میاں بیوی دونوں کی رضامندی کے بغیر خلع جائز نہیں
—————————
السلام عیلکم ورحمۃ اللہ
میرا نام فوزیہ شکور ھے، باپ کا نام شکور احمد ھے
میرے خاوند کا نام احمد علی ھے، میرا مسئلہ یہ ھے
میری شادی کو 15 سال ہوگئے ہیں میرے 2 بچے ہیں۔ میرے خاوند میرے پاس امریکہ آئے ان کے ساتھ میرے اور میرے گھروالوں کے اختلافات ہوگئے اور وہ واپس پاکستان چلے گئے۔ اس کے بعد وہ مجھ سے فون پر بات کرتے رھے 7 سے 8 ماہ انھوں نے فون نہیں کیا میرے گھروالوں نے مجھے سمجھایا کہ تم (خلع) لے لو۔ پھر میں نے امریکی کورٹ میں خلع کی اپیل دائر کردی۔
میرے وکیل نے کورٹ میں یہ دایر کیا کہ میرا شوھر 3 سال سے لا پتہ ھے۔ جو خلاف واقعہ فرضی بات تھی.
کورٹ سے پاکستان جو بھی نوٹسز آئے وہ میرے بھائی نے اپنے دوست اور اس کے نوکر کے ساتھ مل کر اس نوٹس کا جواب (احمد علی یعنی میرا شوہر بن کر وصول کرتے رھے اور یہاں تکہ کہ خلع پر دسخط بھی اسی نوکر سے کرواکے کوٹ بھیجے اور مجھے خلع ھوگئی۔ ان ساری باتوں کا علم مجھے تو تھا مگر میرے شوہر اس سارے واقعے سے لاعلم تھے۔ انہیں خلع کا پتہ تک نہیں، ان کی طرف سے جعلی دستخط کیے گئے
جب میری کور ٹ میں دائر خلع کو 2 ماہ 25 دن گزر گئے تو میرے شوہر نے مجھ سے رابطہ کرلیا۔ اور ھمارے اختلاف ختم ھوگئے۔ الحمداللہ
اب میرا آپ سے سوال یہ ھے ک میرا یہ خلع درست ہوا یا نہیں؟ کیا میں اب دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہوں؟ یا میں پہلے شوہر ہی کی منکوحہ باقی ہوں؟ شریعت اسلامیہ کے مطابق مکمل رہنمائی فرمائیں۔
فوزیہ شکور، ملتان، حال مقیم امریکہ ۔ ۸ دسمبر ۲۰۱۹
———————————
الجواب وباللہ التوفیق:
نکاح زندگی بھر ساتھ نبھانے کا مقدس رشتہ ہے۔ بلاوجہ اس بندھن کو توڑنا نہ صرف خداودند قدوس کی نظر میں مبغوض ہے بلکہ ایسا کرنے والے پر زبان رسالت سے سخت وعید سنائی گئی ہے۔ ایک حدیث میں کہا گیا ہے جو عورت بلاوجہ اپنے شوہروں سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پہ جنت کی خوشبو بھی حرام ہے
أَنْبَأَنَا بِذَلِكَ بُنْدَارٌ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ أَنْبَأَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ ثَوْبَانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَيُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ عَنْ ثَوْبَانَ وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ أَيُّوبَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ (سنن الترمذي 1187 ۔ باب المختلعات)
لیکن جس طرح دینی واخلاقی ومعاشرتی حق تلفی کے وقت طلاق مباح ہے، ٹھیک اسی طرح اگر جنسی جذبات وخواہشات کی تکمیل میں شوہر کی طرف سے رکاوٹیں آرہی ہوں اور عورت ناقابل تحمل مشقتوں کی شکار ہوگئی ہو تو آخری چارہ کار کے طور پر عورت اپنے شوہر سے اپنا مہر دین معاف کرکے یا کچھ لے دے کے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرسکتی یعنی خلع لے سکتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ شوہر بھی اس پہ راضی ہو۔ کیونکہ خلع دیگر عقود کی طرح ایک عقد ومعاملہ ہے جس میں فریقین کی رضامندی سے یہ معاملہ منعقد ہوسکتا ہے۔
ہاں اتنا ضرور ہے کہ طلاق ہی کی طرح محض لذت اندوزی کے طور پہ خلع کا مطالبہ کرنا بھی ناجائز اور بدبختانہ عمل ہے اور ایسا کرنے والی خاتون اللہ کی نظر میں ملعونہ ہے اور جنت کی خوشبو سونگھنے تک سے محروم رہے گی۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُزَاحِمُ بْنُ ذَوَّادِ بْنِ عُلْبَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ لَيْثٍ عَنْ أَبِي الْخَطَّابِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُخْتَلِعَاتُ هُنَّ الْمُنَافِقَاتُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ أَيُّمَا امْرَأَةٍ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِهَا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ لَمْ تَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ (سنن الترمذي1186)
شرعاً خلع کے لئے میاں بیوی دونوں کا رضامند ہونا لازم ہے، نہ بیوی کی رضامندی کے بغیر شوہر اس کو خلع لینے پر مجبور کرسکتا ہے، اور نہ شوہر کی رضامندی کے بغیر عورت خلع حاصل کرسکتی ہے، اسی طرح عدالت بھی میاں بیوی دونوں کی رضامندی کے ساتھ تو خلع کا حکم کرسکتی ہے، لیکن اگر وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک راضی نہ ہو تو کوئی عدالت بھی خلع کا فیصلہ دینے کی مجاز نہیں۔
آپ کی ذکر کردہ صورت میں آپ کے شوہر کو خلع کا علم ہے نہ رضامندی، لہذا کورٹ کی طرف سے فیصل کردہ خلع شرعاً درست نہیں ہے
آپ حسب سابق اپنے شوہر کی منکوحہ اور کسی بھی غیر مرد کے لیے اجنبیہ ہیں، کسی دوسرے کے ساتھ شادی رچانا ناجائز وحرام اور جسمانی تعلقات زنا کاری کے زمرے میں آئیں گے
إذا کان بعوض الإیجاب والقبول؛ لأنہ عقد علی الطلاق بعوض ، فلا تقع الفرقۃ، ولا یستحق العوض بدون القبول۔ (شامي، کتاب الطلاق / باب الخلع ۵ ؍ ۸۸ زکریا ، ۳ ؍ ۴۴۱ کراچی)
لأنہ أوقع الطلاق بعوض، فلا یقع إلا بوجود القبول۔ (المبسوط للسرخسي / باب الخلع ۶ ؍ ۱۹۴ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
لو ادعت الخلع لا یقع بدعواہا شيء؛ لأنہا لا تملک الإیقاع ۔ (شامي، کتاب الطلاق / باب الخلع ۵ ؍ ۱۰۲ زکریا)
[صحیح البخاری، کتاب الطلاق، باب الخلع وکیف الطلاق فیہ، الحدیث: 5273، ج3، ص487)
(الھدایۃ، کتاب الطلاق، باب الخلع، ج 2، ص 261
الدرالمختار، کتاب الطلاق، باب الخلع، ج5، ص 89
الفتاوی الخانیۃ، کتاب الطلاق، باب الخلع، ج1، ص 256
بدائع الصنائع، کتاب الطلاق، فصل رکن الخلع، ج3، ص229)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment