Tuesday, 25 December 2018

سندھ (پاکستان) کی تباہی، ہند کے ہاتھوں؟

سندھ (پاکستان) کی تباہی، ہند کے ہاتھوں؟
امام قرطبی نے اپنی کتاب "التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة " ص 1349 میں ابن الجوزی کی کتاب "روضة المشتاق والطريق إلى الملك الخلاق" کے حوالے سے سند ذکر کئے بغیر، صیغۂ تمریض “رُوِيَ"  کے ذریعہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا یہ اثر نقل کیا ہے:
قال القرطبي في "التذكرة" : و < رُوِيَ > من حديث حذيفة بن اليمان ، عن [ص: 92] النبي صلى الله عليه وسلم، أنه قال: "ويبدأ الخراب في أطراف الأرض حتى تخرب مصر ، ومصر آمنة من الخراب حتى تخرب البصرة ، وخراب البصرة من الغرق ، وخراب مصر من جفاف النيل ، وخراب مكة من الحبشة ، وخراب المدينة من الجوع ، وخراب اليمن من الجراد، وخراب الأبلة من الحصار ، وخراب فارس من الصعاليك ، وخراب الترك من الديلم، وخراب الديلم من الأرمن ، وخراب الأرمن من الخزر ، وخراب الخزر من الترك . . . ، وخراب الترك من الصواعق ، وخراب السند من الهند ، وخراب الهند من الصين ، وخراب الصين من الرمل ، وخراب الحبشة من الرجفة ، وخراب الزوراء من السفياني ، وخراب الروحاء من الخسف ، وخراب العراق من القحط " . ثم قال : ذكره أبو الفرج ابن الجوزي ، قال : وسمعت أن خراب الأندلس بالريح العقيم . والله أعلم .
تنزيه الشريعة لإبن عراق (2/351) میں مسند دیلمی کے حوالے سے  یہ روایت نقل کی گئی ہے ،لیکن لطف یہ ہے کہ مسند دیلمی کی مطبوعہ ودستیاب نسخوں میں کہیں بھی اس روایت کا وجود نہیں ہے!
اسی طرح فیض القدیر للمناوی 81/3)
میں حضرت حذیفہ سے مرفوعاً یہ روایت مذکور ہے۔
سیوطی نے “رفع شان الحبشان" (ص 379) میں، اور ابو عمر الدانی “السنن الواردة في الفتن 881/4) میں وہب بن منبہ سے الفاظ میں قدرے اختلاف کے ساتھ اسی طرح کی ایک طویل روایت نقل کی ہے۔
حافظ إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي أبو الفداء عماد الدين رحمہ اللہ،
البدایہ والنہایہ  “الجزء التاسع عشر“ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
"وهذا الحديث لا يعرف في شيء من الكتب المعتمدة ، وأخلق به أن لا يكون صحيحا، بل أخلق به أن يكون موضوعا ، أو أن يكون موقوفا على حذيفة ، ولا يصح عنه أيضا،
والله سبحانه أعلم".
یعنی ملکوں اور شہروں کی تباہی و بربادی سے متعلق حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث  صحیح سندوں سے ثابت نہیں، اغلب یہ ہے کہ یہ من گھڑت اور گھڑی ہوئی بات ہے 
حدیث کی معتبر و مستند کتابوں میں یہ موجود نہیں
جن کتابوں میں یہ روایت منقول بھی ہوئی ہے تو غیر ذمہ دارانہ اسلوب یعنی بلا سند
اور صیغہ تمریض کے ساتھ!
علم حدیث سے شغف رکھنے والے اہل علم کے علم سے یہ بات یقیناً مخفی نہیں ہوگی کہ فنِ حدیث “میزان ِ اسناد “ ہی وہ بے لاگ کسوٹی ہے جس کی وجہ سے ذخیرۂ حدیث میں ساقط الاعتبار ومن گھڑت روایتوں کی آمیزش کی کوشش کبھی کامیاب نہ ہوسکی ہے
اشراط الساعہ اور فتن کی جتنی صحیح و حسن درجے کی احادیث تفصیل کے ساتھ کتب معتبرہ ومعتمدہ میں بیان کردی گئی ہیں ، بیان کرنے کے لئے وہی کافی وافی ہیں ، انہیں چھوڑ کے
ادھر ادھر کی کمزور وبے سند روایتوں کو “درآمد “ کرنے یا انہیں  ذکر کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
قرطبی کے حوالے سے یہ اثر ذکر کرنے سے قبل کاش ان کے اسلوب و صیغہ بیاں پر بھی توجہ دے دی جاتی تو شاید اس روایت کا ضعف اسناد واضح ہوجاتا!
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی

https://saagartimes.blogspot.com/2018/12/blog-post_25.html

No comments:

Post a Comment