Wednesday, 20 November 2019

پیشہ ور بھکاریوں کو دینا کیسا ہے؟

پیشہ ور بھکاریوں کو دینا کیسا ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
اسلام میں ایسے شخص کو جس کے پاس ایک دن کے صبح و شام کے کھانے کا انتظام موجود ہے، سوال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت سہل بن الحنظلیة سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس ایک دن کے صبح و شام کے کھانے کا انتظام موجود ہے، پھر بھی وہ سوال کرتا ہے تو وہ جہنم کی آگ اکٹھا کررہا ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایسے شخص کے لیے سوال کرنا جائز نہیں ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے مال کو بڑھانے کے لیے سوال کررہا ہے تو وہ جہنم کا انگارہ جمع کررہا ہے، اب اس کی مرضی چاہے زیادہ جمع کرے یا کم۔ (مشکوٰة)
دوسری طرف اسلام نے صاحب حیثیت لوگوں کے ذمہ رکھا ہے کہ ضرورت مند لوگوں کے حالات کا تفقّد کریں اور ان کی ضروریات کو پوری کرنے کی فکر کریں۔
لہٰذا، راستوں اور بازاروں میں جو لوگ پیشہ ور طور پر مانگتے ہیں، مانگنا انھوں نے پیشہ بنالیا ہے، اگر ان کو نہ دیا جائے تو کوئی گناہ نہ ہوگا۔ او راگر قرائن سے اندازہ ہو کہ ضرورت مند مانگ رہا ہے تو حسب حیثیت اس کی مدد کردے۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابن آدم ! تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔ اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے: اَمَّا السَّآئِلَ فَلاَ تَنْہَرْ سوال کرنے والے کو جھڑکو مت، اور اگر گنجائش نہ ہو تو نرمی سے عذر کردے۔
درست نہیں ہے۔ ایسا چندہ مسجد کے دروازہ پر کیا جائے تو گنجائش ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
----------
مزید یہ کہ جو آج کی حالت ہے کہ سوال کرنا یہ ایک پیشہ ہی ہے ۱۰۰ میں سے صرف زیادہ سے زیادہ ۵ لوگ اصلی حقدار ہوتے ہوں گے باقی سب خود لکھپتی ہوتے ہیں جیسے کہ ابھی حال ہی کا کیس آیا تھا جو ٹرین سے ٹکرا کر مرگیا تھا ۱۰ لاکھ کا مالک تھا پر بھیک مانگتا تھا ۲.۵ لاکھ سکوں میں اس کے گھر پر سے ملا تھا ایسے بہت سے واقعات سامنے آچکے ہیں یہاں تک کہ اس کیلئے باقاعدہ ریکٹس اور ٹیم کام کرتی ہیں ایک شہر سے بچوں کا اغوا کرکے دوسرے شہر لیجاکر ان کی ایک آنکھ بیچ دی. ایک گردہ بیچ دیا. جسم کا جو حصہ بیچا جاسکتا ہے وہ بیچا پھر اسے معذور بناکر بھیک منگواتے ہیں. سڑکوں پر اکثر وہی بچے ہوتے ہیں جن پر ہم ترس کھاکر پیسے دے دیتے ہیں 
لہذا ۵ لوگوں کی وجہ سے ۹۵ غلط لوگوں کی غلط کام میں مدد کرنا بالکل درست نہیں. وہ بھی ایسے کام میں جس سے کئی بچوں کی زندگیاں اور ان کے ماں باپ کی زندگیاں تباہ وبرباد ہوجاتی ہیں 
اور حقیقت میں جو مستحق ہوتا ہے وہ بہت کم ہی ایسے بھیک مانگتے ہیں 
۱۰۰ میں سے ۵ لوگ بھی میری راۓ کے مطابق زیادہ ہی ہیں جتنا میرا علم ہے 
واللہ اعلم

पेशेवर भिखारी को देना गुनाह है
मसअला: (170) 
बाज़ लोगों ने मस्जिदों और होटलों के बाहर , इसी तरह ट्रेफिक सिग्नलों और दीगर गुज़रगाहों पर *भी* मांगने को अपना पैशा बना लिया है।
जब के शरीअत का फरमान ये हे के जिस शख़्स के पास एक दिन की ग़िज़ा मौजूद है। 
या वो सही और तन्दरुस्त हे,कमा कर अपनी गुज़र बसर कर सकता हे, उसके लिये भीख मांगना ओर सवाल करना हलाल नहीं है, 
और जिस शख़्स को मांगने वाले की ये हालत मालूम हो , इसके बावजूद उसे कुछ दे दे तो वो मुस्तहिक़ ए सवाब होने के बजाए गुनाहगार होगा
क्यूं कि उसने हराम काम पर इआनत (मदद) की, और फिक़्ह का क़ाएदा है के:
" *जेसे हराम काम करना गुनाह है, ऐसे ही उस पर इआनत (मदद) भी गुनाह है*।"
(अल मसाइलुल मुहिम्मा जिल्द 6 सफ्हा 243)
(تدوین: ایس اے ساگر)

No comments:

Post a Comment