Saturday, 29 December 2018

عشاء کی نماز میں فرائض سے قبل سے قبل چار رکعت ادا کرنا کیسا ہے؟

عشاء کی نماز میں فرائض سے قبل سے قبل چار رکعت ادا کرنا کیسا ہے؟
—————————

الجواب وباللہ التوفیق:
عشاء سے قبل چار رکعت ہمارے نزدیک سنت نہیں، بلکہ افضل ومستحب ہے
سنیت کے ثبوت کے لئے صریح دلیل چاہئے، چار رکعت کے ثبوت پہ بتصریح حلبی کوئی حدیث نہیں ہے، اس لئے ہمارے نزدیک یہ سنت نہیں بلکہ افضل ومستحب ہے
وأما الأربع قبلہا فلم یذکر في خصوصہا حدیث، لکن یستدل لہ بعموم ما رواہ الجماعۃ من حدیث عبد اللّٰہ بن مغفل أنہ علیہ الصلاۃ والسلام قال: بین کل أذانین صلاۃ بین کل أذانین صلاۃ، ثم قال في الثالثۃ: لمن شاء، فہٰذا مـع عدم المـانع من التنفل قبلہا یفید الاستحباب، لکن کونہا أربعاً لیمشي علی قول أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ؛ لأنہا الأفضل عندہ، فیحمل علیہا لفظ الصلاۃ حملاً للمطلق علی الکامل ذاتاً ووصفاً۔ (حلبي کبیر ۳۸۵،)
استحباب کی دلیل ذیل کی ایک عمومی روایت ہے:
بينَ كلِّ أذانينِ صلاةٌ ؛ بَينَ كلِّ أذانينِ صلاةٌ. بينَ كلِّ أذانينِ صلاةٌ ، لمن شاءَ .
الراوي: عبدالله بن مغفل المحدث: الألباني - المصدر: صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 680
خلاصة حكم المحدث: صحيح
التخريج: أخرجه البخاري (627)، ومسلم (838)، وأبو داود (1283)، والترمذي (185)، والنسائي (681) واللفظ له، وابن ماجه (1162)، وأحمد

سنن بيهقي میں ہے
(4752) عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مَا بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ" وصححه الألباني في "الصحيحة " (2132) .
اس عام روایت کے ذیل میں عشاء سے قبل کی چار رکعتیں بھی داخل ہیں۔
(فتاویٰ محمودیہ:۷/۲۰۷، مکتبہ شیخ الاسلام،دیوبند۔ امداد الفتاویٰ، جدید مبوب:۱/۴۶۹، زکریا بکڈپو،دیوبند۔فتاویٰ رحیمیہ:۶/۲۲۰، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی)
وأما التطوع قبل العشاء فإن تطوع قبلہا بأربع رکعات فحسن۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل الحادي عشر في مسائل التطوع، مکتبۃ زکریا دیوبند ۲/۳۰۰، رقم:۲۴۸۸)
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی

<https://saagartimes.blogspot.com/2018/12/blog-post_45.html>

No comments:

Post a Comment