Friday 13 March 2020

خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نئی ہدایات کے حصول کا دعویٰ

خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نئی ہدایات کے حصول کا دعویٰ 

کِسی بھی اُمتی کا اپنے رسول کریم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خواب میں دیکھنا عین ممکن ہے اور یہ بڑی سعادت کی بات ہوتی ہے۔
حضرت ابوسعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُسے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا: "جِس نے مجھے (خواب میں) دیکھا تو اُس نے حق دیکھا کیونکہ شیطان میرے جیسا نہیں بن سکتا." (صحیح بخاری /حدیث /6997 کتاب التعبیر /باب10)
حضرت أنس رضی اللہ عنہ ُ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا: "جِس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اُس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صُورت(اختیار کرکے اُس) کا شبہ نہیں ڈال سکتا، اور اِیمان والے کا خواب نبوت کے چھیالیس (46) درجات میں سے ایک درجہ ہے." (صحیح بخاری /حدیث /6994 کتاب التعبیر /باب 10)
لیکن حضور صلی اللہُ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا کسی کے لئے دلیل ولایت نہیں ہے 
حضور صلی اللہُ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے اور نئی ہدایات وارشادات کے حصول کا اگر کوئی دعوی کرتا ہے تو اس کے دعوی کی تصدیق کی کوئی بھی صورت ممکن ہی نہیں ہے. 
اگر اس طرح کے خوابوں کا دعویدار مسلمان ہو، متقی، صحیح الحواس ومتبع سنت ہو تو اس کے خواب کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ صرف حسن ظن ہی رکھا جاسکتا ہے. 
یقین بالکل نہیں کیا جاسکتا!
خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے مبینہ ہدایات وارشادات موجب یقین و قطعیت ہرگز نہیں ہوسکتے. 
مصادر شریعت کتاب وسنت اور ان پہ متفرع اجماع وقیاس ہیں، امتی کے کشف و کرامات یا الہام وخواب احکام وہدایات کے مصادر نہیں بن سکتے. 
آج کے دور میں کسی بڑے سے بڑا شخص کا دعوائے خواب اور وہاں سے مخصوص ہدایات وبشارات نہ خود اس شخص پر حجت ہیں نہ کسی اور پر۔
قرآن وحدیث کی ہدایات وارشادات ہی تاقیامت رہنما اصول ہیں، دین مکمل ہوچکا ہے، ہر زمانے میں امت کی کامیابی کے  جامع گُر احادیث وآثار میں بتا دیئے گئے ہیں، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ذریعۂ خواب کسی کو اپنا "مبلّغ خاص" بنانے کی ضرورت ہے نہ ہمیں اب کسی نئے اصول کو خواب ومنام کے ذریعہ کشید کرنے کی ضرورت ہے۔
خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبینہ کسی نئی ہدایت کو حکمِ رسول سمجھنا اور اسے اس حیثیت سے دوسروں تک پہنچانا غیرشرعی عمل ہے، اس سے معاشرے میں لامتناہی بے چینی پیدا ہوتی ہے۔
اگر کسی بندۂ صالح نے حقیقت میں ایسا کچھ دیکھا بھی ہو تو اسے مخفی رکھنا چاہئے۔
بے سند باتوں پہ کان دھرنے اور اسے پھیلانے سے لوگ خواہ مخواہ الجھنوں کے شکار ہونگے اور ان کی قوت فکر وعمل متاثر ہوگی۔
شکیل منصور القاسمی
١١جنوری  ۲۰۲۰
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_13.html?m=1

No comments:

Post a Comment