سیرت نبوی ﷺ پر اردو زبان میں اہم کتب
میرے خیال میں، سیرت نبوی ﷺ پر آج بھی اردو زبان میں سب سے اہم کتاب علامہ شبلی نعمانی ؒ اور مولانا سلیمان ندوی کی سیرت النبی ﷺ ہے۔سیرت کے ہر طالب علم کو اس کتاب کی تمام سات جلدوں کو از اول تاآخر ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سیرت پاک کو ایک مورخ اور ایک سوانح نگار کے ساتھ ساتھ ایک فلسفی اور مدبر کی نگاہ سے بھی دیکھا گیاہے۔ آپ ﷺ کا پیغام اور آپ کی دعوت بھی آپ کی سیرت کا اہم حصہ ہے۔اس کتاب کے مطالعہ سے آپ ﷺ کی شخصیت اور آپ کا پیغام ودعوت دونوں بیک وقت سامنے آجاتے ہیں اور دونوں کا باہم تعلق بھی اچھی طرح روشن ہوجاتا ہے۔شبلی و ندوی رحمہمااللہ نے جس خوبی کے ساتھ آپﷺ کی سیرت کے تمام پہلووں کو اس کوزہ میں بند کرنے کی کوشش کی ہے، وہ یقیناً بے مثل ہے۔
۲۔اردو میں سیرت کی ایک اہم کتاب جس کو اس کے معیار کے تناسب سے شہرت نہیں ملی وہ پیر کرم شاہ کی کتاب ضیاء النبی ہے۔ عالمانہ و محققانہ اسلوب کے ساتھ عشق و محبت میں ڈوبی ہوئی اور دل کے تاروں کو چھوتی ہوئی زبان و لفظیات، اس کتاب کی اہم خصوصیت ہے۔ نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی پر جو جدید بحثیں مستشرقین اور دیگر معترضین نے اٹھائی ہیں، پیر کرم شاہ نے ان کو بھی سیرت نگاری کا موضوع بنایا ہے۔ اور دوجلدوں میں ان اعتراضات کا نہایت مدلل جواب دیا ہے۔ پیر کرم شاہ، ایک صوفی بزرگ، عالم اور مفسر بھی تھے اور سپریم کورٹ کے جج، ماہر تعلیم ، صحافی اور ادیب بھی۔ ان کی ان متنوع صلاحیتوں اور تجربات کی جھلک ان کی سیرت نگاری کے اسلوب میں بھی نظر آتی ہے۔
۳۔سیرت کی ایک نہایت اہم اور رجحان ساز کتاب علامہ قاضی سلیمان منصور پوری کی رحمتہ للعالمین ﷺ ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کے لئے بس یہی بات کافی ہے کہ اس کی تصنیف کے بعد اردو میں شاید ہی سیرت کی کوئی کتاب ایسی لکھی گئی ہو، جس میں اس سے استفادہ نہ کیا گیا ہو۔ یہ کتاب تحقیق و جستوف کا شاہکار ہے اور سیرت پاک سے متعلق ایسی ایسی معلومات بہم پہنچاتی ہے کہ عقل ششدر رہ جاتی ہے۔ مثلا اسی کتاب میں سب سے پہلے تفصیلی اعداد و شمار کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی زندگی کے تمام غزوات و سرایا میں اہل اسلام و اہل کفر دونوں کی جانب سے مرنے والوں کی جملہ تعداد کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ آں حضرت کا لایا ہوا انقلاب انسانی تاریخ کا سب سے پر امن انقلاب تھا۔آنحضرت کا مکمل شجرہ نسب، آپ کے آباو اجداد کی تاریخی معلومات، حیات مبارکہ کی دنوں ، گھنٹوں اور مختلف اقوام عالم کےکیلنڈروں کے حوالہ سے تفصیلات، مواخات کے رشتے میں باندھے گئے اصحاب رسول کی جوڑیوں کی تفصیلات، مختلف غزوات میں شریک اور شہید صحابہ کی فہرستیں اور ایسے کئی معلوماتی چارٹس، اردو زبان میں پہلی بار کسی کتاب میں اس اہتمام کے ساتھ شامل کئے گئے۔ اس کتاب کی تیسری جلد نہایت ایمان افروز ہے اس میں خصائص النبی یعنی آں حضرت کی چھتیس امتیازی خصوصیات، قرآن کی خصوصیات، اسلام کی خصوصیات اور اس بات کا مدلل بیان شامل ہے کہ آں حضرت رحمتہ للعالمین ہیں۔ یہ ساری بحثیں قرآن و حدیث کے دلائل سے بھی مزین ہیں اور جدید عقلی دلائل و حوالوں سے بھی۔
۴۔غالباً، اسلامی تاریخ میں سیرت کی جو اہم ترین کتاب لکھی گئی ہے، وہ آٹھویں صدی ہجری کے مشہور بزرگ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کے شاگرد رشید ، علامہ ابن قیم جوزی ؒ کی’’ زادالمعاد‘‘ ہے۔ یہ کتاب نبی کریم ﷺ کی سیرت کو اسوہ حسنہ کی حیثیت سے بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ پوری سیرت کا تجزیہ اس طرح کیا گیا ہے کہ انفرادی و اجتماعی زندگی میں سیرت کا عملی ماڈل واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ نبی ﷺ کا کھانے پینے، سونے جاگنے کا اسوہ، آپ کی نماز کا طریقہ، خانگی اور عائلی زندگی میں آپ کا اسوہ، آپ کی تجارت،آپ کی طب، راہ خدا میں جدوجہد کے مراحل اور طریقہ،دعوت دین کا طریقہ غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق نبی کریم ﷺ کی زندگی اس طرح سامنے آجاتی ہے کہ ہم اس کی اتباع کرسکیں۔فقہیات سیرت یعنی سیرت سے فقہ کے مسائل معلوم کرنے کے بہت سے اصول اس کتاب کے مطالعہ سے سمجھ میں آتے ہیں۔
اس کتاب کے متعدد ترجمے ، اردو اور انگریزی میں دستیاب ہیں۔ لیکن مجھے رئیس احمد جعفری کا ترجمہ پسند ہے۔
۵۔ڈاکٹر حمید اللہؒ کا ذکر آچکا ہے۔محمود احمد غازی مرحوم نے بجا طور پر انہیں’’ مجدد علوم سیرت‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کی بعض کتابوں کا ذکر آچکا ہے، ان کے علاوہ ان کا عہد ساز کارنامہ ان کی وہ کتاب ہے جو انگریزی زبان میں لکھی گئی ہے۔ The Muslim Conduct of State۔یہ بہت ہی عالمانہ تصنیف ہے ۔ محمود غازی ؒ صاحب کی بہن نے اس کا اردو ترجمہ کیا تھا جو شاید ابھی تک شائع نہیں ہوپایا ہے۔ انگریزی نسخہ مفت ڈاون لوڈ کے لئے دستیاب ہے۔ایک اور اہم کتاب ’’ پیغمبر اسلام :حیات اور کارنامے‘‘ ڈاکٹر صاحب کی سیرت سے متعلق متعدد تحقیقات کا ایک طرح سے نچوڑ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی سیرت نگاری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ آں حضرت کے زمانہ کو ہمارے زمانہ میں پروجیکٹ کردیتے ہیں۔ آج کی اصطلاحات میں اور آج کے مسائل و مباحث کے حوالہ سے سیرت اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جدید زمانہ میں آں حضرتﷺ کی سیرت کا اتباع اور آج کے حالات میں سیرت کے پیغام کا اطلاق آسان ہوجاتا ہے۔
۶۔سیرت سرور عالمﷺ مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے مرتب، سیرت کی بڑی اہم اور منفرد کتاب ہے۔ اس کتاب کو نعیم صدیقی اور عبدالوکیل علوی صاحبان نے مرتب کیا لیکن اس کی ترتیب پر مولانا مودودیؒ نے خود نظر ثانی فرمائی اور سیکڑوں صفحات کے اضافے بھی فرمائے۔نکتہ آفرینی و اجتہادی بصیرت،محکم قدیم و جدید دلائل، دلنشین اسلوب اور کوثر وتسنیم میں دھلی ہوئی اور دل و دماغ کو یکساں مسخر کرتی ہوئی مولانا کی اردوئے مبین۔۔۔۔۔۔ مولانا کی تحریروں کی یہ ساری خصوصیات اس کتاب میں بھی نمایاں ہیں۔ مولانا کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ جہاں ایک بے بدل عالم ومصنف تھے وہیں ایک تحریک کے بانی و قائد بھی تھے۔ سیرت سرور عالم میں شامل اکثر تحریروں کی تصنیف کا زمانہ وہی تھا جب آپ نوزائیدہ ملک پاکستان میں اسلامی نظام حکومت اور اسلامی معاشرہ کی تعمیر و تشکیل کی طاقتور تحریک کی قیادت فرمارہے تھے۔ مولانا نے سیرت کو اس عملی جدوجہد کے تناظر میں دیکھا اور سمجھا ہے۔ چنانچہ سیرت سرور عالم کا سب سے اہم موضوع یہ ہے کہ جدید دور میں اسلام کی دعوت کے احیا کے سلسلہ میں پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت سے کیا رہنمائی ملتی ہے؟ جدید دور میں اسلامی ریاست کے کیا خدو خال سیرت سے معلوم ہوتے ہیں؟ چنانچہ پہلی جلد میں طویل تمہید اور ’’اصولی مباحث ‘‘ شامل ہیں جس میں منصب رسالت اور اس کے تقاضے، نبی کی حیثیت، سنت کا مقام وغیرہ جیسے موضوعات پر سیر حاصل بحث موجود ہے۔ سیرت کے صحیح فہم اور اس سے صحیح استفادہ کے لئے ان اصولی مباحث کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ افسوس کہ سیرت نگاری کا یہ منفرد مرقع مکمل نہیں ہوسکا اور مدنی زندگی کا ، جسے مولاناؒ نےبحر ناپید کنار کہا تھا، احاطہ نہیں ہوسکا۔
سیرت سرور عالم کے ایک اہم مرتب نعیم صدیقی ؒ تھے۔ ان کی اپنی تصنیف ،محسن انسانیت بھی اسی اپروچ کے ساتھ لکھی گئی مختصر اور آسان کتاب ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے نبی کریم ﷺ کی اجتماعی جدوجہد اور آپ کی بپا کی ہوئی تحریک کا اسوہ بیک نظر سامنے آجاتا ہے۔
ادبی، جمالیاتی اور افسانوی انداز میں سیرت نگاری کی جو کوششیں ہوئی ہیں، ان میں در یتیم کا ذکر آچکا ہے جو ماہر القادری ؒ کی تصنیف ہے۔ مشہور عالم و ادیب مناظر احسن گیلانی ؒ کی کتاب النبی الخاتم بھی بڑی دلچسپ کتاب ہے۔ لطافت بیان،شاندار منظرکشی، دلچسپ استعارات و تشبیہات ، معنی خیزی و نکتہ آفرینی اور پر اثر لفظیات سے مزین یہ چھوٹی سی کتاب ادبیات سیرت میں ایک انمول اضافہ ہے۔غار ثور کے حوالہ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’اسی غار میں سلیمان علیہ السلام کی چیونٹیوں کی طرح غریب مکڑیوں نے سلیمان کے محبوب ’’خلو محمدیم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کی پناہ کے لئے وہ گھر پیش کیا جو تمام گھروں میں سب سے کمزور تھا، لیکن آج دنیا کا یہی ’’اوہن البیوت‘‘ خدا جانے کتنے سنگین قلعوں کی بنیاد قرار پایا، اس گھر کے بعد دہلی میں ، آگرہ میں ، درہ دانیال میں ، جنوب میں، شمال میں ، یہ جو لال اور پیلے، سفید و زرد قلعے بنے اور ان شاء اللہ بنتے چلے جائیں گے ، ان تمام قلعوں میں سب سے پہلا قلعہ کیا کمزور مکڑیوں کا یہی کمزور جالا نہ تھا؟ کون کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ نہ ہوتا تو اس کے بعد جو کچھ ہوا، ہوسکتا تھا۔ چھوٹے کو بڑا بنانے والا، بڑوں کو چھوٹا بنانے والا ہمیشہ یہی کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔‘‘
۷۔اردو کے عظیم سیرت نگاروں میں ایک نام پروفیسر یاسین مظہر صدیقی کا ہے۔(اللہ تعالی ان کا سایہ دراز فرمائے۔ آمین) ڈاکٹر صاحب کی سیرت نگاری کی دیگر خصوصیات کے علاوہ ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے آں حضرت کے زمانہ کی تہذیب و تمدن کا گہرا اور تحقیقی مطالعہ کیا ہے۔ ان کی تحقیقات سے بہت سی نئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ نبی کریم کے دور میں مدینہ کی معیشت، سوشل سیکوریٹی کا انتظام، مکہ اور مدینہ کی ڈیموگرافی، مواخات کے نظام کا مطالعہ، ازواج مطہراتؓ کے مکانات، اس طرح کے اچھوتے موضوعات پر ڈاکٹر صاحب نے قلم اٹھایا ہے۔ ان کی تحقیقات کا ایک اور اچھوتا موضوع، اقلیتوں سے متعلق امور و مسائل ہیں۔ چونکہ سابقہ تاریخ میں محکوم اقلیت کے طور پر مسلمان بہت کم رہے ہیں اس لئے ہمارے قدیم لٹریچر میں اقلیتوں سے متعلق امور کا ذکر بہت کم ملتا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے رسول اللہ ﷺ کے مکی دور اور حبشہ کی اسلامی امت کے احوال کی اسٹڈی اس نقطہ نظر سے کی ہے کہ آں حضرت کےاسوے میں جدید دور کی اقلیتوں کے لئے کیا رہنمائی ملتی ہے؟
۸۔سیرت کی کئی کتابیں ایسی ہیں جو بعض مخصوص ماہرین فن نے اپنے اپنے شعبہ فن کے حوالہ سے لکھی ہیں۔میجرجنرل محمد اکبر خان کی کتاب’’ حدیث دفاع‘‘ میں آں حضرتﷺ کی جنگی اسکیموں پر بحث کی گئی ہے۔ یوں تو یہ موضوع سیرت کی اکثر کتابوں میں زیر بحث آیا ہے لیکن اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک ماہر فن اور تجربہ کار جرنل نے جدید عسکریات کے مستند حوالوں سے نہ صرف آں حضرت کی جنگی حکمت عملی کا جائزہ لیا ہے بلکہ اس کا تقابل انسانی تاریخ کے عظیم ترین جنگجووں کی اسکیموں سے بھی کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ آپ ﷺ کی جنگی منصوبہ بندی فائق ترین اور سب سے اعلی و ارفع تھی۔اسی طرح نفسیات، تعلیم ، لیڈرشپ و علم انتظام، معاشیات و مالیات، ماہرین طب وغیرہ نے بھی اپنے اپنے فنون کے حوالہ سے سیرت کا مطالعہ کرنے کی بڑی کامیاب کوششیں کی ہیں۔
۹۔ مولانا عبد الماجد دریا بادیؒ کی کتاب’ سیرت نبوی قرآن کی روشنی میں، ایک بڑی اہم کتاب ہے۔ اس کتاب میں صرف قرآن مجید کے حوالوں سے سیرت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گویا سیرت کا یہ وہ حسین ترین باب ہے جس کا راوی خود خالق کائنات ہے۔
یہ کوئی مکمل جائزہ نہیں ہے۔ ذاتی طور پر مجھے جو کتابیں بہت مفید محسوس ہوئیں اور اس وقت یاد آگئیں، ان کا ذکر کیا ہے۔ محمد عربی (مولانا عنایت اللہ سبحانی)، حیات طیبہ (مولانا عبد الحئی) الرحیق المختوم (مولانا صفی الرحمن) وغیرہ کا ذکر اس تھریڈ میں پہلے آچکا ہے۔ اس لئے ان کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ان کے علاوہ مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب نبی رحمت، مولانا ابوالکلام آزاد کی رسول رحمت، حکیم عبد الروف کی اصح السیر، مولانا ادریس کاندھلوی کی سیرۃ الصطفی، مولانا وحید الدین خان کی پیغمبر انقلاب، مولانا جلال الدین عمری کی اوراق سیرت، طالب الہاشمی کی حسنت جمیع خصالہ،عبد اماجد دریا بادی کی ’ سلطان ما محمد‘ مولانا اشرف علی تھانویؒ کی نشر الطیب اور اس جیسی اور بھی کتابیں ہیں جو سیرت کے ذخیرہ کا اہم حصہ ہیں۔
۱۰۔اردو میں سیرت کی کتابوں کا جائزہ ایک مجلہ کے ذکر کے بغیر نامکمل رہتا ہے۔ لاہور کا مجلہ نقوش جس کے رسول نمبر کو سیرت کے لٹریچر میں دستاویزی اہمیت حاصل ہے۔ تیرہ جلدوں پر مشتمل یہ نمبر ایک طرح سے سیرت پر موجود جملہ مواد کا خلاصہ ہے۔ سیرت کے مختلف پہلووں پر لکھی گئی کئی بیش قیمت تحریریں یکجا کردی گئی ہیں۔راست سیرت کے علاوہ سیرت کے اسلوب، تکنیک ، مصادر اور سیرت نگاری کے اصولوں پر بھی نہایت قیمتی معلومات موجود ہیں۔ سیرت کے کس پہلو پر کہاں سے مواد مل سکتا ہے؟ اس کی رہنمائی بھی ملتی ہے۔ بلاشبہ مدیر نقوش مرحوم محمد طفیل (جنہیں مولوی عبد الحق رسالہ میں ان کے انہماک کو دیکھ کر محمد نقوش کہتے تھے) کا یہ لافانی کارنامہ ہے۔ چند سال پہلے اس قیمتی دستاویز کی ہمارے ملک میں بھی اشاعت ہوئی ہے۔ اس نمبر کا ابتدائیہ ملاحظہ فرمایئے۔
’’میں غریب انسان ہوں۔ ہر طرح سے غریب، طبعیت کے اعتبار سے غریب، عمل کے اعتبار سے غریب، علم کے اعتبار سے غریب، مگر میں نے منزل دور کی اور سے اونچی منتخب کی۔ اپنا دامن نہ دیکھا، جھولی پھیلادی۔دور کی اس لئے کہ سیرت رسول کے ضابطے کڑے تھے۔ نہ بے احتیاطی کو دخل ، نہ لاپروائی کی گنجائش، حرف حرف تقدس آمیز تاثر کا طالب، اونچی اس لیئے کہ دنیا نے رسول سے بڑا آدمی پیدا نہ کیا۔ یہ اللہ کی ایک کتاب میں نہیں لکھا، ساری کتابوں میں لکھاموجود ہے۔ادھر اتنا برا امتحان اور ادھر میں اور میری نارسائیاں! میں نے سوچا کہ اس مہم میں اگر ساری دنیا کے لوگوں کو شامل نہ کیا تو بات کچھ بھی نہیں بنے گی، میرے کام اور اس ہستی میں بڑا فاصلہ رہ جائے گا۔کوئی لاکھ جتن کرلے، فاصلہ تو باقی رہے گا ہی۔قیامت تک باقی رہے گا۔سارے دانشور، سارے اسکالرفاصلے کو پاٹ نہ سکیں گے۔ پھر بھی اثاثہ قابل ذکر تو ہونا چاہیے۔ اس دھن میں اردو ، فارسی، عربی، انگریزی کے سیرتی ادب سے ان نمبروں کو سجا ڈالا۔پھر بھی کسر ایک آنچ کی نہیں ، ہزار آنچ کی رہ گئی۔شاید کروڑوں ، اربوں آنچ کی۔کیا کروں؟ بڑی بے بسی ہے۔غرض دنیا کے جتنے خزانے تھے وہ حاضر کردیئے۔ پھر بھی سیرت کا کوئی ایک گوشہ بھی تو پوری طرح منور نہ ہوا۔ اطمینان صرف اتنا ہے کہ جتنا کچھ یہ ہے اتنا کچھ اس سے پہلے موجود نہ تھا۔ آرزوئیں بہت بے قابو ہوتی ہیں۔یوسفؑ کی خریداری کو بڑھیا بھی تو نکلی تھی۔ وہ یوسفؑ کو خرید تو نہ سکی۔مگر ارمانوں کو سجاوٹ دے گئی! مجھے راستہ دکھاگئی!
(ایک وہاٹس اپ گروپ میں اردو میں سیرت کی اہم کتابوں کی نشاندہی سے متعلق سوال پر سعادت اللہ حسینی صاحب کا جواب)
No comments:
Post a Comment