Thursday 5 December 2019

نماز کے مسائل

نماز کے مسائل
۱. امام جان بوجھ کر نماز جنازہ کی تکبیریں چار سے زیادہ یعنی پانچ کہے
۲. جان بوجھ کر عیدین کی تکبیریں زیادہ کہے جب کہ مقتدی امام سے سنتا ہو اور اگر مکبر سے سنے تو ترک نہ کرے کہ شاید اس سے غلطی ہوئی ہو
۳. کسی رکن کا زیادہ کرنا مثلاً دو بار رکوع کرنا یا تین بار سجدہ کرنا
۴. جب کہ امام بھول کر پانچویں رکعت کے لئے کھڑا ہو جائے تو مقتدی کھڑا نہ ہو بلکہ امام کا انتظار کرے اگر امام پانچویں رکعت کے سجدہ کر لینے سے پہلے لوٹ آیا اور وہ قعدہ آخرہ کر چکا تھا تو مقتدی بھی اس کا ساتھ دے اور اس کے ساتھ سلام پھیردے اور اس کے ساتھ سجدہ سہو کرے اور اگر امام نے پانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا تو مقتدی تنہا سلام پھیرے اور اگر امام نے قعدہ آخرہ نہیں کیا تھا اور وہ پانچویں رکعت کے سجدے سے پہلے لوٹ آیا تب بھی مقتدی اس کا ساتھ دے اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کرلیا تو امام اور مقتدی سب کی نماز فاسد ہوجائے گی سب نئے سرے سے پڑھیں
نو چیزیں جن کو خواہ امام کرے یا نہ کرے مقتدی ان کو ادا کرے کیونکہ یہ سنن ہیں اور سنن کے ادا کرنے یا نہ کرنے میں امام کی متابعت واجب نہیں امام نہ کرے تو مقتدی خود کر لے
۱. تحریمہ کے لئے رفع یدین کرنا
۲. ثنا پڑھنا (البتہ جہری نماز میں امام کے الحمد شروع کرنے کے بعد نہ پڑھے)
۳. تکبیرات انتقال یعنی رکوع میں جانے یا سجدے میں جانے یا سجدے سے اٹھنے کے لئے اللّٰہ اکبر کہنا
۴. رکوع کی تسبیح جب تک امام رکوع میں ہے
۵. اگر امام سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہُ چھوڑ دے تو مقتدی رَبَّنَا لَکَ الحَمد کہنا ترک نہ کرے
۶. سجدے کی تسبیح جب تک امام سجدے میں ہے
۷. تشہد لیکن اگر امام نے قعدہ اولیٰ ہی ترک کر دیا تو مقتدی بھی ترک کرے
۸. سلام جب کہ امام نے سلام کے بجائے کلام کر دیا یا مسجد سے نکل گیا تو مقتدی سلام پھیر کر اپنی نماز پوری کرے
۹. تکبیرات تشریق
مقتدی کی اقسام
مقتدی چار قسم کے ہوتے ہیں:
اول مُدرک:
جس شخص نے پوری نماز یعنی اول رکعت سے امام کے ساتھ شریک ہو کر آخری قعدے کا تشہد پڑھنے تک تمام رکعتیں امام کے ساتھ پڑھی ہوں ایسا شخص مُدرک کہلاتا ہے ، پہلی رکعت میں رکوع کے کسی جزو میں یا اس سے پہلے پہلے امام کے ساتھ شریک ہو گیا تو وہ پہلی رکعت کا پانے والا ہے
دوم لاحق:
جو شخص پہلی رکعت میں رکوع کے کسی جزو تک یا اس سے پہلے پہلے امام کے پیچھے نماز میں شامل ہوا مگر اقتدا کے بعد اس کی کل یا بعض رکعتیں کسی عذر سے یا بغیر عذر فوت ہو گئیں وہ شخص لاحق کہلاتا ہے مثلاً اقتدا کے بعد پہلی رکعت میں سو گیا اور آخری نماز تک سوتا رہا اس طرح اس کی کل رکعتیں امام کے ساتھ نہ ہوئیں یا درمیان میں دوسری یا تیسری وغیرہ رکعت میں سو گیا تو اس طرح بعض رکعتیں امام کے ساتھ نہ ہوئیں یا کسی اور غفلت یا بھیڑ کی وجہ سے کھڑا رہ گیا اور کل یا بعض رکعتوں کے رکوع یا سجود نہ کئے یا حدث ہو جانے کی وجہ سے وضو کے لئے گیا اور اس عرصہ میں امام نے کل یا بعض نماز پڑھ لی اور اس نے آ کر اس نماز پر بنا کی یا نمازِ خوف میں وہ پہلا گروہ ہے تو یہ سب لاحق ہے یا مقیم نے مسافر کی پیچھے قصر نماز میں اقتدا کی تو مسافر امام کے سلام پھیرنے کے بعد مقیم مقتدی آخیر کی دو رکعتوں میں لاحق ہے
سوم مسبوق:
جس شخص کو امام کے ساتھ شروع سے کل یا بعض رکعتیں نہ ملی ہوں لیکن جب سے امام کے ساتھ شامل ہوا پھر آخر تک شامل رہا ہو تو وہ ان رکعتوں میں مسبوق ہے پس اگر آخری رکعت کے رکوع کے بعد سلام سے پہلے پہلے کسی وقت امام کے ساتھ ملا ہو تو کل رکعتوں میں مسبوق ہے اور اگر آخری رکعت کے رکوع میں یا اس سے پہلے پہلے کسی وقت مل گیا مثلاً ایک یا دو یا تین رکعتیں ہونے کے بعد ملا تو بعض رکعتوں میں مسبوق ہے
چہارم لاحق مسبوق:
جس شخص کو شروع کی کچھ رکعتیں امام کے ساتھ نہ ملی ان میں وہ مسبوق ہے پھر جماعت میں شامل ہونے کے بعد لاحق ہو گیا تو ایسے شخص کو مسبوق لاحق یا لاحق مسبوق کہتے ہیں (عملاً ایسی کوئی صورت نہیں بنتی کہ پہلے لاحق ہو اور پھر مسبوق ہو)
مقتدی کی اقسام۔ مسائل
۱. پہلے جو نماز کے عام مسائل بیان ہوئے ہیں وہ سب مدُرک کے مسائل ہیں
۲. لاحق بھی مدُرک کے حکم میں ہے یعنی وہ اپنی لاحقانہ نماز میں حکماً امام کے پیچھے ہے پس وہ اپنی فوت شدہ لاحقانہ نماز میں قرأت نہ کرے بلکہ مُدرک مقتدی کی طرح خاموش رہے اور اگر اس لاحقانہ نماز میں سہو ہو جائے تو سجدہ سہو نہ کرے اور اقامت کی نیت سے اس کا فرض نہیں بدلے گا
۳. لاحق مثلاً اگر سوگیا تھا تو جب وہ جاگے اس کے لئے واجب ہے کہ امام کا ساتھ چھوڑ کر پہلے اپنی ان رکعتوں کو ادا کرے جو امام کے ساتھ شامل ہونے کے بعد جاتی رہی ہیں اور ان میں قرأت نہ کرے جیسا کہ اوپر بیان ہوا پھر امام کی متابعت کرے جب کہ امام ابھی جماعت کرا رہا ہو اور اگر امام اس وقت تک سلام پھیر چکا ہو تو اپنی باقی نماز بھی اسی طرح لاحقانہ پوری کر لے کیونکہ وہ اب بھی امام کے پیچھے ہے.
۴. اگر امام سجدہ سہو کرے تو مقتدی جب تک اپنی لاحقانہ نماز پوری نہ کر لے اس کے متابعت نہ کرے بلکہ اپنی نماز پوری کر کے سجدہ سہو کرے
۵. مسبوق اپنی فوت شدہ نماز میں منفرد ہوتا ہے پس وہ اس میں ثنا اور تعوذ و تسمیہ و قرأت (الحمد و سورة) اسی طرح پڑھے جس طرح کی رکعتیں اس کی گئی ہیں چار مسئلوں میں وہ منفرد کے حکم میں نہیں جو آگے آتے ہیں
۶. مسبوق اپنی فوت شدہ نماز پہلے ادا نہ کرے بلکہ پہلے امام کی متابعت کرے اور جب امام اپنی نماز سے فارغ ہو کر سلام پھیرے تو یہ امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے اور امام کے پہلے سلام پر کھڑا نہ ہو بلکہ امام کا دوسرا سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو کر اپنی بقیہ فوت شدہ نماز اکیلا پڑھے اگر لاحق کی طرح پہلے اپنی فوت شدہ نماز پڑھے گا پھر امام کی متابعت کرے گا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی
۷. مسبوق کی مسبوقانہ نماز قرأت کے حق میں پہلی نماز ہے یعنی جیسی فوت ہوئی ہے ویسی پڑھے پس وہ چھوٹی ہوئی رکعتوں کو اس طرح ادا کرے گویا اس نے ابھی نماز شروع کی ہے اور تشہد کے حق میں اس کی آخری نماز ہے یعنی امام کے ساتھ پڑھے رکعتوں کو ملا کر ہر دوگانہ پر قعدہ کرے اور تشہد پڑھے مسبوقانہ نماز پڑھنے کی چند مثالیں یہ ہیں اگر کسی کی ایک رکعت چھوٹ گئی ہو تو وہ امام کے دوسرے سلام کے بعد کھڑا ہو کر پہلے ثنا و تعوذ و تسمیہ (اعوذ و بسم اللّٰہ) پڑھ کر سورة فاتحہ پڑھے پھر کوئی سورة کم از کم چھوٹی تین آیتیں یا بڑی ایک آیت پڑھے پھر قعدے کے مطابق رکوع و سجدے وغیرہ کر کے رکعت پوری کرے اور قعدے میں تشہد و درود و دعا پڑھ کر سلام پھیردے، اگر ظہر یا عصر یا عشا یا فجر کی دو رکعتیں گئی ہوں تو پہلی رکعت میں ثنا وتعوذ وتسمیہ کے بعد فاتحہ و سورة پڑھ کر رکوع و سجود کرے اور دوسری رکعت میں ثنا وتعوذ نہ پڑھے بلکہ بسم اللّٰہ و فاتحہ و سورة پڑھ کر رکوع و سجدے کرکے قعدہ کرے اور سلام پھیر دے اور اگر ان نمازوں کی صرف ایک رکعت امام کے ساتھ ملی ہو تو اپنی چھوٹی ہوئی تین رکعتیں اس طرح ادا کرے کہ پہلی رکعت ثنا و تعوذ و تسمیہ و فاتحہ و سورة کے ساتھ پڑھ کر قعدہ کرے اور قعدے میں صرف تشہد پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور ایک رکعت بسم اللّٰہ و فاتحہ و سورة کے ساتھ پڑھے پھر ایک (تیسری) رکعت میں صرف سورة فاتحہ پڑھ کر رکعت پوری کرے اور قعدہ کرکے سلام پھیرے اور اگر مغرب کی ایک رکعت امام کے ساتھ ملی ہو تو پہلی ایک رکعت ثنا و تعوذ وتسمیہ وفاتحہ وسورة کے ساتھ پڑھ کر قعدہ کرے اور صرف تشہد پڑھ کر کھڑا ہو جائے اور ایک (دوسری) رکعت میں بسم اللّٰہ و فاتحہ و سورة پڑھ کر قعدہ کر کے سلام پھیر دے، غرض جب نماز کی صرف ایک رکعت امام کے ساتھ ملی ہو تو اپنی نماز میں ایک رکعت کے بعد قعدہ کرنا چاہئے خواہ کسی وقت کی نماز ہو اور پھر تین رکعت چھوٹنے کی صورت میں دو رکعت کے بعد آخری قعدہ کرنا چاہئے
۸. مسبوق امام کے آخری قعدے میں تشہد پڑھنے کے بعد درود و دعائیں نہ پڑھے بلکہ اَشھَدُ اَن لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً اعَبدَہُ وَ رَسُوُلُہُ کو بار بار پڑھتا رہے ، یا تشہد آہستہ آہستہ ٹھہر کر پڑھے کہ امام کے سلام پھیرنے تک ختم ہو اور جب اپنی مسبوقانہ نماز پڑھ کر آخری قعدہ کرے تو اب درود و دعا بھی پڑھے
۹. مسبوق اگر بھول کر امام کے ساتھ سلام پھیر دے تو اگر بالکل امام کے سلام کے ساتھ یا پہلے پھیرا تو اس پر سجدہ سہو نہیں (لیکن ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے) وہ اپنی نماز پوری کر لے اور اگر امام کے سلام کے بعد اس نے سلام پھیرا (اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے) تو اپنی نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرنا چاہئے
۱۰. مسبوق سجدہ سہو میں امام کی متابعت کرے لیکن سجدہ سہو کے سلام میں متابعت نہ کرے اگر سجدہ سہو میں متابعت نہ کی تو اپنی رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلی لوٹنا واجب ہے اور اگر رکعت کا سجدہ کر لیا تو اب نہ لوٹے ورنہ نماز فاسد ہو جائے گی بلکہ اپنی مسبوقانہ نماز کے آخر میں سجدہ سہو کر لے
۱۱. دو مسبوقوں نے اکٹھے ایک ہی رکعت میں امام کی اقتدا کی ان میں سے ایک کو اپنی رکعتیں یاد نہ رہیں اس نے دوسرے کو دیکھ دیکھ کر اپنی مسبوقانہ نماز پڑھی یعنی جتنی رکعتیں اس نے پڑھیں اس نے بھی پڑھ لیں مگر اس کی اقتدا کی نیت نہیں کی تو نماز درست ہے اور اگر اقتدا کی نیت کرے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی
۱۲. مسبوق چار مسئلوں میں منفرد کے حکم میں نہیں
۱. اول نہ کسی کو اس کی اقتدا جائز ہے اور نہ اس کو کسی کی اقتدا جائز ہے ، اگر مسبوق نے مسبوق کی اقتدا کی تو امام کی نماز درست ہو گی اور مقتدی کی نماز فاسد ہو جائے گی
۲. دوم اگر مسبوق نے نئے سرے سے نماز شروع کرنے کی نیت دل میں کر کے تکبیر کہی تو اس کی نماز نئے سرے سے شروع ہو جائے گی اور پہلی ٹوٹ جائے گی اور منفرد نئے سرے سے نماز شروع کرنے کی دل میں نیت کر کے تکبیر کہے تو پہلی نماز سے خارج نہیں ہوتا اور نئی شروع نہیں ہوتی
۳. سوم مسبوق سجدہ سہو میں امام کی متابعت کرے
۴. چہارم مسبوق پر بالاتفاق تکبیراتِ تشریق کہنا واجب ہے اور منفرد کے لئے اختلاف ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک واجب نہیں ہے صاحبین کے نزدیک واجب ہے
۱۳. سات چیزوں میں مسبوق اپنی نماز کے ادا کرنے میں لاحق کے خلاف کرے
۱. اول مسبوق اپنی فوت شدہ رکعتوں میں قرأت پڑھے لاحق نہ پڑھے
۲. دوم مسبوق اپنی بقیہ نماز میں سہو ہو جانے سے سجدہ سہو کرے لاحق کو اپنی فوت شدہ نماز میں سہو ہو جائے تو سجدہ سہو نہ کرے
۳. سوم مسبوق مسافر اپنی فوت شدہ رکعتوں میں اقامت کی نیت کرے تو مقیم ہو جائے گا لاحق مسافر اپنی لاحقانہ نماز میں اقامت کی نیت کر لینے سے مقیم نہیں ہو گا
۴. چہارم مسبوق اپنے امام کی متابعت کرے بعد میں اپنی مسبوقانہ پڑھے اور لاحق پہلے اپنی لاحقانہ پڑھے پھر امام کی متابعت کرے
۵. پنجم امام قعدہ اولیٰ چھوڑ دے تو لاحق بھی اپنی لاحقانہ نماز میں چھوڑ دے مسبوق اگر امام کے قعدہ اولٰی چھوڑ کر کھڑا ہونے کے بعد شامل ہوا تو اپنی بقیہ نماز میں یہ قعدہ کرے
۶. ششم لاحق کی بقیہ نماز میں عورت کے محاذات جو اس کی نماز میں شامل ہیں اس کی نماز فاسد کرتی ہے مثلاً پہلے پردہ تھا اب دور ہو گیا تو لاحق کی نماز فاسد ہو جائے گی لیکن مسبوق کی نماز اس صورت میں فاسد نہیں ہو گی
۷. ہفتم امام کے ختم ِ نماز کا سلام کہنے کے بجائے ہنس دینے سے مسبوق کی نماز فاسد ہو جائے گی، لاحق کی نماز فاسد نہیں ہو گی کیونکہ امام اور مُدرک کی پوری ہو گئی اس لئے اس کی بھی حکماً پوری ہو گئی
۱۴. مسبوق لاحق یا لاحق مسبوق پہلے اپنی لاحقانہ نماز پڑھے اس کے بعد اگر جماعت باقی ہو تو اس میں امام کی متابعت کرے اور امام کے سلام کے بعد مسبوقانہ نماز پوری کرے پھر ان رکعتوں کو ادا کرے جن میں وہ مسبوق ہے
نماز میں حدث
نماز میں حدث (یعنی بے وضو) ہو جانے اور بِنا کی شرائط کا بیان
اگر کوئی شخص نماز میں بے وضو ہو گیا، وہ وضو کر کے جہاں سے نماز چھوڑ کر گیا تھا اگر وہیں سے شروع کر کے نماز کو پوری کر لے تو اس کی نماز چند شرائط کے ساتھ درست ہو جائے گی (شرائط آگے درج ہیں ) اس کو بِنا کہتے ہیں یہ امام و مقتدی اور منفرد تینوں کے لئے جائز ہے لیکن سرے سے پڑھنا افضل ہے اگر التحیات پڑھنے کے بعد بےوضو ہو گیا تب بھی وضو کر کے نماز ختم کرے
بِنا کی شرائط تیرہ ہیں
۱. وہ حدث وضو کا واجب کرنے والا ہو غسل کا واجب کرنے والا نہ ہو
۲. حدث نادر الوجود نہ ہو یعنی ایسا نہ ہو جو کبھی اتفاقاً ہوتا ہو ورنہ نئے سرے سے نماز پڑھنا لازمی ہے
۳. حدث سماوی (آسمانی، قدرتی) ہو، اس میں بندے کا کچھ اختیار نہ ہو ورنہ نئے سرے سے پڑھنا لازمی ہے
۴. وہ حدث نمازی کے بدن سے ہو، خارج سے نجاست وغیرہ بدن پر لگنا بِنا کو جائز نہیں کرتا
۵. اس نمازی نے کوئی رکن حدث کے ساتھ ادا نہ کیا ہو
۶. بغیر عذر رکن ادا کرنے کی مقدار توقف بھی نہ کیا ہو
۷. کوئی رکن چلنے کی حالت میں ادا نہ کرے
مسئلہ
جس رکن میں حدث ہوا وضو کرنے کے بعد اس رکن کو دو بارا ادا کرے مثلاً رکوع یا سجدے میں بےوضو ہو گیا تو وضو کے بعد وہ رکوع یا سجدہ دو بارا کرے خواہ امام ہو یا مقتدی یا منفرد کیونکہ ان تینوں کو بِنا کرنا جائز ہے
۸. حدث کے بعد نماز کو توڑنے والا کوئی فعل نہ کرے مثلاً کھانا پینا وغیرہ
۹. حدث کے بعد وہ فعل جس کی نماز میں اجازت تھی اور وہ نماز کو توڑنے والا نہیں تھا اور اس نمازی کو اس کی ضرورت ہے جیسے وضو کے لئے جانا وغیرہ ضرورت سے زائد نہ کرے ضرورت کی معاون چیز بھی ضرورت میں داخل ہے جیسے کسی برتن سے پانی لینا وغیرہ
۱۰. اس حدث آسمانی کے بعد اس پر اس سے پہلے کا کوئی حدث ظاہر نہ ہو مثلاً کوئی شخص جو موزہ پر مسح کر کے نماز پڑھ رہا تھا حدث کے بعد وضو کرنے گیا وضو کے درمیان میں مسح موزہ کی مدت پوری ہو گئی تو یہ پہلے حدث کا ظاہر ہونا کہلاتا ہے اب اس کو بِنا جائز نہیں نئے سرے سے پڑھنا لازمی ہے
۱۱. صاحب ترتیب کو حدثِ سماوی کے بعد اپنی کسی نماز کا فوت ہو جانا یاد نہ آئے
۱۲. مقتدی نے امام کے فارغ ہونے سے پہلے اپنی جگہ کے سوا دوسری جگہ اپنی نماز کے پورا نہ کیا تو جب کہ امام اور اس مقتدی کے درمیان کوئی ایسا حائل ہو جس کی وجہ سے وضو کی جگہ سے اقتدا جائز نہ ہو، منفرد وضو کی جگہ پر ہی بِنا کر کے نماز پوری کر سکتا ہے
۱۳. اگر امام کو حدث ہوا ہے تو ایسے شخص کو خلیفہ نہ کرے جو امامت کے لائق نہ ہو مثلاً امّی یا عورت یا نابالغ کو، ورنہ سب کی نماز فاسد ہو کر نئے سرے سے پڑھنی ہو گی
خلیفہ کرنے کا بیان:
جن صورتوں میں بِنا جائز ہے ان میں امام کو بے وضو ہو جانے پر جائز ہے کہ کسی مقتدی کو خلیفہ کر دے اگرچہ وہ نمازِ جنازہ ہی ہو پس اگر امام بے وضو ہو گیا تو مقتدیوں میں سے کسی کو خلیفہ کر کے اپنی جگہ پر آگے بڑھا دے پھر وضو کر کے خلیفہ کے پیچھے اپنی نماز پوری کرے جب کہ اس کی نماز ختم نہ ہوئی ہو، اور اگر خلیفہ نماز سے فارغ ہو گیا تو پہلا امام اپنی جگہ پر آ کر یا جہاں وضو کیا ہے وہیں پر اپنی نماز پوری کرلے اگر امام کے ساتھ ایک ہی مقتدی تھا تو امام کو حدث ہوا تو وہ ایک مقتدی ہی اس کا خلیفہ ہو جائے گا اگرچہ امام اس کو خلیفہ نہ بنائے خلیفہ بنانے کے لئے تین شرطیں ہیں
اول: بِنا کی تمام شرطوں کا پایا جانا پس جن صورتوں میں بِنا جائز نہیں خلیفہ بنانا بھی جائز نہیں،
دوم: امام اپنی جگہ سے بڑھنے کی حدود سے آگے نہ بڑھے اور وہ میدان میں دائیں یا بائیں یا پیچھے کی طرف تمام صفوں سے باہر نکلنا ہے اور آگے کی طرف سترہ کی حد تک اور اگر سترہ نہ ہو تو سجدے کی جگہ حد سے آگے بڑھنا ہے اور مسجد میں جب تک مسجد سے باہر نہیں نکلا خلیفہ کرنا درست ہے
سوم: یہ کہ خلیفہ میں امام بننے کی صلاحیت ہو
مفسدات نماز کا بیان
جن چیزوں سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اس نماز کو لوٹانا فرض ہوتا ہے ان کو مفسدات نماز کہتے ہیں
یہ دو قسم کے ہیں
۱. اقوال
۲. افعال
قسم اول: پہلی قسم یعنی اقوال یہ ہیں
اقوال
۱. کلام یعنی بات کرنا خواہ بھول کر ہو یا قصداً تھوڑی ہو یا بہت جب کہ وہ کلام کم سے کم دو حرفوں سے مرکب ہو یا اگر ایک حرف ہو تو بمعنی ہو جیسےعربی میں قِ بمعنی بچا ِبمعنی حفاظت کر اور وہ کلام ایسا ہو جیسے لوگ آپس میں باتیں کرتے ہیں اور اس طرح کلام کرے کہ سنا جائے اگرچہ اتنی آواز سے ہو کہ صرف خود ہی سن سکے
۲. کسی کو سلام کرنے کے قصد سے سلام یا تسلیم یا اسلام علیکم یا آداب یا کوئی اور ایسا لفظ کہنا
۳. زبان سے سلام کا جواب دینا عمداً ہو یا سہواً نماز کو فاسد کرتا ہے اشارہ سے سلام کا جواب دینا مکروہ ہے مگر نماز کو فاسد نہیں کرتا
۴. چھینک کا جواب دینا یعنی زبان سے یرحمک اللّٰہ کہنا
۵. نماز میں کسی خوشی کی خبر پر الحمد اللّٰہ کہنا لیکن اگر اپنے متعلق نماز میں ہونے کی خبر دینے کے لئے کہا تو نماز فاسد نہ ہوگی
۶. نماز میں بری خبر سنی مثلاً کسی کی موت کی خبر سنی تو انا للّٰہ و انا الیہ راجعون ط پڑھنا جب کہ جواب کی نیت ہو
۷. نماز میں تعجب کی خبر سن کر سبحان اللّٰہ یا لا الہ الا اللّٰہ یا اللّٰہ اکبر کہنا جب کہ جواب کی نیت سے ہو
۸. نماز کی حالت میں قرآن پڑھا یا اللّٰہ کا ذکر کیا اور اس سے کسی آدمی کو کہنے یا منع کرنے کا ارادہ کیا
۹. بچھو نے نمازی کے ڈنک مارا اور اس نے بسم اللّٰہ کہا تو اس میں اختلاف ہے فتویٰ اس پر ہے کہ نماز فاسد نہیں ہوگی اگر کسی اور درد یا مشقت کی وجہ سے بسم اللّٰہ کہا تب بھی یہی حکم ہے
۱۰. چاند دیکھ کر ربی و ربک اللّٰہ کہنا
۱۱. بخار وغیرہ کسی مرض کے لئے اپنے اوپر قرآن پڑھنا
۱۲. اگر نمازی نے اللّٰہ کا نام سن کر جل جلالہ کہا یا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا نام سن کر درود پڑھا یا قرأت سن کر صدق اللّٰہ و صدق الرسولہ کہا، اگر جواب کا ارادہ کیا تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر تعظیم اور ثنا کے ارادہ سے کہا تو فاسد نہ ہوگی.
۱۳. کسی آیت میں شیطان کا ذکر سن کر لعنۃ اللّٰہ کہنا
۱۴. وسوسہ کے دور ہونے کے لئے لاحول ولا قوة کہنا اگر وسوسہ دنیاوی امور سے متعلق ہے تو نماز فاسد ہو گی اور اگر امور آخرت سے متعلق ہے تو فاسد نہ ہو گی
۱۵. قرآن کی آیت کو جو شعر کی طرح موزوں ہے شعر کی نیت سے پڑھنا
۱۶. امام کا اپنی نماز سے باہر کے آدمی سے لقمہ لینا یا اس کے مقتدی کا باہر کے آدمی سے سن کر لقمہ دینا یا اپنے امام کے سوا کسی دوسرے کو لقمہ دینا اپنے مقتدی سے لقمہ لینے سے امام اور مقتدی دونوں کی نماز فاسد نہیں ہوتی جبکہ اس مقتدی نے اپنی یاد سے لقمہ دیا ہو، خواہ لقمہ دینے والا سمجھ والا نابالغ ہی ہو
۱۷. نماز میں ایسی دعا مانگنا جس کا بندوں سے مانگنا ممکن ہے مثلاً یہ کہنا
اَللّٰھُمَّ اَطعِمنِی، اَللّٰھُم اَقضِ دَینِی، اَللّٰھُم زَوَّجنِی، اَللّٰھُم ارزُقنِی مَالاً وغیرہ
۱۸. نماز سے باہر والے کسی شخص کی دعا پر آمین کہنا
۱۹. حج کرنے والا کا نماز کے اندر لبیک کہنا
۲۰. اگر نماز کے اندر اذان کے کلمات اذان یا جواب اذان کے ارادہ سے یا بلا کسی ارادہ کے کہے تو نماز فاسد ہو جائے گی
۲۱. نماز کے اندر لفظ نعم کہنا جب کہ عادت ہو کہ یہ لفظ جاری ہو جایا کرتا ہے اور اگر عادت نہیں تو نماز فاسد نہیں ہو گی اور وہ قرآن سے شمار ہو گا، اگر اس کا ترجمہ یعنی اردو میں ہاں یا فارسی میں بلے یا آرے کہا تب بھی یہی حکم ہے اور ایک روایت کے مطابق ترجمہ والے لفظ سے مطلقاً نماز فاسد ہو جائے گی خواہ تکیہ کلام ہو یا نہ ہو
۲۲. نماز میں آواز سے آہ یا اوہ یا اف کہا یا ایسا رویا کہ اس سے حروف پیدا ہو گئے، اگر جنت یا دوزخ کے ذکر کی وجہ سے تھا تو اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی اور اگر درد یا مصیبت سے رویا یا آہ وغیرہ کی تو نماز فاسد ہو جائے گی، لیکن اگر تکلیف کی وجہ سے اپنے نفس کو نہیں روک سکتا تو بوجہ ضرورت نماز فاسد نہیں ہوگی، اسی طرح امام کی قرأت اچھی لگنے پر رو کر نعم یا ہاں یا آرے بلے وغیرہ کہا تب بھی یہی حکم ہے کیونکہ یہ خشوع کی دلیل ہے اور اگر لہجہ اور خوش آوازی کی لذت میں آکر کہے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی اگر اپنے گناہوں کی کثرت کا خیال کر کے آہ کی تو نماز فاسد نہ ہو گی
۲۳. کھانسنا یا کھنکارنا بلاعذر یا بلا غرض صحیح نماز کو فاسد کرتا ہے عذر کے ساتھ ہو مثلاً نمازی طبعیت کو نہیں روک سکتا یا کسی صحیح غرض کے ساتھ ہو مثلاً آواز کو درست کرنے یا امام کو قرأت میں یا اٹھنے بیٹھنے وغیرہ کی غلطی بتانے کے لئے ہو تو مفسد نہیں
زبدۃ الفقہ جلد۔ ۱، کتاب الصلوٰہ
(ایس اے ساگر)


No comments:

Post a Comment