میں نکاح کرتا ہوں کے الفا ظ سے نکاح کا حکم
کیا نکاح حال کے صیغہ سے قبول کرے تو منعقد نہیں ہوتا؟؟؟؟؟ جیسا کہ یہ کہے کہ میں قبول کرتا ہوں تو نہیں ہوگا کیا؟؟؟
یہ قدوری ہے |
کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام ومفتیانِ عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ ’’میں نکاح کرتا ہوں‘‘ ان الفا ظ سے نکاح ہوجائیگا یا ماضی کا لفظ ’’میں نے نکا ح کیا‘‘ یہ بولنا ضروری ہے؟ یا یہ جو کہا جاتا ہے کہ ’’میں قبول کرتا ہوں‘‘ اس پر بھی روشنی ڈال دیں؟
الجواب بعون الملک الوھاب
جاننا چاہئے کہ دو قسم کے الفا ظ (صیغوں) سے نکاح منعقد ہوتا ہے:
(۱) لفظ ماضی: متعاقدین میں سے ہر ایک ایجاب وقبول لفظ ماضی کے سا تھ کرے جیسا کہ آدمی کہے ’’میں نے تجھ سے نکاح کیا ‘‘اور عو رت جواب میں کہے ’’میں نے قبو ل کیا‘‘۔
(۲) لفظ حال یا مستقبل (امر): متعا قدین میں سے ایک لفظ حال یا مستقبل (امر) سے ایجا ب کرلے اور دوسرا لفظ ما ضی استعمال کرکے قبول کرے جیسا کہ کوئی شخص کہے ’’میں تجھ سے نکاح کرتا ہوں‘‘ یا ’’مجھ سے نکاح کرلو‘‘ اور عورت قبول کرتے ہوئے کہے کہ ’’ میں نے قبول کرلیا ‘‘ تو اس سے نکاح منعقد ہوجاتا ہےاور اگر قبول کرنے میں، وعدہ یا استقبال کا مطلب لئے بغیر یہ الفاظ استعمال کرلئے جائیں ’’میں قبول کرتا ہوں‘‘ تو حال کا معنی مراد لیتے ہوئے اس سے بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے البتہ اگر وعدہ یا استقبال مراد ہو تو نکاح منعقد نہ ہوگا۔
نکاح کے انعقاد کے لئے صرف لفظ ماضی کے ذریعے ایجاب وقبول کرنا ضروری نہیں بلکہ مندرجہ بالا الفاظ میں سے جس سے بھی ایجاب وقبول کیا جائے، نکاح منعقد ہوجا ئے گا نیز استقبالِ محض (یعنی میں تجھ سے نکاح کروں گا وغیرہ) کا صیغہ اگر ایجاب یا قبول میں استعمال ہوتو نکاح منعقد نہ ہوگا۔
لما فی الدر المختار(۹/۳): (وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق ( كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك ( و) يقول الآخر (تزوجت و) ينعقد أيضا (بما) أي بلفظين (وضع أحدهما له) للمضي (والآخر للاستقبال) أو للحال فالأول الأمر (كزوجني) أو زوجيني نفسك أو كوني امرأتي فإنه ليس بإيجاب بل هو توكيل ضمنی (فإذا قال) في المجلس (زوجت) أو قبلت أو بالسمع والطاعة، بزازية قام مقام الطرفين وقيل هو إيجاب ورجحه في البحر والثاني المضارع المبدوء بهمزة أو نون أو تاء كتزوجيني نفسك إذا لم ينو الاستقبال۔
فقط واللہ اعلم
(تدوین: ایس اے ساگر)
(تدوین: ایس اے ساگر)
[حضرت مولانا خیر محمد جالندھری ، خیر الفتاوی جلد 4، جلد 1 ص 310] |
No comments:
Post a Comment