اسلام ———اور حیاء باختہ و آوارہ گَردْ اردو مشاعرے!
قلبی احساسات، تخیلات، تصورات وجذبات کو طے شدہ وزن اور بحر میں ظاہر کرنے کو 'شعر' (نظم) کہتے ہیں۔
رجز، حدی، قصیدہ، ہجو، مرثیہ، تشبیب، غزل، حمد، نعت، گیت وغیرہ اس کے مشہور اقسام ہیں۔
جبکہ خیالات وجذبات کو کسی موزوں صنعت (ربط و وزن) کے التزام وپابندی کے بغیر سیدھے سادے، آسان، آزاد، بے تکلف اور قدرتی تعبیر پیرائے میں بیان کرنے کو 'نثر' کہتے ہیں۔
نثر کے مشہور اقسام میں: داستان، ناول، ڈرامہ، افسانہ، مضمون، مقالہ، تذکرہ وسوانح عمری، آپ بیتی، خاکہ، سفرنامہ، طنز ومزاح اور صحافت شامل ہیں۔
اصنافِ سخن اور اظہارِ بیان کے ذرائع میں شروع سے ہی 'شعر' سب سے مؤثر اور طاقتور ذریعۂِ اظہار رہا ہے۔ مختصر لفظوں میں شعر کے ذریعہ انسان اپنے مخاطب وسامع کو جتنا متاثر وگرویدہ کرسکتا ہے وہ نثر سے ممکن نہیں ہے؛ اسی لئے شروع سے ہی شعر کی اثر انگیزی، تفوق و برتری کو تسلیم کیا جاتا رہا ہے ۔
طرز زندگی، تمدن اور جغرافیائی آب وہوا کی وجہ سے عربوں کو شعر وشاعری کا ذوق فطری طور پر ملا تھا، عربوں کا رشتہ عربی شاعری سے "چولی دامن" کا رہا ہے۔
مذہب اسلام سے پہلے عربوں کا یہی 'سرمایۂِ فکر ونظر' اور پیمانۂِ 'فخر ومباہاۃ' تھا۔
عکاظ کے بازار میں جاہلی شعراء جمع ہوتے اور 'نابغہ ذبیانی' کی زیرصدارت اپنا اپنا کلام پیش کرتے، یوں وہاں شعر وشاعری کی محفلیں آراستہ ہوتیں، صدر مجلس کے فیصلے کے بعد سب سے عمدہ اور اوّل آنے والے قصیدے کو پذیرائی واعتراف کے بطور سونے کے پانی سے لکھ کر خانہ کعبہ میں آویزاں 'معلق' کرتے، ان لٹکائے گئے اشعار کو 'مُعَلَّقَہ' کہا جاتا تھا۔
امرؤ القیس، النابغہ الذبیانی، زہیر بن ابی سلمیٰ، عنترہ بن شداد العبسی، الأ عشیٰ قیس، طرفۂ بن العبد، عمرو بن کلثوم لبید بن ربیعہ جیسے نامور جاہلی شعراء کے کلام خانہ کعبہ میں لٹکائے گئے تھے۔ ان شعراء کو 'اصحاب معلقات' کہتے ہیں ۔
ان جاہلی اشعار میں قبائل کی خوبیوں، شجاعت و بہادری، اونٹ، گھوڑے، ہرن، جنگ وجدال، محبوبہ، ماں، بیوی، باندی، شراب وکباب اور مورتیوں کی خوبیاں بیان کی جاتیں اور ہیجان انگیز عشقیہ اشعار کہے جاتے تھے۔
اسلام نے اپنے آنے کے بعد شعر وسخن میں مناسب حال تعدیل وتطہیر کی، شرک وبت پرستی ،شراب وکباب اور فحاشی وعریانیت، شہوت انگیز بد گوئی اور فضولیات پہ مشتمل اشعار کو ناجائز وحرام قرار دیا گیا۔ اعتقادات واخلاقیات کو خراب وفاسد کردینے والی حیاء باختہ و گمراہ کُن منفی شاعری پہ بندش لگائی گئی، اسے وسیلۂِ تخریب قرار دیتے ہوئے شیطانی عمل سے تعبیر کیا،
جبکہ اچھی، معیاری، مثبت، تعمیری، بامقصد شاعری، اورعلم، حکمت اور دانائی پہ مشتمل کلام کی پذیرائی کی گئی اور ہر مسلمان مرد وعورت، بوڑھے اور جوان کے لیے ایسی شاعری کو مباح قرار دیا گیا۔ (إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَةً) ۔۔۔۔ بے شک کچھ اشعار حکمت سے پُر ہوتے ہیں۔
(بخاري، رقم: 5793)۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شاعری کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
هُوَ کَلَامٌ فَحَسَنُهٗ حَسَنٌ وَقَبِیْحُهُ قَبِیْحٌ. ۔۔۔۔ یہ کلام ہے چنانچہ اچھا شعر، اچھا کلام اور برا شعر، برا کلام ہے۔۔۔ مسند أبو یعلی: رقم: 4760، سنن دار قطني، 4: 155، رقم: 1، بیروت: دارالمعرفۃ)۔
نبیوں اور رسولوں کی باتیں چونکہ وحی خداوندی والہامات ربانی پہ مبنی ہوتی ہیں؛ جبکہ شعراء کی باتیں شعور وآگہی، تخیل، پروازیِ فکر اور بسا اوقات حددرجہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہوتی ہیں؛ اس لیے شعر وشاعری نبیوں اور رسولوں کے مقام نبوت کی شایان شان قرار تو نہیں دی گئی، لیکن رسولوں سے مطلقاً اس کی نفی نہیں کی گئی، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اگرچہ شعر کہنا تو ثابت نہیں ہے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی ترانے (رجز) خود بھی پڑھے ہیں، اپنی سریلی آواز کے ذریعہ اونٹ کو مست کردینے اور اسے تیز رفتار کردینے والے نوجوان صحابی "انجشہ" کی حدی خوانی کی آپ نے تعریف کی ہے (رُوَیْدَکَ یَا اَنْجَشَۃْ سَوْقَکَ بِالْقَوَارِیْر) اے انجشۃ! آہستہ پڑھ، ذرا ٹھہر ٹھہر کے پڑھ، تم آبگینے لے کر سفر کر رہے ہو۔ یعنی اونٹ زیادہ تیز دوڑے گا تو یہ شیشے جیسی عورتیں جو اونٹ پر سوار ہیں ٹوٹ جائیں گی۔ (بخاری 6149)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اشعار پڑھے جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم داد وتحسین سے نوازتے تھے۔ غزوہ احزاب کے بعد جب کفار ومشرکین ہر جنگی محاذ پہ ہزیمت کے شکار ہوگئے اور انہیں مسلمانوں سے جنگی محاذ آرائی اور تلوار سے لڑائی کی طاقت نہ بچی تو انہوں نے اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعہ زبانی جنگ کی ٹھانی، اور نبی اسلام کے خلاف ہجو وبدگوئی شروع کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعر وشاعری کی اس جنگ میں اپنے تین نامور انصاری شعراء اصحاب: حسان بن ثابت، عبداللہ بن رواحہ اور اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہم کو اس دفاعی مہم کے لئے منتخب فرمایا، حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں مدحیہ اشعار کہتے، اور کفار ومشرکین کی ہجو بیان کرتے، حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ جنگی اسٹائل کے اشعار(رجزیہ ورمزیہ) اشعار کہتے، جبکہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اللہ کی خوبیوں اور محاسن اسلام پہ اشعار سناتے تھے۔
یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید، ودعاء واستحسان سے اچھے اور بامقصد تعمیری اشعار دفاعی ہتھیار کے طور پہ کام آئے۔ اسی سے تعمیری ومثبت اشعار کے حوالے سے اسلامی وشرعی موقف بھی جانا جاسکتا ہے۔
ہندوستان میں اگرچہ پہلے سے سنسکرت میں شعر وشاعری کے رواج کا سراغ ملتا ہے، لیکن بعض محققین کے مطابق گیارہویں بارہویں صدی عیسوی میں جب یہاں مسلم حکمراں ایران افغانستان سے آئے، تو ہندوستانی تہذیب میں بھی فارسی تہذیب کی گہری چھاپ پڑی اور ہندوستان میں بھی اب فارسی زبان میں ہی شعر وشاعری کے مقابلے ہونے لگے، سولہویں صدی عیسوی میں یہاں مشاعرے منعقد ہونے لگے، شعر سنے اور سنائے جانے لگے، بادشاہ وقت اپنی نجی محفلوں میں شعراء کو دعوت دیتے، اشعار اور قصیدہ خوانی میں شعراء کے مابین مقابلہ آرائی ہوتی، حکمراں فرصت کے لمحات میں تفریح طبع کے لئے اپنے محلات اور حویلیوں میں شعر وشاعری کی محفلیں آراستہ کرتے، شعر وشاعری سے لطف اندوز ہوتے، داد وتحسین کے ساتھ شعراء کو انعام واکرام سے بھی نوازتے، مغل بادشاہ محمد شاہ کے زمانے میں جب اردو زبان عام ہوئی تو اب شعراء فارسی کے ساتھ اردو زبان میں بھی کلام پیش کرنے لگے، یہیں سے اردو شاعری کی داغ بیل پڑتی ہے۔
ولی، میر، درد، غالب، ذوق سب اشعار سناکر داد وصولنے کے متمنی رہتے، اس وقت کے فارسی یا اردو مشاعروں میں مسلمانوں کی تہذیبی روایت کو لازمی ملحوظ رکھا جاتا، یوں مشاعرہ تہذیب وشائستگی آداب واقدار کا امین اور ہماری ادبی وثقافتی تاریخ کا حصہ قرار پایا، بہادر شاہ ظفر کے دربار میں غالب اور ذوق کے مابین مقابلہ آرائی کی وجہ سے اردو مشاعرہ کی روایت اپنے عروج پہ پہنچی، لوگ پوری پوری رات ذوق وشوق سے مشاعرہ سنتے تھے۔
احمد شاہ ابدالی کے دلی کو برباد کردینے کے بعد شعر وشاعری کی محافل بھی یہاں سے منتقل ہوگئیں، بڑے بڑے شعراء یہاں سے رخصت ہوگئے، اب لکھنو مرکز اردو شاعری بنا، اودھ کے نوابوں کی سرپرستی میں لکھنو میں محفل سخن آراستہ ہونے لگی۔ نوابوں کے شیعہ ہونے کی وجہ سے عزاء حسین اور مرثیہ خوانی کا غلبہ رہا۔
۱۸۵۷ء کے غدر کے بعد لکھنو بھی بربادی سے نہ بچ سکا۔ یہاں سے اب مشاعرہ نوابوں کی حویلیوں سے نکل عوامی جگہوں پہ ہونے لگا، مشاعروں کے مراکز پورے ملک میں پھیل گئے، بنارس، رامپور، حیدرآباد، کلکتہ، بھوپال، عظیم آباد پٹنہ، ملیح آباد ودیگر بڑے شہروں میں تاریخی مشاعرے ہونے لگے، تغیر حالات کے ساتھ مشاعرے کی روایت میں بھی قدرے تبدیلی آئی، پہلے کی طرح مشاعرے اب طرحی نہیں موضوعاتی ہونے لگے یعنی مشقِ سخن کے لئے مصرع طرح کی بجائے موضوع کا انتخاب ہونے لگا، شمع محفل سامنے لاکر اشعار پڑھنے کی بجائے لاوڈ اسپیکر پہ اشعار پڑھے جانے لگے، جونیئر اور سینئر کے لحاظ سے شاعروں کی فہرست بننے لگی۔ لیکن ان تمام روایتی تبدیلیوں کے باوجود اردو مشاعرے کے تہذیبی اقدار اب بھی بحال تھے، ہمارے مشاعرے پھر بھی اخلاقی اقدار اور اسلامی آداب ووضع کے آئینہ دار ہوتے۔
ہندوستان کے مشاعروں نے قومی یکجہتی میں بڑا رول ادا کیا ہے، ملک کی آزادی کی تحریک میں قومی جذبے اور حرارت کو کوٹ کوٹ کر بھردیئے، ہمارے ملک میں مشاعرے ابتداءا خالص اصولی، ادبی اور تہذیبی شان کے حامل وامین اور تہذیبی اقدار وتقدس کے محافظ رہے۔ ادب وشائستگی، حیاء ووقار ان مشاعروں کا خاص امتیاز رہا ہے۔
شومی قسمت کہ ادھر قریب ایک دہائی سے ہمارے ملک کے اردو مشاعرے ہماری تاریخی ثقافت، ادبی معنویت اور تہذیبی روایات کھو بیٹھے، مشاعرے کی تہذیبی فضاء بری طرح مجروح ہوئی، ادبی معیار گھٹ کر بازاری بن گیا، اسلام نے جس جاہلی شاعری کی تطہیر کی تھی، فحاشی وعریانیت، شہوت انگیز بد گوئی اور فضولیات پہ مشتمل اشعار کو ناجائز وحرام قرار دیا تھا۔ اعتقادات واخلاقیات کو خراب وفاسد کردینے والی حیاء باختہ وگمراہ کُن منفی شاعری پہ بندش لگائی تھی، ہمارے مشاعرے پہر اسی جاہلی شاعری کی ڈگر پہ رواں ہوگئے، دبے پائوں ان میں پہر وہی ساری خرابیاں در آئیں، ادب کے ذوق وشوق وثقافت کے فروغ کے لئے قائم کردہ مشاعروں میں عشق بازی اور اباحیت پسندی فروغ پانے لگی، چند مستثنیات کو چھوڑ شعری محاسن سے نابلد بلکہ اردو کی ابجد سے بھی ناواقف خوب رو، روشن ومہ جبین، توبہ شکن، گلے باز، بازاری رقاصائیں، مائلات ممیلات ایسی شاعرات پسند کی جانے لگیں، جو تہذیبی رکھ رکھائو اور تخلیقی عمل سے کوسوں دور رومن خط میں لکھے لکھوائے دوسروں کے اشعار پڑھ کر نوجوانوں کے اعصاب پہ سوار ہوجاتی ہیں۔
جہاں تک عورتوں کی آواز کے ستر وپردہ کی بات ہے تو اس بابت مذاہب ائمہ مختلف ہیں، حنفیہ کے یہاں صحیح اور راجح قول کے مطابق عورت کی آواز پردہ (ستر) میں داخل نہیں ہے
عوارض مثلا خوف فتنہ کی وجہ سے اس پہ روک لگائی گئی ہے۔ جہاں یہ علت نہ ہوگی، وہاں عورت کی آواز کا پردہ بھی نہ ہوگا۔ ابن ہمام نے نوازل کی روایت کی بناء پر عورت کی آواز کو ستر میں داخل قرار دیا ہے۔ اسی لئے حنفیہ کے نزدیک عورت کی اذان مکروہ ہے، راجح اور صحیح بات یہ ہے کہ جس موقع اور جس محل میں عورت کی آواز سے فتنہ پیدا ہونے کا خطرہ ہو وہاں اس کی آواز سننا ممنوع ہوگا جہاں یہ نہ ہو وہاں جائز ہوگا۔
بوقت ضرورت اجنبیہ عورت سے بات کی جاسکتی ہے۔ بشرطیکہ لذت بخش اور نغمگی آواز کے ذریعہ نہ ہو اور خوف فتنہ بھی نہ ہو۔ ۔۔۔۔۔ اللہ نے قرآن کریم میں امہات المومنین کو جو سلیقہ گفتگو سکھایا وہ اس جانب بھی مشیر ہے:
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ۔۔۔۔ (033:032)
"فلا تخضعن بالقول" کہ کسی اجنبی آدمی سے دب کر بات نہ کرو بلکہ کلام میں درشتگی اختیار کرو۔ کیونکہ نرم لہجے میں بات کرنے سے "فیطمع الذی فی قلبہ مرض" دل کا روگی آدمی لالچ کرے گا۔ دل کے روگ سے مراد نفاق، خواہشات نفسانی اور شہوانی میلان ہے۔ اس لئے حکم دیا کہ اگر کسی اجنبی آدمی سے بات کرنی پڑے تو روکھا پن ظاہر کرو، تاکہ کسی بد باطن آدمی کے دل میں کوئی خیال نہ آسکے۔
آج کل اردو مشاعروں میں جو نوخیز متشاعرات لچک کر اور تھرک کر شہوت انگیز ترنم کے ساتھ عشقیہ گیت اور گانے گاتی ہیں اس سے نفسانی خواہشات میں یکایک ہیجان وتلاطم بپا ہوتا ہے، گناہ کی رغبت پیدا ہوتی ہے، سننے والا دل ربا ناز وانداز اور ساز وسُر پہ ہوش وحواس گم کر بیٹھتا ہے، گناہ کی رغبت پیدا ہوتی ہے، اس لئے اس طرح کا کلام سننا بالکل ناجائز اور حرام ہے۔
اسلام نے حکمت و دانائی پہ مشتمل اشعار کہنے اور سننے کی مشروط اجازت دی ہے،
'حیاء باختہ' طریقوں اور 'انسانیت سوز' و'آوارہ گرد' محفل ونشست اور مرد وزن کے بے مہابا اختلاط کی اجازت ہر گز نہیں دی ہے، مرد وزن کی مخلوط نشست گاہوں ونظام تعلیم نے نسل نو کی جو اخلاقی مٹی پلید کردی ہے وہ جہاں میں کسی سے مخفی نہیں۔
تعلیمی اداروں اور 'بے ادب' ادبی محفلوں میں آزادانہ اختلاط نے اخلاقی بگاڑ، جنسی انارکی، اباحیت پسندی اور ہوس پرستی کو فروغ دے کر ایسی نسل تیار کی ہے جو رنگ وخون کے اعتبار سے چاہے کچھ بھی ہو لیکن ذہن وفکر کے اعتبار اسلام بیزار اور عیسائیوں کے غلام ضرور ہوں گے!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عن قریب میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم ،شراب اور باجوں کو حلا ل سمجھیں گے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ مروی ہیں عن قریب میری امت کے کچھ لوگ شراب پییں گے اور اس کا نام بد ل دیں گے۔ ان کے سروں پر ناچ گا نے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو خنزیر اور بندر بنادے گا۔ (سنن ابن ماجه (2/ 1333)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا: گا نا باجا سننا معصیت ہے، اس کے لیے بیٹھنا فسق ہے اور اس سے لطف اندوزی کفر ہے۔ (نیل الأوطار شرح منتقی الأخبار، باب ماجاء في آلة اللهو، ۸؍۱۰۴۔ط: مصطفیٰ البابي الحلبي الطبعة الثالثة)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: گانے باجے سننے سے بچو، اس لیے کہ یہ دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتے ہیں جس طرح پانی کھیتی اگاتا ہے۔ (کنز العمال في سنن الأقوال، کتاب اللهو واللعب والتغني،۱۵؍۲۲۰، رقم الحدیث: ۴۰۶۶۷،ط: مؤسسة الرسالة، بیروت)
حضرت فضیل بن عیاض رحمة اللہ علیہ کا قول ہے:
"اَلْغَنَاء رُقْیَة الزِّنَا". (إغاثة اللهفان لابن القیم۱؍۲۴۵)
ترجمہ: گانا زنا کا منتر (دعوت) ہے۔
مشہور عالم یزید بن ولید کا ارشاد ہے:
"اِیَّاکُمْ وَالْغَنَاء فَاِنَّه یَنْقُصُ الْحَیَاء، وَیَزِیْدُ فِي الشَّهوَة، وَإنَّه لَیَنُوْبُ عَنِ الْخَمْرِ، وَیَفْعَلُ مَا یَفْعَلُ السُّکْرُ، وَجَنِّبُوْه النِّسَاء؛ فَاِنَّ الْغَنَاء دَاعِیَة الزِّنَا". (إغاثة اللهفان لابن القیم ۱؍۲۴۵)
اردو مشاعروں کے نام پر آج کل حیاء باختہ اور آوارہ گرد متشاعرات و رقاصائوں کے ذریعہ جو ہیجان وشہوت انگیز مجرے کئے جارہے ہیں وہ ہماری تہذیبی واخلاقی اقدار کے لئے ناسور ہیں، سراسر غیرشرعی ناجائز اور حرام ہیں، جنسی زیادتی اور اجتماعی عصمت دری کے آئے دن پیش آمدہ واقعات کا محرک ایسے ہی مشاعرے ہیں، اس نوع کے مشاعروں کا بائیکاٹ ہر غیور مسلم مرد وعورت کا فرض منصبی ہے، اصحاب قلم کی ذمہ داری ہے ان کے مفاسد کو عوام الناس میں اجاگر کریں اور لوگوں میں بیداری لانے کا اپنا فریضہ ادا کریں۔
إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
✍: مفتی شکیل منصور القاسمی( بیگوسرائے)
muftishakeelahmad@gmail.com
No comments:
Post a Comment