Saturday, 7 December 2019

مولانا سید محمد علی مونگیری رحمة اللہ علیہ


مولانا سید محمد علی مونگیری رحمة اللہ علیہ


مولانا سید محمد علی مونگیری رحمة اللہ علیہ ایک بار گاندھی جی سے ملنے مونگیر گئے۔ گاندھی جی نے اپنے مطالعہ سیرت کا حوالہ دے کر پیغمبر اسلام (صلی اللہُ علیہ وسلم) اور قرآن حکیم کی تعریف وتوصیف کی، مولانا مونگیری گاندھی جی کی ان باتوں کو خاموشی سے سنتے رہے۔ جب گاندھی جی اپنی بات کہہ چکے تو مولانا نے پوچھا،
مجھے تو آپ اسلام کی وہ بات بتائیں جو آپ کو پسند نہیں آئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پہلو سے آگاہ کیجئے جسے آپ نے اچھا نہیں سمجھا۔ گاندھی جی اس سوال کے لئے تیار نہ تھے۔ کچھ چونکے اور فورا بولے،
ایسا تو کوئی پہلو میری نظر میں نہیں آیا۔
اس پر مولانا مونگیری نے سوال کیا۔ تو پھر آپ نے ابھی تک اسلام کیوں قبول نہیں کیا؟ گاندھی جی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ مولانا خفا ہوئے اور فرمایا، آپ نے جو کہا غلط کہا ہے، آپ ہمیں صرف پھانسنا چاہتے ہیں، صیاد بھی پرندوں کو پکڑنے کے لئے انہیں کی بولیاں بولتا ہے۔
(مسٹر احسان بی اے کی آپ بیتی، ص، 273) 
آج ہم اپنے بڑے پروگراموں میں کچھ پنڈت اور سوامی حضرات کو مدعو کرتے ہیں اور وہ اسلام کی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوب تعریف کرتے ہیں جس پر ہم پھولے نہیں سماتے، لیکن کیا کوئی اسی اسٹیج پر ان سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ جب آپ کو اسلام یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنے ہی پسند ہیں تو اسلام قبول کرنے میں کون سی چیز آڑے آرہی ہے؟
کون ہیں مولانا محمد علی مونگیری؟
مولانا محمد علی مونگیری کی پیدائش 3 شعبان المعظم 1262ھ بہ مطابق 28 جولائی 1846ء اور وفات 9 ربیع الاول 1346ھ بہ مطابق 13 ستمبر 927ء کو ہوئی. 
مولانا انیسویں صدی میں تعلیمی نظام کی اصلاح کے لیے برپا ہونے والی معروف تحریک ندوۃ العلماء کے بانیوں میں سے ایک اور اس کے ناظمِ اول تھے۔ ضلع مظفر نگر، اترپردیش میں سادات کی ایک بستی میں پیدا ہوئے۔ اُن کا سلسلۂ نسب 23 واسطوں سے محی الدین عبد القادر جیلانی ؒسے جاملتا ہے۔ مولانا لطف اللہ علی گڑھی سے مختلف علوم حاصل کیے۔ بعد ازاں مدرسہ فیض عام، کان پور اور مظاہر علوم سہارنپور میں بھی تعلیم حاصل کی۔ اور اصلاح باطن کے لیے مولانا شاہ فضل رحمان گنج مرادآبادی سے وابستہ ہوئے اور خلافت سے سرفراز ہوئے۔
ندوۃ العلماء کی بنیاد اور نظامت و ترقی کے علاوہ محمد علی مونگیری نے اپنے دور میں ردِ مسیحیت پر بھی خوب کام کیا۔ اس کے ساتھ صوبہ بہار کے ضلع مونگیر اور اس کے اطراف میں احمدیہ کے خلاف بھی بر سر پیکار رہے۔ سلوک و ارشاد کے ذریعے بھی اصلاحِ امت کا کام انجام دیا اور تصانیف و تالیفات کے ساتھ ساتھ مختلف رفاہی کام بھی انجام دیے۔
نسب اور ولادت:
مولانا محمد علی مونگیری کا سلسلۂ نسب عبد القادر جیلانی سے ملتا ہے۔ ان کے اجداد میں شاہ حبیب اللہ ملتانی اور ان کے بیٹے شاہ ابوبکر چرم پوش بہت معروف ہیں۔ ابوبکر چرم پوش تقریباً ساڑھے تین سو برس پہلے ملتان سے ضلع مظفرنگر آئے اور قصبہ کھتولی کے نزدیک قیام کیا۔ ان کے جد امجد شاہ سید غوث علی مظفر نگر سے کانپور منتقل ہوئے اور سکونت پزیر ہوگئے۔ وہیں شاہ سید عبد العلی کے ہاں 3 شعبان المعظم 1262ھ، بہ مطابق 28 جولائی 1846ء کو سید محمد علی مونگیری کی ولادت ہوئی۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم:
دو سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا، اس لیے بچپن کا زمانہ دادا سید غوث علی اور چچا سید ظہور علی کے زیر تربیت گزرا۔ درسیات کا اکثر حصہ لطف اللہ علی گڑھی اور کچھ حصہ مفتی عنایت احمد سے پڑھا۔ دس بارہ برس کی عمر میں دادا اور چچا کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ اب تعلیم کی بجائے ایک اور مبارک شوق دل و دماغ پر غالب ہوگیا کہ کسی طرح مدینہ منورہ کی زیارت نصیب ہو جائے۔ لیکن معاشی حالات کسی طرح سازگار نہ تھے۔ اس درمیان میں ایک بزرگ عبد اللہ شاہ سے ملاقات ہوئی اور ان کے اشارے پر اس غلبے کو دباکر حصول علم کی طرف متوجہ ہوئے۔ مدرسہ فیض عام کان پور کے اولین طلبہ میں شامل ہوئے۔ منقولات ومعقولات کی تکمیل کی اور ساتھ ہی مدرسے میں طلبہ کو درس بھی دیتے رہے۔ فلسفہ ومنطق کی اعلی کتابیں مکمل کرنے کے باوجود ان علوم سے فطرتاً بے زاری رہی اور ذہن ودماغ ہمیشہ قرآن وحدیث کے ذوق سے مزین رہا۔ اس ذوق کی تشکیل میں شاہ فضل رحمان گنج مرادآبادی کی صحبتوں کو بھی دخل تھا۔ اسی لیے معقولات کی کتابیں ختم کرنے کے بعد مولانا لطف اللہ علی گڑھی سے صحاح ستہ سبقاً سبقاً پڑھیں. سترہ اٹھارہ برس کی عمر میں اصلاح باطن کی فکر ہوئی۔ سب سے پہلے اپنے عہد کے ایک صاحب حال بزرگ حافظ محمد صاحب سے، پھر شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ سے فیض یافتہ بزرگ کرامت علی قادری سے اور آخر میں شاہ فضل رحمان گنج مرادآبادی سے وابستہ ہوئے۔ مدارج سلوک طے کیے اور اجازت وخلافت سے سرفراز ہوئے۔ اسی درمیان مشہور محدث احمد علی سہارن پوری کے پاس گیارہ ماہ قیام کرکے صحاح ستہ، موطا امام محمد اور موطا امام مالک پڑھی اور صحاح ستہ وموطا امام محمد کی سند بھی حاصل کی۔
ذاتی زندگی:
مولانا سید محمد علی مونگیری نے تین نکاح کیے تھے۔ پہلا نکاح 22 سال کی عمر میں والدہ نے کھتولی کے قریب ایک علاقے محی الدین پور میں میر امان علی کی صاحب زادی سے کروایا تھا۔ اُن سے تین بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ سید احمد علی، سید محبوب علی اور سید معصوم علی۔ مؤخرالذکر دونوں کا کم سنی ہی میں انتقال ہوگیا۔ اول الذکر سید احمد علی عالم دین بنے۔ انہوں نے چوٹی کے علما سے علم حاصل کیا تھا، بڑے عابد وزاہد تھے۔ 1328ھ کے رمضان میں جمعہ کے دن نماز کی حالت میں وفات پائی۔ اُن سے ایک سال پہلے 1327ھ میں بڑی صاحب زادی سیدہ ام کلثوم وفات پاچکی تھیں۔ چھوٹی صاحب زادی سیدہ ام سلمہ 1328ھ میں بھائی کی وفات کے کچھ عرصے بعد دنیا سے رخصت ہوئیں۔ دوسرا نکاح فضل رحمان گنج مرادآبادی کے اشارے پر کانپور کی ایک تعلیم یافتہ اور نیک صالحہ بیوہ سے 1307ھ میں ہوا تھا۔ ان سے کوئی اولاد نہ تھی۔ نکاح کے دس سال بعد 1317ھ میں وہ وفات پاگئیں۔ تیسرا نکاح سیکری، ضلع مظفرنگر کی ایک خاتون سے ہوا۔ ان سے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔ سب سے بڑے بیٹے سید عتیق اللہ تھے۔ بارہ سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ دوسرے بیٹے سید لطف اللہ تھے۔ روحانی سلسلے میں اپنے والد کے خلیفہ بھی تھے۔ 1342ھ میں ان کی وفات ہو گئی۔ تیسرے بیٹے سید مطیع اللہ صرف 8 ماہ کی عمر میں انتقال کر گئے۔ چوتھے بیٹے سید نور اللہ تھے۔ پانچویں بیٹے سید منت اللہ رحمانی اپنے علم وفضل اور دینی وملی خدمات کی وجہ سے معروف ومقبول تھے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ناظم اعلٰی اور امارت شریعہ بہار واڑیسہ کے امیر رہے۔ اور 19 مارچ 1991ء کو وفات پائی۔ پانچ بیٹوں کے علاوہ ایک بیٹی سیدہ سعیدہ بھی تھیں۔
مسیحیت کے خلاف محاذ آرائی:
انگریزی دور میں سرکاری اجازت ملنے کے بعد یوروپ سے مسیحی انجمنیں پروانہ وار ہندوستان کا رخ کررہی تھیں اور یہاں مسیحیت کی تبلیغ زوروں پر تھی۔ 1900ء میں تقریباً پچاس مسیحی ادارے ہندوستان میں اپنا نظام قائم کرچکے تھے۔ ان کی آمد کا مقصد ہی یہ تھا کہ ہر ممکن طریقے سے ہندستانیوں کو مسیحی مذہب میں داخل کیا جائے۔ اس کے لیے وہ ہر ممکن طریقہ اور ذریعہ استعمال کرتے تھے۔ انگریز حکومت کی طرف سے انھیں مکمل مراعات حاصل تھیں۔ بلکہ ہندستان میں ان کی آمد ہی انگریز حکومت کے ذریعے 1813ء میں پاس کیے گئے ایک بل کا نتیجہ تھی۔ ایک طرف یہ مسیحی سیلاب تھا تو دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ رحمت اللہ کیرانوی کے بعد کوئی ایسا عالم نظر نہ آتا تھا، جو اس سیلاب پر بندھ باندھ سکے۔
مسیحیت کا مقابلہ:
مولانا محمد علی مونگیری نے حالات کا صحیح جائزہ لیا، مستقبل کا درست اندازہ لگایا اور مسیحی انجمنوں کے خلاف ایک محاذ قائم کردیا۔ 1289ھ میں انھوں نے صرف مسیحیوں کے اعتراضات اور شکوک و شبہات کا جواب دینے کے لیے کان پور سے ایک اخبار منشور محمدی جاری کیا۔ اس اخبار نے مسیحی عقائد اور اعتراضات کا ایسا اقدامی مقابلہ کیا کہ اس کے اکثر مضامین کا کوئی جواب کسی پادری سے نہ بنا۔ یہ اخبار چار پانچ سال جاری رہنے کے بعد بند ہوگیا۔ اس اخبار کے ذریعے مسلمانوں کے قدموں کو جمایا گیا۔ انھیں شکوک و شبہات سے آزاد اور ان کے ایمان کو مستحکم کیا گیا۔ اس کے علاوہ مسیحی انجمنوں کے مقابلے میں محمد علی مونگیری نے مختلف اہم موضوعات پر اعلی درجے کی تصانیف بھی پیش کیں۔ اس ذیل میں مرآۃ الیقین، آئینہ اسلام، ترانۂ حجازی، دفع التلبیسات، ساطع الب رہان، براہین قاطعہ، البرھان لحفاظۃ القرآن اور پیغام محمدی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ آخرالذکر کتاب کو اہل علم رحمت اللہ کیرانوی کی مشہور کتاب اظہارالحق کے ہم پلہ مانتے ہیں۔ مسیحی انجمنوں کے خلاف اس علمی محاذ آرائی کے ساتھ مولانا محمد علی مونگیری نے کانپور میں اسلامیہ یتیم خانے کی بھی بنیاد رکھی۔ تاکہ مسیحی پادری غریب ونادار مسلم بچوں کی غربت کا فائدہ اٹھاکر، اُن کا ایمان سلب نہ کرلیں۔ اس یتیم خانے میں انھوں نے بچوں کی تعلیم کا انتظام اور انہیں مختلف کام کاج سکھانے کا بھی نظم کیا، تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں اور کسی کے محتاج نہ رہیں۔
تحریک ندوۃ العلماء:
تحریک ندوۃ العلماء کو بجا طور پر مولانا سید محمد علی مونگیری کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے اس جرات مندانہ اور دانش مندانہ اقدام سے برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا نقشہ بڑی حد تک تبدیل ہوگیا۔ 1857ء کی ناکامی کے بعد مسلمانوں پر مایوسی طاری اور ان میں احساس کم تری پیدا ہو گیا تھا۔ اس صورت حال سے بچانے کے لیے دو تحریکیں اٹھیں، تحریک دیوبند اور تحریک علی گڑھ۔ ایک قدیم سے ذرہ برابر ہٹنا نہیں چاہتا تھا اور دوسرا مکمل طور پر جدید کو اختیار کرنے کا حامی تھا۔ اس کے ساتھ تقلید وعدم تقلید کی بحثوں نے تکفیریت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ساتھ ہی مدارس میں جو نصاب پڑھایا جارہا تھا، وہ کسی طرح زمانے کا ساتھ دینے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا۔ ایسے حالات میں کسی ایسی معتدل اور متوازن شخصیت کی ضرورت تھی، جو قدیم کی حامل بھی ہو اور جدید کی اہمیت کی معترف بھی۔ جو اپنی حکمت کے ذریعے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرو دے۔
ندوۃ العلماء کا قیام:
ایسے سخت اور حوصلہ شکن حالات میں مولانا سید محمد علی مونگیری نے 1310ھ بہ مطابق 1892ء میں مدرسہ فیض عام، کانپور کے جلسہ دستار بندی کے موقع پر ندوۃ العلماء کا تخیل پیش کیا۔ جسے تمام علما نے پسند کیا۔ اس مجلس کا نام "ندوۃ العلماء" تجویز ہوا اور اس کے محرکِ اول مولانا سید محمد علی مونگیری ہی کو اس کا ناظمِ اول مقرر کردیا۔ یہ طے پایا کہ آئندہ سال اس مجلس کا ایک جلسہ عام ہو، جس میں تمام مسالک کے ممتاز علما کو دعوت دی جائے۔ چناں چہ 15-17 شوال المکرم 1311ھ بہ مطابق 22-24 اپریل 1894ء کو مدرسہ فیض عام میں ندوۃ العلماء کا پہلا اجلاس عام منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں اتحاد واتفاق کے ایسے ایسے منظر سامنے آئے، کہ جن کا تصور بھی محال ہوچکا تھا. بنیادی طور پر ندوۃ العلماء کے تین مقاصد قرار پائے:
1. اصلاح نصاب
2. رفع نزاع باہمی
3. غیرمسلموں میں اسلام کا تعارف
مولانا محمد علی مونگیری نے محسوس کیا کہ جس فکر اور تخیل کے وہ علم بردار ہیں، وہ اُس وقت تک عام نہیں کی جاسکتی، جب تک اس فکر کو نیا خون نہ ملتا رہے۔ لہٰذا انھوں نے 12 محرم الحرام 1313ھ کو جلسہ انتظامیہ میں ایک دار العلوم کے قیام کی تجویز پیش کی۔ اور انھوں نے پہلے سے تیارشدہ ایک وسیع خاکہ کو مسودہ دار العلوم کے نام سے پیش کیا اور ملک کے ممتاز اہل علم کو ارسال بھی کیا۔ اسی اجلاس میں قیام دار العلوم کی یہ تجویز منظور بھی ہوگئی۔
ندوۃ العلماء سے استعفا:
مولانا سید محمد علی مونگیری کے ذریعے نہ صرف دارالعلوم ندوۃ العلماء کا قیام عمل میں آیا، بلکہ ان کے دورِ نظامت میں دارالعلوم نے ہر لحاظ سے ترقی کی۔ ان کے تقریباً گیارہ سالہ دور نظامت میں عبدالحئی حسنی جیسا معاون ناظم اور شبلی نعمانی جیسا معتمد تعلیم بھی ان کا دست راست بنارہا۔ مولانا محمد علی مونگیری عرصے سے گردے کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ اوپر سے بعض اراکینِ ندوہ کے سخت اختلافات نے انھیں ذہنی طور پر تکلیف میں مبتلاکر رکھا تھا۔ مزید برآں یہ کہ مونگیر اور اس کے اطراف میں اُن کے ہزاروں مرید اُن کے منتظر تھے، نیز ملک بھر میں موجود شاہ فضل رحماں گنج مرادآبادی کے متوسلین بھی محمد علی مونگیری سے وابستہ ہوچکے تھے۔ ان تمام چیزوں کے پیش نظر انھوں نے ندوۃ العلماء کی نظامت سے استعفا دے دیا۔ 23 ربیع الثانی 1321ھ بہ مطابق 19 جولائی 1903ء کو سید عبد الحی حسنی نے جلسہء انتظامیہ میں اُن کا استعفا پیش کیا اور مجلس نے مجبوراً اور نہایت افسوس کے ساتھ اسے منظور کرلیا۔ اس طرح اُن کا ندوۃ العلماء سے ظاہری تعلق ختم ہوگیا، لیکن ندوے کے جلسوں میں شرکت، اس کے مسائل سے دل چسپی، حتی الامکان تعاون اور قلبی تعلق ہمیشہ باقی رہا۔
احمدیہ کے خلاف محاذ آرائی:
بیسویں صدی کے آغاز میں مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ بہار کے کچھ اضلاع میں احمدیت کو خوب فروغ مل رہا تھے۔ مونگیر اور بھاگل پور میں احمدی اتنے منظم انداز سے تبلیغ کر رہے تھے کہ ان دونوں اضلاع کے مکمل طور پر احمدی ہو جانے کا امکان تھا۔ ایسے میں محمد علی مونگیری نے احمدیہ کا مقابلہ شروع کیا۔ انھوں نے احمدیہ کے رد میں تقریباً سو چھوٹے بڑے رسائل تصنیف کیے، جن میں سے تقریباً چالیس اُن کے اصل نام سے اور باقی دوسرے ناموں سے شائع ہوئے۔ احمدیہ کے مقابلے کے لیے مولانا محمد علی مونگیری نے ہر طرح کے اقدامات کیے۔ اصلاحی دورے کیے، گاؤں گاؤں گھومے پھرے، رسائل لکھے، خطوط روانہ کیے، کتابیں تصنیف کیں اور حد تو یہ ہے کہ اپنی خانقاہ میں ایک پریس قائم کر دیا، تاکہ دوسرے شہروں سے مطبوعہ چیزیں منگانے میں بالکل تاخیر نہ ہو۔ وہ اپنے صاحب ثروت مریدین کو ترغیب دلاتے تھے کہ احمدیہ کے خلاف چھوٹے بڑے رسائل کو مفت تقسیم کریں۔ خود بھی ہزاروں روپے خرچ کیے۔ اس سلسلے میں ان کا جملہ اُن کی بے چینی اور اضطراب کو واضح کرتا ہے:
اتنا لکھو اور اس قدر طبع کراؤ اور اس طرح تقسیم کرو کہ ہر مسلمان جب صبح سوکر اٹھے تو اپنے سرہانے رد قادیانیت کی کتاب پائے۔
انھوں نے اپنا تہجد کا وقت بھی اسی کام کے لیے وقف کردیا تھا۔ کیوں کہ احمدیہ کے مقابلے کو وہ فرض کے بعد سب سے افضل عبادت سمجھتے تھے۔ اپنے متوسلین کو بھی اسی کی ترغیب دیتے تھے۔ اس سلسلے میں ان کی کتابوں میں فیصلۂ آسمانی تین جلدوں میں، شہادت آسمانی دو جلدوں میں، چشمۂ ہدایت، چیلنج محمدیہ، معیار صداقت، معیار المسیح، حقیقت المسیح، تنزیۂ ربانی، آئینۂ کمالات مرزا اور نامۂ حقانی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ بہت سے رسائل اور تصانیف اب نایاب ہوچکی ہیں۔ ان کتابوں میں احمدیوں کو کھلا چیلنج کیا گیا، انعامی چیلنج کیا گیا، قادیان بھیج کر جواب کا چیلنج کیا گیا، لیکن کوئی جواب نہیں دیا جاسکا۔ ان کتابوں میں اول الذکر دونوں کتابیں اپنے موضوع پر بہت اعلٰی اور ممتاز شمار ہوتی ہیں۔ مولانا محمد علی مونگیری کی اس تحریک نے اپنا اثر دکھایا۔ بہار ہی نہیں پنجاب، بنگال، مدراس، بمبئی، گجرات، حیدرآباد، دکن، سلہٹ اور ڈھاکہ جہاں جہاں احمدی تھے، وہاں سے اپنی سرگرمیاں بند کرنا پڑا۔ حتی کہ ہندوستان کے باہر برما اور افریقا تک یہ رسائل پہنچے اور احمدیہ تحریک بری طرح سے متاثر ہوئی۔ مختلف زبانوں میں ان کتابوں کے ترجمے بھی کیے گئے۔
وفات:
مولانا سید محمد علی مونگیری ہمیشہ سے گردے کی تکلیف میں مبتلا رہے۔ تکلیف کبھی بڑھ جاتی، کبھی کم ہوجاتی۔ ایک دن سخت بخار آیا اور صاحبِ فراش ہوگئے۔ ایک دن گردے کے درد کا بھی سخت دورہ پڑا۔ گیارہ دن مرض وفات میں گزارنے کے بعد بالآخر 9 ربیع الاول 1346ھ بہ مطابق 13 ستمبر 1927ء کو ظہر کی نماز کے بعد "اللہ" "اللہ" کا ورد کرتے ہوئے وفات پائی۔ مغرب کے بعد نماز جنازہ ادا کرکے سپرد خاک کیا گیا۔ اولاد کے علاوہ تقریباً دو درجن خلفاء اور ہزاروں مریدین ومتوسلین چھوڑے۔
ایس اے ساگر

No comments:

Post a Comment