Saturday, 21 March 2020

کورونا وائرس کے خوف سے مساجد بند کردینا؟

کورونا وائرس کے خوف سے مساجد بند کردینا؟

تیزی سے پھیل رہے بے قابو کورونا وائرس کے خطرات کے پیش نظر حکومت ہند بے حد پریشان ہے، ممکن ہے حکومت کی جانب سے انتظامی طور پہ جبراً مساجد بند کئے جانے کا فرمان بھی جاری ہوجائے (اللہ نہ کرے ایسا ہو)
اگر یہ صورت حال پیش آجائے تب تو “خوف ظلم“ اور “دفع حرج“ کے پیش نظر مسلمانان ہند اس پہ عمل درآمد کے لئے مجبور ہونگے ۔
تاہم وبائی صورت حال میں یہ شدت آنے اور حکومت کی طرف سے اس نوع کے دباؤ آنے سے قبل مسلمانوں کا از خود مساجد بالکلیہ اس طرح بند کردینا کہ جمعہ و جماعت  متروک ہوجائے ظلم وتعدی کے ذیل میں آتا ہے جس کی شریعت میں گنجائش نہیں ہے۔
پولیس کمشنر اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے  اذان وجماعت پہ جبری پابندی کی صورت میں بھی مساجد انتظامیہ کوشش کرکے اسے یقینی بنائے کہ اس طرح کی پابندی کا اطلاق مؤذن، خدام اور ائمہ مساجد (اصل اور نائبین)  کے علاوہ بقیہ عام لوگوں پہ ہو ۔
 موذن ، خدام اور امامِ مسجد  تین چار افراد ملکر اذان و جماعت کے ساتھ نماز پنجگانہ وجمعہ ادا کرتے رہیں اور مسجدوں کو اعمال سے آباد رکھیں۔
یہ سب سے آسان شکل ہے 
اس پہ عمل کرنے سے کورونا کے انتشار سے بھی بچا جاسکتا ہے اور مساجد کی بندش جیسی مخالف شرع ناجائز کام کے ارتکاب سے بھی حفاظت رہے گی۔
وبائی امراض کے ماہرین کے مطابق کورونا سے ہلاکت کے امکان کا تناسب بہت ہی کم ہے 
جن لوگوں نے مساجد بند کرنے کی  شرعی اجازت دی ہے وہ “سد ذریعہ کے طور“ پہ دی ہے؛ تاکہ مسجدوں میں عمومی حاضری “نفس انسانی“ کی ہلاکت کا موجب نہ بنے؛  کیونکہ “حفظ نفس“ شریعت کے مقاصد خمسہ میں داخل ہے۔
لیکن قابل غور  ہے کہ “سد ذریعہ“ وہاں مُثبت حکم ہوتا ہے جہاں اس کی وجہ سے کسی “امر مُحرَّم “ کا ارتکاب نہ ہوتا ہو ! 
یہاں موہوم ہلاکت کو “سد ذریعہ “ تسلیم کرلیا جائے تو “ویرانیِ مسجد“ جیسی محرم بالنص چیز کا ارتکاب ہوجارہا ہے، جس کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔
 اذان و جماعت شعائر اسلام میں داخل ہے ، اجتماعی طور پر اختیاراً اسے چھوڑدینے سے پورا محلہ گنہگار ہوگا ۔انتشار وباء کے خطرات  کے پیش نظر  جماعت  میں شریک مصلیان  کی تعداد  لازماً  محدود کردی جائے؛ لیکن مسجدوں میں  شرعی اذان اور نماز باجماعت کا نظام بلا تعطل جاری رہنا ضروری ہے۔
حکومتی سطح سے لاک ڈائون کا حکم آجانے کے بعد کوشش کی جائے کہ ائمہ  مساجد (اصل اور نائبین) خدام اور مؤذن کے علاوہ  بقیہ اشخاص پہ مسجد حاضری کی  پابندی عائد ہو ؛ تاکہ اذان، جمعہ اور جماعات کا نظام بھی چلتا رہے اور کورونا سے حفاظتی تدابیر کے تحت عوامی بھیڑ کی کمی پر بھی عمل ہوجائے۔ 
 اگر انتظامی طور پہ یہ استثناء نہ مل سکے پہر تو عذر، معتبر اور شرعی ہوگا.
اور مساجد بند کرنے کا وبال ہمارے سر نہ ہوگا۔
حکمراں کی طرف سے جبریہ مسجد بند کردیئے جانے  کی صورت میں گھروں پہ باجماعت نماز  ادا کریں، جمعہ کی نماز بھی گھر پہ پڑھیں، نماز جمعہ کے لئے مسجد کا ہونا ویسے بھی شرط نہیں ہے،  امام کے علاوہ کم از کم تین مقتدی ہوں تو جمعہ کی نماز صحیح ہوجاتی ہے ؛ لہذا مسجد کی اذان  کے بعد (اگر مسجد میں اذان نہ ہو تو خود اذان دے دیں) امام خطبہ مسنونہ پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھا دے۔
رہا مسئلہ صحت جمعہ کے لئے “اذن عام” کی شرط کا، تو اولاً ہمارے فقہاء احناف کے یہاں یہ شرائط جمعہ کی متفقہ شرائط میں نہیں ہے، صاحب ہدایہ وغیرہ نے اسے بطور شرط ذکر نہیں کیا  ہے، 
جن فقہاء کے یہاں یہ شرط ہے بھی تو اس وقت ہے جبکہ پورے شہر یا قلعہ میں صرف ایک جگہ جمعہ ہورہا ہو، مختلف مقامات پر متعدد جمعہ قائم ہونے کی صورت میں یہ شرط از خود بے اثر ہوجاتی ہے.
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
۲۲مارچ سنہ ۲۰۲۰
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_90.html?m=1

No comments:

Post a Comment