دفع وباء کے واسطے اذان دینے کا حکم
دریافت طلب امر یہ ہے کہ آج صبح سے واٹس ایپ پر ایک میسیج چل رہا پے کہ رات دس بجے اپنے اپنے گھر کی چھت سے اذان دی جاۓ اور لوگوں کے اذان دینے کی آوازیں بھی آرہی ہے. اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
بارش اور وبا کے وقت اذان دینا شرعاً ثابت نہیں، اس کو سنت یا مستحب سمجھنا درست نہیں۔
(أحسن الفتاویٰ : ۱/۳۷۵ ، فتاویٰ رشیدیہ: ۱۵۲)
تسہیل بہشتی زیور
فقہی اعتبار سے یہ حکم ھے
-------
سوال (۲۶۹۵): قدیم ۴/ ۳۱۳- اذان دینا واسطے دفع وبا کے جائز ہے یا ناجائز؟ اور جو لوگ جواز استدلال میں حصن حصین إذا تغولت الغیلان نادوا بالأذان پیش کرتے ہیں یہ استدلال ان کا درست ہے یا نہیں ؟ اور اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ اور ایسے ہی یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ شیطان اذان سے اس قدر دُور بھاگ جاتا ہے جیسے روحا اور طاعون اثر شیاطین سے ہے اس کا کیا مطلب ہے؟
الجواب: اس میں دو حدیثیں معروف ہیں: ایک حصن حصین کی مرفوع إذا تغولت الغیلان نادوا بالأذان (۱)۔ دوسری صحیح مسلم کی موقوف حضرت سہل سے:
قال: أرسلني أبي إلی بني حارثۃ قال: ومعي غلام لنا أو صاحب لنا فناداہ مناد من حائط باسمہ، قال: وأشرف الذي معي علی الحائط فلم یرشیئا -إلی قولہ- إذا سمعت صوتا فناد بالصلوٰۃ، فإني سمعت أبا ہریرۃ یحدث عن رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ قال: إن الشیطان إذا نودي بالصلوٰۃ ولی الشیطان ولہ حصاص (۲)۔
حصن حصین میں مسلم کا جو حوالہ دیا ہے وہ یہی حدیث ہے اور دونوں حدیثیں مقید ہیں ۔ إذا تغولت اور إذا سمعت صوتا کے ساتھ اور تغول کے معنی حرزثمین میں نہایہ سے منقول ہیں یتغول تغولاً أی یتلون تلونا۔ اور حاصل اس حدیث کا لکھا ہے:
إذا رأی أشیاء منکرۃ أو تخیلت لہ خیالات مستنکرۃ أو تلونت لہ أجسام مکروھۃ۔ اھ (۱)۔
اور جو حکم مقید ہوتا ہے کسی قید کے ساتھ اس میں قائلین بمفہوم المخالف کے نزدیک تو عدم القید مفید ہوتی ہے عدم الحکم کو اور غیرقائلین بالمفہوم کے نزدیک گو عدم الحکم کو مفید نہ ہو مگر حکم کو بھی مفید نہیں ؛ بلکہ عدم القید کی صورت میں حکم اپنے وجود میں محتاج دلیل مستقل کا ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ طاعون میں دونوں قیدیں منتفی ہیں ؛ کیونکہ اس میں نہ شیاطین کا تشکل اور تمثل ہے اور نہ اُن کی آواز مسموع ہوتی ہے صرف کوئی اثر مبطن ہے جس کے بارہ میں یہ حدیث مرفوع آئی ہے۔
فما الطاعون قال رسول اللّٰہ ﷺ: وخز أعداء کم من الجن أخرجہ أحمد عن أبی موسیؓ لحذا في بعض الرسائل عن فتح الباري للحافظ ابن حجر (۲)۔
پس جب اس میں قیدیں منتفی ہیں تو حدیثین مذکورین سے اس میں حکم اذان کا بھی ثابت نہ ہوگا، پس دوسری دلیل شرعی کی حاجت ہوگی، اور چونکہ بوجہ اشتمال اذان کے حی علی الصَّلوٰۃ اور حی علی الفلاح پر غیر صلوٰۃ کے لئے اذان کہنا حکم غیر قیاسی ہے اور ایسے حکم کاتعدیہ قیاس سے صحیح نہیں (۳) اس لئے وہ دلیل شرعی کوئی نص ہونا چاہئے محض قیاس کافی نہیں اور طاعون میں کوئی نص موجود نہیں ، اگر کہا جاوے کہ حدیث مسلم میں صحابی کا سماع صوتِ شیطان کے وقت حکم بالاذان کو معلل کرنا علت تولی شیطان بالأذان کے ساتھ متقضی ہے صحت تعدیہ اس حکم کو دوسرے محل پر بھی جہاں دفع شیطان کی حاجت ہو اور طاعون میں اس کی حاجت ہے، پس اُسی علت سے طاعون کو بھی سماع صوت پر قیاس کر لیا جاوے گا، جواب یہ ہے کہ اول تو بدلیل مذکور یعنی بوجہ اشتمال اذان کے حی علی الصلوٰۃ وحی علی الفلاح پر غیرنماز کے لئے اذان کہنا حکم مخالف قیاس ہے اور ایسے حکم کا تعدیہ قیاس سے جائز نہیں ہوتا؛ بلکہ مورد نص پر مقتصر رہا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ غیر صلوٰۃ کے جن مواقع پر اذان وارد ہوئی ہے اُن میں احادیث سے استدلال کیا گیا ہے، چنانچہ ردالمحتار میں ایسے مواقع نقل کرکے کہا ہے:
لأن ماصح الخبر فیہ بلا معارض فھو مذھب للمجتھد۔ اورآگے کہا ہے: ونقل الأحادیث الواردۃ في ذٰلک۔
اور یہی وجہ ہے کہ جس میں نص نہ تھی اس کو علماء نے رد کردیا ہے۔ چنانچہ شامی نے موقع مذکور میں کہا ہے:
اور یہی وجہ ہے کہ جس میں نص نہ تھی اس کو علماء نے رد کردیا ہے۔ چنانچہ شامی نے موقع مذکور میں کہا ہے:
قیل؛ وعند إنزال المیت القبر قیاساً علی أول خروجہ للدنیا، لکن ردہ ابن حجر في شرح العباب (۱)۔
اوراحادیث بالا میں ممکن ہے کہ صحابیؓ نے رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بالخصوص یہ حکم سُنا ہو جیسا غیر مدرک بالرائے میں حدیث موقوف کو مرفوع حکمی کہا جاتا ہے، اور حدیث تولی کو ذکر کرنا تعلیل کے لئے نہ ہو بلکہ بیان حکمت منصوص کے لئے ہو، اور اگر اس سے غض بصر کرکے اس حکم کو قیاس ہی مان لیا جاوے تب بھی صحت قیاس کے لئے اوّل تو مجتہد ہونا قائس کا شرط ہے، اورطاعون میں اذان کہنا کسی مجتہد سے منقول نہیں ، اور اب قیاس مفقود ہے، دوسرے قیاس کی صحت کے لئے اشتراک علّت موثرہ کا درمیان مقیس اور مقیس علیہ کے شرط ہے اور یہاں علّت مؤثرہ اگر محض الی دفع الشیطان ہوتو لازم آتا ہے کہ جتنے امور از قسم تصرفات خفیہ شیطانیہ ہیں سب کے لئے اذان مشروع ہو، مثلاً استحاضہ کی نسبت حدیث میں ہے (رکضۃ من رکضات الشیطان (۲)۔ تو اس کا علاج بھی اذان سے مشروع ہونا چاہئے ولاقائل بہ۔ اس سے معلومہوا کہ یہاں علّت مؤثرہ میں کوئی اور وصف بھی معتبر ہے سو ممکن بلکہ غالب یہ ہے جیسا کہ اُن مواقع میں تأمل کرنے سے جہاں اذان بہیئت اذان صلوٰۃ وارد ہوئی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ وصف یہ ہو کہ وہ حادثہ دفعۃً پیش آجائے اور فی الفور ہی اس کے علاج کی احتیاج ہو، چنانچہ وہ مواقع یہ ہیں :
عند مزدحم الجیش، وعند الحریق، وعند تغول الغیلان، وخلف المسافر، ولمن ضل الطریق في أرض قفر، کذا في ردالمحتار۔
ان سب مواقع میں وصف مذکور مشترک ہے، اور جو اذان بہیئت اذان صلوٰۃ نہ ہو اس میں بحث نہیں ۔
کالأذان في أذن المولود، والمھموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقہ من إنسان أو بھیمۃ کما في ردالمحتار أیضًا (۱)۔
اور ظاہر ہے کہ طاعون میں یہ وصف نہ وقوعاً ہے، چنانچہ اس کا عروض ومعالجہ دونوں اس قدر متدرج اور ممتد ہیں کہ عین اُس کے دوران میں خود نماز کی متعدد اذانیں ہو جاتی ہیں جو دفع اثر جنّات کے لئے کافی ہے، خود اُس کے لئے مستقل اذان کی کچھ حاجت نہیں ، اور یہی سرّ ہے وصف مذکور کے علّت مؤثرہ ہونے میں؛ کیونکہ جو امر فوری نہ ہو اس کے لئے اذان صلوٰۃ کافی ہو سکتی تھی؛ البتہ جہاں کان میں اذان کہی جاوے، چونکہ اذان صلوٰۃ کان سے منھ قریب کرکے نہیں ہوتی؛ لہٰذا اُس میں یہ علت نہ ہوگی، اور نہ طاعون میں یہ وصف عملاً ہے؛ کیونکہ جب مریض کو عین عروض مرض کا وقت ہو اُس وقت کوئی بھی اذان نہیں کہتا؛ بلکہ شب وروز میں کیف ما اتفق یا کسی وقت کی تعیین کے ساتھ اذان کا معمول ہے خواہ عروض مرض اس کے قبل ہو یا بعد ہو سو اوپر معلوم ہو چکا ہے کہ بلا وصف فور پانچ وقت کی اذان ہی کافی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اذان میں جو علاوہ خاصیت تولی شیطان کے اور خواص حدیثوں سے ثابت ہوئے ہیں مثل اجابت دُعاعنداللہ اور شہادت اشیاء علی ایمان المؤذن (۱) اُن کی تحصیل کے لئے مستقل اذان کی کسی نے اجازت نہیں دی؛ کیونکہ اذان نماز کی اس کے لئے کافی ہے، ورنہ چاہئے کہ جب دُعا کرنا ہو پہلے اذان کہہ لینا جائز ہو، خواہ کوئی وقت ہو، یا اسی طرح جب اشیاء کو شاہد ایمان بنانا ہو، ولا قائل بہ، اور جاننا چاہئے کہ جواب ثانی میں جوکہ علی سبیل التنزل ہے تبرعاً غض بصر کر لیا گیا ہے تاکہ طاعون میں اذان کا ثبوت اس تقدیر پر بھی نہ ہوسکے، ورنہ نفس الامر میں یہ حکم غیرقیاسی ہے، پس اس قیاس سے زلزلہ وغیرہ کے وقت بھی اذان کی گنجائش نہیں ہوسکتی۔ تیسرے خود یہی امر معرض کلام میں ہے کہ آیایہ طاعون مسبب وخزجن سے ہے جیسا کہ اطلاق حدیث اس کا مرجح ہے یا بعض طاعون اس کا مسبب ہے جیسا کہ مہملہ کا قوت جزئیہ میں ہونا اس کامصحح ہے جب خود مبنی یعنی وخزجن ہی مشکوک فیہ ہے تو مبنی یعنی اذان کا کیسے ثبوت ہو جاوے گا۔ چوتھے اس میں بہت سے مفاسد لازم آتے ہیں ، مثلاً التباس مصلین بوجہ غلبہ جہل اہل زمانہ کے اور توحش ضعیف القلب لوگوں کا کہ وہ ان کے ذہن میں تخیل ہجوم مرض کی تجدید کردیتا ہے اور عوام الناس کا اذان کے بھروسے اصلاح اعمال واستغفار ودعاء الٰہی سے بے فکر ہوجانا اور اس کو احکام مقصودہ سے سمجھنے لگنا وغیرہ وغیرہ تو ایسی حالت میںتوجائز بھی ناجائز ہوجاتا ہے (۱) چنانچہ تغول وغیرہ کے مواقع میں جو اذان وارد ہے اس میں بھی عدم لزوم مفسدہ شرط، پس تقریر مذکور سے ثابت ہوگیا کہ حدیث تغیل سے استدلال کرنا اس باب میں درست نہیں، اور یہ اذان محض إحداث في الدین ہے اور یہی وجہ ہے کہ طاعون عمواس میں باوجود شدت احتیاج کے کسی صحابی سے منقول نہیں کہ طاعون کے لئے اذان کا حکم دیا ہو یا خود عمل کیا ہو، اور سوال ثانی میں حدیث کا مدلول تو ظاہر، اگر اس کے متعلق کوئی خاص امر پوچھنا ہو تو تصریح اور تعیین کرنا چاہئے، اور سوال ثالث میں جس حدیث کی طرف اشارہ ہے اس کے تحقق کی صورت قریب الی الفہم یہ ہو سکتی ہے کہ وخزجن سے مادہ سمیہ کا حدوث ہوجاتا ہو جس سے ہیجان دم یا انصباب دم عارض ہوتا ہو خواہ ہمیشہ یا کبھی کبھی، جیساکہ اوپر گذرا، باقی حقیقت حال اللہ کو معلوم ہے۔ ربیع الثانی ۱۳۲۵ ھ
---------------------------------------------
مسئلے کی تحقیق وتفصیل
کسی وبا طاعون یا زلزلہ کے وقت اذان پکارنا:
سوال: دفعِ وبا (مثلاً طاعون) کے واسطے اذان دینا جائز ہے یا ناجائز؟ اور جو لوگ استدلال میں ’’حصنِ حصین‘‘ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں:إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأَذَانِ۔ان کا یہ استدلال درست ہے یا نہیں؟ اور اس حدیث کا کیا مطلب ہے اور ایسے ہی یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ شیطان اذان سے اس قدر دوربھاگتا جاتا ہے جیسے (مدینہ کے فاصلہ پر ایک مقام کا نام ہے) اور طاعون اثرِ شیطان سے ہے اس کا کیا مطلب ہے؟
الجواب:
اس باب میں دو حدیثیں معروف ہیں، ایک ’’حصن حصین‘‘ کی مرفوع حدیث: إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأَذَانِ۔
دوسری حدیث ’’صحیح مسلم‘‘ کی حضرت سہل رضی اللہُ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: إِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا فَنَادِ بِالصَّلَاۃِ؛ فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ: إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلَاۃِ وَلَّی الشَّیْطَانُ وَلَہٗ حُصَاصٌ۔
اور ’’حصنِ حصین‘‘ میں ’’مسلم‘‘ کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ یہی حدیث ہے۔ اور دونوں حدیثیں مقید ہیں: ’’إِذَا تَغَیَّلَتْ‘‘ ’’وَإِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا‘‘ کے ساتھ، اور جو حکم مقید ہوتا ہے کسی قید کے ساتھ اس میں قید نہ پایے جانے کی صورت میں وہ حکم اپنے وجود میں مستقل دلیل کا محتاج ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ طاعون میں دونوں قیدیں نہیں پائی جاتیں، کیوں کہ نہ اس میں شیطان کا تشکل وتمثل (یعنی صورتیں نمودار ہوتی ہیں) اور نہ ان کی آواز سنائی دیتی ہے، صرف کوئی باطنی اثر ہے (جس کی وجہ سے طاعون ہوتا ہے)۔ پس جب اس میں دونوں قیدیں نہیں پائی گئیں تو مذکورہ دونوں حدیثوں سے اس میں اذان کا حکم بھی ثابت نہ ہوگا۔
اور دوسری شرعی دلیل کی حاجت ہوگی (اور دوسری کوئی ایسی دلیل ہے نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طاعون یا اس جیسی وبا کے وقت اذان پکاری جائے)۔
اور قیاس بھی نہیں کرسکتے، کیوں کہ اذان حی علی الصلوٰۃ وحی علی الفلاح پر مشتمل ہے، اس لیے غیرصلوٰۃ کے لئے اذان کہنا غیرِقیاسی حکم ہے۔ قیاس سے ایسے حکم کا تعدیہ نہیں، اس لیے وہ دلیلِ شرعی کوئی نص ہونا چاہئے، محض قیاس کافی نہیں اور طاعون میں کوئی نص موجود نہیں۔
الغرض نفس الامر میں یہ حکم غیرِقیاسی ہے پس اس قیاس سے زلزلے وغیرہ کے وقت بھی اذان کی گنجائش نہیں ہوسکتی۔
(خلاصہ کلام یہ کہ) اس بات میں حدیث تغیل سے استدلال کرنا درست نہیں۔ اور یہ اذان (جو طاعون یا زلزلہ کے وقت دی جایے) إحداث في الدین (یعنی بدعت) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاعونِ عمو اس میں (جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں ہوا) شدتِ احتیاط کے باوجود کسی صحابی سے منقول نہیں کہ طاعون کے لئے اذان کا حکم دیا ہو یا خود عمل کیا ہو.
واللہ اعلم
اشرف العملیات:120/121
افادات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ
مؤلف: حضرت مولانا مفتی محمد زید مظاہری ندوی صاحب
-----------------------------------------------------------------------
وبائی امراض کے دفعیہ کے لئے اذان دینے کا شرعی حکم
_________
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب باسم الملک الوھاب۔
واضح ہوکہ اذان ایک مخصوص طریقہ عبادت کا نام ہے ...... اور اہم عبادت نماز کے لئے داعی ہے. چونکہ اذان کی وضع خاص عبادت کے لئے ہے اسی لئے کسی دوسرے امر میں اذان کہنا نقلا وعقلا درست نہیں .. نیز نماز کے علاوہ اذان دینے کے جو مواقع ائمہ مجتہدین نے ذکر کئے ہیں ان میں بھی مذکورہ مواقع پر اذان دینے کا ذکر نہیں ہے (ان مواقع کی تفصیل علامہ شامی نے ردالمحتار میں اور ابن نجیم مصری نے البحرالرائق میں کتب شافعیہ کے حوالے سے ذکر کی ہے) اس لئے اگر سنت اور مستحب سمجھے بغیر محض تدبیر اور علاج کے طور پر دفع بلاء اور مصائب کے لئے اذان دی جائے تو شرعاً اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے جیساکہ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی نوراللہ مرقدہ نے "کفایت المفتی" جلد :۳/ ۵۱ ، کتاب الصلاۃ،
اور فقیہ الامت مفتی محمود الحسن گنگوہی علیہ الرحمہ نے "فتاوی محمودیہ" جلد : ۵/ ۴۰۷، باب الاذان، میں تحریر فرمایا ہے
مزید بعض کتب حدیث میں موقوف یا ضعیف روایت یا بعض مجتھدین کی آراء ملتی ہیں لیکن غور وفکر سے واضح ہوتا ہے کہ انکا وہ عمل اجتماعی نہیں تھا اور انکا اذان کہنا شیطانی اثرات کو دور کرنے کے لئے تھا ....... اور حدیث میں ہے کہ اذان کی آواز سے شیطان بھاگتا ہے اس لئے بلاکسی التزام کے کبھی کسی مرض یا وبا سے حفاظت کے لئے بطور علاج اذان کی گنجائش نکل سکتی ہے .. موجودہ مرض ....... ممکن ہے کہ بندوں کے گناہوں کے اثرات ہوں. اس لئے ایسے موقع پر نماز پنجگانہ دعاء کثرت استغفار اور صدقہ کا معمول ہونا چاہئے. نماز دعاء استغفار صدقہ بڑی بڑی بلاؤں اور مصیبتوں کو ٹال دیتے ہیں یہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے
اس لئے معروف طریقہ چھوڑکر غیر معروف طریقہ (اذان دینا) اختیار کرنا غیر معقول بات ہے بلکہ بدعت کی طرف لے جانے والا عمل بھی ہوسکتا ہے جو بھلائی کے بجائے شر کا پیش خیمہ ہوگا. ان تفصیلات کے بعد اب اصل جواب سمجھیں
لوگوں کو ترغیب دے کر ... اجتماعیت کے ساتھ .... اذان دینا بالکل جائز نہیں جیساکہ آج کل اشتہارات وپوسٹس کے ذریعہ لوگوں کو بتایا جارہا ہے. اگر کسی نے ذاتی طور پر اذان کہہ دی اور معمول نہیں بنایا ... اور مقصد علاج ہے تو گنجائش ہے لیکن چونکہ عوام اس کی حدود وقیود کا پاس ولحاظ نہیں رکھتے اور اسے شریعت کا حکم سمجھنے لگتے ہیں، نیز ملک میں پھیلی وبائی مرض کی وجہ سے اگر ہر شخص اپنے اپنے گھروں کی چھتوں پر اذان کا اہتمام کرے تو ظاہر ہے کہ عوام الناس شریعت کا ایک حکم سمجھ کر اس پر عمل کریں گے حالانکہ شریعت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ دوسری طرف شریعت کا ضابطہ ہے کہ اگر کسی امر مباح کو لازم اور ضروری قرار دیا جانے لگے اور عوام اسے سنت یا مستحب سمجھنے لگے تو پھر وہ مباح عمل مباح نہیں رہتا بلکہ وہ مکروہ اور قابل ترک عمل ہوجاتا ہے، بلکہ فقہاء نے تو امر مستحب کے اصرار کو بھی ممنوع اور مکروہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ "تنقیح الفتاوی الحامدیۃ" میں ہے:
كل مباح يؤدي إلى زعم الجهال سنيۃ أمر أو وجوبہ فهو مكروه ، كتعيين السورة للصلاة، وتعيين القراءة لوقت ونحوه . (تنقيح الفتاوى الحامديۃ : ٢/ ٥۷۴ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ارشاد الساری میں ہے:
إن المندوب ربما انقلب مکروها إذا خیف علی الناس أن یرفعوہ عن رتبتہ۔ (إرشاد الساري شرح صحیح البخاري : ٢/ ۵۸۶، کتاب الأذان، باب الانتقال والانصراف عن الیمین والشمال دارالفکر بیروت)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
من أصر علی مندوب وجعلہ عزماً ولم یجعل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال ، فکیف من أصر علی بدعۃ أو منکر ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ۳/۲۶، المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)
چنانچہ فقیہ النفس حضرت اقدس مفتی عزیز الرحمن صاحب نوراللہ مرقدہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
سوال ( ۹۳): زمانہ قحط اور وباء میں اور دیگر حوادثات میں اور دفن میت کے بعد اذن کہنا کیسا ہے۔
جواب
ان حوادثات میں اذان شارع علیہ السلام سے اور اقوال وافعال سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے بلکہ بدعت ہے۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند: ۲/ ۶۷، باب الاذان، عنوان : دفن اور قحط وباء اذان دینا ثابت ہے یا نہیں، ۔۔ ۱/ ۷۳، باب الاذان، سوال وجواب نمبر: ۱۱۱، عنوان: خشک سالی اور طاعون کے موقع پر اذان دینا ثابت ہے یا نہیں، مکتبہ دارالاشاعت کراچی، پاکستان)
============================
مفتی نظام الدین صاحب اعظمی سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
"اذان طاعت وقربت ہے اس کا اجراء شارع علیہ السلام کی تجویز اور فقہاء کرام کی تخریج وبیان پر موقوف ہے"
حررہ العبد سعود مرشد بانکوی عفاللہ عنہ
خادم جامعہ محمودیہ اشرف العلوم جامع مسجد اشرف آباد جاجمؤ کانپور
۲۸ رجب المرجب ۱۴۴۱ ھ مطابق ۲۵ مارچ ۲۰۲۰
_________________
سوال: بیماری کے موسم میں جو اذانیں کہی جاتی ہیں ان کا کیا حکم ہے؟
فرمایا: بدعت ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وبا جنات کے اثر سے ہوتی ہے اور اذان سے جنات بھی بھاگتے ہیں۔ اس واسطے اس اذان میں کیا حرج ہے؟ ایک شخص کو میں نے جواب دیا کہ اذان شیطان کے بھگانے کے لیے ہے، مگر کیا وہ اذان اس کے لیے کافی نہیں جو نماز کے لیے کہی جاتی ہے؟ اگر کہا جائے کہ وہ صرف پانچ دفعہ ہوتی ہے، تو اس وقت شیاطین ہٹ جاتے ہیں، مگر پھرآجاتے ہیں، تو یہ تو اس اذان میں بھی ہے کہ جتنی دیر تک اذان کہی جائے اتنی دیر ہٹ جائیں گے اور پھر آجائیں گے۔ اور نماز کی اذان سے تو رات دن میں پانچ دفعہ بھی بھاگتے ہیں۔ یہ تو صرف ایک ہی دفعہ ہوتی ہے ذرا اوپر بھاگ جائیں گے اور اس کے بعد تمام وقت رہیں گے۔ تو شیاطین کے بھاگنے کی ترکیب صرف یہ ہوسکتی ہے کہ ہر وقت اذان کہتے رہو۔ پھر صرف ایک وقت کیوں کہتے ہو؟
آج کل بعض علما کو بھی اس کے بدعت ہونے میں شبہ پڑگیا ہے، حالاں کہ یہ یقیناً بدعت ہے، اور اس کی کچھ بھی اصلیت نہیں، یہ صرف اختراع ہے۔
مسئلے کی تحقیق وتفصیل
کسی وبا طاعون یا زلزلہ کے وقت اذان پکارنا:
سوال: دفعِ وبا (مثلاً طاعون) کے واسطے اذان دینا جائز ہے یا ناجائز؟ اور جو لوگ استدلال میں ’’حصنِ حصین‘‘ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں: إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأَذَانِ۔ان کا یہ استدلال درست ہے یا نہیں؟ اور اس حدیث کا کیا مطلب ہے اور ایسے ہی یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ شیطان اذان سے اس قدر دوربھاگتا جاتا ہے جیسے (مدینہ کے فاصلہ پر ایک مقام کا نام ہے) اور طاعون اثرِ شیطان سے ہے اس کا کیا مطلب ہے؟
الجواب: اس باب میں دو حدیثیں معروف ہیں، ایک ’’حصن حصین‘‘ کی مرفوع حدیث :إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأَذَانِ۔
دوسری حدیث ’’صحیح مسلم‘‘ کی حضرت سہل ؓسے مرفوعاً مروی ہے:
إِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا فَنَادِ بِالصَّلَاۃِ؛ فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ: إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلَاۃِ وَلَّی الشَّیْطَانُ وَلَہٗ حُصَاصٌ۔
اور ’’حصنِ حصین‘‘ میں ’’مسلم‘‘ کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ یہی حدیث ہے۔ اور دونوں حدیثیں مقید ہیں: ’إِذَا تَغَیَّلَتْ‘‘ ’’وَإِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا‘‘
کے ساتھ، اور جو حکم مقید ہوتا ہے کسی قید کے ساتھ اس میں قید نہ پایے جانے کی صورت میں وہ حکم اپنے وجود میں مستقل دلیل کا محتاج ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ طاعون میں دونوں قیدیں نہیں پائی جاتیں، کیوں کہ نہ اس میں شیطان کا تشکل وتمثل (یعنی صورتیں نمودار ہوتی ہیں) اور نہ ان کی آواز سنائی دیتی ہے، صرف کوئی باطنی اثر ہے (جس کی وجہ سے طاعون ہوتا ہے)۔ پس جب اس میں دونوں قیدیں نہیں پائی گئیں تو مذکورہ دونوں حدیثوں سے اس میں اذان کا حکم بھی ثابت نہ ہوگا۔
اور دوسری شرعی دلیل کی حاجت ہوگی (اور دوسری کوئی ایسی دلیل ہے نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طاعون یا اس جیسی وبا کے وقت اذان پکاری جائے)۔
اور قیاس بھی نہیں کرسکتے، کیوں کہ اذان حی علی الصلوٰۃ وحی علی الفلاح پر مشتمل ہے، اس لیے غیرصلوٰۃ کے لیے اذان کہنا غیرِ قیاسی حکم ہے۔ قیاس سے ایسے حکم کا تعدیہ نہیں، اس لیے وہ دلیلِ شرعی کوئی نص ہونا چاہیے، محض قیاس کافی نہیں اور طاعون میں کوئی نص موجود نہیں۔
الغرض نفس الامر میں یہ حکم غیرِ قیاسی ہے پس اس قیاس سے زلزلے وغیرہ کے وقت بھی اذان کی گنجایش نہیں ہوسکتی۔
خلاصہ کلام یہ کہ) اس بات میں حدیث تغیل سے استدلال کرنا درست نہیں۔ اور یہ اذان (جو طاعون یا زلزلہ کے وقت دی جایے) إحداث في الدین (یعنی بدعت) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاعونِ عمواس میں (جو صحابہ ؓ کے زمانہ میں ہوا) شدتِ احتیاط کے باوجود کسی صحابی سے منقول نہیں کہ طاعون کے لیے اذان کا حکم دیا ہو یا خود عمل کیا ہو۔۔
(اشرف العملیات ۔۔۔ پوری تفصیل)
(امداد الاحکام سے بھی کچھ مستفاد ہے۔۔)
واللہ اعلم۔۔
محمد طارق قاسمی دیوبندی ۔۔
تائید از مجیبین مدنی دارالافتاء
اس تحریر میں کسی بھی قسم کی کتربیونت کی اجازت نہیں ہے نام وغیرہ حذف کرکے اپنے نام سے شائع کرنا خیانت ہے۔ اور خیانت کرنے والے خدا کے یہاں ماخوذ ہونگے
درج ذیل تمام مفتیان مذکورہ فتویٰ کے تصحیح کرچکے ہیں۔
اور بھی کچھ مفتیان کرام نے تصحیح کی ہے۔۔
الجواب صحیح۔۔
مفتی طارق قاسمی
مفتی پیغام احمد قاسمی
مفتی عظیم اللہ قاسمی
مفتی مکرم پالنپوری
مفتی زبیر بجنوری
مفتی عبداللہ بن مسعود پالنپوری
مفتی مقصود امدادی
مفتی اسجد قاسمی احمدآباد
مفتی ندیم اختر قاسمی
مفتی مجیب الرحمن رچیٹہ سنبھل
مدرسہ دارالعلوم المحمدیہ روضہ والی مسجد دیپا سراۓ سنبھل
مفتی سرفراز احمد
مفتی محمد لقمان
قاضی شاھدعلی قاسمی
مفتی عظیم شمیم قاسمی
مفتی افتخارالحسن
مفتی عرفان قاسمی گجرات
مفتی عمار مزمل قاسمی
مفتی حمزہ بھوپال
مفتی ارشاد رحمانی
مفتی عثمان غنی سہارنپوری
مفتی اویس امروہہ
عبدالقادر حسینی سورت
-----------------------------------------------------------------------
وبائی امراض کے دفعیہ کے لئے اذان دینے کا شرعی حکم
_________
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب باسم الملک الوھاب۔
واضح ہوکہ اذان ایک مخصوص طریقہ عبادت کا نام ہے ...... اور اہم عبادت نماز کے لئے داعی ہے. چونکہ اذان کی وضع خاص عبادت کے لئے ہے اسی لئے کسی دوسرے امر میں اذان کہنا نقلا وعقلا درست نہیں .. نیز نماز کے علاوہ اذان دینے کے جو مواقع ائمہ مجتہدین نے ذکر کئے ہیں ان میں بھی مذکورہ مواقع پر اذان دینے کا ذکر نہیں ہے (ان مواقع کی تفصیل علامہ شامی نے ردالمحتار میں اور ابن نجیم مصری نے البحرالرائق میں کتب شافعیہ کے حوالے سے ذکر کی ہے) اس لئے اگر سنت اور مستحب سمجھے بغیر محض تدبیر اور علاج کے طور پر دفع بلاء اور مصائب کے لئے اذان دی جائے تو شرعاً اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے جیساکہ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی نوراللہ مرقدہ نے "کفایت المفتی" جلد :۳/ ۵۱ ، کتاب الصلاۃ،
اور فقیہ الامت مفتی محمود الحسن گنگوہی علیہ الرحمہ نے "فتاوی محمودیہ" جلد : ۵/ ۴۰۷، باب الاذان، میں تحریر فرمایا ہے
مزید بعض کتب حدیث میں موقوف یا ضعیف روایت یا بعض مجتھدین کی آراء ملتی ہیں لیکن غور وفکر سے واضح ہوتا ہے کہ انکا وہ عمل اجتماعی نہیں تھا اور انکا اذان کہنا شیطانی اثرات کو دور کرنے کے لئے تھا ....... اور حدیث میں ہے کہ اذان کی آواز سے شیطان بھاگتا ہے اس لئے بلاکسی التزام کے کبھی کسی مرض یا وبا سے حفاظت کے لئے بطور علاج اذان کی گنجائش نکل سکتی ہے .. موجودہ مرض ....... ممکن ہے کہ بندوں کے گناہوں کے اثرات ہوں. اس لئے ایسے موقع پر نماز پنجگانہ دعاء کثرت استغفار اور صدقہ کا معمول ہونا چاہئے. نماز دعاء استغفار صدقہ بڑی بڑی بلاؤں اور مصیبتوں کو ٹال دیتے ہیں یہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے
اس لئے معروف طریقہ چھوڑکر غیر معروف طریقہ (اذان دینا) اختیار کرنا غیر معقول بات ہے بلکہ بدعت کی طرف لے جانے والا عمل بھی ہوسکتا ہے جو بھلائی کے بجائے شر کا پیش خیمہ ہوگا. ان تفصیلات کے بعد اب اصل جواب سمجھیں
لوگوں کو ترغیب دے کر ... اجتماعیت کے ساتھ .... اذان دینا بالکل جائز نہیں جیساکہ آج کل اشتہارات وپوسٹس کے ذریعہ لوگوں کو بتایا جارہا ہے. اگر کسی نے ذاتی طور پر اذان کہہ دی اور معمول نہیں بنایا ... اور مقصد علاج ہے تو گنجائش ہے لیکن چونکہ عوام اس کی حدود وقیود کا پاس ولحاظ نہیں رکھتے اور اسے شریعت کا حکم سمجھنے لگتے ہیں، نیز ملک میں پھیلی وبائی مرض کی وجہ سے اگر ہر شخص اپنے اپنے گھروں کی چھتوں پر اذان کا اہتمام کرے تو ظاہر ہے کہ عوام الناس شریعت کا ایک حکم سمجھ کر اس پر عمل کریں گے حالانکہ شریعت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ دوسری طرف شریعت کا ضابطہ ہے کہ اگر کسی امر مباح کو لازم اور ضروری قرار دیا جانے لگے اور عوام اسے سنت یا مستحب سمجھنے لگے تو پھر وہ مباح عمل مباح نہیں رہتا بلکہ وہ مکروہ اور قابل ترک عمل ہوجاتا ہے، بلکہ فقہاء نے تو امر مستحب کے اصرار کو بھی ممنوع اور مکروہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ "تنقیح الفتاوی الحامدیۃ" میں ہے:
كل مباح يؤدي إلى زعم الجهال سنيۃ أمر أو وجوبہ فهو مكروه ، كتعيين السورة للصلاة، وتعيين القراءة لوقت ونحوه . (تنقيح الفتاوى الحامديۃ : ٢/ ٥۷۴ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ارشاد الساری میں ہے:
إن المندوب ربما انقلب مکروها إذا خیف علی الناس أن یرفعوہ عن رتبتہ۔ (إرشاد الساري شرح صحیح البخاري : ٢/ ۵۸۶، کتاب الأذان، باب الانتقال والانصراف عن الیمین والشمال دارالفکر بیروت)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
من أصر علی مندوب وجعلہ عزماً ولم یجعل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال ، فکیف من أصر علی بدعۃ أو منکر ۔ (مرقاۃ المفاتیح : ۳/۲۶، المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند)
چنانچہ فقیہ النفس حضرت اقدس مفتی عزیز الرحمن صاحب نوراللہ مرقدہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
سوال ( ۹۳): زمانہ قحط اور وباء میں اور دیگر حوادثات میں اور دفن میت کے بعد اذن کہنا کیسا ہے۔
جواب
ان حوادثات میں اذان شارع علیہ السلام سے اور اقوال وافعال سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے بلکہ بدعت ہے۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند: ۲/ ۶۷، باب الاذان، عنوان : دفن اور قحط وباء اذان دینا ثابت ہے یا نہیں، ۔۔ ۱/ ۷۳، باب الاذان، سوال وجواب نمبر: ۱۱۱، عنوان: خشک سالی اور طاعون کے موقع پر اذان دینا ثابت ہے یا نہیں، مکتبہ دارالاشاعت کراچی، پاکستان)
============================
مفتی نظام الدین صاحب اعظمی سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
"اذان طاعت وقربت ہے اس کا اجراء شارع علیہ السلام کی تجویز اور فقہاء کرام کی تخریج وبیان پر موقوف ہے"
حررہ العبد سعود مرشد بانکوی عفاللہ عنہ
خادم جامعہ محمودیہ اشرف العلوم جامع مسجد اشرف آباد جاجمؤ کانپور
۲۸ رجب المرجب ۱۴۴۱ ھ مطابق ۲۵ مارچ ۲۰۲۰
_________________
سوال: بیماری کے موسم میں جو اذانیں کہی جاتی ہیں ان کا کیا حکم ہے؟
فرمایا: بدعت ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وبا جنات کے اثر سے ہوتی ہے اور اذان سے جنات بھی بھاگتے ہیں۔ اس واسطے اس اذان میں کیا حرج ہے؟ ایک شخص کو میں نے جواب دیا کہ اذان شیطان کے بھگانے کے لیے ہے، مگر کیا وہ اذان اس کے لیے کافی نہیں جو نماز کے لیے کہی جاتی ہے؟ اگر کہا جائے کہ وہ صرف پانچ دفعہ ہوتی ہے، تو اس وقت شیاطین ہٹ جاتے ہیں، مگر پھرآجاتے ہیں، تو یہ تو اس اذان میں بھی ہے کہ جتنی دیر تک اذان کہی جائے اتنی دیر ہٹ جائیں گے اور پھر آجائیں گے۔ اور نماز کی اذان سے تو رات دن میں پانچ دفعہ بھی بھاگتے ہیں۔ یہ تو صرف ایک ہی دفعہ ہوتی ہے ذرا اوپر بھاگ جائیں گے اور اس کے بعد تمام وقت رہیں گے۔ تو شیاطین کے بھاگنے کی ترکیب صرف یہ ہوسکتی ہے کہ ہر وقت اذان کہتے رہو۔ پھر صرف ایک وقت کیوں کہتے ہو؟
آج کل بعض علما کو بھی اس کے بدعت ہونے میں شبہ پڑگیا ہے، حالاں کہ یہ یقیناً بدعت ہے، اور اس کی کچھ بھی اصلیت نہیں، یہ صرف اختراع ہے۔
مسئلے کی تحقیق وتفصیل
کسی وبا طاعون یا زلزلہ کے وقت اذان پکارنا:
سوال: دفعِ وبا (مثلاً طاعون) کے واسطے اذان دینا جائز ہے یا ناجائز؟ اور جو لوگ استدلال میں ’’حصنِ حصین‘‘ کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں: إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأَذَانِ۔ان کا یہ استدلال درست ہے یا نہیں؟ اور اس حدیث کا کیا مطلب ہے اور ایسے ہی یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ شیطان اذان سے اس قدر دوربھاگتا جاتا ہے جیسے (مدینہ کے فاصلہ پر ایک مقام کا نام ہے) اور طاعون اثرِ شیطان سے ہے اس کا کیا مطلب ہے؟
الجواب: اس باب میں دو حدیثیں معروف ہیں، ایک ’’حصن حصین‘‘ کی مرفوع حدیث :إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأَذَانِ۔
دوسری حدیث ’’صحیح مسلم‘‘ کی حضرت سہل ؓسے مرفوعاً مروی ہے:
إِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا فَنَادِ بِالصَّلَاۃِ؛ فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ: إِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلَاۃِ وَلَّی الشَّیْطَانُ وَلَہٗ حُصَاصٌ۔
اور ’’حصنِ حصین‘‘ میں ’’مسلم‘‘ کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ یہی حدیث ہے۔ اور دونوں حدیثیں مقید ہیں: ’إِذَا تَغَیَّلَتْ‘‘ ’’وَإِذَا سَمِعْتَ صَوْتًا‘‘
کے ساتھ، اور جو حکم مقید ہوتا ہے کسی قید کے ساتھ اس میں قید نہ پایے جانے کی صورت میں وہ حکم اپنے وجود میں مستقل دلیل کا محتاج ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ طاعون میں دونوں قیدیں نہیں پائی جاتیں، کیوں کہ نہ اس میں شیطان کا تشکل وتمثل (یعنی صورتیں نمودار ہوتی ہیں) اور نہ ان کی آواز سنائی دیتی ہے، صرف کوئی باطنی اثر ہے (جس کی وجہ سے طاعون ہوتا ہے)۔ پس جب اس میں دونوں قیدیں نہیں پائی گئیں تو مذکورہ دونوں حدیثوں سے اس میں اذان کا حکم بھی ثابت نہ ہوگا۔
اور دوسری شرعی دلیل کی حاجت ہوگی (اور دوسری کوئی ایسی دلیل ہے نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ طاعون یا اس جیسی وبا کے وقت اذان پکاری جائے)۔
اور قیاس بھی نہیں کرسکتے، کیوں کہ اذان حی علی الصلوٰۃ وحی علی الفلاح پر مشتمل ہے، اس لیے غیرصلوٰۃ کے لیے اذان کہنا غیرِ قیاسی حکم ہے۔ قیاس سے ایسے حکم کا تعدیہ نہیں، اس لیے وہ دلیلِ شرعی کوئی نص ہونا چاہیے، محض قیاس کافی نہیں اور طاعون میں کوئی نص موجود نہیں۔
الغرض نفس الامر میں یہ حکم غیرِ قیاسی ہے پس اس قیاس سے زلزلے وغیرہ کے وقت بھی اذان کی گنجایش نہیں ہوسکتی۔
خلاصہ کلام یہ کہ) اس بات میں حدیث تغیل سے استدلال کرنا درست نہیں۔ اور یہ اذان (جو طاعون یا زلزلہ کے وقت دی جایے) إحداث في الدین (یعنی بدعت) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاعونِ عمواس میں (جو صحابہ ؓ کے زمانہ میں ہوا) شدتِ احتیاط کے باوجود کسی صحابی سے منقول نہیں کہ طاعون کے لیے اذان کا حکم دیا ہو یا خود عمل کیا ہو۔۔
(اشرف العملیات ۔۔۔ پوری تفصیل)
(امداد الاحکام سے بھی کچھ مستفاد ہے۔۔)
واللہ اعلم۔۔
محمد طارق قاسمی دیوبندی ۔۔
تائید از مجیبین مدنی دارالافتاء
اس تحریر میں کسی بھی قسم کی کتربیونت کی اجازت نہیں ہے نام وغیرہ حذف کرکے اپنے نام سے شائع کرنا خیانت ہے۔ اور خیانت کرنے والے خدا کے یہاں ماخوذ ہونگے
درج ذیل تمام مفتیان مذکورہ فتویٰ کے تصحیح کرچکے ہیں۔
اور بھی کچھ مفتیان کرام نے تصحیح کی ہے۔۔
الجواب صحیح۔۔
مفتی طارق قاسمی
مفتی پیغام احمد قاسمی
مفتی عظیم اللہ قاسمی
مفتی مکرم پالنپوری
مفتی زبیر بجنوری
مفتی عبداللہ بن مسعود پالنپوری
مفتی مقصود امدادی
مفتی اسجد قاسمی احمدآباد
مفتی ندیم اختر قاسمی
مفتی مجیب الرحمن رچیٹہ سنبھل
مدرسہ دارالعلوم المحمدیہ روضہ والی مسجد دیپا سراۓ سنبھل
مفتی سرفراز احمد
مفتی محمد لقمان
قاضی شاھدعلی قاسمی
مفتی عظیم شمیم قاسمی
مفتی افتخارالحسن
مفتی عرفان قاسمی گجرات
مفتی عمار مزمل قاسمی
مفتی حمزہ بھوپال
مفتی ارشاد رحمانی
مفتی عثمان غنی سہارنپوری
مفتی اویس امروہہ
عبدالقادر حسینی سورت
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_75.html?m=1
No comments:
Post a Comment