Saturday 14 December 2019

شریعت وطریقت کا امتزاج

شریعت وطریقت کا امتزاج

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للّٰہ وکفیٰ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ
خدا کی نعمتیں اور اس کی معرفت کا علم ضروری ہے
مولانا روم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اے خدا احسانِ تو اندر بیشمار                   
می توانم بازبانِ صد ہزار
(اے خدا تیرے احسانات مجھ میں بے شمار ہیں۔ سو ہزار زبان سے بھی ان کو شمار نہیں کرسکتے)
پھر فرمایا:
جان و گوش چشم و ہوش پا ودست                            
جملہ از دُرّہائے احسانت پُراست
(میری جان میرے کان اور میری آنکھیں اور میرے ہوش وحواس اور ہاتھ پاؤں، سب کے سب آپ کے احسان کی موتیوں سے پُر ہیں)
تو جس محسن حقیقی نے بغیر کسی معاوضہ اور بدلہ کے ہمیں اتنی بڑی عظیم نعمتوں سے نوازا، سرسے پیر تک نعمتوں کے خزانے رکھے تو ان کی معرفت اور تعلق کے علوم اور اسباب کا جاننا اور اس کا داعیہ پیدا ہونا لازمی اور ضروری ہے۔
علم الشرائع والاحسان:
شرعی احکام جن کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کا مکلف کیا گیا ہے۔ ان کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ نے ”حجة اللہ البالغہ“ میں لکھا ہے:
اِعْلَمْ اَنَّ مَا کَلَّفَ بِہ الشَّارِعُ ․․․ ہُوَ الْاَعْمَالُ مِنْ جِہَةٍ اَنَّہَا تَنْبَعِثُ مِنَ الْہَیْئَاتِ النَّفْسانِیَّةِ الَّتِیْ ہِیَ فِی الْمِعَادِ لِلنُّفُوْسِ اَوْ عَلَیْہَا ․․․ وَالْبَحْثُ مِنْ تِلْکَ الْاَعْمَالِ مِنْ جِہَتَیْنِ - اَحَدُہُمَا جِہَةٌ اِلْزَامُہَا جَمْہُوْرَ النَّاسِ ․․․ وَالثانِیَةُ تَہْذِیْبُ نُفُوْسِہِمْ بِہَا وَاِیْصَالُہَا اِلٰی الْہَیْئَاتِ الْمَطْلُوْبَةِ مِنْہَا ․․․ فَالْبَاحِثُ عَنْہَا مِنَ الجِہَةِ الْاُوْلٰی ہُوَ عِلْمُ الشَّرَائِعِ وَعَنِ الثَّانِیَةِ ہُوَ عِلْمُ الْاِحْسَانِ (ج:۲، ص: ۲۶)
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ شرعی احکام جن کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کو مکلف کیا گیا ہے وہ دو طرح کے ہیں: 
1. ایک تو ان کی ظاہری صورت ہے۔ اور اسی سے حکم کی بجا آواری ہونے نہ ہونے کا پتہ چلتا ہے- اور 
2. دوسری ان کی وہ تاثیر ہے جس سے انسان کا قلب اور روح سنورتے اور بنتے ہیں۔ 
پہلی حیثیت کو علم الشرائع کہا جائے گا اور دوسری حیثیت کا نام علم الاحسان ہے۔
عقائد:
ہر مومن کے لئے تصحیح عقائد ضروری ہے۔ بغیر تصحیح عقائد کے کوئی عمل عند اللہ مقبول نہیں۔ اس لئے عقیدہ سے متعلق علوم ومباحث کو جاننا اور اس کے مطابق زندگی گذارنا ضروری ہے۔ سوء عقیدہ سے بظاہر کوئی بھی عمل عند اللہ مقبول ہونے کے بجائے مردود ہوجاتا ہے۔
عبادات:
نماز، روزہ، زکوٰة، حج اور دیگر اعمالِ صالحہ کو صحیح ترتیب کے ساتھ ادا کرنا چاہئے۔ بے ترتیبی اور غفلتوں سے عبادات کو بچانا چاہئے۔ ورنہ عدم مقبولیت کا قوی اندیشہ ہے۔
معاملات:
یعنی لین دین، خرید و فروخت اور ہر نوع کے معاملات جائز طریقے سے ہوں۔ ذرائع آمدنی بھی حلال اور پاک ہوں، اور مصارف بھی صحیح ہوں۔
معاشرت:
یعنی زندگی گذارنے اور رہنے سہنے میں جملہ آداب اور طریقے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق ہوں۔ جو اصولِ زندگی، شریعت مطہرہ میں منقول ہیں ان کی اطاعت مکمل طریقے سے ہو۔
اخلاقیات:
مثلاً تواضع، صبر وشکر، توکل، اخلاص، جن کو اخلاقِ محمودہ کہا جاتا ہے ان سبھوں کو درست کرنا بڑی نعمت ہے - اور سوءِ اخلاق مثلاً بغض، حسد، ریاء، عجب، حب جاہ اور حب مال- یہ خصائل مذمومہ اور اخلاقِ رذیلہ ہیں، جن سے اجتناب بہت ضروری ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے احسن اخلاق کی دعا بھی مانگی ہے: اَللّٰہُمَّ اہْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَخْلاَقِ لاَ یَہْدِیْ لِاَحْسَنِہَا اِلاَّ اَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّی سَیّئَہَا لاَیَصْرِفُ عَنِّی سَیِّئہَا اِلاَّ اَنْتَ ․
شریعت اور طریقت:
علم الشرائع اور علم الاحسان ہی کو علم شریعت اور علم طریقت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ انھیں کی مزید توضیح کے لئے فتاویٰ محمودیہ کی ایک عبارت یہاں درج کی جارہی ہے۔ ہمارے حضرت فقیہ اُمت مفتی محمود حسن صاحب رحمة اللہ علیہ مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند فتاویٰ محمودیہ میں تحریر فرماتے ہیں:
شریعت میں احکام ظاہرہ - نماز، روزہ، زکوٰة، حج، بیع وشراء اور نکاح وطلاق وغیرہ کے احکام بیان کئے جاتے ہیں۔ اور طریقت میں احکام باطنہ - صبر وشکر، رضا و تسلیم، تفویض و توکل اور اخلاص وغیرہ کے احکام بیان کئے جاتے ہیں۔ یعنی شریعت ظاہرکی اصلاح کرتی ہے،اور طریقت باطن کی اصلاح کرتی ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ، ج: ۱)
دوسری جگہ حضرت نے تحریر فرمایا ہے: جو احکام انسان کے ظاہر سے متعلق ہوں وہ شریعت ہیں اور تربیت باطن کا نام طریقت ہے۔ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں بلکہ معاون ومددگار ہیں۔ ان میں سے ایک کی تکمیل دوسرے سے ہوتی ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ، ج: ۱۵، ص: ۱۰۵)
الحمد للہ ان سب مضامین کو مولف موصوف نے خوب تفصیل سے قلم بند فرمایا ہے۔ اور حقیقت تصوف کے ساتھ عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات کو خوب خوب اُجاگر کیا ہے۔
علم تصوف کا مبداء ومنتہاء:
شیخنا وشیخ المشائخ، قطب الاقطاب حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ رحمة اللہ علیہ نے ایک موقع (1) سے ارشاد فرمایا کہ ”اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ“ یہ سارے تصوف کی ابتداء ہے ۔ اور ”اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَراہُ“ سارے تصوف کا منتہاء ہے۔ اسی کو نسبت بھی کہتے ہیں اور اسی کو یادداشت اور حضوری بھی کہا جاتا ہے۔
حضوری گر ہمی خواہی از و غافل مشو حافظ                 
متی ما تلق من تہویٰ دع الدنیا امہلہا
شریعت اور طریقت دوا بھی غذا بھی:
ایک بزرگ فرماتے ہیں دونوں عظیم نعمتیں ہیں۔ شریعت دوا بھی ہے اور غذا بھی۔ دوا ان کے حق میں جو ابھی کلفت مجاہدہ میں ہیں، اور غذا ان کے حق میں جو مجاہدہ کے بعد لذتِ مشاہدہ میں ہیں۔ اور دوا اور غذا دونوں بھی نعمت ہیں۔
شریعت اور طریقت کا جاننا ضروری ہے:
ہر صاحبِ ایمان کے لئے علوم شریعت وطریقت کا حاصل کرنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ تاکہ ظاہر و باطن دونوں کی اصلاح ہوجائے۔ سیدنا وسید المرسلین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو نفس کے جالوں سے بچنے کے لئے کیسی عجیب جامع دعا تعلیم فرمائی ہے یَا حَیُّ یا قیوم بِرَحْمَتِکَ نَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِیْ شَاْیٴ کُلّہ وَلاَ تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَةَ عَیْنٍ (اے زندہ رہنے والے اور دنیا جہاں کے سنبھالنے والے تیری رحمت کی فریاد کرتا ہوں۔ میری حالت کو درست کردیجئے اور مجھے پلک جھپکنے تک بھی میرے نفس کے حوالہ مت کیجئے)
حصولِ معرفت کی تین باتیں:
حضرت مولانا عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمة اللہ علیہ خلیفہ اجل حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ نے اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لئے تین باتوں کو ضروری قرار دیا ہے:
(۱)    صحبتِ اہل اللہ           
(۲)         کثرتِ ذکر اللہ
(۳)   تفکر فی خلق اللہ (یعنی فکر ومراقبہ وغیرہ)
حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بابرکت اور فیضِ کامل سے صحابہ بنے اور کامل بنے۔ اکبر الٰہ آبادی کا شعر ہے۔
نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا                               
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
ہم یہاں پہلے ذکر اللہ کے بارے میں بعدہ صحبت اہل اللہ کے بارے میں کچھ عرض کریں گے۔
ذکر اللہ کی فضیلت:
حدیث میں ذکر کو صقالة القلب فرمایا گیا ہے کہ ذکر اللہ دِلوں کے لئے جِلا اور شفاء ہے۔ یعنی امراضِ قلبیہ کا علاج ذکر اللہ ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ
الشَّیْطَانُ جَاثمٌ عَلٰی قَلْبِ ابْنِ آدَمَ اِذَا ذَکَرَ اللّٰہَ تَاَخَّرَ وَاِذَا غَفَلَ وَسْوَسَ․
یعنی شیطان گھٹنے جمائے ہوئے آدمی کے دل پر مسلط رہتا ہے۔ جب وہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان عاجز ہوکر پچھے ہٹ جاتا ہے اور جب آدمی غافل ہوتا ہے تو یہ وسوسے ڈالنا شروع کردیتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ ذکراللہ، صدقہ، جہاد اور ساری عبادتوں سے افضل ہے اور یہ اس لئے فرمایا کہ اصل مقصود اللہ کا ذکر ہے۔ اور ساری عبادتیں اس کا ذریعہ اور آلہ ہیں۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا جن لوگوں کی زبانیں ہر وقت اللہ کے ذکر سے تر رہیں گی ان میں سے ہر آدمی جنت میں ہنستا ہوا داخل ہوگا۔
ذکر نفلی:
حضرت مولانا الیاس رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ذکر کی حقیقت ہے، عدم غفلت۔ اور فرائض دین کی ادائیگی میں لگا رہنا اعلیٰ درجہ کا ذکر ہے۔ پھر فرمایا اور ذکر نفلی اس واسطے ہے کہ جو اوقات فرائض میں مشغول نہ ہوں وہ لایعنی میں نہ گذریں۔ شیطان یہ چاہتا ہے کہ فرائض میں لگنے سے جو روشنی پیدا ہوتی ہے اور جو ترقی حاصل ہوتی ہے وہ لایعنی میں لگاکر اس کو برباد کردے۔ پس اس سے حفاظت کے لئے ذکر نفلی ہے۔ الغرض فرائض سے جو وقت فارغ ہو اس کو ذکر نفلی سے معمور رکھا جائے۔ نیز ذکر نفلی سے خاص ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ اس سے عام مومنین میں ذکر کی شان پیدا ہوتی ہے۔ اور اللہ کے اوامر کی تعمیل میں اور اس کے مواعید کے شوق میں کام کرنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ (ملفوظات، ص: ۱۵۶)
حضرت شیخ الحدیث رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسی لئے صوفیائے کرام ذکر کی کثرت کراتے ہیں تاکہ قلب میں اس کے وساوس کی گنجائش نہ رہے۔ اور قلب اتنا قوی ہوجائے کہ اس کا مقابلہ کرسکے۔
ذکر قلبی:
حضرت شیخ الحدیث رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذکر قلبی یہ ہے کہ دل ہر وقت اللہ سے وابستہ ہوجائے اور اس میں کیا شک ہے کہ یہ حالت ساری عبادتوں سے افضل ہے۔
اجتماعی ذکر:
رئیس التبلیغ حضرت اقدس مولانا یوسف صاحب رحمة اللہ علیہ نے حیات الصحابہ میں ایک حدیث نقل فرمائی ہے وہ یہ کہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ رحمن کے دائیں جانب ایسے لوگ ہوں گے جو انبیاء اور شہداء نہیں ہوں گے اور رحمن کے دنوں ہاتھ دائیں ہیں ان کے چہروں کو سفیدی دیکھنے والوں کی نگاہ کو چکاچوند کردے گی۔ ان کو جو مقام اور اللہ کا قرب نصیب ہوگا اسے انبیاء اور شہداء بہت اچھا سمجھیں گے (یعنی رشک کریں گے)۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ کون ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مختلف قبیلوں کے لوگ ہیں جو اللہ کے ذکر کی وجہ سے آپس میں جمع ہوں اور اچھی اچھی باتوں کو ایسے چن لیں جیسے کھجور کھانے والا اچھی کھجوریں چنتا ہے۔ (حیات الصحابہ، ص: ۳۵۲ کذا فی الترغیب)
اس حدیث سے اجتماعی ذکر کی فضیلت معلوم ہوتی ہے جیسا کہ دوسری حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے ، جو حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض قوموں کا حشر اس طرح فرمائیں گے کہ ان کے چہروں پر نور چمکتا ہوگا۔ وہ موتیوں کے ممبروں پرہوں گے۔ لوگ ان پر رشک کرتے ہوں گے۔ وہ انبیاء اور شہداء نہیں ہوں گے- ایک دیہاتی نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان کا حال بیان کردیجئے تاکہ ہم انھیں پہچان لیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ مختلف جگہوں کے اور مختلف خاندان کے وہ لوگ ہوں گے جو اللہ کی وجہ سے آپس میں محبت کریں اور ایک جگہ جمع ہوکر اللہ کے ذکر میں مشغول ہوں۔ (حیات الصحابہ بحوالہ طبرانی)
مجالس ذکر:
اسی طرح مجالس ذکر کو جنت کے باغات سے تعبیر فرمایا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنت میں کسی قسم کی آفت نہیں ہوتی اسی طرح یہ مجالس بھی آفات سے محفوظ ہیں۔ مجالس ذکر کے بارے میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فرمائیں گے کہ عنقریب حشر والوں کو پتہ چل جائے گا کہ کرم والے کون ہیں؟ کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ کرم والے کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ذکر کی مجلسوں والے۔
          حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس باہر تشریف لائے اور فرمایا: اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی بہت سی جماعتیں مقرر فرمارکھی ہیں جو کہ زمین پر اللہ کے ذکر کی مجلسوں میں اترتی ہیں اور ان کے پاس ٹھہرتی ہیں۔ لہٰذا تم جنت کے باغوں میں چرا کرو۔ حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا جنت کے باغ کہاں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ذکر کی مجلسیں۔ (حیات الصحابہ، ص: ۳۱۷ بحوالہ ترغیب)
ذکر جہری:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے جنت البقیع میں آگ کی روشنی دیکھی تو ہم وہاں گئے تو دیکھا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں اترے ہوئے ہیں اور فرمارہے ہیں مجھے یہ آدمی دو۔ چنانچہ انھوں نے قبر کی پاؤں کی طرف سے وہ جنازہ دیا۔ میں نے دیکھا تو یہ وہ صحابی تھے جو اونچی آواز سے ذکر کیا کرتے تھے۔ (حیات الصحابہ، ص: ۳۵۵)
اسی طرح کی ایک حدیث اس طرح مذکور ہے: حضرت عقبہ ابن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی جنھیں ذُوالْبِحَاوَیْن یعنی دو چادر والاکہا جاتا تھا ان کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک یہ آہیں بھرکر رونے والا ہے۔ اور یہ اس وجہ سے فرمایا کہ وہ تلاوتِ قرآن، دُعا اور اللہ کا ذکر کثرت سے اور اونچی آواز سے کیا کرتے تھے۔ (حیات الصحابہ، ص: ۳۵۶)
حضرت شیخ الحدیث رحمة اللہ علیہ ذکر بالجہر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بزرگوں کو بکثرت دیکھا ہے کہ ذکر بالجہر کرتے ہوئے ایسی طراوٹ آجاتی ہے کہ بیٹھنے والا بھی اس کو محسوس کرتا ہے۔ اور ایسا منہ میں پانی بھرجاتا ہے کہ ہر شخص اس کو محسوس کرتا ہے۔ پھر یہ فرمایا: مگر یہ جب ہے کہ دل میں چسکا ہو اور زبان کثرتِ ذکر کے ساتھ مانوس ہوچکی ہو۔
یہی راز ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے یہ قوتِ قلبیہ اعلیٰ درجہ پر حاصل تھی تو ان کو ضربیں لگانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ان کے زمانہ سے جتنا بُعد ہوتا گیا اتنا ہی قلب کے لئے اس مقوی قلب خمیرہ وغیرہ کی ضرورت پڑی تاکہ قلوب ذکر سے مانوس ہوجائیں۔
مجالس ذکر اور ذکر جہری کرنے والوں پر اعتراض کرنے والوں کے لئے درسِ عبرت کے ساتھ ترہیب بھی ہے۔ ایک حدیث میں ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کا ذکر کثرت سے کرواور اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ تم صرف ایسے آدمی کے ساتھ رہو جو اللہ کے ذکر میں تمہاری مدد کرے۔ اس حدیث میں اہل ذکر جو مشائخ ہیں ان کی صحبت کو ضروری قرار دیاگیا ہے۔ یقینا حضرات مشائخ ہی صحیح ذکر کرانے کے معاون اور مربی ہیں۔
شیخ الحدیث اور اہتمامِ ذکر:
احقر (مطیع الرحمن) پینسٹھ اور چھیاسٹ عیسوی میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوا۔ پڑھنے ہی کے زمانہ میں خواب کی بنیاد پر حضرت مفتی اعظم نوراللہ مرقدہ کے مشورے سے حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ سے اصلاحی تعلق قائم کرلیاتھا۔ اور دورئہ حدیث شریف اور دورئہ تفسیر کے سالوں میں حضرت مفتی اعظم نور اللہ مرقدہ کی معیت میں کثرت سے جمعرات و جمعہ حضرت شیخ کی خدمت میں سہارنپور حاضری دیا کرتا تھا۔ حضرت اقدس مجھ سے واقفیت کے ساتھ کافی مانوس بھی تھے۔ دارالعلوم سے مکمل فراغت کے بعد جب سہارنپور حضرت کی خدمت میں ڈیڑھ ماہ قیام کے لئے حاضر ہوا چونکہ حضرت کا سفر میوات کے علاقہ میں کسی اجتماع میں شرکت کا تھاتو مجھے بھی حضرت اپنے ساتھ لے گئے۔ حضرت مفتی اعظم بھی اس جماعت میں تھے۔ تقریباً ایک ہفتہ کا اس علاقہ کا سفر تھا۔ حضرت شیخ کا معمول روزانہ مجالس ذکر کے اہتمام کا تھا۔ سارے اکابر تبلیغ مجالس ذکر میں شرکت کا اہتمام کرتے تھے۔اور سب ذکر جہری میں مشغول رہتے تھے۔ جب میں جامعہ عربیہ ہتھورا ضلع باندہ میں مدرس تھا تو معلوم ہوا کہ حضرت شیخ مدینہ قیام کے لئے تشریف لے جارہے ہیں۔ حضرت برکة العصر مولانا صدیق احمد صاحب نوراللہ مرقدہ کی معیت میں مرکز نظام الدین بغرض زیارت وملاقات حاضر ہوا۔ اور کئی دن وہاں قیام رہا۔ حضرت جی والے کمرہ میں حضرت شیخ کا قیام تھا۔اسی کمرہ میں روزانہ مجالس ذکر کا اہتمام ہوتا تھا۔ اور مرکز کے سارے اکابر اور دیگر ذاکرین مجالس ذکر میں، ذکر جہری کا اہتمام کرتے تھے۔ جس دن حضرت شیخ الحدیث رحمة اللہ علیہ کی ہوائی جہاز سے جانے کی تاریخ تھی۔ اس آخری مجلس میں خصوصی ملاقات کے وقت حضرت مولانا عبید اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ پر آہ وبکا کی ایک کیفیت طاری ہوگئی اور حضرت شیخ رحمة اللہ علیہ سے عرض کیا۔ حضرت آپ تشریف لے جارہے ہیں اور ابھی ذکر کی تکمیل نہیں ہوئی ہے۔ اور خوب روئے۔ پھر حضرت شیخ رحمة اللہ علیہ نے کچھ تلقین فرمائی جس سے وہ خاموش ہوگئے۔ مندرجہ بالا باتوں سے مقصود ذکر اور ذکر کی مجالس کی کتنی اہمیت حضرت شیخ اور اکابرین تبلیغ کے یہاں تھی اس کو بتانا ہے۔
مولانا الیاس رحمة اللہ علیہ اور علم و ذکر:
مخدوم العالم بانی تبلیغ حضرت اقدس مولانا الیاس صاحب رحمة اللہ علیہ کا ایک ارشاد گرامی ہے کہ ”ہماری اس دینی دعوت میں کام کرنے والے سب لوگوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھادینی چاہئے کہ تبلیغی جماعتوں میں نکلنے کا مقصد صرف دوسروں کو لیجانا بالفاظ دیگر محض دعوت دینا نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ سے اپنی اصلاح اور اپنی تعلیم و تربیت بھی مقصود ہے۔ اور نکلنے کے زمانہ میں علم وذکر کی مشغولیت کا بہت زیادہ اہتمام کیا جائے۔ علم دین اور ذکر اللہ کے بغیر نکلنا کچھ بھی نہیں ہے۔
ذکر، اہل ذکر کی نگرانی میں ہونا چاہئے:
پھر یہ بھی ضروری ہے کہ علم و ذکر میں یہ مشغولیت اس راہ کے اپنے بڑوں سے وابستگی رکھتے ہوئے ان کے زیر ہدایت و نگرانی ہو۔ انبیاء علیہم السلام کا علم و ذکر، اللہ تعالیٰ کے زیر ہدایت تھا۔ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے علم و ذکر کرلیتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان حضرات کی پوری پوری نگرانی فرماتے تھے۔ اسی طرح ہر زمانہ میں لوگوں نے اپنے بڑے سے علم و ذکر کو لیا اور ان کی نگرانی و رہنمائی میں ذکر کی تکمیل کی۔ آج ہم اپنے بڑوں کی نگرانی و رہنمائی کے محتاج ہیں۔ ورنہ شیطان کے جال میں پھنسنے کا اندیشہ ہے۔ (ملفوظات، ص: ۱۱۰-۱۱۱)
نیزفرمایا: ”ذکر اللہ شرِّ شیاطین سے بچنے کے لئے قلعہ اور حِصن حصین ہے۔ لہٰذا جس قدر غلط اور برے ماحول میں تبلیغ کے لئے جایا جائے شیاطین جن و انس کے برے اثرات سے اپنی حفاظت کے لئے اسی قدر ذکر اللہ کی زیادتی کا اہتمام کیا جائے۔“ (ص:۶۹)
اہل کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے:
قرآن مجید میں ہے: فَسْئَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ اگر تم کو علم نہیں ہے تو دوسرے اہل علم سے پوچھو۔ یہ آیت اگرچہ خاص مضمون کے لئے نازل ہوئی ہے، مگر الفاظ قرآن کا مفہوم عام ہوا کرتا ہے۔ توبظاہر وہ لوگ جو احکام شرع سے واقف نہیں ہیں اور نہ ان کو طریقہٴ معرفت معلوم ہے تو وہ حضرات اہل علم اور اہل معرفت سے پوچھ کر اور علم حاصل کرکے عمل کریں۔ چونکہ ہر شخص کے لئے جس طرح مسائل دینیہ شرعیہ کا جاننا ضروری ہے اسی طرح تزکیہٴ باطن کے علوم و معارف کو بھی جاننا اور پوچھنا لازمی اور ضروری ہے۔
ہر جگہ ماحول کا فتنہ ہے، معاشرہ کا فساد ہے، علم کا معیار بھی گھٹتا جارہا ہے اور اغراضِ نفسانی وشیطانی میں پھنس کر تقویٰ اور خدا ترسی میں بھی کافی ضعف آگیا ہے۔ ان حالات میں اگر مسائل میں علماء کی طرف رجوع نہیں کیاگیا اور دینی کتابوں کے مطالعہ سے استغنا برتا گیا اور تزکیہٴ نفس اور اصلاحِ باطن کے لئے مشائخ سلوک کی طرف رجوع نہیں کیاگیا تو نہ تو کوئی محسن حقیقی کو جان سکے گا اور نہ محسن حقیقی کے جو احسانات بندوں پر ہیں اُن کا شکریہ ہی ادا کرسکے گا۔
اللہ والوں کی صحبت ضروری ہے:
اس لئے علوم ظاہرہ یعنی علوم شریعت کو جاننے اور اس پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اصلاحِ نفس اور تزکیہٴ باطن کے لئے اللہ والوں کی صحبت اور تعلق بھی ضروری ہے۔ قرآن میں ہے: یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ (اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو) یہاں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے خطاب فرمایاہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ اور خدا ترسی پیدا ہونے کے لئے اعمالِ صالحہ کا اہتمام اور منکرات سے اجتناب کے لئے صادقین اور اہل اللہ کی صحبت ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت اقدس عبدالغنی صاحب پھولپوری نور اللہ مرقدہ خلیفہ اجل حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ نے اپنی مجلس میں فرمایا تھا کہ جب مومن اس راستہ کو قطع کرتا ہے اور کسی عارفِ کامل کی صحبت میسر ہوجاتی ہے اور اس کی وجہ سے نفس کے فتنے اور مکائد کا ادراک ہوجاتاہے تو شیخ عارف کامل، طالب کے لب ولہجہ اور چال ڈھال سے اس کے اندازِ نشست و برخاست سے بھانپ لیتاہے اور اس کے نفسانی چالوں کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور مکائد نفس سے باز رکھتا ہے۔
قال را بگذار مرد حال شو
پیشِ مرد کامل پامال شو
اس لئے اللہ والوں کی صحبت ہر مومن کے لئے اکسیر ثابت ہوتی ہے۔
اہل اللہ کی پہچان:
اہل اللہ کون ہیں؟ اہل اللہ وہ لوگ ہیں جن میں اتباع سنت ہو۔ جو شخص اتباع سنت سے جتنا دور ہوگا، قرب الٰہی اور معرفت الٰہی سے اتنا ہی دور ہوگا۔
مپندار سعدی کہ راہِ صفا                        
نتواں جز بر پئے مصطفی
خلاف پیمبر کسے رہ گزید                        
ہرگز بمنزل نہ خواہد رسید
صحبت کے اثرات:
لہٰذا اہل اللہ کو پہچاننا کوئی مشکل بات نہیں۔ اُن کو پہچان کر اپنا تعلق جوڑلیا جائے۔ بیعت جو نسبت اور تعلق مع اللہ کا ذریعہ ہے اس کو اپنانا ہر مومن کیلئے خواہ وہ کسی بھی شعبہ حیات سے تعلق رکھتا ہو، انتہائی ضروری ہے، تاکہ مزاج اور اعمال اور اخلاق میں تبدیلی ہو اور اخلاقِ رذیلہ دور ہوجائیں اور اخلاقِ فاضلہ پیدا ہوجائیں۔ اور اپنی اصلاح ہی کی نیت سے ان اللہ والوں کی صحبت اختیار کی جائے۔
حضرت اقدس رأس المحدثین مولانا انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ جس موقع سے لاہور میں ایک عرصہ تک مقیم رہے، ڈاکٹر اقبال مرحوم ان کی خدمت میں حاضری دیتے رہے۔ اور ان کی صحبت بابرکت کافیض حاصل کرکے اتنا متاثر ہوئے کہ وہ ماضی کی کمزوریوں سے تائب اور نادم ہوئے۔ حضرت شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ کی توجہ خاص اور صحبت بابرکت سے ایسی چیز قلب میں پائی جس سے قلب ہمیشہ سے ناآشنا تھا۔ اور پھڑک اٹھے اور ایسے اشعار پڑھے جن میں معرفت ٹپکتی تھی۔ پہلے ان کے اشعار دوسرے طرز کے ہوا کرتے تھے۔ بعد میں حضرت مولانا روم رحمة اللہ علیہ کی طرز پر اشعار کہنا شروع کیا۔ اور ان کے اشعار سے یہ معلوم ہونے لگا کہ ان کوحضرت شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ کے بارے میں معلوم ہوگیا ہے کہ ان کو نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ سے بڑا گہرا تعلق ہے۔
جلاسکتی ہے شمع کشتہ کو موجِ نفس ان کی                   
الٰہی کیا بھرا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہوتو دیکھ انکو         
ید بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
تمنا دردِ دل کی ہے تو کر خدمت فقیروں کی                
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
بہت اونچے اونچے اشعار کہا کرتے تھے۔ یہ انقلابِ احوال وکیفیات، حضرت شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ کی صحبت بابرکت کی وجہ سے ہوا۔ آج اکابرین کی صحبت جس سے ہمارے احوال میں انقلاب برپا ہو اور کیفیات میں تبدیلی ہو اولاً تو وہ صحبت میسر نہیں اور پھر اس کو ہم ضروری بھی نہیں سمجھتے بلکہ بظاہر عملاً ان صحبتوں کا ہی انکار ہے۔ بیعت اور اصلاحی تعلق جس سے مومن، صاحب نسبت ہوتا ہے اور نسبت کے بعد اعمالِ دینیہ کا اہتمام اور معمولات کی پابندی سے نسبت میں ترقی ہوتی ہے۔ مگر افسوس صد افسوس بعض افراد نے اس لائن میں اس قدر غلو اختیار کیا ہے کہ وہ ذکر واذکار اور بیعت وسلوک اور اعمالِ اعتکاف کو عمدہ عمل نہیں سمجھتے اور نہ ہی مدارس دینیہ اور علمائے مدارس کی ان کی نگاہوں میں کوئی اہمیت ہے۔ ان کے بیانات اور ان کے طرزِ عمل سے ان چیزوں کا استخفاف اور انکار ہی ہوتا ہے۔
دعوت و تبلیغ ایک اعلیٰ اور بہت اہم عمل ہے:
یہاں تک جو گفتگو ہوئی وہ علم الشرائع اور علم الاحسان کی اہمیت وضرورت پر ہوئی تاکہ زندگی عمل پر آجائے۔ یہاں ایک اور بات بھی اہم اور ضروری ہے وہ یہ کہ عمل ہی کے لئے دعوتِ عمل بھی ضروری ہے۔ دعوت وتبلیغ کے ذریعہ ایک طرف وہ فریضہ بھی ادا ہوگا جو اس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عائد کیا گیا ہے۔ اور دوسری طرف اپنی اصلاح کے لئے بھی دعوت ضروری ہے۔ اس طرح دعوت و تبلیغ والا عمل، بہت اونچا عمل ہے۔ سارے حضرات انبیاء علیہم الصلوٰة والتسلیم نے اپنی قوم کو دعوت الی اللہ کے ذریعہ خدا کے بندوں کو خدا کی عبادت و معرفت کی طرف متوجہ کیا۔ سورہ نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں ارشاد باری ہے: 
اِنَّا اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلیٰ قَومِہ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَہُمْ عَذَابٌ اَلیمٌ o قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّی لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ اَنِ اعْبُدُوا اللہ وَاتَّقُوْہ وَاَطِیْعُوْنِ o اِلٰی قَالَ رَبِّ اِنِّی دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلاً وَّ نَہَارًاo
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ساڑھے نوسوسال تک خوب خوب دعوت دی۔ اور انبیاء علیہ السلام نے بھی اپنے اپنے وقت میں اپنی اپنی قوموں میں دعوت الی اللہ کا اہتمام فرمایا، مگر دعوت کا مقصد محض دعوت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی اور خدا کی معرفت اور حصولِ تقویٰ پر آمادہ کرنا اور لگانا تھا۔ دعوت اسباب کے درجہ میں ہے۔ مقصود عبادت و بندگی اور اطاعت و فرمانبرداری کرانا ہے۔ دعوت، داعیہ ہے اور ایک بہترین سبب ہے اللہ کی عبادت اور معرفت کا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْن (ہم نے نہیں پیدا کیا جن و انس کو مگر اپنی عبادت کیلئے) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جو رئیس المفسرین ہیں۔ لیعبدون کی تفسیر لیعرفون سے کی ہے۔ معلوم ہوا کہ مقصد تخلیق عبادت ومعرفت ہے۔ حضرت عارف رومی رحمہ اللہ کا یہ شعر اس آیت کا مصداق ہے۔
ما خلقت الجن والانس ایں بخواں
جز عبادت نیست مقصود از جہاں
دین کی اشاعت اور اس کی حفاظت اور امت میں دین کو لانے اور زندہ رکھنے کے لئے اور احکامِ دین کے احیاء کے لئے دعوت و تبلیغ بہت اونچا عمل ہے۔ جو اہل نظر وفکر سے مخفی نہیں ہے۔اور اس وقت دعوت والا عمل ساری دنیا میں جاری و ساری ہے۔اگر کسی کج فہم نے عناد میں، دعوت وتبلیغ کے نظام اور اعمال پر اور طریقہٴ کار پر اعتراض کیا تو ہر ایسے موقع پر ہمارے اکابر امت علماء نے ایسے مفسدین اور غلط لوگوں کا منھ توڑ جواب دیا ہے۔ معترضین تو ہر زمانہ میں رہے ہیں؛ لیکن اعتراض جو ہواہے اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ اعتراض کرنے والوں نے اس حقیقت کو سمجھا نہیں، اس لئے اعتراض کیا۔ یا کبھی دعوت کی محنت کرنے والے احباب اور بعض جگہوں کے ذمہ دار افراد کی خاص کمزوری کی وجہ سے اعتراض ہوا ہے۔ ورنہ کام اپنی جگہ بر حق ہے۔
تعلیم، تزکیہ اور دعوت میں ربط و تعلق:
مدارس دینیہ میں تعلیم و تعلّم، خانقاہوں میں مجالس ذکر اوراعمالِ تزکیہ اور دیگر مجاہدات اور تبلیغی مراکز میں دعوت الی اللہ کی عظیم محنت، ان تمام اعمال کی خوب خوب اہمیت ہے۔ اور کتاب اللہ اورحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ان تمام اعمال کے خوب خوب فضائل مذکور ہیں۔ اور ہر عمل کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ اس لئے کوئی فرد کوئی جماعت کوئی مرکز کسی کے عمل کی تنقیص نہ کرے اور نہ تردید کرے۔ اور ہر جگہ ہر ایک کا، ایک دوسرے کا تعاون ہوتو یہ سارے اعمال دینیہ بحسن وخوبی فروغ پائیں گے اوراس طرح ہر فرد دینداری کی بنیادپر ترقیات کی راہ پر گامزن ہوگا۔
غلو اور غلبہ کا فرق:
ہاں! دین کے ہر شعبہ میں کام کرنے والوں میں اُس شعبہ کے کام کا غلبہ ہونا ضروری ہے، مراکز علوم دینیہ میں تعلیم و تعلّم کاغلبہ،مراکز تزکیہٴ باطن اور خانقاہوں میں مجالس ذکر اور اعمالِ تزکیہ ومجاہدات کا غلبہ اورمراکز دعوت و تبلیغ میں دعوت و تبلیغ جیسی عظیم محنتوں کا غلبہ ہونا چاہئے۔ تو انشاء اللہ یہ سارے دینی کام آگے بڑھیں گے۔ اور کسی پر کسی عمل کا غلبہ ان اعمال کی محمودیت کے ساتھ مطلوب بھی ہے تاکہ کام خوب آگے بڑھے۔ اگر کوئی اپنی کج فہمی سے کسی دینی کام کی تنقیص یا تردید کرتا ہے یا دوسرے کام کی تحقیر کرتا ہے تو اسے غلبہ نہیں کہا جائیگا، بلکہ غلو کیا جائے گا۔ اور غلو فی الدین مذموم و مردود ہے۔ اگر مدارس والے، ذکر و اذکار اور دعوت و تبلیغ کی تنقیص کریں یا خانقاہوں میں دعوت وتبلیغ اور تعلیم و تعلم کی تنقیص ہو یا ارباب دعوت و تبلیغ، تبلیغی کام کو ہی اصل سمجھیں اور دسرے کام کی تنقیص اور تحقیر کریں تو بالیقین ان کا یہ طرزِ فکروعمل مذموم اور قابل مذمت ہوگا۔
اعتدال کی اہمیت و ضرورت:
اعتدال سے نظام میں کمال پیدا ہوتا ہے اور افراط و تفریط سے نظام دین مختل ہوکے رہ جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری ہے:
وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلٰی اَلاَّ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی․
جس کا مطلب یہ ہے کہ اور تم کو کسی قوم یا جماعت کا بغض، اعتدال سے نہ ہٹائے۔ اعتدال اختیار کرو اور عدل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ یہ مرض عام ہے کہ ایک شعبہ میں دینی کام کرنے والے دوسرے شعبہ کے دینی کام کی تحقیر اور تنقیص، محض بغض وحسد اور کینہ کی وجہ سے کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں ضروری ہوجاتا ہے کہ اللہ والوں سے صحیح تعلق قائم کرکے اپنے اپنے کاموں کو آگے بڑھائیں۔ قرآن وحدیث میں دعوت وتبلیغ والے عمل کے فضائل خوب مذکور ہیں۔ اسی طرح علم دین اور تزکیہٴ باطن کا ذکر اور اس کے فضائل بھی خوب خوب مذکور ہیں۔ اسی لئے کسی ایک لائن میں کام کرنے والے کا دوسری لائن والوں کی تنقیص میں مبتلا ہونا اپنے لئے خطرہ کی گھنٹی سمجھے۔ یہ طرز عمل دنیا میں پریشانی کے خدشہ کے ساتھ اخروی نعمتوں سے محرومی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
اکابر کا طرز عمل:
شیخنا وشیخ المشائخ قطب الاقطاب حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ، شیخی وسندی فقیہ امت حضرت اقدس مفتی محمود حسن صاحب نور اللہ مرقدہ مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند، حکیم الامت حضرت اقدس شاہ مولانا عبدالحلیم صاحب نور اللہ مرقدہ، بحرالعلم والفرقان حضرت اقدس مولانا منظور نعمانی صاحب نور اللہ مرقدہ، مفکر ملت حضرت اقدس مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نور اللہ مرقدہ، محی السنة حضرت اقدس مولانا شاہ ابرارالحق صاحب نوراللہ مرقدہ، برکتہ العصر عارف باللہ حضرت مولانا صدیق احمد صاحب نوراللہ مرقدہ - دعوت وتبلیغ کی لائن سے بھی متعارف شخصیات ہیں۔ تبلیغی جماعت کی سرپرستی اور تبلیغی اجتماعات میں شرکت کرنے والے اور تبلیغی جماعت میں روح ڈالنے والے یہ حضرات مخلصین ہیں۔
اسی طرح دہلی میں تبلیغی مرکز نظام الدین کے اکابر، حضرت اقدس رئیس التبلیغ حضرت مولانا یوسف صاحب نوراللہ مرقدہ اور حضرت اقدس حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب نور اللہ مرقدہ اور دوسرے اکابر حضرات حضرت مولانا محمد عمر صاحب پالن پوری نور اللہ مرقدہ، حضرت مولانا عبید اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ وغیرہ اکثر حضرات سہارنپور میں حضرت شیخ الحدیث کی خدمت میں حاضری دیتے تھے۔ اعتکاف اور ذکر کا خوب خوب اہتمام ہوتا تھا۔ اسی طرح مرکز نظام الدین میں بھی مسجد میں اعمالِ اعتکاف کا خوب خوب اہتمام ہوتا تھا۔
اب بھی وہاں یعنی مرکز نظام الدین میں حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ کے نواسے اور حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب نوراللہ مرقدہ کے صاحبزادے حضرت مولانا زبیرالحسن صاحب دامت برکاتہم کے یہاں مجالس ذکر کا خوب خوب اہتمام ہوتا ہے۔ تمام اکابرین کے معمولات، ملفوظات کے پیش نظر دعوت وتبلیغ کی جلاء اور ترقی کے لئے مراکز علوم دینیہ اور علماء ومشائخ سے خوب محبت کرنے کی ضرورت ہے جس کی طرف حضرت مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم برابر توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ اس طرح انشاء اللہ یہ کام بھی بڑھے گا اور حق تعالیٰ شانہ کی معرفت کاحق ادا کرنے کی سبیل بھی پیدا ہوجائے گی۔ شیخی وسندی، مرشدی ومولائی حضرت فقیہ امت مفتی محمود حسن صاحب نوراللہ مرقدہ مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند کی پوری زندگی درس و تدریس، افتاء نویسی، تزکیہٴ نفس و تربیت باطن اور وعظ و ارشاد میں گذری، مگر ایک لمحہ کے لئے بھی دعوت وتبلیغ کے کام سے غافل نہیں ہوئے۔ بلکہ ترغیب وتاکید کے ساتھ فارغین طلبہ و فضلاء کو تبلیغ میں بھی وقت لگانے کا مشورہ دیتے رہتے تھے۔ دعوت و تبلیغ پر ہونے والے اعتراضات کا مفصل ومدلل جواب تحریر فرماتے۔ اعتراضات کے جواب ہی کے سلسلہ کا اُن کا ایک اہم رسالہ ”چشمہٴ آفتاب“ کے نام سے شائع ہوا ہے جو قابل مطالعہ ہے۔ ایک زمانہ میں حضرت اقدس مولانا یوسف صاحب نوراللہ مرقدہ اور حضرت اقدس مولانا انعام الحسن صاحب نور اللہ مرقدہ، اپنے علمی انہماک کی وجہ سے کام کی طرف متوجہ نہیں تھے۔ بانیٴ تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس نوراللہ مرقدہ نے حضرت مفتی صاحب کو اس کام پر مامور فرمایا کہ ان دونوں حضرات کو تبلیغی کام کی طرف متوجہ فرمائیں۔ آپ نے بڑی تدبیر وحکمت کے ساتھ مختلف مجالس میں ان حضرات سے گفتگو فرمائی اس طرح یہ کام سے وابستہ ہوگئے۔ بعد میں کسی موقع پر رئیس التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسف صاحب نوراللہ مرقدہ نے مفتی اعظم رحمة اللہ علیہ سے فرمایا کہ پہلے تو آپ میرے پیچھے پڑے رہتے تھے اور ہم کو ادھر لگایا اور اب خود پیچھے بیٹھ گئے۔ آپ ہماری خبر نہیں لیتے۔ حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہمارے حوالہ جو کام کیا گیا تھا ہم نے اس کو انجام دے دیا اور ہم اس میں کامیاب ہیں، اور ہم کو کسی ایک کونہ میں پڑا رہنے دیجئے تاکہ کتابیں دیکھتے رہیں ورنہ کوئی بھی مسائل بتانے والا نہیں ملے گا۔ ایک اور موقع پر حضرت مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ نے ایک تبلیغی جماعت کو اس طرح نصیحت فرمائی کہ تبلیغی سلسلہ میں چھ نمبر یعنی چھ باتیں بے حد مفید ہیں۔ ان چھ باتوں سے دین کے ہر پہلو کا واسطہ ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جو شخص تبلیغی جماعت میں جائے وہ ان چھ نمبروں سے باہر نہ نکلے۔ ساتویں آٹھویں نمبر کی طرف رُخ نہ کرے۔ اس سے خیال بٹ جاتا ہے۔ حتیٰ کہ تقریر میں بھی چھ نمبر کہنے کی عادت ڈالے۔ انہی چھ باتوں کی اچھی طرح مشق کرے۔ (حیات محمود، ج:۲، ص: ۱۶۲ تا ۱۶۴)
حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند نے ارشاد فرمایا کہ میں نے خود حضرت مولانا الیاس صاحب رحمة اللہ علیہ سے ایک مقولہ سنا ہے کہ - بھائی یہ سلسلہ میں نے اس لئے جاری کیا ہے کہ مدرسوں کو طالب علم ملیں اور مشائخ کو مرید ملیں تاکہ علم بھی پھیلے اور اخلاق بھی درست ہوں۔
ان امور کو تحریر میں لانے کا اصل مقصود یہی ہے کہ یہ بتایا جائے کہ ہمارے اکابر کا طرز عمل، ایک دوسرے کے تعاون، احترام و اکرام اور ربط و تعلق کا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی فضا کو عام فرمادے۔
مولف کتاب کا تعلق ایک طرف اہل اللہ سے رہا ہے۔ دوسری طرف علماء کا بے حد اکرام واحترام اُن میں پایاجاتا ہے اور تیسری طرف یہ کہ وہ خود جماعت کے ایک فعال رُکن ہیں۔ اُمید کہ یہ کتاب ہرطبقہ کے لئے مفید ہوگی۔ اللہ تعالیٰ موصوف کو عمرِدراز عطا فرمائے اور جملہ مکروہات وفتن سے محفوظ فرمائے۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ !
اب اخیر میں حق تعالیٰ شانہ سے میری دعا ہے کہ اللہ جل وعلا اس کتاب کے مجموعہ کو مقبول عام فرمائے اور نافع بنائے اور خوب خوب اشاعت کا ذریعہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین بوسیلة سید المرسلین خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم ۔
----------------------------------------------------------
(1) تصوف کیا بلا ہے؟
شیخ الحدیث حضرت مولا نا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنیؒ فرماتے ہیں
”ایک مرتبہ 10 بجے صبح کو میں اوپر اپنے کمرہ میں نہایت مشغول تھا، مولوی نصیر نے اوپر جا کر کہا کہ رئیس الاحرار (حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ جن سے حضرت شیخؒ کی بے تکلفی تھی) آئے ہیں، رائے پور جا رہے ہیں، صرف مصافحہ کرنا ہے، میں نے کہا۔ جلدی سے بلا دے۔ مرحوم اوپر چڑھے اور زینے پر چڑھتے ہی سلام کے بعد مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھا کر کہا، رائے پور جا رہا ہوں اور ایک سوال آپ سے کر کے جا رہا ہوں، اور پر سوں صبح واپسی ہے، اس کا جواب آپ سوچ رکھیں، واپسی میں جواب لوں گا، یہ تصوف کیا بلا ہے؟ اس کی کیا حقیقت ہے؟ میں نے مصافحہ کرتے کرتے یہ جواب دیا کہ صرف تصحیح نیت، اس کے سوا کچھ نہیں، جس کی ابتداء انما الاعمال بالنّیّات سے ہوتی ہے اور انتہا ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ ہے، میرے اس جواب پر سکتہ میں کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے، دلّی سے یہ سوچتا آرہا ہوں کہ تُو یہ جواب دے گا تو یہ اعتراض کروں گا، اور یہ جواب دے گا تو یہ اعتراض، اس کو تو میں نے سوچا ہی نہیں، میں نے کہا جاؤ تانگے والے کو بھی تقاضا ہوگا، میرا بھی حرج ہو رہا ہے، پرسوں تک اس پر اعتراض سوچتے رہیو۔ اس بات کا خیال رہے کہ دن میں مجھے لمبی بات کا وقت نہیں ملنے کا، دو چار منٹ کو تو دن میں بھی کر لوں گا، لمبی بات چاہو گے تو مغرب کے بعد ہو سکے گی۔ مرحوم دوسرے ہی دن شام کو مغرب کے قریب آگئے اور کہا کہ کل رات کو تو ٹھیرنا مشکل تھا، اس لئے کہ مجھے فلاں جلسہ میں جانا ہے، اور رات کو تمہارے پاس ٹھیرنا ضروری ہو گیا اس لئے ایک دن پہلے ہی چلا آیا اور یہ بھی کہا کہ تمہیں معلوم ہے، مجھے تم سے کبھی نہ عقیدت ہوئی نہ محبت، میں نے کہا علیٰ ہٰذا القیاس۔ مرحوم نے کہا، مگر تمہارے کل کے جواب نے مجھ پر تو بہت اثر کیا، اور میں کل سے اب تک سوچتا رہا، تمہارے جواب پر کوئی اعتراض سمجھ میں نہیں آیا، میں نے کہا، انشاء اللہ مولانا اعتراض ملنے کا بھی نہیں۔ انما الاعمال بالنّیات سارے تصوف کی ابتداء ہے اور ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ سارے تصوف کا منتہا ہے، اسی کو نسبت کہتے ہیں، اسی کو یاد داشت کہتے ہیں، اسی کو حضوری کہتے ہیں۔ ؎
حضوری گر ہمی خواہی، ازو غافل مشو حافظ
متی ما تلق من تہوی دع الدنیا وامہلہا
میں نے کہا، مولوی صاحب سارے پاپڑ اسی لئے پیلے جاتے ہیں، ذکر بالجہر بھی اسی واسطے ہے، مجاہدہ مراقبہ بھی اسی واسطے ہے اور جس کو اللہ جل شانہ اپنے لطف و کرم سے کسی بھی طرح سے یہ دولت عطا کر دے، اس کو کہیں کی بھی ضرورت نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظر کیمیا اثر سے ایک ہی نظر میں سب کچھ ہو جاتے تھے اور ان کو کسی چیز کی بھی ضرورت نہ تھی، اس کے بعد اکابر اور حکماء امت نے قلبی امراض کی کثرت کی بنا پر مختلف علاج جیسا کہ اطباء بدنی امراض کے لئے تجویز کرتے ہیں، روحانی اطباء روحانی امراض کیلئے ہرزمانے کے مناسب اپنے تجربات جو اسلاف کے تجربات سے مستنبط تھے، نسخے تجویز فرمائے ہیں جو بعضو ں کو جلد نفع پہنچاتے ہیں، بعضوں کو بہت دیر لگتی ہے، پھر میں نے مرحوم کو متعدد قصے سنائے۔“
(یاد ایام حصہ اول آپ بیتی 2 ص 49، 50 طبع ساہیوال)
(تدوین: ایس اے ساگر)


No comments:

Post a Comment