کورونا وائرس کا خوف ____ شرعی ہدایات وحدود ____ اذان وجماعت کی بندش؟
بحیثیت مسلمان ہم سب کا عقیدہ ہے اور ہماری تقدیر کا حصہ ہے کہ اللہ تعالی کی مرضی اور حکم ومشیت کے بغیر کوئی بھی مرض بیمار سے تندرست شخص میں منتقل نہیں ہوسکتا، اسلام نے چھوت چھات اور توہم پرستی کی کی نفی کرتے ہوئے اس عقیدے کو باطل اور لغو قرار دیا ہے کہ طبعیت اور خلقت کے لحاظ سے کوئی بھی بیماری منشاء خداوندی کے بغیر از خود دوسرے میں منتقل ہوجائے، اسباب کے تحت امراض کا تعدیہ بھی اللہ کے حکم کے بعد ہی ہوگا :
قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (التوبة :51)
کہہ دیجئے جو کچھ اللہ نے ہمارے لئے لکھ دیا ہے اس کے سوا ہم پر کوئی مصیبت نہیں پڑے گی۔ وہی ہمارا کارساز ہے اور اللہ ہی پر ایمانداروں کو بھروسہ بھی کرنا چاہئے (التوبة :51)
دنیا دارالاسباب ہے، اس لحاظ سے اسباب مرض سے اجتناب اور احتیاطی تدابیر برتنے کا بھی شریعت میں باضابطہ حکم دیا گیا ہے:
"لا يُورِدُ مُمْرِضٌ علَى مُصِحٍّ."
[أخرجه البخاري في كتاب الطب، باب لا عدوى، برقم 5775، ومسلم في كتاب السلام، باب لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر ولا نوء، برقم 2221.
"بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس نہ لے جاؤ")
ایک دوسری حدیث میں رسول صلی اللہُ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "فِرَّ من المَجْذومِ كما تفرُّ من الأسدِ"
"جذامی شخص سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو" (صحیح بخاری 5707)
جذامیوں کی بیماری سے بچنے کے لئے حضور اکرم صلی اللہُ علیہ وسلم نے ان سے ایک نیزہ کے فاصلہ سے بات چیت کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث میں ہے کہ: "لا تديموا النظرَ إلى المجذمينَ وإذا كلَّمتموهم فليكُنْ بينَكم وبينَهم قيدُ رمحٍ۔عن الحسين بن علي بن أبي طالب./ الهيثمي. مجمع الزوائد. 5/104.)
أخرجه أبو يعلى (6774) واللفظ له، والطبراني (3/131) (2897) مختصراً، وابن عدي في (الكامل في الضعفاء) (4/155) باختلاف يسير..)
"جب تم ان (جذامی) سے بات چیت کرو تو تمہارے اور ان کے درمیان ایک نیزہ کا فاصلہ ہونا چاہئے")۔ اسباب سے اجتناب کے طور پہ متعدی (infectious) بیماری کے پھیلنے سے بچاؤ کے لئے طاعون زدہ علاقے میں آمد ورفت رکھنے اور میل ملاپ سے حدیث میں منع کیا گیا ہے: "إذا سَمِعْتُم بِالطَّاعُونِ بِأرْضٍ فلَا تَدخُلُوا عليه ، و إذا وقَعَ و أنْتُمْ بِأرضٍ فلَا تَخرُجُوا مِنها فِرارًا مِنهُ
عن أسامة بن زيد. أخرجه البخاري (5728)، ومسلم (2218)، وأحمد (21860) واللفظ له.
"جب تمہیں معلوم ہو کہ کسی جگہ طاعون ہے تو وہاں مت جاؤ اور جہاں تم ہو وہاں اگر طاعون پھیل جائے تو اسے چھوڑ کر مت جاؤ."
قبیلہ ثقیف کا ایک جذامی شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیعت اسلام کے لئے آنا چاہ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعدی مرض جذام کے پیش نظر احتیاطی تدبیر کے بطور اس کے اختلاط سے احتراز کرتے ہوئے اس سے بالمشافہ بیعت کرنے کی بجائے غائبانہ بیعت فرمادی اور اسے گھر واپس کردیا:
كانَ في وَفْدِ ثَقِيفٍ رَجُلٌ مَجْذُومٌ، فأرْسَلَ إلَيْهِ النبيُّ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ إنَّا قدْ بَايَعْنَاكَ فَارْجِعْ.
(عن الشريد بن سويد الثقفي./ صحيح مسلم. الرقم: 2231.)
جب لوگوں کے اعمال خراب ہو جائیں، ظلم و ستم، قتل وغارت گری ، حرام و رشوت خوری ، ریپ، اغوا، قطع رحمی، ناانصافی اور دیگر گناہوں کا چلن عام ہوجائے تو زلزلے، طوفان اور دیگر آفات وبائی امراض کی شکل میں نمودار ہونے لگتے ہیں۔ ایسے وقت میں جہاں اسلام ہمیں مادی اسباب معالجہ اور حفاظتی اقدامات سے نہیں روکتا وہیں ہمیں روحانی پہلوئوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے توبہ واستغفار مسنون دعائوں ومناجات کے اہتمام کی تلقین بھی کرتا ہے۔
مختلف قسم کے وبائوں اور بلائوں کے ذریعے اللہ تعالی نافرمانوں کو ذلت آمیز بیماریوں سے دوچار کرتے ہیں: وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ، سبا:5
..اور جو ہماری آیتوں کے رد کرنے میں کوشش کرتے پھرتے ہیں، ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔)
وبائی مرض خدا تعالی کا عذاب ہوتا ہے جو کسی سرحد کو مانتا نہ دین ومذہب کو ۔ وبائی امراض ظالموں کے ساتھ بے گناہوں کو بھی اپنی زد میں لئے بغیر نہیں رہتے، اسے قطعی لحاظ نہیں ہوتا کہ آپ موحد ہیں یا مشرک؟ مسلم ہیں یا یہودی وعیسائی وملحد، عربی ہیں یا عجمی؟ حکمراں ہیں یا رعایا؟ امیر ہیں یا غریب؟:
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ، الانفال : 25
اور اس فتنہ سے بھی ڈرتے رہو کہ جو تم میں سے خاص ظالموں ہی کو نہ پہنچے گا (بلکہ عام ہوگا) اور جان رکھو کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے۔
چین میں 19دسمبر کو پھیلنے والے عالمگیر مہلک وائرس "کورونا" سے دنیا بھر میں گذشتہ دو ماہ بیس دن میں 4,373 اموات ہوچکی ہیں اور 121,564 افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ان مہلوکین اور متاثرین کا تعلق دنیا کے 107 ممالک سے ہے۔ آج یہ وائرس 135 ملکوں میں پہنچ چکا ہے، 1 لاکھ 45 ہزار 816 کیس سامنے آچکے ہیں اور 5 ہزار 438 اموات ہوچکی ہیں
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے اس مرض کو وبائی مرض قرار دیدیا ہے، دنیا کے تمام ممالک اس کے پہیلائو کو روکنے کے لئے حفاظتی پیشگی تدبیر اختیار کررکھے ہیں، متاثرہ ممالک کی پروازیں، زمینی سرحدیں، عوامی اجتماع گاہیں معطل کردی گئی ہیں، عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ کے مطابق اس وائرس کی علامات میں بخار، سر درد، گلے کی خارش، تھکاوٹ اور خشک کھانسی شامل ہیں، احتیاطی تدابیر کے تحت مراکز صحت نے گلے کو خشک نا رکھنے، وقفہ وقفہ سے تھوڑا تھوڑا پانی پیتے رہنے ۔ بڑے کو °50c تک پانی پینے، چھوٹے کو °30c تک پانی پینے، پُرہجوم جگہوں پر نا جانے، سفر کرتے وقت، گھر سے باہر جاتے وقت اور مارکیٹ وغیرہ جاتے وقت ماسک ضرور پہننے، مصالحہ دار اور فرائی فوڈ سے گریز کرنے، باہر سے آتے وقت فوراً ہاتھ دھونے، سبزياں اور پھل زیادہ استمعال کرنے اور گوشت سے پرہیز کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔
شرعی پرہیز:
کورونا وبائی مرض ہے، خدا کے غیظ وغضب کا مظہر ہے، صفائی ستھرائی کے اہتمام اور طبی وحفظان صحت کی ہدایات پہ عمل در آمد کے ساتھ اللہ کے حضور توبہ واستغفار اور دعائوں کے اہتمام کا متقاضی ہے، اس موقع سے خدائی حفظ وامان کی ادعیہ ماثورہ پڑھنے کا سخت اہتمام کیا جائے ۔
صبح وشام یہ دعائیں پڑھیں:
1 " اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي، اللَّهُمَّ استُرْ عَوْرَاتي، وآمِنْ رَوْعَاتي، اللَّهمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَينِ يَدَيَّ، ومِنْ خَلْفي، وَعن يَميني، وعن شِمالي، ومِن فَوْقِي، وأعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحتي)
2 اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ)
3 اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبَرَصِ، وَالْجُنُونِ، وَالْجُذَامِ، وَمِنْ سَيِّئِ الأَسْقَامِ)
4 صبح و شام تین تین مرتبہ یہ پڑھیں (مَنْ قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَمْ تُصِبْهُ فَجْأَةُ بَلَاءٍ حَتَّى يُصْبِحَ، وَمَنْ قَالَهَا حِينَ يُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَمْ تُصِبْهُ فَجْأَةُ بَلَاءٍ حَتَّى يُمْسِيَ)
5 آیت الکرسی پڑھ کر پورے بدن پر خود بھی دم کریں اور چھوٹے بچوں کو بھی دم کریں
6: لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
7: اللهمَّ ارفعْ عنا الجَهدَ والجوعَ ، والعُريَ ، واكشفْ عنا من البلاءِ والوباء
کورونا سے متاثر بیماروں کا مسجد آنا:
جو شخص کورونا مرض سے متاثر ہو یعنی تشخیص کے بعد جس میں اس وباء کی تصدیق ہوچکی ہو ، یعنی اس کی ناک، گلے ، آنکھ سے متعدی جراثیم نکلتے ہوں تو ایسے شخص کے لئے عوامی اجتماع گاہ یا، مسجد میں جمعہ یا پنج وقتہ نماز کے لئے شریک جماعت ہونا جائز نہیں ہے، دوسرے کو اپنی بیماری اور متعدی اینفیکشن سے ضرر پہونچانا شریعت میں جائز نہیں ہے، اگر کسی مسجد یا عوامی مقامات میں متاثرہ شخص کی آمد ورفت یا اختلاط رہتا ہو تو دوسرے تندرست شخص کو ایسے مقامات میں حاضر ہوکر اضرار نفس جائز نہیں ہے:
مَن أكَلَ مِن هذِه الشَّجَرَةِ المُنْتِنَةِ، فلا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنا، فإنَّ المَلائِكَةَ تَأَذَّى، ممَّا يَتَأَذَّى منه الإنْسُ.
(عن جابر بن عبدالله./مسلم.صحيح مسلم. الرقم: 564.)
اسلام میں نہ خود کو مبتلاء ضرر کرنا جائز ہے نہ دوسرے کے ضرر وایذاء رسانی کا ذریعہ وسبب بننا جائز ہے۔ "لاضرر ولا ضرار"
کورونا کے خوف سے مساجد میں نماز وجماعت کی بندش؟
جس علاقے یا شہر میں کورونا کے کیسز عمومی صورت حال اختیار کرلیں تو وباء عام سے بچنے کے لئے مسجدوں میں نقصان دہ تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے پہ پابندی لگائی جاسکتی ہے اور جمعہ وغیرہ کے جمع کثیر پہ بندش لگ سکتی ہے، نفس، مال اور اہل وعیال کے ضیاع وہلاکت کا خطرہ متحقق ہو تو جمعہ وغیرہ کی جماعتوں میں عدم شرکت کی گنجائش بھی شریعت میں موجود ہے.
لیکن جہاں اس طرح کے عمومی خطرات نہ ہوں ، اکا دکا کیس سامنے آنے کی خبریں موصول ہوئی ہوں تو ایسے موہوم ضرر کا اعتبار نہیں ہے، ضرر موہوم کی وجہ سے مسجدوں کو بالکلیہ بند کردینا اور جماعت کی نماز پہ پابندی لگادینا توکل کے خلاف اور اسلام نے جس چھوت چھات کے عقیدے کی بیخ کنی کی ہے اور اس کی بنیاد پر کاری ضرب لگائی ہے اس کے صریح خلاف ہے، خطرات سے دوچار ہوجانے کا غلبہ ظن ہو تو گنجائش ہے۔ محض "وہم" کا کوئی اعتبار نہیں۔ موہوم خطرہ کی وجہ سے مسجدوں میں نماز واذان پہ پابندی لگانا مسجدوں کو ویران کرنا اور عبادتوں سے روکنا ہے:
وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنۡ یُّذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ وَ سَعٰی فِیۡ خَرَابِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَہُمۡ اَنۡ یَّدۡخُلُوۡہَاۤ اِلَّا خَآئِفِیۡنَ ۬ؕ لَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا خِزۡیٌ وَّ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿البقرہ 114﴾
اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں پر اس بات کی بندش لگا دے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے، اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان (مسجدوں) میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کو آخرت میں زبردست عذاب ہوگا۔
ہندوستان جیسے ملک میں مسجدوں میں جماعت کی بندش خاصی خطرناک ہے:
جان ومال کا تحفظ شریعت کے مقاصد خمسہ میں سے ہے، جلب منافع پہ درء مفاسد کا مقدم ہونا بھی مسلمہ اصول ہے، مہلک کورونا سے حفاظتی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شریعت کا حکم ہے، خطرات کے لئے خود کو پیش کرنا اور بد احتیاطی کے باعث مرض کا آسان ہدف بن جانا اسلامی تعلیم نہیں ہے،
لیکن توہم پرستی کی آخری حد کو عبور کر جانا اور چھوت چھات کا قائل ہوجانا بھی جائز نہیں ہے، احتیاطی تدابیر اختیار کرلینے کے بعد بھی اگر کوئی وبائی مرض کا شکار ہوکر دنیا سے چل بستا ہے تو اسے شہید کا ثواب ملتا ہے:
فليسَ مِن عَبْدٍ يَقَعُ الطَّاعُونُ، فَيَمْكُثُ في بَلَدِهِ صَابِرًا، يَعْلَمُ أنَّه لَنْ يُصِيبَهُ إلَّا ما كَتَبَ اللَّهُ له، إلَّا كانَ له مِثْلُ أجْرِ الشَّهِيدِ۔۔۔(عن عائشة أم المؤمنين./ صحيح البخاري. الرقم: 5734.)
ہمارے مذہب میں نہ ترک وابطال اسباب کا حکم ہے نہ اسباب وعلل کو موثر حقیقی وفاعل مختار سمجھنے کی اجازت، اجتناب اسباب کے تحت امراض سے ممکنہ احتیاطی تدابیر برت لینے کے بعد معاملہ اللہ فاعل مختار کو سونپ دینا چاہئے، جو دکھ دیتا ہے وہی درمان بھی دیتا ہے، کورونا وائرس کے موہوم خطرات کے باعث کویت اور دیگر خلیجی ملکوں میں جس طرح پنج وقتہ جماعت پہ پابندی لگاکر مسجدوں کو ویران کیا گیا وہ افسوس ناک ، المناک و شرمناک ہے، مبینہ خبروں کے مطابق اس کے دیکھا دیکھی ہمارے ملک میں بھی ممبئی کی بعض مساجد میں انتظامیہ مساجد نے اسی طرح کی پابندی عائد کردی ہے، یہ انتہا درجے کی حماقت اور خاصی خطرناک حرکت ہے، آج کورونا کے باعث آپ مسجد میں اذان وجماعت موقف کریں گے کل برادران وطن اس کو جواز بنا کر ہولی اور دیگر تہواروں کے موقع سے ہماری مسجدوں میں اذان وجماعت کو اسی طرح بند کرنا شروع کردیں گے ، بابری مسجد کی اراضی کی منتقلی کے معاملہ میں عرب ملکوں کا عمل بطور نظیر کورٹ میں پیش کیا جا چکا ہے، ان بزدل عرب حکمرانوں کی دیکھا دیکھی آپ ہندوستان میں اپنی مساجد کی اذان وجماعت بند کریں گے تو آپ کے اس عمل کو آنے والے کل میں نظیر بناکر آپ کی تمام مسجدوں میں عارضی اوقات واحوال میں اذان وجماعت پہ پابندی لگ سکتی ہے، خدارا ہوش کے ناخن لیں۔
اگر حکومت وانتظامیہ کی طرف سے ایسی کوئی پابندی ہو تب تو ہم مجبور ہیں، واگرنہ ہم از خود جماعت واذان کو بند کرکے اپنے پائوں پہ خود سے کلہاڑی نہ ماریں، عرب ملکوں کے احوال علیحدہ ہیں ان کے احکام بھی جداگانہ ہونگے ، ہم جس ملک میں بستے ہیں وہاں اذان وجماعت کو یوں موقوف کردینا عاقبت نااندیشی ہے۔ ہمارے یہاں مطلق جماعت پہ پابندی جائز نہیں ہوگی ، کورونا کے کیسیز کی تصدیق جس علاقے میں ہوگئی ہو وہاں جماعت کی تعداد کم سے کم تر کردی جائے لیکن واذان وجماعت بہرحال جاری رہنی چاہئے ، جہاں اس طرح کا کوئی خدشہ نہ ہو وہاں خواہ مخواہ ہیجان انگیز خبروں کی اشاعت اور خوف ودہشت کی فضا قائم کرنا بھی از روئے شروع جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی/ بیگوسرائے
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_15.html?m=1
No comments:
Post a Comment