Saturday, 7 November 2020

صرف عصر و فجر میں مقتدیوں کی جانب رخ کرکے وظائف پڑھنے کی تخصیص کیوں؟

صرف عصر و فجر میں مقتدیوں کی جانب رخ کرکے وظائف پڑھنے کی تخصیص کیوں؟
-------------------------------
--------------------------------
سوال 
——
حدیث میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں کی جانب متوجہ ہوکر بیٹھتے تھے، اس روایت میں کسی خاص نماز کی تخصیص تو ہے نہیں پھر ہمارے یہاں امام صرف عصر و فجر میں مقتدیوں کی جانب رخ کرتا ہے باقی نمازوں میں نہیں۔
ایسا کیوں؟
ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی 
سہارنپور 
———————
الجواب وباللہ التوفیق:
سلام پھیرنے کے بعد امام کا مستقبل قبلہ بیٹھے رہنا اجماعی و اتفاقی طور پہ مکروہ بلکہ بدعت ہے.
اس کی مختلف علتیں بیان کی گئی ہے، نئے آنے والے نمازی کو امام کے نماز میں مشغول سمجھنے کے اشتباہ سے بچانا بھی من جملہ حکمتوں کے اہم حکمت ہے.
بعد سلام "اللهم أنت السلام ومنك السلام إلخ" یا تین مرتبہ استغفار یا اس جیسی دیگر ماثور مختصر دعاء پڑھ کے امام کو استقبال قبلہ سے ہٹ جانا مستحب ہے، مزید نماز کی سابقہ ہیئت کی طرح قبلہ رو بیٹھے رہنا امام کے لئے مکروہ ہے (کوئی دعاء پڑھنا مخصوص نہیں ہے، انت السلام ومنک السلام کے دورانیے کے بقدر کوئی بھی ماثور دعاء پڑھ کے امام جگہ، رخ وہیئت تبدیل کردے)
اس استحباب پر بھی علماء کا اجماع قائم ہے، ہر نماز کا یہی حکم ہے. 
بعد سلام امام کا قبلہ سے رخ پھیر دینے کی تین کیفیات احادیث میں وارد ہوئی ہیں: 
۱: امام اپنا دایاں جانب مقتدی کی طرف جبکہ یسار قبلہ کی طرف کرے.
۲: امام اپنا یمین محراب و قبلہ کی طرف جبکہ یسار مقتدی کی طرف کرے. 
۳: مقتدی کے سیدھ میں استدبار قبلہ کرکے بیٹھ جائے بشرطیکہ امام کے سامنے کوئی مسبوق نماز نہ پڑھ رہا ہو.
ان تینوں طرح بیٹھنے میں ہمارے ہاں امام کو اختیار ہے. 
البتہ اوّل الذکر دو ہیئتوں میں بیٹھنا عینی کی نقل کے مطابق صاحب مذہب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے افضلیت کی روایت مروی ہے.
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نماز کے سلام پھیرنے کے بعد “انصراف “ اور "انفتال" جیسے الفاظ وارد ہوئے ہیں. 
شارح بخاری علامہ قسطلانی وغیرہ "انصراف" کو اٹھ کر چلے جانے اور گھر میں بقیہ نوافل ادا کرنے پہ محمول کیا ہے، جبکہ انفتال کو استقبال ماموم پہ محمول کیا ہے. 
بعض روایتوں میں صراحت ہے کہ فجر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعد سلام مختصر ذکر ماثور و تکبیر کے بعد مقتدیوں کی طرف رخ کرتے. 
مسائل کی تعلیم کرتے. 
کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اس کی تعبیر مرحمت فرماتے. 
ابن حجر کے بقول تعلیم مسائل کے مقصد سے امام استقبال ماموم کرسکتا ہے ورنہ انصراف و انفتال پہ عمل کرے. 
ہر نماز کے سلام کے بعد مختصر ماثور دعاء پڑھ کے تبدیلی ہیئت (انصراف، انفتال، اقبال الناس بوجہ) تمام علماء کے ہاں مستحب ہے. 
احناف بھی تبدیلی ہیئت کے استحباب کے قائل ہیں. 
البتہ دیگر مختلف روایات وآثار صحابہ کی وجہ سے احناف فرض کے سلام اور سنن رواتب کے درمیان طویل اوراد وظائف میں اشتغال کے ذریعہ فصل کو مکروہ گردانتے ہیں.
اس لئے مختصر دعاء (اللھم انت السلام جیسی دعاء) پڑھ کر اٹھ جانے، رفع یدین کے ساتھ دعاء انفرادی کرلینے گھر چلے جانے یا سنن رواتب میں مشغول ہوجانے کو بہتر سمجھتے ہیں. 
فجر وعصر کے بعد چونکہ سنن رواتب نہیں ہیں؛ اس لئے فرض کے بعد طویل اوراد ووظائف میں اشتغال سے تاخیر سنن رواتب کی کراہت کا ارتکاب نہیں ہوگا 
اس لئے ان دو نمازوں میں فرض کے سلام کے بعد تبدیلی ہیئت کے ساتھ وظائف میں مشغول ہونے کی اجازت ہے. 
لیکن فرض کے بعد سنن رواتب والی نماز میں تبدیلی ہیئت کے بعد سنن رواتب میں مشغول ہوجانا  چاہئے۔
نماز کے فورا بعد (دبرالصلوۃ وعقیب الصلوۃ) پڑھی جانے والی ادعیہ سنن رواتب کے بعد پڑھے، سنن رواتب مکملات وتوابع مکتوبات ہیں اس لئے اس کے بعد اوراد پڑھنے پر بھی دبریت وعقبیت کا تحقق ہوجائے گا یعنی تب بھی فرائض کے بعد پڑھنا ہی کہا جائے گا؛ کیونکہ یہ بھی کسی حدیث میں نہیں ہے کہ سنت راتبہ سے پہلے فرض کی جگہ میں ہی بیٹھے بیٹھے عقیب الصلوۃ والی دعائیں پڑھی جائیں!
ابن حجر ہیتمی نے صراحت کی ہے کہ سنن رواتب کے بعد اوراد ووظائف عقبیہ پڑھی جاسکتی ہیں. ثواب میں کوئی کمی نہیںم کمال میں فرق آسکتا ہے.
اگر کوئی فرض کے سنن رواتب گھر جاکر پڑھنا چاہے تو راستہ چلتے اوراد عقبیہ پڑھ سکتا ہے. 
حنفیہ کے یہاں جن نمازوں کے بعد سنن رواتب ہیں ان کے سلام کے بعد طویل وظائف میں مشغول ہونا مکروہ ہے۔
محقق ابن الہمام، حلبی، شمس الائمہ حلوانی وغیرہم کراہت تنزیہی کے قائل ہیں، جبکہ صاحب اختیار کراہت  تحریمی کے قائل ہیں. 
عادت بنائے بغیر کبھی کبھار اشتغال بالاوراد بین الفریضہ والسنہ ہوجائے تو مضائقہ نہیں:
ائمہ ثلاثہ کے یہاں امام مقتدی منفرد ہر ایک کے لئے اشتغال بالاوراد بین الفریضہ والسنہ مستحب ہے، دبر الصلوۃ وعقیب الصلوۃ کے ظاہر سے وہ استدلال کرتے ہیں 
احناف کے چند دلائل یہ ہیں:
عن عائشة رضي الله عنها قالت:
(كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ لَمْ يَقْعُدْ إِلَّا مِقْدَارَ مَا يَقُولُ: اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ) رواه مسلم (592)
وروا عبدالرزاق في "المصنف" (2/246) عن ابن جريج قال: حدثت عن أنس بن مالك قال: (صليت وراء النبي صلى الله عليه وسلم، وكان ساعة يسلم يقوم، ثم صليت وراء أبي بكر فكان إذا سلم وثب، فكأنما يقوم عن رضفة)
ورواه الطبراني في "المعجم الكبير" (1/252)، والبيهقي في "السنن الكبرى" (2/182) كلاهما من طريق عبدالله بن فروخ، عن ابن جريج، عن عطاء، عن أنس بن مالك.
يقول العلامۃ ابن عابدين رحمه الله:
"أما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها; لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها، فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة. 
وقول عائشة: (بمقدار) لا يفيد أنه كان يقول ذلك بعينه، بل كان يقعد بقدر ما يسعه ونحوه من القول تقريبا، فلا ينافي ما في الصحيحين من أنه صلى الله عليه وسلم كان يقول في دبر كل صلاة مكتوبة: (لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد)" انتهى من "رد المحتار" (1/531)
"ويكره تأخير السنة إلا بقدر اللهم أنت السلام إلخ. قال الحلواني: لا بأس بالفصل بالأوراد واختاره الكمال. قال الحلبي: إن أريد بالكراهة التنزيهية ارتفع الخلاف قلت: وفي حفظي حمله على القليلة؛ ويستحب أن يستغفر ثلاثاً ويقرأ آية الكرسي والمعوذات ويسبح ويحمد ويكبر ثلاثاً وثلاثين؛ ويهلل تمام المائة ويدعو ويختم بسبحان ربك.
(قوله: إلا بقدر اللهم إلخ) لما رواه مسلم والترمذي عن عائشة قالت «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لايقعد إلا بمقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام» وأما ما ورد من الأحاديث في الأذكار عقيب الصلاة فلا دلالة فيه على الإتيان بها قبل السنة، بل يحمل على الإتيان بها بعدها؛ لأن السنة من لواحق الفريضة وتوابعها ومكملاتها فلم تكن أجنبية عنها، فما يفعل بعدها يطلق عليه أنه عقيب الفريضة.
وقول عائشة بمقدار لايفيد أنه كان يقول ذلك بعينه، بل كان يقعد بقدر ما يسعه ونحوه من القول تقريباً، فلاينافي ما في الصحيحين من «أنه صلى الله عليه وسلم كان يقول في دبر كل صلاة مكتوبة: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولاينفع ذا الجد منك الجد» وتمامه في شرح المنية، وكذا في الفتح من باب الوتر والنوافل (قوله: واختاره الكمال) فيه أن الذي اختاره الكمال هو الأول، وهو قول البقالي. ورد ما في شرح الشهيد من أن القيام إلى السنة متصلا بالفرض مسنون، ثم قال: وعندي أن قول الحلواني لا بأس لا يعارض القولين لأن المشهور في هذه العبارة كون خلافه أولى، فكان معناها أن الأولى أن لايقرأ قبل السنة، ولو فعل لا بأس، فأفاد عدم سقوط السنة بذلك، حتى إذا صلى بعد الأوراد تقع سنة لا على وجه السنة، ولذا قالوا: لو تكلم بعد الفرض لاتسقط لكن ثوابها أقل، فلا أقل من كون قراءة الأوراد لا تسقطها اهـ.
وتبعه على ذلك تلميذه في الحلية، وقال: فتحمل الكراهة في قول البقالي على التنزيهية لعدم دليل التحريمية، حتى لو صلاها بعد الأوراد تقع سنة مؤداة، لكن لا في وقتها المسنون، ثم قال: وأفاد شيخنا أن الكلام فيما إذا صلى السنة في محل الفرض لاتفاق كلمة المشايخ على أن الأفضل في السنن حتى سنة المغرب المنزل أي فلا يكره الفصل بمسافة الطريق (قوله قال الحلبي إلخ) هو عين ما قاله الكمال في كلام الحلواني من عدم المعارضة ط (قوله: ارتفع الخلاف) لأنه إذا كانت الزيادة مكروهة تنزيهاً كانت خلاف الأولى الذي هو معنى لا بأس (قوله: وفي حفظي إلخ) توفيق آخر بين القولين، المذكورين، وذلك بأن المراد في قول الحلواني لا بأس بالفصل بالأوراد: أي القليلة التي بمقدار "اللهم أنت السلام إلخ" لما علمت من أنه ليس المراد خصوص ذلك، بل هو أو ما قاربه في المقدار بلا زيادة كثيرة فتأمل. وعليه فالكراهة على الزيادة تنزيهية لما علمت من عدم دليل التحريمية فافهم وسيأتي في باب الوتر والنوافل ما لو تكلم بين السنة والفرض أو أكل أو شرب، وأنه لا يسن عندنا الفصل بين سنة الفجر وفرضه بالضجعة التي يفعلها الشافعية (قوله: والمعوذات) فيه تغليب، فإن المراد الإخلاص والمعوذتان ط (قوله: ثلاثاً وثلاثين) تنازع فيه كل من الأفعال الثلاثة قبل"
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 530)
ملک العلماء علامہ كاساني رحمه الله لکھتے ہیں:
"إن كانت صلاة لا تصلى بعدها سنة، كالفجر والعصر: فإن شاء الإمام قام، وإن شاء قعد في مكانه يشتغل بالدعاء; لأنه لا تطوع بعد هاتين الصلاتين، فلا بأس بالقعود، إلا أنه يكره المكث على هيئته مستقبل القبلة، لما روي عن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا فرغ من الصلاة لا يمكث في مكانه إلا مقدار أن يقول: (اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام); ولأن مكثه يوهم الداخل أنه في الصلاة فيقتدي به فيفسد اقتداؤه، فكان المكث تعريضا لفساد اقتداء غيره به فلا يمكث، ولكنه يستقبل القوم بوجهه إن شاء" انتهى من "بدائع الصنائع" (1/159)
علامہ عینی نے عمدہ القاری 599/4, حضرت شیخ نے اوجز 500/7 میں اور فیض الباری وغیرہ میں اس بابت تشفی بخش بحث کی گئی ہے؛ فليراجع ثمةً.
واللہ اعلم بالصواب 
مركز البحوث الإسلامية العالمي 
ہفتہ 20 ربیع الاول 1442ہجری  
7 نومبر / 2020
https://saagartimes.blogspot.com/2020/11/blog-post_7.html



No comments:

Post a Comment