Friday 1 November 2019

Ruling on praise and encouragement حوصلہ افزائی، تملّق ومدح سرائی: شرعی حدود واحکام

حوصلہ افزائی، تملّق ومدح سرائی___شرعی حدود واحکام 

انسانوں میں اللہ تعالی نے خوبیاں بھی رکھی ہیں اور خامیاں بھی! فألهمها فجورها وتقواها. 
عام انسان، بشری جبلت کے بموجب غلطیاں بھی کرتا ہے، اس سے گناہ اور قابل ذم امور بھی صادر ہوتے ہیں اور اسی سے خیر، صلاح وفلاح اور قابل مدح وستائش کام بھی انجام پاتے ہیں۔
انسانوں کی نیت،  قلبی کیفیت، باطنی احوال اور ایمانی اوصاف پہ اطلاع وآگہی ذات باری کے سوا کسی بھی انسان کو ہر گز  نہیں ہے، ظاہری حرکات وسکنات،  باطنی کیفیات کو چانچنے اور پرکھنے کی علامات محضہ ہیں، حقیقی معیار وتھرمامیٹر ہرگز نہیں! 
انسان طبعی طور پر اپنی تعریف وتوصیف سن کر خوش ہوتا ہے، اور نقد وذم سے شکستہ ورنجور! 
اگر یہ معلوم ہو کہ سامنے والا شخص اپنی مدح سرائی سے خودپسندی اور عجب نفس میں مبتلا ہوکر کوتاہی عمل کا شکار نہ ہوجائے تو اس اطمنان کے وقت اچھا کام کرنے پر صدق نیت سے سادہ لفظوں میں ایسے شخص کی اچھائیوں اور خوبیوں کی تعریف کرنا، تحریک عمل اور نشاط پیدا کرنے کے لیے اس کی ہمت افزائی کرنا اور اس کے حق میں مبالغہ آرائی، کذب وریاء سے پاک توصیفی کلمات کہنا، نہ صرف جائز؛ بلکہ سنت رسول سے ثابت ہے اور مستحسن عمل ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعریف وتوصیف کرتے ہوئے فرمایا ہے:
"نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو بَكْرٍ نِعْمَ الرَّجُلُ عُمَرُ نِعْمَ الرَّجُلُ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ نِعْمَ الرَّجُلُ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ نِعْمَ الرَّجُلُ ثَابِتُ بْنُ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ نِعْمَ الرَّجُلُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ نِعْمَ الرَّجُلُ مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ" (سنن الترمذی 3810، و 7107، باب مناقب معاذ بن جبل)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی تعریف بھی آپ نے اس طرح بیان فرمائی:
"نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللَّهِ لَوْ كَانَ يُصَلِّى مِنَ اللَّيْلِ". قَالَ سَالِمٌ فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بَعْدَ ذَلِكَ لاَ يَنَامُ مِنَ اللَّيْلِ إِلاَّ قَلِيلاً. [صحیح البخاری 1083، کتاب الجمعہ، ومسلم 4633، کتاب فضائل الصحابہ،  باب من فضائل عبد اللہ بن عمر)
چونکہ کسی انسان کو دوسرے انسان کے باطنی اور قلبی احوال وکیفیات کا حقیقی علم وادراک یقینی طور پر ہے نہیں، اس بابت وہ جو کچھ بھی کہے گا ظن وتخمین پر ہی مبنی ہوگا،  اس لئے اس مسئلے میں بھی شریعت نے اپنے پیروکاروں کو شتر بے مہار کی طرح، مادر پدر آزاد نہیں چھوڑدیا؛ بلکہ ہدایت یہ فرمائی ہے کہ تعریف کرتے وقت یہ نہ کہے کہ فلاں یقینا ایسے ہیں ویسے ہیں؛ بلکہ یوں کہے کہ میرا خیال ہے کہ فلاں ایسا ہے یا آپ ایسے ہیں۔
عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه، قال: أثنى رجل على رجل عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: «ويلك قطعت عنق صاحبك، قطعت عنق صاحبك» مرارا، ثم قال 
«من كان منكم مادحا أخاه لا محالة، فليقل أحسب فلانا، والله حسيبه، ولا أزكي على الله أحدا أحسبه كذا وكذا، إن كان يعلم ذلك منه»
«صحیح البخاری/الشہادات 2662)، الأدب ۹۵ (۶۱۶۲)، صحیح مسلم/الزہد ۱۴ (۳۰۰۰)، سنن ابی داود/الأدب ۱۰ (۴۸۰۵)، (تحفة الأشراف : ۱۱۶۷۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۴۱، ۴۶، ۴۷)
(حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا: ”افسوس! تم نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی“، اس جملہ کو آپ نے کئی بار دہرایا، پھر فرمایا: ”تم میں سے اگر کوئی آدمی اپنے بھائی کی تعریف کرنا چاہے تو یہ کہے کہ میں ایسا سمجھتا ہوں، لیکن میں اللہ تعالیٰ کے اوپر کسی کو پاک نہیں کہہ سکتا“ 
 یعنی میں یہ نہیں جانتا کہ حقیقت میں اللہ کے نزدیک یہ کیسا ہے؟ میرے نزدیک تو اچھا ہے)
ممدوح کی حقیقی حوصلہ افزائی، سادہ لہجے، معتدل ومتوازن اسلوب، پیار بھرے انداز میں کرنا (بشرطیکہ اسے عجب وغرور میں مبتلا ہوجانے کا گمان غالب نہ ہو) تو جائز، بلکہ باعث اجر وثواب ہے، کیونکہ اس سے مایوس وہمت شکستہ افراد کو حوصلہ ملتا، ڈھارس بندھتی اور تحریک وتقویت عمل پیدا ہوتی ہے؛ لیکن کسی کی خوشامد، مدح خوانی، قصیدہ گوئی، جسے حدیث رسول میں "ملق" ، "تمادح" کہا گیا ہے، ہم لوگ اپنی زبان میں اسے تملق وچاپلوسی کہتے ہیں، یعنی کسی شخص کی تعریف وتوصیف میں زمین وآسمان کے قلابے ملادینا اور اسے ایسے اوصاف سے متصف کرنا جن کا ممدوح میں نام ونشان تک نہ ہو، صریح جھوٹ، ریاء ومنفافقت ہے اور گناہ کبیرہ ہے۔
ایسے مواقع پہ تعریف وتوصیف میں اٹکل پچو کے تیر چلائے جاتے،  ذاتی مفادات ومراعات کے حصول کے لئے محبت کے لمبے چوڑے دعوے کئے جاتے ہیں جبکہ دل محبت سے خالی ہوتا ہے، یوں اس میں نفاق اور ریاء کاری دونوں پائے جاتے ہیں، ممدوح بھی اپنی تعریف سن کر پھول جاتا، خود کو قابل مدح سمجھنے لگتا اور اعمال خیر میں  کوتاہی عمل کا بری طرح شکار ہوجاتا ہے؛ اس لئے تملق وچاپلوسی وخوشامد کی حرمت میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔
حوصلہ افزائی میں حقیقی مقصد، حق گوئی اور پیار بھرا اسلوب ہوتا ہے، مدوح میں اس سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے؛ اس لئے یہ جائز ہی نہیں، مستحسن بھی  ہے 
جبکہ بیجا مدح سرائی اور خوشامد میں کذب بیانی، ریاء کاری، نفاق، خود غرضی، اور بہروپیا پن ہوتا ہے، اس سے ممدوح میں عجب وکبر پیدا ہوتا ہے؛ اس لئے یہ ناجائز اور حرام ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شنیع حرکت سے سختی سے منع کرتے ہوئے اسے ممدوح کے لئے "ذبح" قرار دیا ہے:
إياكم والتمادح فإنه الذبح، ابن ماجہ 3743 
(خوشامد سے بالکل بچو، کیونکہ ذبح کردینے کے برابر ہے)
وإيَّاكُم والتَّمادحَ فإنَّهُ الذَّبحُ وروَى ابنُ ماجَه منهُ: إيَّاكُم والتَّمادحَ فإنَّهُ الذَّبحُ
 أخرجه البخاري (3116)، ومسلم (1037) أوله في أثناء حديث، وابن ماجه (221، 3743) مفرقاً، وأحمد (16846) واللفظ له
یہ اتنا گھٹیا اور گھنائونا عمل ہے جو کسی مسلم سے صادر ہی نہیں ہوسکتا:
ليسَ مِن أخلاقِ المؤمنِ التَّملُّقُ، ولا الحسَدُ، إلا في طلَبِ العلمِ
(عن معاذ بن جبل. السيوطي.الجامع الصغير. الرقم: 7652.والحدیث  ضعيف)
خلاف واقعہ مبالغہ آمیز مدح سرائی، منبع اوصاف وکمالات، وجہ تخلیق کون ومکان، محبوب باری، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے لئے بھی منع فرمادی ہے، پھر عام انسانوں کے لیے یہ کیسے گوارا کی جاسکتی ہے؟ ارشاد نبوی ہے: 
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سَمِعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: عَلَى الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ: لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ ، فَقُولُوا: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ.
(میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھادیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں- (صحیح البخاری : ٣٤٤٥)
اس حدیث میں غیرواقعی چیزوں پہ تعریف کرتے ہوئے مبالغہ آرائی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ایسی چیزیں منسوب کرنے سے منع کیا گیا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود نہیں 
جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے علم غیب، حاضر وناظر یا اختیارکلی جیسی چیزیں منسوب کردینا، 
کیونکہ یہ چیزیں صرف اللہ کی خصوصیات ہیں 
حضور باوجود جملہ خصوصیات کے لوگوں کے ان دعاوی محضہ سے متصف نہیں، جیسے عیسی ابن مریم جملہ معجزات کے علی الرغم ابنیت خداوندی سے متصف نہیں ہیں 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں خود اپنے لئے  بیجا مدح سرائی اور تعریف وتوصیف میں حدود سے تجاوز کرجانے کو منع فرمایا ہے، حقیقی چیزوں کی تعریف کی ممانعت نہیں۔
ایک آیت کے عموم سے تملق وچاپلوسی پہ خوش ہونے والے شخص کے لئے عذاب جہنم کی سخت وعید بھی ثابت ہوتی ہے:
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوا وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ 
(اور (کہہ دیجئے) ان لوگوں کو جو اپنے کرتوت پر اتراتے ہیں اور کیا (کچھ بھی) نہیں۔ اور (اس پر) خواہشیں کرتے ہیں کہ ہماری تعریف ہو۔ سو ان کی نسبت یہ نہ سمجھنا کہ انہوں نے عذاب (دوزخ) سے رستگاری حاصل کرلی ہے (بلکہ) ان کے لئے (تو) عذاب دردناک (تیار) ہے، تفسیر حقانی 
آل عمران 188)
آج کا اخلاقی وسماجی  ناسور: 
خوشامد، مدح سرائی، تملق، قصیدہ گوئی آج معاشرے کا اخلاقی ناسور بن گیا ہے، سوشلستان میں لائک وکومنٹس کی شکل میں اس مرض کا تعدیہ کچھ زیادہ ہی ہورہا ہے، خود ستائشی وخود نمائی کا مزاج ایسا بنتا جارہا ہے کہ اگر کسی کی تخلیقات وتحریرات پہ توصیفی تبصرے نہ کئے جائیں تو تعلقات میں بدمزگی تک پیدا ہوتی جارہی ہے، جبکہ شریعت اسلامیہ نے اس کے انسداد کا تاکیدی حکم دیا اور اس کے سنگین نتائج بد سے آگاہ بھی کیا ہے، حقیقی خوبیوں پہ حوصلہ افزا کلمات کہنا بلاشبہ جائز ہے، اس میں جادوئی اثر انگیزی مخفی ہوتی ہے، اس سے حوصلے جواں ہوتے، عزم کو پختگی ملتی ہے، صلاحیتیں نکھرتی ہیں، جبکہ خوشامد وچاپلوسی سفید جھوٹ، مبالغہ آرائی اور ریاء ونفاق ہے، یا ان چیزوں کی آمیزش ہوتی ہے۔ اس میں مدّاح  کی ذاتی منفعت چھوڑکے باقی سب کے لئے عظیم نقصانات ہیں، تواضع وللہیت کو کام میں لاتے ہوئے اس سرطان سے بچا جاسکتا ہے، واگرنہ اس کے مہلک جراثیم بالکل سبک گامی سے ہمارے دین وایمان میں سرایت کر اس کا تیا پانچا کرکے ہی چھوڑیں گے، اللہ تعالی ہماری اس سے مکمل حفاظت فرمائے۔ آمین
شکیل منصور القاسمی۔ بیگوسرائے 
٣/٣/١٤٤١هجري

-------------------------------------------------------------

Exaggerated Praise of the Prophet of Allah (peace and blessings be upon him)

What’s the meaning of this hadith: “do not celebrate me and lift me to a high status as the Christians did with Jesus the son of Mary?”
In the name of Allah, Most Compassionate, Most Merciful,
The Hadith towards which you have referred is recorded by Imam al-Bukhari in his Sahih, on the authority of Sayyiduna Umar ibn al-Khattab (Allah be pleased with him) that he heard the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) say: “Do not exaggerate in praising me as the Christians praised the son of Mary, for I am only a Slave. So, call me the Slave of Allah and His Messenger.” (Sahih al-Bukhari, no: 3261)
The meaning of this Hadith is quite clear and simple, in that one must avoid exaggeration in praising the Messenger of Allah (Allah bless him & grant him eternal peace) in a manner the Christians praised Sayyiduna Esa (peace be upon him). Anything besides this has been implicitly permitted in this Hadith.
Now, we need to see how the Christians exaggerated in their reverence for Sayyiduna Esa (peace be upon him). The Christians exaggerated in praising Sayyiduna Esa (peace be upon him) to the level that they considered him to be either a God, son of God or a partner of God. Hence, it will be completely unlawful and disbelief to elevate the status of the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) in a manner that one considers him to be a God, son of God or a partner of Allah.
Allah Most High is one and unique in his essence and attributes, as Imam al-Tahawi (Allah have mercy on him) states: “We say about Allah’s unity (tawhid) – with Allah’s help- that Allah is One, without any partners.” (al-Aqidah al-Tahawiyya, p: 5)
The renowned commentator of Sahih al-Bukhari, Imam Hafidh Ibn Hajar al-Asqalani (Allah have mercy on him) states in the explanation of this Hadith, quoting from Ibn al-Jawzi:
“The reason behind this prohibition (m: of exaggerating in the praise of the Prophet) was due to what was mentioned in the Hadith of Mu’adh, where he (Sayyiduna Mu’adh, Allah be pleased with him) sought the Messenger of Allah’s (Allah bless him & give him peace) permission in order to prostrate before him. The Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) forbade him from doing so. Hence, the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) feared that someone else may exaggerate even more, thus he was quick to prohibit such exaggeration with great emphasis. Ibn al-Tin said: The meaning of “Do not exaggerate in praising me” is that do not praise me as the praise of Christians. So much so that some exaggerated and regarded him (Sayyiduna Esa) to be a partner of God. Some claimed that he was God himself, whilst others said that he was the son of God.” (Ibn Hajar al-Asqalani, Fath al-Bari, 12/183-184)
The above passage from one of the greatest commentary on Sahih al-Bukhari quite clearly indicates that the prohibition is of giving the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) the rank and status of Allah in any way or form. He is not God, neither a partner of God, nor His son. He is the Servant of Allah and his beloved Messenger (eternal peace and blessings be on him).
This Hadith does not in any way forbid one from praising the beloved of Allah greatly and excessively. Our presence is because of the Messenger of Allah. He is our master, beloved, intercessor and leader. We love him greatly, more than anything and everything in this world. Hence, we should send blessings on him and praise him as much as we can. If we don’t praise the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) and show reverence to him, then who will we praise.
As long as one avoids considering the Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) being equal to Allah Most High and avoids attributing divinity to him, there is absolutely nothing wrong in exaggerating in his love and praise, as the author of Qasida al-Burda, Imam al-Busayri (Allah have mercy on him) so beautifully said:
“Leave what the Christians claim about their Prophet. Then decide and say what you wish in praise of him (Allah bless him & give him eternal peace).”
And Allah knows best



No comments:

Post a Comment