Sunday, 8 March 2020

شوہر اگر بیوی سے کہے میں تم پہ حرام ہوں؟

السلام علیکم و رحمۃ اللہ 
زید کی بیوی زید سے ملاعبت کرنا چاہ رہی تھی 
زید نے انکار کردیا 
بیوی نے مذاقا سوال کیا کیوں منع کرتے ہیں 
آپ کو حیض آرہا ہے کیا؟
شوہر نے کہا ہاں مجھے حیض آرہا ہے اسلئے میں پانچ دن تک تم پر حرام ہوں 
یہ جملہ زید نے دوبار کہا 
کیا اس سے طلاق واقع ہوگی؟
جبکہ زید کا بھی یہی کہنا ہے کہ میری نیت بھی صرف اور صرف بیوی کے مذاق کا جواب مذاق سے دینا تھا اور کچھ نہیں
جواب مرحمت فرماکر مشکور ہوں
الجواب وباللہ التوفیق: 
(از مفتی شکیل منصور القاسمی )
لفظ حرام اگرچہ کنائی لفظ ہے 
لیکن غلبہ استعمال کی وجہ سے بمنزلہ صریح ہوگیا ہے 
یعنی یہ لفظ صریح بائن ہوگیا ہے اس سے وقوع طلاق کے لئے نیت کی ضرورت نہ پڑے گی 
خواہ “تو مجھ پہ حرام ہے“ کہے یا “میں تجھ پہ حرام ہوں“ کہے 
دونوں حکم میں یکساں ہے 
عرفا یہ لفظ اگرچہ صریح ہوگیا ہے لیکن حکم میں بائن کنائی ہی ہوگا یعنی اس سے طلاق بائنہ پڑے گی رجعی نہیں 
نیز اس سے دوسری طلاق بائن لاحق نہیں ہوسکتی 
صورت مسئولہ میں ایک طلاق بائن بلانیت پڑ جائے گی 
دوسری مرتبہ پہر یہی لفظ دہرانے سے کچھ نہیں ہوگا کہ بائن بائن کے ساتھ لاحق نہیں ہوتی ۔ ساتھ رہنے کے لئے از سر نو نئے نکاح کرنے کی ضرورت پڑے گی :
" وإن الحرام في الأصل كناية يقع بها البائن لأنه لما غلب استعماله في الطلاق لم يبق كناية ولذا لم يتوقف على النية أو دلالة الحال" (شامی ۲۹۹/۳)
شامی کی بین الواوین کی عبارت خصوصیت سے قابل غور ہے۔
اسے بطور اخص دیکھیں 👇
أفتی المتأخرون في أنت علی حرام بأنہ طلاق بائن للعرف بلانیۃ۔ (شامي / باب الصریح ۴؍۴۶۴ زکریا)
رجل قال لامرأتہ: ’’أنت حرام عليَّ‘‘ والحرام عندہ طلاق لکن لم ینو طلاقا وقع الطلاق۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۴؍۴۴۹ رقم: ۶۶۳۹ زکریا)
 الفاظ کنائی  سے مراد وہ الفاظ ہیں جن سے بغیر نیت کے طلاق کا وقوع نہ ہو اور حرام بھی اصل کے اعتبار سے کنائی ہی ہے، لیکن   بعد میں یہ صریح کے حکم میں ہوا ہے لہٰذا بغیر نیت کے طلاق پڑجائے گی البتہ بائن کے ساتھ الحاق کی صورت میں اس کا حکم کنائی بائن کا ہی رہے گا اور اس کا الحاق بائن سے نہ ہوگا 
 علامہ شامی نے صراحۃً فرمایا ہے:
"قال رح ولا يرد أنت علي حرام على المفتى به من عدم توقفه على النية مع أنه لا يلحق البائن ولا يلحقه البائن لكونه بائنا لما أن عدم توقفه على النية أمر عرض له لا بحسب أصل وضعه" (الشامیہ ۳۰۶/۳)
یعنی حرام کا حکم کنائی بائن کا ہی رہے گا اور ہر وہ کنائی بائن جو عرف کی بنا ء پر صریح بنے اور بغیر نیت کے اس سے طلاق کا وقوع ہو وہ صریح بائن نہ بنے گا بلکہ الحاق کے حکم میں وہ اپنے اصل کنائی بائن کے حکم میں ہی رہے گا اور اس کا الحاق نہ ہوگا۔
مشہور وممتاز عالم دین مفتی رشید احمد پاکستانی اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: لفظ حرام طلاق صریح بائن ہے۔اس سے بدون نیت بھی طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔
وفی التنویر قال لامراتہ انت علی حرام الی قولہ ویفتی بانہ طلاق بائن وان لم ینوہ ۔وفی الشرح لغلبة العرف.رد المحتار 601/2...احسن الفتاوى 183/5.
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی
-----
الجواب و باللہ التوفیق:
(از مفتی امانت علی قاسمی)
صورت مذکورہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اس لیے کہ حرام کا لفظ کنائی ہے اور الفاظ کنائی سے وقوع طلاق کے لیے نیت کی ضرورت پڑتی ہےیہاں نہ نیت ہے اورنہ ہی قرینہ ۔ حضرات متاخرین نے عرف کی بناء پر لفظ حرام سے بلا نیت کے وقوع طلاق کا حکم لگایا ہے؛ لیکن مذکورہ صورت میںبلانیت کے طلاق واقع نہ ہونے کی کئی وجوہ ہیں۔ (١) عرف میں لفظ حرام کا طلاق کے لیے استعمال اس وقت ہے جب کہ طلاق کی نسبت عورت کی طرف کی جائے یعنی شوہر کہے کہ تو میرے اوپر حرام ہے اس طرح طلاق کے لیے استعمال ہونا معروف ہے لیکن میں تمہارے اوپر حرام ہوں اس جملہ کا طلاق کے لیےاستعمال ہونا معروف نہیں ہے۔ (٢) لفظ حرام کا طلاق کے لیے استعمال ہونے کا عرف ہونا ایک مخصوص حالت میں ہے یعنی شوہر کہے کہ تو حرام ہے یا تومیرے اوپر حرام ہے وغیرہ جب کہ سوال میں جو صورت ہے اس کا معنی طلاق کے لئے استعمال ہونا معروف نہیں ہے؛ بلکہ طلاق مراد نہ ہونے پر قرینہ ہے اس لئے کہ یہ حالت نہ تو غصہ کی ہے اور نہ ہی مذاکرہ طلاق کی حالت ہے، پھر شوہر کا یہ کہنا کہ میں پانچ دن کے لیے تم پر حرام ہوں اس میں واضح اشارہ ہے کہ یہاں پر طلاق مراد نہیں ہے (٣) جن الفاظ سے بلانیت کے عرف کی بناء پر طلاق واقع ہوجاتی ہے اگر شوہر کہے کہ میرا ارادہ طلاق کا نہیں ہے تو دیانۃ اس کی بات مانی جاتی ہے۔ حضرت مفتی محمود الحسن صاحب نے  فتاوی محمودیہ میں لکھا ہے کہ شوہر نے کہا "تجھ پر میرے گھر کا کھانا حرام ہے." سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی (فتاوی محمودیہ ١٩/٤٢)۔ اسی طرح فتاوی عثمانی میں ہے شوہر نے اپنی بیوی سے حرام کہہ دیا تو طلاق واقع نہیں ہوگی اس لئے کہ حرام سے وقوع طلاق عرف کی بنا پر ہے ولا عرف فیما ذکر (فتاوی عثمانی جلد ثانی) أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية، ولا ينافي ذلك ما يأتي من أنه لو قال: طلاقك علي لم يقع لأن ذاك عند عدم غلبة العرف (فتاوی شامی ٣/٢٥٢) والحاصل أن المعتبر في انصراف هذه الألفاظ - عربية، أو فارسية - إلى معنى بلا نية التعارف فيه، فإن لم يتعارف سئل عن نيته وفيما ينصرف بلا نية لو قال أردت غيره يصدق ديانة لا قضاء اهـ ما في الفتح، (شامی مطلب انت علی حرام ٣/ ٤٣٥)۔وَإِذَا قَالَ لِامْرَأَتِهِ أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ سُئِلَ عَنْ نِيَّتِهِ فَإِنْ قَالَ أَرَدْت الْكَذِبَ فَهُوَ كَمَا قَالَ) أَيْ هُوَ كَذِبٌ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ وَلَا يَكُونُ إيلَاءً؛ لِأَنَّهُ نَوَى حَقِيقَةَ كَلَامِهِ قَالَ فِي الْيَنَابِيعِ، وَهَذَا فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ أَمَّا فِي الْقَضَاءِ فَلَا يُصَدَّقُ وَيَكُونُ يَمِينًا؛ لِأَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّ الْحَرَامَ فِي الشَّرْعِ يَمِينٌ (قَوْلُهُ وَإِنْ قَالَ نَوَيْت الطَّلَاقَ فَهِيَ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ إلَّا أَنْ يَنْوِيَ الثَّلَاثَ) ؛ لِأَنَّ قَوْلَهُ حَرَامٌ كِنَايَةٌ وَالْكِنَايَةُ يُرْجَعُ فِيهَا إلَى نِيَّتِهِ كَمَا ذَكَرْنَا فِي الطَّلَاقِ (قَوْلُهُ وَإِنْ قَالَ أَرَدْت الظِّهَارَ فَهُوَ ظِهَارٌ) هَذَا عِنْدَهُمَا (.الجوہرۃ النیرۃ ٢/٥٨)
(فقط واللہ اعلم بالصواب
 کتبہ امانت علی قاسمی)
دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند 14/7/1441ھ
----------
(تحفظ بر جواب مفتی شکیل منصور القاسمی از مفتی نوشاد نوری قاسمی)
میرے سامنے دو باتیں تھیں: 
ایک تو یہی کہ عرف اس کا ہے کہ شوہر بیوی سے کہے : تو مجھ پر حرام ہے نہ کہ یہ کہے : میں تم پر حرام ہوں 
دوسری بات یہ ہے کہ اگر الفاظ کنائی عرف اور کثرت استعمال کی وجہ سے اپنے کسی ایک معنی میں صریح کے درجہ میں ہوجائے تو وہ معنی بلا نیت بھی ثابت ہوجاتا ہے ؛ لیکن اگر دوسرے معنی کا قرینہ موجود ہو تو دوسرا معنی ہی مراد لیا جائے گا 
مذکورہ صورت میں لفظ حرام سے پہلے یہ کہنا کہ مجھے حیض آرہا ہے اور حرمت کو پانچ دنوں کے ساتھ مخصوص کرنا یہ قرینہ ہے کہ اس کے ذہن میں حرمت کا کون سا معنی متعین ہے 
یہ بات دل میں آئی تو حضرت مفتی شکیل صاحب کے تعمیل حکم میں لکھ دی، باقی حضرت مفتی صاحب اور دیگر حضرات ان امور پر غور کریں تو شاید اور بھی گوشے نکھر جائیں گے  
واللہ اعلم
(نوشاد نوری قاسمی 
دارالعلوم وقف دیوبند)
--------
(تحفظ بر جواب مفتی امانت علی قاسمی / از مفتی شکیل منصور القاسمی)
شوہر کا کہنا:
“تو مجھ پہ حرام ہے “أنت علىّ حرام "
یا “میں تجھ پہ حرام ہوں “أنا عليك حرام" 
دونوں کا حکم یکساں ہے 
نسبتوں کی وجہ سے فرق کرنا  دعوی بلا دلیل ہے 
علامہ شامی نے ایک جگہ دونوں کا حکم یکساں لکھا ہے 
جیسا کہ ہم ابھی آگے ذکر کریں گے 
لفظ حرام کا استعمال ۔خواہ زوجہ کو اپنے پر حرام کرکے ہو 
یا شوہر خود کو بیوی پر حرام کرکے جیساکہ صورت مسئولہ میں ہے ۔ 
بمنزلہ لفظ صریح کے ہے 
جو نہ نیت کا محتاج ہوگا نہ قرینے کا 
ابواب طلاق میں مذاح کا اعتبار ہے نہ ہی طلاق کو ایام واوقات کے ساتھ محدود کرنے کا کہ صرف پانچ دن تک طلاق دی جائے یا حلت استمتاع کو صرف چند دن کے لئے تحریم سے بدل دی جائے وغیرہ !  
طلاق وحرام وغیرہ کو اوقات کے ساتھ محدود کردینے کی صورت میں صرف تحدید باطل ولغو ہوتی ہے طلاق واقع ہوجاتی ہے 
یہ کہنا کہ “شوہر بیوی کو اپنے پر حرام کرے تب تو لفظ حرام 
بر بنائے عرف بمنزلہ صریح ہوکر محتاج نیت نہ ہوگا ؛ لیکن جب شوہر خود کو بیوی پر حرام کرلے تو عدم عرف کی بناء پر یہ حرام محتاج نیت ہوگا“ دعوی بلا دلیل ہے ۔ علامہ شامی نے دونوں کا حکم یکساں لکھا ہے:
ومثله أى مثل أنت علىّ حرام أنت معي في الحرام ، والحرام يلزمني ، وحرمتك علىّ ، وأنت محرمة، أو حرام علىّ، أو لم يقل علىّ' "وأنا عليك حرام أو محرم". (الدر المختار مع رد المحتار ج٥ ص ٧٨)
انت علی حرام 
یا انا علیک حرام 
کے درمیان تفریق کرکے جو حکم میں تفریق کی گئی ہے اس کی بنیاد آکے چل کر علامہ شامی نے ختم کردی  ہے ۔
لکھتے ہیں کہ جب شوہر بیوی کی طرف حرام کی نسبت کرکے 
“میں تجھ پر حرام “ کہدے تو طلاق پڑجائے گی، ہاں اگر بیوی کی طرف نسبت نہ کرے اور یوں کہے “ میں حرام “ یا مطلق حرام کہے تو اس سے طلاق نہ پڑے گی 
وإن أضاف إلى نفسه كأنا حرام أو بائن لايقع من غير إضافة إليها . ص ٧٩)
 فاضل مجیب نے فتاوی عثمانی وغیرہ کے حوالے سے جو کچھ تحریر فرمایا ہے تقریباً اس کا مفاد یہی ہے 
شیخ المشائخ ومفتی اعظم ہند حضرت اقدس گنگوہی رحمہ اللہ کے حوالے سے جو پیش کیا گیا ہے وہ بالکل ہی غیر متعلقہ شئے ہے۔
جب ثابت ہوگیا کہ شوہر کا بیوی کو خود پہ حرام کرنا یا خود کو بیوی پر حرام کرنا دونوں حکم میں یکساں ہے بجز زوجہ کی طرف نسبت حرام کے التزام کے  اور کوئی فرق نہیں ؛
لہذا  لفظ حرام سے خواہ سنجیدگی میں ہو یا مذاح میں 
بلا احتیاج نیت و قرینہ خارجیہ طلاق بائنہ پڑجائے گی 
دارالعلوم دیوبند کے آفیشل فتوی کے مطابق لفظ حرام کنائی ہے ، نیت طلاق کے وقت ایک طلاق بائنہ پڑے گی 
عدم نیت کی صورت میں کچھ بھی واقع نہ ہوگا ۔
جبکہ علامہ شامی وغیرہ لفظ حرام سے طلاق صریح بائن واقع کرواتے ہیں جس میں طلاق کی نیت کی بھی ضرروت نہیں ہوگی ۔ 
فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۱۲؍۵۲۷، میرٹھ ۱۹؍۳۴) کا مستفاد ومفاد بھی یہی ہے:
أفتی المتأخرون في أنت علی حرام بأنہ طلاق بائن للعرف بلانیۃ۔ (شامي / باب الصریح464/4 زکریا)
رجل قال لامرأتہ: ’’أنت حرام عليَّ‘‘ والحرام عندہ طلاق لکن لم ینو طلاقا وقع الطلاق۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ 449/4 رقم: 6639زکریا)
مفتی تقی عثمانی صاحب کا خیال بھی یہی ہے کہ شوہر بیوی کو خود پہ حرام کرلے تو بلانیت طلاق پڑے گی ، ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
صورت مسئولہ میں ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے ،بغیر از سر نو نکاح کے زوجین میں تعلقات زوجیت قائم نہیں ہوسکتے۔
واللہ اعلم بالصواب
۳؍۱۲؍۱۳۸۷ھ
(وفی الدرالمختار ، ج:۳، ص: ۴۳۳ الی ۴۳۶ (طبع سعید) قال لأمرأتہ انت علی حرام ۔۔۔یفتی بأنہ طلاق بائن وان لم ینوہ لغلبۃ العرف ، وکذا فی البحر الرائق ،ج:۳، ص:۳۰۰، نیز دیکھئے امداد المفتین ،ص: ۲۶۶۔
فتاوی عثمانی ج۲ ص ۵۱۷ یونیکوڈ)
عاجز کے نزدیک صورت مسئولہ میں بلانیت بیوی پر ایک طلاق واقع ہوگئی 
شوہر کے یہ لفظ دوبارہ کہنے سے کچھ بھی واقع نہ ہوگا کیونکہ طلاق بائن کے بعد پہر طلاق بائن نہیں پڑتی : البائن لایلحق البائن ۔ واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی 
۱۰ مارچ ۲۰۲۰ روز منگل
-----------
(وضاحت از مفتی نوشاد نوری صاحب)
میرا کہنا یہ ہے کہ حرام کا کوئی اور معنی ہے یا نہیں؟
جب قرینہ دوسرے معنی پر موجود ہے تو وہ کیوں نہ مراد لیا جائے 
طلاق کو وقت کے ساتھ مقید کرنے سے توقیت باطل ہوتی ہے؛ لیکن جب قرینے سے لفظ کنائی کا مفہوم طلاق نہ ہو تو اب توقیت کیوں باطل ہوگی 
بلکہ وہ لفظ کی مراد متعین کرنے میں معین ہوگا
واللہ اعلم 
نوشاد نوری قاسمی
------
(وضاحت از مفتی امانت علی قاسمی صاحب)
اس مسئلے کی بنیاد متاخرین نے عرف پر رکھی ہے ورنہ متقدمین یہاں انت علی حرام سے وقوع طلاق کے لئے نیت ضروری ہے جیسا کہ صاحب قدوری نے صراحت کی ہے اور ہمارے دیار کا عرف یہی ہے کہ شوہر کہتا ہے تو میرے اوپر حرام ہے اور جملہ میں تمہارے اوپر حرام ہوں اس کا ہمارے دیار میں عرف نہیں ہے اس لئے دونوں کا حکم یکساں نہیں ہوگا علامہ شامی نے دونوں کا حکم یکساں لکھا ہے ممکن ہے کہ ان کے دیار میں دونوں طرح کے استعمال کا عرف ہو 
اردو کے فتاوی میں چار جگہ بھی بھی ایسی مثالیں نہیں ملتی ہیں جس میں شوہر یہ کہے ہے کہ میں تمہارے اوپر حرام ہوں اس لئے عرف کی بنیاد پر بلا نیت کے طلاق کا فیصلہ کرنا درست معلوم نہیں ہوتا ہے۔ واللہ اعلم 
امانت علی قاسمی
--------
(وضاحت 
از مفتی شکیل منصور القاسمی)
طلاق کے وقوع کے لئے طلاق کا مفہوم رکھنے والا لفظ کا ہونا ضروری ہے 
لفظ یا تو ۱: صریح ہوگا ۔ ۲: ملحق بالصریح۔ یا ۳: کنائی۔
چوتھی کوئی نوع نہیں ہے 
صریح وہ لفظ ہے جس کا استعمال کثرت سے طلاق کے لئے ہی ہوتا ہو 
صریح کی پہچان معنی کی وضاحت یا خفاء یا کسی کتاب یا قوم کے عرف سے نہیں 
بلکہ خود متکلم کے عرف سے ہوتی ہے 
اگر کوئی لفظ صریح ہو
یا متکلم کے عرف میں طلاق کے لئے مستعمل ہو تو ایسے 
لفظ کے تکلم کی صورت میں طلاق کی نیت ہونے اور کچھ بھی نیت نہ ہونے دونوں صورتوں میں طلاق پڑجاتی  ہے 
اب شوہر کی نیت یا اس کے منشاء ومراد کی تلاش یا کھود کرید میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی 
ہاں طلاق کے علاوہ کچھ اور نیت کرے تو اب معاملہ دیانت اور قضاء کے مرحلے میں چلا جاتا ہے۔ جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
اگر لفظ اصلاً کنائی ہو؛ لیکن طلاق کے لئے بھی  استعمال کے باعث وہ بمنزلہ صریح ہوگیا ہو تو اسے ملحق بالصریح  کہتے ہیں ، یہ قسم صرف نیت کی ضرورت نہ ہونے میں صریح کا حکم رکھتی ہے،بقیہ احکام میں اپنی کنائی اصل پر ہی رہے گی۔
اس ملحق بالصریح لفظ کے تکلم سے بھی اس شرط کے ساتھ بلانیت طلاق پڑجاتی ہے کہ متکلم کے کلام میں کوئی ایسا لفظی یا معنوی قرینہ موجود نہ ہو جو طلاق کے عدم وقوع پر دلالت کرتا ہو،
اگر کلام میں اس طرح کا کوئی قرینہ موجود نہ ہو تو لفظ کے تکلم سے بلانیت طلاق پڑے گی۔
اگر لفظ کنائی ہو تو تکلم کے بعد نیت یا دلالت میں سے کسی ایک کا ہونا ضروری ہے 
زیر بحث مسئلے کا متاخرین کے مذہب کے مطابق ملحق بالصریح ہونا مسلم ہے 
جو وقوع میں نیت کا محتاج نہ ہوگا 
متکلم کے کلام میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو طلاق کے علاوہ کسی اور معنی کو مشیر ہو یا طلاق کی نفی کرتا ہو ، بلکہ لفظ حرام حل استمتاع کے ازالے کو بتارہا ہے جو حاصل طلاق ہے 
دوسرا مفہوم مراد لینے کا یہاں کوئی قرینہ مثبتہ ہے نہ منفیہ! 
کیا شوہر کا اپنے لئے حیض آنے کی بات کرنا قرینہ ہوسکتا ہے؟
پانچ دن کی حد بندی لغو ہے یعنی اس کا ہونا نہ ہونا دونوں برابر ہے، گویا صرف یہ کہرہا ہے کہ میں تجھ پہ حرام ہوں 
اور اس طرح کا تکلم قطع نکاح کے لئے ہی ہوتا ہے 
خصوصا جبکہ علامہ شامی نے صاف لفظوں میں کہہ بھی دیا ہے 
کہ انت علی حرام اور انا علیک حرام میں بجزء نسبت کے کوئی فرق نہیں 
شامی کے ایک ایک فقہی جزئیے سے استدلال کرنے والے ہم جیسے لوگ یہاں ان کی تصریح کو نظر انداز کیسے کردیں؟
اگر یہ کہنا شروع کردیں کہ یہ شامی کا عرف ہوگا ہمارا نہیں 
تو اس کی زد میں فتاوی شامی کا امتیاز بھی آئے گا اور اس کے بے شمار جزئیات بھی!
جہاں تک عرف کی بات ہے تو 
جو عرف ماخذ قانون بنتا ہے 
اس سے مراد متکلم کا عرف ہے 
کسی قوم برادری یا ملک کا عرف مراد نہیں ہے 
اردو فتاوی میں کسی نیے جزیئے کا ذکر نہ ہونا اس کے عدم کو مستلزم نہیں 
فقہی نصوص پہ ہر پیش آمدہ نئے جزئیے کی تطبیق اور استخراج حکم طبقہ علماء کا کام ہے 
آخر میں یہ عرض ہے کہ اگر متکلم کے عرف میں “میں تجھ پہ حرام ہوں“ سے طلاق یا ظہار وغیرہ کے علاوہ کوئی اور معنی بھی مراد ہوتے ہوں تو البتہ حکم مختلف ہوسکتا ہے 
لیکن مجھے یہ مفروضہ ہی لگتا ہے 
خصوصا ہم لوگوں کے عرف میں ایسا کچھ بھی ملحوظ و متعارف نہیں ہے ، پہر ہمارا عرف بھی کس کام کا؟
اصل عرف تو متکلم کا ہی ہوگا ۔
الغرض صورت مسئولہ میں عدم وقوع طلاق مناسب نہیں ہے، خلاف احتیاط بھی  ہے ۔
یہ میرا اپنا موقف ہے 
ارباب افتاء دلائل کی روشنی میں کچھ اور موقف رکھتے ہوں تو انہیں یہ علمی حق حاصل ہے اور میری نظر میں مخالف رائے کا بھی احترام ہے 
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
--------
(تحفظ بر جواب مفتی شکیل منصور القاسمی 
از امانت علی قاسمی)
محترم مفتی شکیل منصور صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ 
اس پورے مسئلہ کامدار عرف پر ہے  اور کیا آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ شوہر کا یہ کہنا کہ میں تمہارے اوپر حرام ہوں  اس جملہ  کا طلاق کے لیے استعمال ہونے کا عرف ہے؟ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ جملہ ہمارے یہاں استعمال ہی نہیں ہوتا ہے اسی وجہ سے اردو فتاوی میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے جب یہ جملہ ہمارے معاشرے کے اندر استعمال ہی نہیں ہوتا  تو اس جملے پر عرف کامدار کرکے طلاق کا فیصلہ کرنا کیونکر درست ہوسکتا ہے مجھے یہ بات اب تک سمجھ میں نہیں آرہی ہے 
علامہ شامی نے لکھا ہے ممکن ہے وہاں پر دونوں طرح استعمال کا عرف ہو لیکن ہمارے یہاں  یہ جملہ تو مستعمل ہے کہ تو میرے اوپر حرام ہے لیکن یہ جملہ کہ میں تمہارے اوپر حرام ہوں یہ ہمارے عرف میں مستعمل نہیں جو جملہ استمعال نہ ہو اس پر عرف کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے
یہ میری رائے ہے
امانت علی قاسمی
--------
(تحفظ بر وضاحت مفتی شکیل منصور القاسمی 
از مفتی نوشاد نوری قاسمی )
مفتی صاحب نے وہ ساری باتیں لکھ دیں جو میں کہنا چاہتا تھا؛ البتہ مختلف نتیجہ پر پہونچے ہیں 
میں سوال کو تھوڑا سا پلٹ دیتا ہوں 
وہ یہ کہ اگر شوہر بیوی سے کہے "تجھے حیض آرہا ہے اس لیے تم مجھ پر پانچ دنوں تک حرام ہو" 
تو اہل علم جواب دیں ، کیا اس سے طلاق واقع ہوگی ؟ 
میرا خیال ہے نہیں ہوگی؛ اس لیے کہ حرام یہان زوال نکاح کے لیے نہیں بولا گیا ہے بلکہ قرینہ متعین ہے کہ وہ صرف استمتاع کی ممنوعیت کیلیے بولا گیا ہے 
اور ہر ممنوع پر حرام کا اطلاق لغة وعرفا شائع هے 
واللہ اعلم
نوشاد نوری قاسمی
------
(مفتی نوشاد نوری صاحب سے مفتی شکیل منصور القاسمی کا استفسار)
سابق میں آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ “شوہر کا قول مجھے حیض آرہا ہے اس لئے میں تم پہ پانچ دنوں کے لئے حرام ہوں“ اس میں طلاق مراد نہ لینے کا قرینہ موجود ہے 
مجھے تو یہاں ایسا کوئی قرینہ نظر نہ آیا جیساکہ اوپر عرض کیا 
بات طویل کئے بغیر آپ اِس کلام میں اس قرینے کی نشاندہی کردیں جو طلاق کی نفی کرتا ہو 
آخری گزارش ہے
شکیل منصور القاسمی
--------
(جواب الجواب والاستفسارات 
بقلم مفتی شکیل منصور القاسمی صاحب)
مولائے محترم مفتی امانت علی قاسمی صاحب ! 
عاقل بالغ کے کلام کو ہدر نہیں کیا جاتا ہے کما تقرر فی موضعہ
لیکن آپ شوہر کے کلام “میں تم پر پانچ دنوں کے لئے حرام ہوں“ کو بالکل ہدر کررہے ہیں 
اگر شوہر شیر خوار بچہ ہو تب تو کوئی حرج نہیں 
واگرنہ اس کے کلام کو لغو کرنا حیرت انگیز  ہے 
ہمارے علماء متقدمین نے شوہر کے قول “ انت علی حرام “ میں لفظ حرام کو “تحریم المراۃ “ پہ محمول کرتے ہوئے اسے یمین یعنی ایلاء قرار دیا تھا اور شوہر پر کفارہ یمین واجب کیا ہے 
طلاق مراد لینے کی صورت میں شوہر کی نیتِ طلاق کو ضروری قرار دیا ہے کہ اس لفظ کی اصل کنائی ہونا ہی ہے 
جبکہ متاخرین حنفیہ نے لفظ حرام کو بر بنائے عرف ملحق بالصریح مانتے ہوئے ایقاع طلاق کے لیے نیت کو ضروری قرار نہیں دیا 
یہاں بحث لفظ حرام بول کر طلاق مراد لینے میں ہے 
صیغوں کا اختلاف مراد نہیں ہے؛ اس لئے شامی نے انت علی حرام کے مثل انا علیک حرام (جوکہ مسئلہ مبحوث عنہا ہے) کو قرار دیا ہے 
متقدمین ہوں یا متاخرین 
کسی نے بھی عاقل بالغ کے اس کلام کو لغو قرار نہیں دیا 
کسی نے حرام سے تحریم المراہ (یمین) مراد لیا کسی نے تحریم حل الاستمتاع (طلاق) مراد لیا تو کسی نے تحریم اعضاء المراہ ( ظہار ) مراد لیا ۔ یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے، بقول قرطبی اس میں علماء کے اٹھارہ مذاہب ہیں، ہر ایک نے کلام زوج کا کچھ نہ کچھ محمل ضرور متعین کیا ہے 
لیکن آں حضور کے یہاں عاقل بالغ شوہر کا کلام “انا علیک  حرام“ لغو ہے 
نہ متقدمین حنفیہ کا موقف (یمین ) آپ نے مراد لیا ،  نہ ہی متاخرین کا موقف (طلاق ) 
تو یہ جاننا طبعی بنتا ہے کہ آخر آپ کے یہاں “ حرام “ سے کیا مراد ہے ؟ 
آپ نے انت علیّ حرام 
کو عرف کی بناء پر منصرف الی الطلاق تو کیا ہے 
لیکن انا علیک حرام کو عرف ماننے پر آپ راضی نہیں ہیں 
میں کہتا ہوں کہ یہی نکتہ سمجھنے کا ہے، یہاں اختلافِ صیَغ ملحوظ ہے ہی نہیں 
بحث تو صرف لفظ “حرام“ 
سے طلاق مراد لینے اور نہ لینے میں ہے ، چاہے صیغے بدل کر انت علی حرام کہے یا انا علیک حرام کہے 
شامی نے دونوں میں مماثلت اسی وجہ سے قائم کیا ہے 
ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ لفظ حرام میں دو عرف ہیں 
ایک عرف سابق اصلی (یمین: یعنی ایلاء جو مختارِ متقدمین ہے )  اور ایک عرفِ حادث ( تحریم حل استمتاع یعنی طلاق جو مختارِ متاخرین ہے)
فتوی عرف حادث متاخرین کے قول پر ہے :
وحاصله أن فيه عرفين . عرف أصلي وهو كونه يمينا بمعنى الإيلاء . وعرف حادث وهو إرادة الطلاق .آه 
بل الصواب حمله على الطلاق لأنه العرف الحادث المفتى به 
رد المحتار ج٥ ص ٧٦، كتاب الطلاق .باب الإيلاء)
لفظ حرام بول کے اس سے تحریم حل استمتاع مراد لینے پہ متاخرین نے فتوی دیدیا ہے 
اب صیغے خواہ کچھ بھی بدل جائیں مثلا انا علیک حرام کہدے پہر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ؛ ہماری بحث لفظ حرام سے ہے ،  صیغوں سے نہیں :
لو قال لہا: أنت علي حرام، *والحرام* عندہ طلاق وقع وإن لم ینو۔ 
جبکہ آپ کی نظر صیغوں کے اختلاف پہ  مرکوز ہے ۔
آپ نے فرمایا کہ “میں تم پر حرام ہوں کہنا ہمارا عرف نہیں“
پہلے عرض کرچکا ہوں جو عرف ماخذ قانون وفقہ بنتا ہے 
وہ متکلم کا عرف ہے 
ہمارا آپ کا یا کسی آبادی یا ملک کا عرف نہیں 
بناءً علیہ اگر قائل "میں تم پر حرام ہوں" کے عرف میں لفظ حرام (مبینہ صیغہ “انا علیک حرام “ نہیں)  سے طلاق کے سوا کچھ اور مراد ہوتا ہو تو جیساکہ میں نے پہلے بھی کہدیا کہ “یحمل کلامہ علی ماتعورف عندہ” 
لو قال لہا: أنت علي حرام، والحرام عندہ طلاق وقع وإن لم ینو۔ (البحر الرائق، زکریا:3/523
أفتی المتأخرون في ’’أنت علي حرام‘‘ بأنہ طلاق بائن للعرف بلا نیۃ۔ (شامي، کراچي :3/553)
کلام زوج کو بہرحال لغو ہونے سے بچایا جائے گا 
جس کا لحاظ آپ نہیں کرسکے 
عوام الناس بیوی سے لفظ حرام حساس موقع پر ہی استعمال کرتے ہیں 
محبت یا دل لگی میں نہیں! 
پہر عوام تحریم المراۃ ، تحریم حل استمتاع ، تحریم اکل وشرب اور تحریم اعضاء کے مابین تمیز کی اہلیت نہیں رکھتی ، وہ حرام سے تحریم استمتاع ہی عموماً مراد لیتی ہے ، اس نکتے پر بھی غور کرنا ضروری ہے 
هذا ماعندي
والصواب عند الله
شکیل منصور القاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_8.html?m=1



3 comments:

  1. Did you realize there's a 12 word phrase you can communicate to your partner... that will induce deep feelings of love and impulsive attraction for you deep inside his chest?

    That's because deep inside these 12 words is a "secret signal" that fuels a man's instinct to love, adore and look after you with all his heart...

    ====> 12 Words Who Trigger A Man's Love Impulse

    This instinct is so built-in to a man's genetics that it will make him try better than ever before to love and admire you.

    In fact, triggering this influential instinct is absolutely binding to having the best ever relationship with your man that the moment you send your man a "Secret Signal"...

    ...You'll soon notice him open his heart and soul to you in a way he never experienced before and he'll see you as the one and only woman in the universe who has ever truly attracted him.

    ReplyDelete
  2. ماشاءالله ۔لمبی بحث چلی ہے

    ReplyDelete