Saturday, 1 December 2018

فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا

فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا
سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا احادیث سے کوئی ثبوت نہیں۔ براہِ کرم اس کے بارے میں راہنمائی فرمائیں۔ عمیر عارف

جواب: محترم عمیر عارف صاحب! متعدّد احادیث میں فرض نماز کے بعد دعا کی ترغیب و تعلیم دی گئی ہےاور ہاتھ اٹھانے کو دعا کے آداب میں سے شمار کیا گیا ہے۔ اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں صرف تین احادیث مبارکہ درج کرتا ہوں۔
: 1 سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ یہ حدیث مبارک روایت کرتے ہیں کہ:
قيل لِرسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم - : أيُّ الدُّعاءِ أَسْمَعُ ؟ قَالَ: (( جَوْفَ اللَّيْلِ الآخِرِ ، وَدُبُرَ الصَّلَواتِ المَكْتُوباتِ)) . رواه الترمذي، وقال: (حديث حسن)
ترجمہ: عرض کیا گیا "یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم" کس وقت کی دعا زیادہ مقبول ہوتی ہے؟ جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رات کے آخری حصّہ کی دعا اور فرض نمازوں کے بعد کی دعا۔
: 2 سیدہ امّی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔
أَنَّهَا رَأَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو رَافِعًا يَدَيْهِ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي بَشَرٌ.
مسند احمد: رقم الحدیث: 26218
ترجمہ: انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کرتے ہوئے دیکھا کہ اے اللہ! میں تو بشر ہوں۔
: 3 سیدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما؛ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں:
إذا دَعَوْتَ الله فَادْعُ اللهَ ببطن كَفَّيْكَ ولا تَدْعُ بِظُهُورِهِمَا فإذا فرغتَ فامسحْ بهما وجهَك
جامع الاحادیث: رقم الحدیث 1936
ترجمہ: جب آپ اللہ سے دعا کریں تو اپنی ہتھیلیوں کے اندرونی حصّہ کی طرف سے کریں ،اپنی ہتھیلیوں کی پشت سے نہ کریں اور جب آپ دعا سے فارغ ہوجائیں تو اپنی ہتھیلیوں کو اپنے چہرے پر پھیرلیں۔
مذکورہ تینوں احادیث (اور اسی طرح دیگر احادیث) سے ثابت ہوا کہ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا؛ جائز اور مستحب ہے۔ اسے خلافِ سنّت عمل قرار دینا کم فہمی ہے۔ کیوں کہ یہ بالکل واضح سی بات ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرض نماز کے بعد دعا کرنے کی ترغیب دی ہے اور عملاً فرض نماز کے بعد دعا فرمائی بھی ہےتو مقتدی حضرات یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیسے دعا نہیں کرتے ہوں گے؟؟مزید یہ کہ جب نماز انفرادی ہو گی تو دعا بھی انفرادی ہو گی اور جبفرض نماز باجماعت ادا کی گئی ہو تو ظاہر ہےکہ اس کے بعد دعا صورۃً اجتماعی ہو گی ۔ کیوں کہ اصل میں سب نمازی حضرات نماز کے لیے جمع ہوتے ہیں نہ کہ دعا کے لیے۔اس موقع پر اجتماعیت تو خودبخود ضمناً ہو جاتی ہے۔ چنانچہ نماز کے بعد امام و مقتدی سب کے لیے دعا کرنا مستحب ہے۔اسی لیے
مشہور محدّث امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "الدعاء للامام والمأموم والمنفرد وهو مستحب عقب كل الصلوات بلا خلاف"
ترجمہ: نمازوں کے بعد دعا کرنا بغیر کسی اختلاف کے مستحب ہے ، امام کے لیے بھی ، مقتدی کے لیے بھی اور منفرد کے لیے بھی۔
ملحوظہ: جولوگ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کو بدعت اور خلافِ سنّت کہتے ہیں ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ خود ان کے مسلک کے بزرگوں نے اس عمل کو جائز قرار دیا ہے۔ لیجیے! چند حوالہ جات آپ بھی ملاحظہ فرما لیں۔
: عبد الرحمٰن مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں۔ "قلت القول الراجح عندي أن رفع اليدين في الدعاء بعد الصلاة جائز لو فعله أحد لا بأس عليه إن شاء الله تعالٰى۔
تحفۃ الاحوذی باب ما یقول اذا سلم من الصلوٰۃ
ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ میرے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ نماز کے بعد دعا کرتے ہوئے ہاتھ اٹھانا جائز ہے۔ اگر کوئی یہ عمل کرے تو اس میں ان شاء اللہ تعالیٰ کوئی حرج نہیں۔
: نواب صدیق حسن خان کے حوالے سے غیر مقلد عالم ابو مسعود عبدالجبار سلفی لکھتے ہیں۔
"والحاصل ان رفع الیدین فی الدعاءایّ دعاء کان و فی ایّ وقت کان بعد الصلوٰۃ او غیرھا ادب من احسن الآداب دلّت علیہ الاحادیث عموماً و خصوصاً…الخ
ترجمہ: خلاصہ یہ ہے کہ دعا خواہ کوئی بھی ہواور کسی وقت میں ہو، نماز کے بعد ہو یا اس علاوہ، اس میں ہاتھ اٹھانا بہترین ادب ہے۔اس مسئلہ پر عام اور خاص احادیث دلالت کرتی ہیں۔تھوڑا سا آگے چل کے لکھتے ہیں۔ "وانکار الحافظ ابن القیّم رفع الیدین فی الدعاء بعد الصلوٰۃ وھم منہ"
ترجمہ: اور حافظ ابنِ قیّم رحمہ اللہ تعالیٰ کا نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے سے انکار کرنا یہ ان کا وہم ہے۔"
نماز کے بعد دعائے اجتماعی: صفحہ 61
: نذیر حسین دہلوی صاحب لکھتے ہیں: "صاحبِ فہم پر مخفی نہ رہے کہ بعد نماز فرائض کے ہاتھ اٹھا کے دعا مانگنا جائز و مستحب ہے۔
فتاویٰ نذیریہ جلد1صفحہ 566
: ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں: "ان احادیث سے بعد نماز فرض کے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا قولاً و فعلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوا۔"
فتاویٰ ثنائیہ جلد 1 صفحہ 505
: غیر مقلد عالم عبدالجبار سلفی صاحب نے 131 صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام انہوں نے "نماز کے بعد دعائے اجتماعی اور طائفہ منصورہ کامسلکِ اعتدال" رکھا ہے۔ اس کتاب میں موصوف نے فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کو دلائل اور اپنے غیر مقلد اکابرین حضرات کے فتاویٰ جات سے ثابت کیا ہے۔ جیسا کہ کتاب کے "پیش لفظ " میں لکھا ہے۔ "فاضل مرتّب کے نزدیک فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کا جواز سنّت اور احادیث سے ملتا ہے۔" نیز موصوف نے اجتماعی دعا کے منکرین کا بھرپور طریقے سے رد کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے 9 لاجواب سوالات بھی کیے ہیں۔ سوالات کے اختتام میں ان منکرین کوتنبیہ کرتے ہوئے فاضل مؤلف نے لکھا ہے۔"لہٰذا اہل حدیث کو فضائل اور آداب والی احادیث سے بِدکنا نہیں چاہیےاور نہ ہی دعا اور اس میں ہاتھ اٹھانے سے انکار کر کے وجودیوں اور نیچریوں (معتزلیوں) کی "بی" ٹیم بننا چاہیے۔" مزید تفصیل کے لیے ابو مسعود عبدالجبار سلفی صاحب کی مذکورہ کتاب اور مفتی محمد رضوان صاحب کی کتاب "فرض نماز کے بعد دعا کے شرعی احکام" کا مطالعہ فرمائیں۔
مذکورہ عبارات میں فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کو بدعت اور خلافِ سنّت کہنے والوں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ اللہ کریم انہیں دین کی سمجھ عطا فرمائے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء مرکز اہل السنت والجماعت ، سرگودھا
19 جمادی الثانی 1435 ھ ، 20 اپریل 2014 ء
....................
فرض نماز کے بعد دعا کرنا اور ایسی دعا کا مقبول ہونا احادیث میں وارد ہے جس کا تقاضہ ہے کہ ہرفرض پڑھنے والا اپنی نماز کے بعد دعا کرے اب اگر جماعت سے نماز ادا کی جارہی ہوگی تو ہرایک کے انفراداً دعا کرنے سے اجتماعی ہیئت معلوم ہوگی اس میں مضائقہ نہیں کیونکہ جماعت کی نماز پوری ہوجانے کے بعد امام کے ساتھ مقتدیوں کے اقتداء کا تعلق ختم ہوجاتا ہے، مقتدی اس بات کے پابند نہیں کہ جتنی دیر امام دعا مانگے مقتدی لوگ بھی اس کی اتباع کریں بلکہ مقتدی پہلے بھی ختم کرسکتے ہیں اور امام کے بعد تک بھی مانگ سکتے ہیں۔
(۲) اجتماع کو ضروری سمجھنا اور اس کا اہتمام والتزام کرنا بدعت ہوگا، اکابر کے فتاوی ماننے کے تقاضہ سے دعا کا ترک کرنا کہاں لازم آتا ہے، بلکہ ہرشخض انفراداً دعا کرے جس سے اجتماعی ہیئت بن جائے مضائقہ نہیں یہ نکلتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

No comments:

Post a Comment