Sunday, 1 December 2019

قبرستان وغیرہ کی تعمیر یا مردوں کی تدفین کے نام پر سرکاری فنڈ استعمال کرنا کیسا ہے؟

قبرستان وغیرہ کی تعمیر یا مردوں کی تدفین کے نام پر سرکاری فنڈ استعمال کرنا کیسا ہے؟

الجواب وباللہ التوفیق:
سرکاری خزانے میں ملک کے ہر شہری کا حق ہے 
سرکار اپنے شہریوں کے لئے رفاہ عام کی نیت سے قبرستان وغیرہ کی تعمیر یا مردوں کی تدفین کے نام پہ اگر کوئی فنڈ جاری کرے اور بعد میں اس سے کسی قسم کے فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو ایسے سرکاری فنڈز سے مسلمانوں کو استفادہ کرنا اور تدفین میت میں ان رقوم کا صرف کرنا جائز ہوگا۔
سرکاری خزانے میں حلال وطیب اور سودی ومشکوک ہر طرح کا مال جمع ہوتا ہے۔ 
اور حلال کا حرام کے ساتھ خلط بحکم استہلاک ہے، اور استہلاک موجب ملک ہے، اس لئے اس سرکاری امداد کے لینے میں کوئی شرعی حرج نہیں ہے: 
عن حبیب قال: رأیت ابن عمر وابن عباس رضي اللّٰہ عنہما تأتیہما ہدایا المختار فیقبلانہا۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، کتاب البیوع والأقضیۃ / من رخص في جوائز الأمراء والعمال ۱۰؍۵۶۵ رقم:۲۰۷۰۳)
عن إبراہیم قال: لو أتیت عاملاً فأجازني لقبلت منہ، إنما ہو بمنزلۃ بیت المال یدخلہ الخبیث والطیب، وقال: إذا أتاک البرید في أمر معصیۃ فلا خیر في جائزتہ، وإذا أتاک بأمر لیس بہ بأس فلا بأس بجائزتہ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، کتاب البیوع / من رخص في جوائز الأمراء والعمال ۱۰؍۵۶۸ رقم: ۲۰۷۲۰)
عن أبي مجلز قال: قال علي رضي اللّٰہ عنہ: لا بأس بجائزۃ العمال، إن لہ معونۃ ورزقًا، وإن ما أعطاک من طیب مالہ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، کتاب البیوع والأقضیۃ / من رخص في جوائز الأمراء والعمال ۱۰؍۵۶۸ رقم: ۲۰۷۱۹)
وہدیۃ أہل الحرب، وما أخذ منہم بغیر قتال الخ۔ (شامي، کتاب الزکاۃ / باب العشر، قبیل باب المصرف ۳؍۲۸۲ زکریا)
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی 

No comments:

Post a Comment