کردارکُشی کرنے والے عیب جو وبدگو کا روپے کے ذریعہ منہ بند کرنا؟
اس حدیث کے بارے میں اصحاب علم کیا فرماتے ہیں وضاحت مطلوب ہے
عن أبي هُرَيْرَة مرفوعاً: ذُبُّوا بِأَمْوَالِكُم عَنْ أَعْرَاضِكُم قَالُوا: يَا رَسُولَ الله! كَيْفَ نَذُبُّ بِأَمْوَالِنَا عَنْ أَعْرَاضِنَا؟ قَالَ: يُعْطَى الشَّاعِرُ وَمَنْ تَخَافُونَ لِسَانَه
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ اموال کے ذریعے اپنی عزتوں کی حفاظت کرو، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم اپنے اموال کے ذریعے اپنی عزتوں کی حفاظت کس طرح کرسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: شاعر اور جس کی زبان سے تم ڈرتے ہو اسے مال دیا کرو
خطیب حیدر قاسمی
الجواب وباللہ التوفیق:
اسلام نے اپنے پیرو کاروں کو بلاتفریق مذہب وملت درج ذیل بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا ذمہ دار بنایا ہے:
1۔۔ انسانیت کا احترام
2۔۔ انسانی جان کا تحفظ
3۔۔ انسانی مال کا تحفظ
4۔۔ انسانی عزت وآبرو کا تحفظ
5۔۔۔ مذہب اور آزادی رائے کا تحفظ
6۔۔۔ ضروریات زندگی کا انتظام وتکفل
7۔۔۔ ناموس خواتین کا تحفظ ۔
یہی حقوق انسانی کا اسلامی منشور ہے
اگر کہیں بلاوجہ کسی انسان کی کردار کُشی کی جارہی ہو، پگڑیاں اچھالی جارہی ہوں،
عزت وآبرو کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہو
بے بنیاد الزامات اور اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعہ سماج میں اس کی شبیہ خراب کی جارہی ہو
تو دفعہ نمبر چار (عزت وآبرو کی حفاظت کے حق) پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے بھوکنے والے بد گوئوں پر مال خرچ کرکے ان کا منہ بند کردینا چاہئے ۔
انسان احسان کا غلام ہوتا ہے
مال کے ذریعہ اپنے سخت سے سخت مخالف کو آپ اپنا گرویدہ بناسکتے ہیں
کسی کا منہ کرنے کا نبوی نسخہ یہ ہے کہ اس کی ہفوات کا جواب دینے کی بجائے اس کے ساتھ احسان وسلوک اور سخاوت کا برتائو کیا جائے، اس کی "زبان دشنام طراز" ازخود بند ہوجائے گی
صحابی رسول حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ یہی مفہوم شعر میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:
أحتالُ للمالِ إِنْ أَوَدَى فأجمعُهُ * ولستُ للعِرضِ إنْ أوْدَى بمُحتالِ
حضرت امام شافعی مطلبی رحمہ اللہ کس قدر کار آمد وچشم کُشا باتیں فرماتے ہیں:
إذا كثُرتْ عيوبُك في البرايا وسَرّك ان يكون لها غطاءٗ
تستّر بالسخاء فكـل عـيب يغطيه كما قيل الســخاءٗ
کسی فحش گو، بدزبان، اور کردارکُش کے حملوں سے بچنے کے لئے اس پہ مال خرچ کرکے اپنی عزت وآبرو کو محفوظ رکھنے کی شرعی اجازت ہے۔
حدیث کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ مشاعروں میں پیشہ ور، گلے باز اور گویا شاعروں پہ نوٹوں کی بارش کی جائے۔
حديث "ذبوا عن أعراضكم بأموالكم" منکر حدیث ہے
علامہ سیوطی نے الجامع الصغیر میں اسے منکر (ضعیف) کہا ہے
اس کے راوی میں محدثین نے علل خفیہ کے باعث جرح کی ہے، صرف البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔ البانی کی تصحیح وتضعیف اعتدال پر مبنی نہیں ہوتی۔
«ذبوا عن أعراضكم بأموالكم» أخرجه الخطيب البغدادي في تاريخه 9/107 ، والسهمي في تاريخ جرجان ح (356)، والديلمي في مسند الفردوس (2/154) من طريق سهل ابن عبدالرحمن الجرجاني ـ ووقع عند الخطيب: إسماعيل بن عبدالرحمن ـ، عن محمد بن مطرف، عن محمد بن المنكدر، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة رضي الله عنه، وفيه زيادة: «قالوا: وكيف؟ قال : تعطون الشاعر ومن تخافون لسانه»
وقد سكت عنه المناوي، وحكم الألباني بصحته (تاريخ بغداد 9 / 107 ط السعادة، وفيض القدير 3 / 560، وصحيح الجامع الصغير بتحقيق الألباني 3 / 155). وانظر ردالمحتار على الدر المختار 4 / 429 - دار إحياء التراث العربي. وحاشية الدسوقي على الشرح الكبير 3 / 311 ط عيسى البابي الحلبي.
والحدیث منكر من حديث هشام بن عروة] تفرد به الحسين بن علوان [وقد كذبوه]
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment