Wednesday, 18 March 2020

کیا صحت مند مسلمانوں کے لئے جائز ہے کہ "کورونا وائرس" کے خوف سے جمعے اور جماعت کی نمازوں کو ترک کردے؟

کیا 
صحت مند مسلمانوں 
کے لئے جائز ہے کہ "کورونا وائرس" 
کے خوف سے جمعے اور جماعت کی نمازوں کو ترک کردے؟

بسم الله الرحمن الرحيم.
هل يجوز للمسلمين الأصحاء ترك الجمعة والجماعة خوفا من المرض (كورونا) ؟!
أولا. 
في الخوف من العدو المحقق عند القتال في سبيل الله لم تسقط الجماعة فكيف تسقط بسبب الخوف المتوهم من المرض ؟!
《وإذا كنت فيهم فأقمت لهم الصلاة فلتقم طائفة منهم معك...》الآية.
ثانيا .
هذه الأوبئة والأمراض سببها الحقيقي هو الذنوب والمعاصي. قال تعالى: 《وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم》.
وقال:《ظهر الفساد في البر والبحر بما كسبت أيدي الناس ليذيقهم بعض الذي عملوا لعلهم يرجعون》.
ألم يبين تعالى أن العلاج إنما هو في الرجوع إلى الله بالتوبة والاستغفار والصلاة والتلاوة والدعاء ... وليس في ترك بعض ما أوجب علينا من جمعة وجماعة ؟!!
ثالثا.
قول الله تعالى: 《ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسكم إلا في كتاب من قبل أن نبرأها》. وقال: 《قل لن يصيبنا إلا ما كتب الله لنا》.
وقال:《قل لو كنتم في بيوتكم لبرز الذي كتب عليهم القتل إلى مضاجعهم》.
وقال صلى الله عليه وسلم((واعلم أن الأمة لواجمعت على أن ينفعوك لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك ولو اجتمعوا على أن يضروك لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك))  رواه أحمد والترمذي وقال حسن صحيح . 
فإيماننا بالقضاء والقدر وتوكلنا على الله جل وعلا  ألا يمنعنا من ترك ما أوجب علينا من صلاة الجمعة والجماعة خوفا من المرض وغيره ؟!!!
رابعا.
ألم يتحدث صلى الله عليه وسلم عن كيفية التعامل مع الطاعون وأنه لا يجوز دخول الأرض التي فيها الطاعون ولا الخروج من الأرض التي فيها .. فهل ذكر  فيه ترك صلاة الجماعة؟!!
خامسا.
وقع الطاعون في عهد عمر بن الخطاب رضي الله عنه وتشاور في أمره مع المهاجرين ثم الأنصار ثم مسلمة الفتح ..
 فهل عطلوا بسببه جمعة أو جماعة ؟ !
سادسا.
يقول الله سبحانه وتعالى (واستعينوا بالصبر والصلاة) فهل الإستعانة هنا بإقامة الصلاة في المسجد كما كان النبي صلى الله عليه وسلم يؤديها أم بترك الجمع والجماعات ؟!!
سابعا.
يقول صلى الله عليه وسلم 《من صلى الصبح في جماعة فهو في ذمة الله ..》 ألا يكفينا أننا في ذمة الله  ؟! 《أليس الله بكاف عبده》؟!!
ثامنا.
إذا كان صلى الله عليه وسلم لم يأذن للأعمى في التخلف عن الجماعة مع قوله بأنه لا قائد له وأن  المدينة كثيرة الهوام والسباع ... كيف يؤذن للصحيح في التخلف عنها لمجرد خوف المرض ؟!
تاسعا.
لقد كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا حزبه أمر بادر إلى الصلاة .. فهل إذا حزبنا فيروس الكورونا نترك صلاة الجمعة والجماعة ؟!!
عاشرا.
لقد كان في كل مدينة إسلامية جامع واحد يصلي فيه الجميع .. وقد كان يصيب المسلمين الوباء والطاعون من حين لآخر .. 
فهل أفتى أحد من علماء المسلمين عبر التاريخ بغلق المساجد بسبب وباء أو طاعون ؟!!
✏ كتب الشيخ:أحمد الكوري:
الموريتانى

سوال: کیا صحت مند مسلمانوں کے لئے جائز ہے کہ "کورونا وائرس" کے خوف سے جمعے اور جماعت کی نمازوں کو ترک کردے؟
الجواب وبالله التوفيق:
پہلی بات:
 یہ بات یقینی طور پر ثابت شدہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں دشمن کے سامنے جہاد کے دوران بھی جماعت کی نماز ساقط نہیں ہوتی تو یہ کیسے سمجھ لیا جائے کہ صرف ایک بیماری کے وہم سے جمعہ اور جماعت کو ترک کر دیا جائے۔
چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وإذا كنت فيهم فأقمت لهم الصلاة فلتقم طائفة منهم معك....الآية.
ترجمہ: اور جب آپ ان کے ساتھ (میدانِ جہاد میں) ہوں، پس آپ ان کے ساتھ جماعت کی نماز قائم کریں، پھر ان میں سے ایک ٹولی آپ کے ساتھ جماعت میں شریک رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔إلخ
دوسری بات: 
یہ وبائیں اور بیماریاں درحقیقت گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے آتی ہیں۔ چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم.
ترجمہ: "اور جو بھی مصیبت تم کو پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے۔"
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ظهر الفساد في البر و البحر بما كسبت أيدي الناس ليذيقهم بعض الذي عملوا لعلهم يرجعون.
ترجمہ: "خشکی اور تری میں جتنی خرابی ہے وہ سب انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے ، (یہ سب اس لئے ہے) تاکہ انہیں چکھائے ان کی بعض بد اعمالیوں کی سزا، (اور یہ اس لئے) تاکہ وہ (اپنی بد اعمالیوں) سے توبہ کرلیں۔"
کیا اللّٰہ تعالیٰ نے وبائوں کے علاج کے طور پر توبہ، استغفار، نماز، تلاوت اور دعا کو سبب قرار نہیں دیا؟؟؟ 
اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ فرائض و واجبات، جمعہ اور جماعت کی نماز کو چھوڑ دینے میں وبائوں کا علاج نہیں رکھا گیا ہے۔
تیسری بات:
اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسكم إلا في كتاب من قبل أن نبرأها.
ترجمہ: "جو بھی مصیبت زمین پر آتی ہے یا تمہاری جانوں پر آتی ہے وہ پہلے سے اٹل شدہ تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔"
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
قل لن يصيبنا إلا ما كتب الله لنا.
ترجمہ:" آپ کہہ دیں! ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللّٰہ تعالیٰ نے ہماری لیے لکھ دی ہو۔"
مزید ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
قل لوكنتم في بيوتكم لبرز الذي كتب عليهم القتل إلى مضاجعهم.
ترجمہ:" آپ ان سے کہہ دیں! اگر تم اپنے گھروں میں رہوگے تب بھی تمہارے مقدر میں لکھا ہوا قتل  وہ تمہاری خواب گاہوں تک پہنچ کر رہے گا ( یعنی تقدیر کا لکھا ہوا بہرحال نافذ ہو کررہے گا)."
نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 
"اچھی طرح جان لو کہ اگر ساری امت تم کو نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تب بھی اللّٰہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے سے زیادہ نفع دینے پر قدرت نہیں رکھ سکتی اور اگر ساری امت تم کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائے تب بھی اللّٰہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق ہی نقصان پہنچا سکے گی (اس سے زیادہ نہیں). "
(مسندِ احمد۔جامع ترمذی۔).
پس ہمارا اللّٰہ تعالیٰ کی تقدیر پر ایمان اور اس کی ذات پر بھروسہ ہمیں کسی بیماری وغیرہ کے وہم سے فرائض و واجبات، جمعہ اور جماعت سے روک نہیں سکتا۔
چوتھی بات: 
نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے طاعون وغیرہ سے نمٹنے کے سلسلے میں یہ ہدایت ارشاد فرمائی ہے جہاں طاعون پھیل جائے وہاں سے کوئی باہر نہ جائے اور باہر والے طاعون کے علاقے میں داخل نہ ہوں۔
کیا نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ اور جماعت کو ترک کرنے کی بھی ہدایت ارشاد فرمائی ہے؟؟
ہرگز نہیں۔
پانچویں بات:
حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کے زمانے میں طاعون پھیل گیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے مہاجرین اور انصار سے مشاورت فرمائی اور مختلف اقدامات کیے۔
کیا ان حضرات نے جمعہ اور جماعت کی نماز کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا تھا؟؟
ہرگز نہیں۔
چھٹی بات: 
اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
واستعينوا بالصبر و الصلاة .
ترجمہ: "اور مدد حاصل کرو صبر اور نماز کے ذریعے۔"
اس آیت کی روشنی میں نماز کو قائم کرنے کے ذریعے مدد حاصل کی جائے گی یا جمعے اور جماعت کی نماز کو ترک کر کے مدد حاصل ہوگی؟
اور نماز کو قائم کرنے کا طریقہ وہ ہوگا جو نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ادا کرکے دکھایا یا جماعت کی نماز کو چھوڑ کر؟
ساتویں بات:
نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 
"جو شخص فجر کی نماز جماعت سے پڑھے تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کی ضمانت میں آجاتا ہے۔"
کیا جماعت کی نماز کے ذریعے اللّٰہ تعالیٰ کی ضمانت میں آجانا ہمارے لیے کافی نہیں ہے؟؟
کیا اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟؟
آٹھویں بات: 
نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا صحابی کو بھی جماعت چھوڑنے کی اجازت نہیں دی تھی حالانکہ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے کوئی لانے والا نہیں اور مدینے میں حشرات اور درندوں کا بھی خطرہ تھا۔
پس ہمارا کیا خیال ہے کہ صرف ایک بیماری کے وہم کے پیشِ نظر صحت مند لوگوں کو جمعہ اور جماعت کی نماز ترک کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟؟
نویں بات: 
نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی سخت اور ناگوار بات پیش آتی تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام فورا نماز کے لیے دوڑتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ہمارے لئے یہ راہنمائی نکلتی ہے کہ کورونا وائرس کے حملے کے موقع پر ہم بھی نماز کی طرف دوڑنے والے ہوں۔ نا یہ کہ جمعہ اور جماعت کی نماز کو ہی ترک کردیں۔
دسویں بات:
اسلامی مملکتوں میں ایک جامع مسجد میں سارے شہر کے لوگ اکٹھے ہوکر کورونا وائرس 
کی بنا پر جمعہ اور 
جماعت پر پابندی صحیح یا غلط؟
جمعے کی نماز ادا کیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
کیا اسلامی تاریخ میں یہ ملتا ہے کبھی کسی زمانے میں علماء کرام نے کسی وبا اور طاعون کے پیشِ نظر مسجدوں کو تالے لگانے کا فتویٰ دیا ہو؟؟۔
شیخ احمد کوری حفظه الله ورعاه (موريتانى) کا فتویٰ: 
ترجمہ: فیصل احمد خان۔ فاضل جامعہ فاروقیہ کراچی۔
(ایس اے ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_51.html?m=1

No comments:

Post a Comment