مدرسہ کی عمارت کی تعمیر کے لئے سودی قرضے کا حصول؟
السلام علیکم گروپ کے اھل علم حضرات سے یہ مسٸلہ معلوم کرنا ہے کہ بعض سخت مجبوری اور مصلحت کی وجہ سے مدرسہ کی تعمیر کے لٸے حکومت سے اپنی زمین یا مکان کے کاغذات پر لون لینا کیسا ہے؟ براہ کرم مدلل جواب سے نوازےسائل
مفتی ارشد شمس قاسمی
الجواب وباللہ التوفیق:
سود لینا تو کسی بھی حال میں جائز نہیں ہے ، گناہ کبیرہ ہے اور لعنت خداوندی کا موجب ہے
جہاں تک سود دینے کی بات ہے تو قرض حسنہ نہ ملنے اور ناقابل برداشت احتیاج و مجبوری کے وقت بقدر حاجت و ضرورت سود دینے کی گنجائش رہتی ہے:
يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح (الأشباه والنظائر ص 92 ، نظرية الضرورة الشرعية ص 235 للدكتور وهبة الزحيلي)
(ما أبيح للضرورة يقدر بقدرها۔شرح مجلة الأحكام: م: 22 ص: 34، الأشباه لابن نجيم: 86، الوجيز: 180.)
مدرسہ عمارت و بلڈنگ کا نام نہیں ہے، جھونپڑی پھونس اور پہاڑ کے دامن میں بھی مدرسہ اور تعلیم دین کا کام لیا جاسکتا ہے ، مدارس اسلامیہ کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔ تعلیم دین مسلمانوں پر فرض تو بیشک ہے ؛ لیکن آج کل تعلیم ، برائے تعلیم سے زیادہ تعلیم برائے معاش و تجارت بن گئی ہے ، مدرسہ کے لئے پکی عمارت کا ہونا اس درجے کی ضرورت نہیں ہے جس کے باعث ایک محظور و ممنوع چیز مباح بن سکے
مقاصد بظاہر خواہ کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں ؛ اس کی وجہ سے شرعاً حرام وسائلِ آمدن حلال نہیں ہوسکتے
پختہ عمارت کے بغیر بھی عارضی طور پہ تعلیم وتدریس کا کام لیا جاسکتا ہے
مسلمانوں میں بحمد اللہ اصحاب خیر کی کمی ہے نہ رفاہی و خیراتی ادارے کی!
متمول ومخیّر اشخاص اور رفاہی کاموں میں فعال کار کردگی دکھانے والے ادارے سے رابطہ کرکے تعمیر مدرسہ کے لئے ان کی معاونت اور تبرعات حاصل کی جاسکتی ہیں ، کسی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو تو کہیں سے قرض حسنہ کے حصول کی کوشش کی جائے ، اس میں بھی کامیابی نہ ملے تو کچھ دنوں کے لئے تعمیر کا ارادہ موقوف کردینے میں بھی بظاہر کوئی دقّت نہیں، لیکن تعمیر کے لیے سودی قرض لینے اور لعنت و عذاب خداوندی کے مستحق بننے کی اجازت نہیں ہے
سوچا جاسکتا ہے کہ جس مدرسہ کی بنیاد ہی میں سودی رقم کی آمیزش ہو اس میں خیر وبرکت اور عروج وترقی کی امید کیسے کی جاسکتی ہے ؟
الغرض مدرسہ کی پختہ عمارت کی تعمیر کے لئے سود پہ قرض لینے کی گنجائش شریعت میں نہیں ہے
بلڈنگ کی یہ ضرورت معمولی نوعیت کی ہے ، اس کمتر درجے کی ضرورت اپنے سے برتر نہی وحرمتِ سود کو مباح نہیں کرسکتی، حرمت شرعی میں اباحت ورخصت وہ ضرورت پیدا کرتی ہے جو ممانعت سے بڑی یا مساوی ہو ؛ یہاں عمارت مدرسہ "الضرورات تُبيح المحظورات" کے قبیل سے نہیں ہے ؛ اس لئے قرض کے ضمن میں سود دینے کی رخصت پیدا نہیں ہوسکتی ۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_11.html?m=1
No comments:
Post a Comment