Friday, 1 November 2019

کیا اللہ تعالی نور ہے؟

کیا اللہ تعالی نور ہے؟
کیا اللہ تعالی نے ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نور سے پیدا کیا ہے یا بنایا ہے؟ کیا اللہ تعالی نور ہے؟

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے جابر! اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا کیا" (کشف الخفاء حدیث نمبر: ۸۲۸، ج:۱، ص:۳۱۱) پھر دنیا میں آپ بشر پیدا ہوئے چنانچہ متعدد آیات میں آپ کو بشر کہا گیا: قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ (کہف:۱۱۰) ہَلْ کُنْتُ اِلاَّ بَشَرًا رَّسُوْلاً (الاسراء:۹۳) پس آپ بشر میں سب سے افضل اورکامل ہیں۔ اور نورانیتِ باطن کے اعتبار سے نور بھی۔ اس بات کو یاد رکھیں کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نُور نہیں ہے کیونکہ اس ذات کو تو کسی آنکھ نے آج تک دیکھا ہی نہیں اور نہ کسی میں تاب ہے بلکہ نُور تو اللہ کی ایک مخلوق ہے۔ قران بھی اللہ کو ایک ناقابل بیان حقیقت یا ایک ہستی جس کا احاطہ الفاظ میں ممکن نہیں کے طور پر بیان کرتا ہے اور انسانی زبان میں اس کے لئے ایک مناسب مثال تلاش کرنا ممکن نہیں۔ اسی لئے اللہ قران میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’میرے لئے مثالیں نا گھڑو‘‘۔ النحل ۱٦۔ اسی طرح ہمیں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ فرشتے نُور یا روشنی سے بنائے گئے ہیں لہذا خالق اور مخلوق ایک نہیں ہو سکتے ہیں۔ نُور کا لفظ قران میں ہدایت، علم یا ایمان کے زمرے میں استعمال ہوا ہے جیسے کفر کے اندھیرے میں ہدایت کا نُور۔ اسی طرح اس لفظ کو اللہ کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کی مثال دینے کے لئے بھی استعمال کیا گیا یعنی اللہ ہی دنیا میں موجود تمام ہدایت کی روشنی و نُور کا منبع و سرچشمہ ہے۔ قران میں سورة النور آیت ۳۵ میں اسی ہدایت کی روشنی کی مثال دی گئی۔
اللهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اب اگر اس آیت سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا جائے کہ اللہ ہی نُور کا بنا ہے تو یہ بالکل غلط ہوگا کیونکہ نا صرف یہ پہلے بیان کی گئی آیتوں کا انکار ہوگا بلکہ اللہ توخود اس آیت میں فرما رہا ہے کہ ’’اس کے نُور کی مثال ایسی ہے‘‘ یعنی اللہ بذات خود انسانی زبان میں اپنی ہستی کے حوالے سے مثال دے رہا ہے تاکہ بات کی وضاحت ہوجائے.
حدیث کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے آپ نے فرمایا تھا:
نور أنی أراہ
اللہ تعالی نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ فرشتے بھی نور ہیں۔ لیکن اس سے خالق و مخلوق کی مشابہت لازم نہیں آتی۔ فرشتے نور ہیں لیکن مخلوق ہیں ۔ اللہ تعالی خالق ہے اور اللہ کی نورانیت ویسی ہے جو اللہ کو لائق ہے۔ یہ شبہ نیا نہیں ہے۔ فات کے بارے میں یہ شبہ بہت پرانا ہے۔ اللہ تعالی کی صفات (سمع، بصر، ید) وغیرہ کا انکار کرنے والے بھی ہی بہانہ بناتے ہیں کہ یہ چیزیں تو مخلوق کی بھی ہوتی ہیں ۔ اب خالق کے اندر بھی یہی چیزیں مان لی جائیں تو تشبیہ لازم آ جائے گی۔ لہذا انہوں نے اللہ کی ان صفات انکار کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مخلوق کے لیے سمع بصر ید وغیرہ اس کی حیثیت کے لائق ہے جبکہ اللہ کے لیے یہ صفات اس کی شان کے مطابق ہیں۔ یہاں تشبیہ کیسے لازم آئے گی؟ درحقیقت صفات کے منکرین پہلے خود اپنے ذہن کے مطابق خالق ومخلوق کی صفات کو ایک جیسا تصور کرتے ہیں اور پھر جب نتیجہ نکلتا ہے اس کے ڈر سے انکار کردیتے ہیں.
آیت مذکورہ کو اہل علم آیت نور لکھتے ہیں کیونکہ اس میں نور ایمان اور ظلمت کفر کو بڑی تفصیلی مثال سے سمجھایا گیا۔
نور کی تعریف:
امام غزالی نے یہ فرمائی الظاہر بنفسہ والمظھر لغیرہ، یعنی خود اپنی ذات سے ظاہر اور روشن ہو اور دوسری چیزوں کو ظاہر و روشن کرنے والا ہو۔ اور تفسیر مظہری میں ہے کہ نور دراصل اس کی کیفیت کا نام ہے جس کو انسان کی قوت باصرہ پہلے ادراک کرتی ہے اور پھر اس کے ذریعہ ان تمام چیزوں کا ادراک کرتی ہے جو آنکھ سے دیکھی جاتی ہیں جیسے آفتاب اور چاند کی شعاعیں ان کے مقابل اجسام کثیفہ پر پڑکر اول اس چیز کو روشن کردیتی ہیں پھر اس سے شعاعیں منعکس ہوکر دوسری چیزوں کو روشن کرتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ لفظ نور کا اپنے لغوی اور عرفی معنے کے اعتبار سے حق تعالیٰ جل شانہ کی ذات پر اطلاق نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ جسم اور جسمانیات سب سے بری اور وراء الوری ہے اس لئے آیت مذکورہ میں جو حق تعالیٰ کے لئے لفظ نور کا اطلاق ہوا ہے اس کے معنے باتفاق ائمہ تفسیر منور یعنی روشن کرنے والے کے ہیں یا پھر صیغہ مبالغہ کی طرح صاحب نور کو نور سے تعبیر کردیا گیا جیسے صاحب کرم کو کرم اور صاحب عدل کو عدل کہہ دیا جاتا ہے۔ اور معنے آیت کے وہ ہیں جو خلاصہ تفسیر میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نور بخشنے والے ہیں آسمان و زمین کو اور اس میں بسنے والی سب مخلوق کو اور مراد اس نور سے نور ہدایت ہے۔ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس سے اس کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔ اللہ ھادی اھل السموات والارض۔

معارف القرآن

(ایس اے ساگر)


No comments:

Post a Comment