بھاڑ میں جاؤ تم
ہمارے معاشرے میں "بھاڑ" کو محاورے کے طور پر استعمال کیا جاتا ھے، جیسے:
• بھاڑ میں جاؤ تم
• بھاڑ میں جائے تمہارا کہنا
• تم اور تمہاری (کوئی بھی چیز، بات وغیرہ) بھاڑ میں جائے
• میری بلا سے بھاڑ میں گیا
لوگوں کی سوچ ھے کہ نفرت یا غصے کے اظہار میں ایسا کہا جاتا ھے، اور اس کا مطلب ھے؛ "دفع ہو جاؤ"، یا ایسے جملوں کو دوسرے کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ھے
یہ ایک غلط سوچ ھے
اَصل:-
اس محاورے کو ہمارے معاشرے میں بہت مقامات پر بولا جاتا ھے۔ کبھی کوئی کسی سے ناراض ہو تو غصے میں یہ محاورا بول دیتا ھے، یا پھر حالات سے تنگ آ کر بھی اس محاورے کا استعمال کیا جاتا ھے۔ حالانکہ ان سے اگر اس محاورے کا صحیح معنی پوچھا جائے تو ان کا کہنا ہوتا ھے کہ؛ اس محاورے کا استعمال جب کسی چیز سے جان چھڑانی ہو یا بیزاری ہو جائے تو تب استعمال کیا جاتا ھے مگر لفظی معنی معلوم نہیں ھے۔ اس محاورے کی اصل ملاحظہ ہوں:
☆ بھاڑ کا لغوی معنی:
۱) چولھا یا بھٹی جس پر بھڑ بھونجے اناج کے دانے بھونتے ہیں بالعموم ڈربے نما سامنے سے کھلا ہوا جس میں چنے وغیرہ بھوننے کے لیے بالو گرم کرتے ہیں
۲) آگ کا گڑھا، جہنم، دوزخ
۳) زنا کی کمائی، زنا کی اجرت
☆ بھاڑ کا اصطلاحی معنی:
• غارت
• برباد
• تباہ
• جلنا
• جہنم/دوزخ
• دفع
☆ بھاڑ کا انگریزی اصطلاحی معنیٰ:
• جہنم میں جاؤ
• وطی کرو
◯ بھاڑ میں جاؤ تم:
لوگوں میں یہ جملہ بہت عام ھے، حالانکہ اس کے لفظی معنی اور اصطلاحی معنی میں زمین آسمان کا فرق ھے؛
☆ اِصطلاح کے مطابق:
اصلاحی معنی سے مراد وہ معنی جو لوگوں میں مشہور ہو گیا ہو مگر اس کا اصل معنی کچھ اور ہو، اصطلاح میں "تم بھاڑ میں جاؤ" سے مراد؛ تم دفع ہو جاؤ، یا کسی سے بیزاری یا غصے کا اظہار کرنے کے لیے استعمال ہوتا ھے۔
جب کوئی بات مرضی کے خلاف ہو تو بغرض اکراہ بولا جاتا ھے۔
(ملاحظہ ہو:- دہلی کے محاورے ۲۰۰۸ء - از: ضمیر حسن دہلوی)
☆ حقیقی معنی:
لفظی معنی کو حقیقی معنی بھی کہا جاتا ھے۔ اصل میں اس محاورے کے معنی ہیں؛ تم دوزخ میں جاؤ، تم برباد ہو جاؤ، آگ لگے تمہیں، تم غارت ہوجاؤ، تمہیں جہنم نصیب ہو۔
(ملاحظہ ہو:- اردو محاورے ۱۹۷۲ء - از: فخرالدین صدیقی اثر)
اِضافی:-
اگرچہ ان کے نزدیک یہ عام بات ھے مگر اگر کوئی آپ کو ایسا کہے کہ:
"تم دوزخ میں جاؤ"
تو آپ کا ردعمل اس پر یہی ہو گا کہ آپ اس شخص سے بھڑ جائیں گے کہ مجھے تم نے اتنی بڑی بد دعا کیسے دی۔ مگر وہی شخص اگر کہے کہ:
"تم بھاڑ میں جاؤ"
تو ہمارا ردعمل کچھ نہیں ہوتا بلکہ الٹا ہم بھی کہہ دیتے ہیں کہ، تم بھی بھاڑ میں جاؤ اور تمہاری سوچ بھی ۔ ۔ ۔ وغیرہ، کیونکہ ہم بھاڑ کے مطلب سے ہی آشنا نہیں ہیں۔ اسی لیے ہم اسے بددعا ہی نہیں سمجھتے۔
افسوس یہ ھے کہ ہمارے معاشرے کی ماؤں کو بھی یہ محاورا غصے میں اپنے بچوں پر استعمال کرتے ہوئے سنا ھے۔ دوستوں کو آپس میں اور بڑے بزرگوں کا تو تکیہ کلام بن چکا ھے۔ جس بات پر ناگواری ہو تو جھٹ سے کہہ دینا، "سب بھاڑ میں جائیں"۔
حاصلِ کلام:-
یقینا اس لفظ کے اصل معنی جاننے کے بعد ایک سمجھدار مسلمان اس محاورے کو آئندہ اپنی زبان پر نہ لانے کی احتیاط کرے گا۔ کیونکہ اس کے معنی بہت برے اور اخلاق سے گرے ہوئے ہیں۔ جہنم وہ مقام ھے جس سے تمام انبیاء کرام پناہ مانگتے رہے، اور ہم لوگ ہر وقت اس محاورے کا استعمال کر کے ایک دوسرے کو بد دعائیں دیتے پھرتے ہیں۔ کیا کسی کو دوزخ میں جلنے کی بد دعا دینا ایک مسلمان کو زیب دیتا ھے؟ ۔ ۔ ۔کیا کسی کو زنا کی کمائی کا الزام دینا، ایک شرمناک بات نہیں ھے؟ ۔ ۔ ۔سوچیں، غور کریں کہ ہم اپنی نسلوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔ ہماری اولادیں ہم سے سن کر اسی محاورے کا استعمال بغیر کچھ سوچے سمجھے کرتی ہیں، حالانکہ ہمیں معاشرے کی اصلاح کرنی چاہیے، ایک باوقار اور باتہذیب معاشرا بنانا چاہیے۔ بلاوجہ کی بد دعائیں دینا گناہ کا سبب بھی ھے۔ پس اس محاورے کا استعمال بالکل درست نہیں ھے، غصے میں ہو یا عام گفتگو میں، ہر صورت میں اس کا استعمال ترک کر دینا چاہیے۔ اللّٰه ﷻ ہمیں اس جیسے فضول محاوروں کے استعمال سے بچائیں۔ ۔ ۔آمین
[کتـاب: ایک غلط سوچ]
Bhai bahut Shukriya Allah aapko iska Badla Ada Karen bahut acchi baat hai bahut acchi Maloom Hai To Apne Shair ki hai
ReplyDelete