------------------------------------------------------
Emoji ارسال کرنا
سوال: موبائل میں جو کارٹون تصویر ہوتی ہیں ، کیا ان کو میسج میں بھیجنا تصویر بنانے کے گناہ کے برابر ہے یا یہ کارٹون میسج میں بھیجنا جائز ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
موبائل کی مختلف ایپلی کیشنز میں دی گئی جان دار کی تصویر یا کارٹون پر مشتمل ’ایموجی‘ کی سہولت استعمال کرنا ممنوع ہے، اگر چہ یہ خود تصویر بنانے کے حکم میں تو نہیں ہے، تاہم تصویر کی اشاعت کا باعث ضرور ہے، جس سے اجتناب نہایت ضروری ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201106 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
------------------------------------------------------------
موبائل پر بھیجی جانے والی اسمائلیز یا ایموجیز کا حکم
سوال: میسجز میں جو ایموجیز بھیجے جاتے ہیں، آیا وہ تصویر کے حکم میں ہیں یا نہیں؟ براہ مہربانی جواب عنایت فرمائیں!
الجواب وباللہ التوفیق:
موبائل وغیرہ میں استعمال ہونے والی ایموجیز (ایسی تصاویر جو کیفیت کے اظہار کے لیے ہوتی ہیں، ان) میں سے بعض تصاویر ایسی ہیں جو نہ جاندار کی ہیں اور نہ جاندار کے مشابہ ہیں، جیسے: پھول، فروٹ، بیٹ بال وغیرہ، ان تصاویر کا استعمال درست ہے۔ اسی طرح جو تصاویر جان دارکے چہرے کے علاوہ دیگر اعضاء (مثلاً: ہاتھ پاؤں) پر مشتمل ہوں ان کے استعمال کی بھی اجازت ہے۔ البتہ جو تصاویر جاندار کے چہرے پر مشتمل ہوں یا جاندار کے چہرے کے مشابہ ہوں (جیسے دائرے کی شکل میں آنکھ، ناک اور منہ کا خاکا بنا ہو) ان کا استعمال ناجائزہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 143811200037 دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
-----------------------------------------------------------------
میرا سوال یہ ہے کہ اکثر مصنوعات کے اوپر عورتوں، مردوں، بچوں اور مختلف کارٹون کی تصاویر بنی ہوتی ہیں۔ مثلا چھوٹے بچوں کے کپڑوں اور کھلونوں پر لازما ہی کوئی نہ کوئی تصویر بنی ہوتی ہے ۔ اور اس سے بچنا آج کے دور میں ظاہراً محال ہے تو ایسے مصنوعات کو بیچنے کا کیا حکم ہے؟ اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال ہے یا حرام؟ مہربانی فرما کر تفصیلی جواب عنایت فرمائیں ۔ اللہ پاک آپ کے عمل و عمل میں خوب خو ب ترقی اور برکت عطا فرمائیں! آمین
الجواب وباللہ التوفیق:
جن مصنوعات پر اس طرح کی تصاویر ہوں جو دیکھنے میں صاف اور واضح نہ ہوں ان کی خرید وفروخت کی گنجائش ہے، البتہ اگر تصویر واضح اور نمایاں ہو تو اس کا بنانا خریدنا، اور بیچنا سب ناجائز ہے؛ لہٰذا وہ مصنوعات جن پر عورتوں مردوں، بچوں یا جانوروں کی تصویریں نمایاں طور پر بنی ہوئی ہوتی ہیں ان کی خرید وفروخت ناجائز ہے اور اگر مجبوری میں خریدلیا ہے تو اس کی تصویر کو مٹادیا جائے، نیز اگر ان چیزوں پر بنی ہوئی تصویریں مقصود کے درجہ میں نہ ہوں تو وہ اصل مصنوعات کے تابع ہوکر ان کی خرید وفروخت جائز ہوجائے گی؛ لیکن خریدنے والا یا تو اسے مٹادے یا پامالی اور تذلیل کے انداز پر رکھے حرمت وعزت کے ساتھ رکھنا اور استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا۔
لا یکرہ تحت قدمیہ․․․ أو کانت صغیرة لا یتبین تفاصیل أعضائہا للناظر قائما وہي علی الأرض․ ذکرہ الحلبي (الدر المختار: ۲/۴۱۸)
وإن قطع رأسہا أو فرقت ہیئتہا جاز (فتح الباري: ۱۱/ ۵۱۸، بحوالہ جواہر الفقہ، قال في الہدایة ولو کانت الصورة علی وسادة ملقاة أو علی بساط مفروش لا یکرہ لأنہا تداس وتوطأ بخلاف ما إذا کانت الوسادة منصوبة أو کانت علی الستر لأنہا تعظیم لہا․ (رد المحتار: ۲/۴۱۷)
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
---------------------------------------------------
گڑیا، اسپرے (پرفیوم)، باڈی اسپرے وغیرہ بیچنا کیسا ہے؟ میری دکان ہے اس میں میں مختلف طرح کی اشیاء فروخت کرتا ہوں مثلاً اسپرے، باڈی اسپرے، بچوں کا کپڑا جس پر اکثر کارٹون چھپے ہوئے ہوتے ہیں، تو کیا یہ چیزیں شرعی لحاظ سے فروخت کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کاسمیٹکس (زیبائشی چیزیں) کے زیادہ تر چیزیں جیسے شیمپو بلیچ کریم اور فیس واش وغیرہ پر اکثر لڑکیوں کی نیم برہنہ تصویریں ہوتی ہیں تو میں کالا مارکر کے ذریعہ تصویر کے نیم برہنہ حصے کو ڈھانپتا ہوں یعنی اس کو مارکر کے ذریعہ چھپاتا ہوں، تو کیا ایسی چیزیں فروخت کرنا درست ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
ایسی چیزوں کا بیچنا جن پر تصویریں بنی ہوئی ہوتی ہے درست ہے۔ البتہ بعینہ تصویر کا مجسمہ جیسا کہ پلاسٹک کے کتے بلی بنے ہوئے ہوتے ہیں ان کا بیچنا درست نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
----------------------------------------------
---------------------------------------------------
کیا ایموجی یا بیٹموجی (emoji, bitmoji) استعمال کرنا جائز ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
بیٹموجی کے تحت جو شکلیں ہوتی ہیں وہ تو سر سمیت پورے بدن کی تصویریں ہوتی ہیں گو کسی قدر کارٹون کے مشابہ، ان کا استعمال بلاشبہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ بھی شرعاً تصاویر ہیں اور تصویر بنانے اور استعمال کرنے پر احادیث میں وعیدیں آئی ہیں، اور ایموجی کے تحت جو سر اور چہرے کی شکلیں ہوتی ہیں ان میں بھی اکثر بہ حکم تصویر ہی ہیں؛ کیونکہ ان میں سر، پیشانی، آنکھ اور منھ وغیرہ جیسے اعضاء نمایاں ہوتے ہیں؛ لہٰذا ان کا استعمال بھی ممنوع ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
-------------------------------------------------------------
ایموجی والے آپشن کی موجودگی میں واٹس ایپ کا استعمال
سوال: میں نے آپ کی سائٹ پر ایموجیز کا فتوی پڑھا تھا ، سوا ل یہ ہے کہ کیا ایسی ایپ استعمال کرنا جائز ہے جہاں ایموجیر سینڈ کرنے کا مستقل آپشن جو بذات خود تصویر ہے موجود ہوتا ہے جیسے واٹس ایپ، میسنجر، ٹیلیگرام وغیرہ؟
اور کیا دین کی تبلیغ ان کے ذریعے جائز ہے؛ کیوں اس میں بے ادبی ہوگی کیوں کہ یہ حرام تصویر ہر وقت موجود رہتی ہے، ایپلی کیشن کے استعمال میں اسے بند یا بلاک کرنے کا آپشن بھی نہیں ہوتا ہے، اور اگر کوئی ایسی صورت نکل آتی ہے ہم ان کارٹون کو بلاک کرلیں، مگر جن کو ہم دین کی باتیں بھیجتے ہیں وہ ضروری نہیں بلاک کرے تو کیا حکم ہے؟ ہم گناہ گار ہوں گے بے ادبی کے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
ایسی ایپ کا جائز مقاصد کے لیے استعمال جائز ہے جس میں ایموجیز کا آپشن بھی موجود ہو۔ الأشباه والنظائر لابن نجيم ہے:
"القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها كما علمت في التروك. وذكر قاضي خان في فتاواه:إن بيع العصير ممن يتخذه خمراً إن قصد به التجارة فلا يحرم، وإن قصد به لأجل التخمير حرم، وكذا غرس الكرم على هذا . (انتهى) ".(ص:12، الفن الاول، القاعدۃ الثانیۃ، ط: سعید) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 143909201793 دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
-------------------------------------------------------
Emoji ارسال کرنا
سوال: موبائل میں جو کارٹون تصویر ہوتی ہیں ، کیا ان کو میسج میں بھیجنا تصویر بنانے کے گناہ کے برابر ہے یا یہ کارٹون میسج میں بھیجنا جائز ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
موبائل کی مختلف ایپلی کیشنز میں دی گئی جان دار کی تصویر یا کارٹون پر مشتمل ’ایموجی‘ کی سہولت استعمال کرنا ممنوع ہے، اگر چہ یہ خود تصویر بنانے کے حکم میں تو نہیں ہے، تاہم تصویر کی اشاعت کا باعث ضرور ہے، جس سے اجتناب نہایت ضروری ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201106 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
------------------------------------------------------------
موبائل پر بھیجی جانے والی اسمائلیز یا ایموجیز کا حکم
سوال: میسجز میں جو ایموجیز بھیجے جاتے ہیں، آیا وہ تصویر کے حکم میں ہیں یا نہیں؟ براہ مہربانی جواب عنایت فرمائیں!
الجواب وباللہ التوفیق:
موبائل وغیرہ میں استعمال ہونے والی ایموجیز (ایسی تصاویر جو کیفیت کے اظہار کے لیے ہوتی ہیں، ان) میں سے بعض تصاویر ایسی ہیں جو نہ جاندار کی ہیں اور نہ جاندار کے مشابہ ہیں، جیسے: پھول، فروٹ، بیٹ بال وغیرہ، ان تصاویر کا استعمال درست ہے۔ اسی طرح جو تصاویر جان دارکے چہرے کے علاوہ دیگر اعضاء (مثلاً: ہاتھ پاؤں) پر مشتمل ہوں ان کے استعمال کی بھی اجازت ہے۔ البتہ جو تصاویر جاندار کے چہرے پر مشتمل ہوں یا جاندار کے چہرے کے مشابہ ہوں (جیسے دائرے کی شکل میں آنکھ، ناک اور منہ کا خاکا بنا ہو) ان کا استعمال ناجائزہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 143811200037 دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
-----------------------------------------------------------------
میرا سوال یہ ہے کہ اکثر مصنوعات کے اوپر عورتوں، مردوں، بچوں اور مختلف کارٹون کی تصاویر بنی ہوتی ہیں۔ مثلا چھوٹے بچوں کے کپڑوں اور کھلونوں پر لازما ہی کوئی نہ کوئی تصویر بنی ہوتی ہے ۔ اور اس سے بچنا آج کے دور میں ظاہراً محال ہے تو ایسے مصنوعات کو بیچنے کا کیا حکم ہے؟ اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی حلال ہے یا حرام؟ مہربانی فرما کر تفصیلی جواب عنایت فرمائیں ۔ اللہ پاک آپ کے عمل و عمل میں خوب خو ب ترقی اور برکت عطا فرمائیں! آمین
الجواب وباللہ التوفیق:
جن مصنوعات پر اس طرح کی تصاویر ہوں جو دیکھنے میں صاف اور واضح نہ ہوں ان کی خرید وفروخت کی گنجائش ہے، البتہ اگر تصویر واضح اور نمایاں ہو تو اس کا بنانا خریدنا، اور بیچنا سب ناجائز ہے؛ لہٰذا وہ مصنوعات جن پر عورتوں مردوں، بچوں یا جانوروں کی تصویریں نمایاں طور پر بنی ہوئی ہوتی ہیں ان کی خرید وفروخت ناجائز ہے اور اگر مجبوری میں خریدلیا ہے تو اس کی تصویر کو مٹادیا جائے، نیز اگر ان چیزوں پر بنی ہوئی تصویریں مقصود کے درجہ میں نہ ہوں تو وہ اصل مصنوعات کے تابع ہوکر ان کی خرید وفروخت جائز ہوجائے گی؛ لیکن خریدنے والا یا تو اسے مٹادے یا پامالی اور تذلیل کے انداز پر رکھے حرمت وعزت کے ساتھ رکھنا اور استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا۔
لا یکرہ تحت قدمیہ․․․ أو کانت صغیرة لا یتبین تفاصیل أعضائہا للناظر قائما وہي علی الأرض․ ذکرہ الحلبي (الدر المختار: ۲/۴۱۸)
وإن قطع رأسہا أو فرقت ہیئتہا جاز (فتح الباري: ۱۱/ ۵۱۸، بحوالہ جواہر الفقہ، قال في الہدایة ولو کانت الصورة علی وسادة ملقاة أو علی بساط مفروش لا یکرہ لأنہا تداس وتوطأ بخلاف ما إذا کانت الوسادة منصوبة أو کانت علی الستر لأنہا تعظیم لہا․ (رد المحتار: ۲/۴۱۷)
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
---------------------------------------------------
گڑیا، اسپرے (پرفیوم)، باڈی اسپرے وغیرہ بیچنا کیسا ہے؟ میری دکان ہے اس میں میں مختلف طرح کی اشیاء فروخت کرتا ہوں مثلاً اسپرے، باڈی اسپرے، بچوں کا کپڑا جس پر اکثر کارٹون چھپے ہوئے ہوتے ہیں، تو کیا یہ چیزیں شرعی لحاظ سے فروخت کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کاسمیٹکس (زیبائشی چیزیں) کے زیادہ تر چیزیں جیسے شیمپو بلیچ کریم اور فیس واش وغیرہ پر اکثر لڑکیوں کی نیم برہنہ تصویریں ہوتی ہیں تو میں کالا مارکر کے ذریعہ تصویر کے نیم برہنہ حصے کو ڈھانپتا ہوں یعنی اس کو مارکر کے ذریعہ چھپاتا ہوں، تو کیا ایسی چیزیں فروخت کرنا درست ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
ایسی چیزوں کا بیچنا جن پر تصویریں بنی ہوئی ہوتی ہے درست ہے۔ البتہ بعینہ تصویر کا مجسمہ جیسا کہ پلاسٹک کے کتے بلی بنے ہوئے ہوتے ہیں ان کا بیچنا درست نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
----------------------------------------------
Ruling on drawing smiley faces when chatting on the internet
Question
Drawing faces or pictures of living beings is haram, but on forums and other places on the internet people draw emoticons using symbols, for example :D represents a smiling face if u look at it vertically. is this haram?.
Answer
Praise be to Allaah.
It seems – and Allaah knows best – that this face, whether it is smiling or sad, does not come under the same ruling as images that it is forbidden to make, draw, or use, for two reasons:
1 – It contains none of the features of a real face, such as eyes, mouth and nose, and it has no head or ears.
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “The image is the head; if the head is cut off, there is no image.” Narrated by al-Ismaa’eeli in his Mu’jam from the hadeeth of Ibn ‘Abbaas and classed as saheeh by al-Albaani in al-Silsilah al-Saheehah no. 1921 and in Saheeh al-Jaami’ no. 3864.
2 – The majority of fuqaha’ are of the view that if something is cut off from an image without which it could no longer live, then it is not a haraam image. For a detailed discussion of this issue and the views of other madhhabs, see Ahkaam al-Tasweer fi’l-Fiqh al-Islami, pp. 224-240.
But we should point out two things:
This usage in chatting on the internet does not come under the drawing of images, rather it comes under the use of images.
No comments:
Post a Comment