متوفیہ بیوی کا مہر مؤجل کس حساب سے دیں اور کس کو دیں؟
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام
زید کی عمر ساٹھ سال ہے اسکی اہلیہ کا نتقال ہوچکا ہے زید پر بیوی کا مہر باقی ہے اب وہ ادا کرنا چاہتا ہے۔
سوال یہ ھیکہ اب وہ مہر کیسے ادا کرے اور کس کو دے؟
کیونکہ اس وقت کے مہر کی رقم کی موجودہ زمانے میں کوٸی حیثیت نہیں ہے کیا وہ پرانی رقم مہر میں دے سکتا ہے؟
کسی نے بتایا ہے کہ اس رقم کو صدقہ کردو
تو کیا صدقہ کردینے سے مہر ادا ہوجاٸیگا یا اس پر وارثوں کا حق ہوگا؟
بینوا تٶجروا
الجواب وباللہ التوفیق:
دیر طلب مہر (مہر مؤجل) شوہر کے ذمہ قرض ہوتا ہے
انتقال احد الزوجین سے قبل یہ قرض مختلف وجوہات کے باعث کم ہونے یا سقوط کا بھی احتمال رکھتا ہے
لیکن خلوت صحیحہ اور زوجین میں سے کسی ایک کے انتقال سے یہ مہر قطعی طور پہ شوہر کے ذمہ واجب الاداء ہوجاتا ہے
بیوی اگر مرجائے تو اس کا ادھار مہر دین شوہر کے ذمہ اس کا واجبی حق ہے
اگر مہر دین رقم کی شکل میں متعین تھا تو ساٹھ سال یا اسی سال کے بعد بھی وہ متعینہ رقم ہی واجب الاداء ہوگی.
اس کی مالیت کی کمی بیشی سے کوئی فرق نہیں پڑتا
بعد انتقال بیوی کا مہر دین اس کے ترکہ میں شامل ہوجائے گا اور بیوی کے وارثین حسب حصص شرعیہ اس کے حقدار ہونگے۔ شوہر اسے ہرگز صدقہ نہیں کرسکتا، شوہر کو یہ اختیار قطعی نہیں ہے
شوہر خود بھی حصہ رسد کے مطابق اس کا حقدار ہوگا.
متوفیہ بیوی کے وارثین کی فہرست اور مہر دین کی رقم سمیت کل متروکہ جائیداد کی تفصیل وفہرست بناکر پیش کریں تو ہر وارث کو ملنے والے حصہ شرعی سے آگاہ کردیا جائے گا۔
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_27.html?m=1
No comments:
Post a Comment