Thursday, 13 December 2018

کیا شیطان آدمی کو بہکانے کے لئے قبر میں بھی آتا ہے؟

کیا شیطان آدمی کو بہکانے کے لئے قبر میں بھی آتا ہے؟
قبر میں سوالات کے وقت میت کو شیطان سے بچانے کے لئے قبر پر اذان دینا؟
سوال (۱۸۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کتاب {جاء الحق وزہق الباطل} جلد اول ۲۹۶ -۲۹۹ بحث قبر پر اذان دینے کی تحقیق میں، علامہ مولانا مفتی محمد یار خاں صاحب مرادآبادی اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں کہ امام محمد بن علی ترمذی فرماتے ہیں:
إن المیت إذا سئل ’’من ربک‘‘ فبدا لہ الشیطان فیثیر إلی نفسہ إني أنا ربک، فلہٰذا أورد سوال التثبت لا حین سئل یعنی جب میت سے سوال ہوتا ہے، کہ تیرا رب کون ہے؟ تو شیطان اپنی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ میں تیرا رب ہوں، مفتی علامہ یارخاں نے اوپر کی عربی عبارت سے ثابت کیا ہے کہ قبر میں شیطان داخل ہوتا ہے، اور اس کا ثبوت بھی پیش کیا ہے، اب ہمارا سوال یہ ہے کہ شیطان قبر میں داخل نہیں ہوسکتا، یہ ہمارے فقہ حنفیہ میں لکھا ہے؟ 
لہٰذا آپ سے گذارش ہے کہ آپ ہمیں شیطان قبر میں داخل نہیں ہوسکتا، اس کے دلائل فقہ حنفیہ اور مفتیان کرام کے فتاوی دیدیں۔
اسی کتاب کے ص: ۳۰۳ سطر ۹؍ میں علامہ یارخاں صاحب فرماتے ہیں کہ: ہم بھی اذان قبر سنت نہیں کہتے صرف جائز اور مستحب کہتے ہیں، تو یہ جائز اور مستحب کیسا ہے؟ وضاحت فرمادیں، اور شریعت مطہرہ میں یہ عمل کیسا ہے؟ اگر بدعت ہے تو کون سی بدعت اگر مکروہ ہے تو پھر کون سا مکروہ؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر پر اذان دینا بدعت ہے، یہ کسی روایت سے دور دور تک ثابت نہیں، اور آپ نے کتاب ’’جاء الحق‘‘ کے حوالہ سے جو روایت نقل کی ہے، یہ حکیم ترمذی کی کتاب ’’نوادر الاصول‘‘ سے ماخوذ ہے، یہ کوئی مرفوع حدیث نہیں؛ بلکہ حضرت امام سفیان ثوریؒ کا مقولہ ہے، اسے اگر صحیح مان بھی لیا جائے تو اس میں اذان علی القبر کا کوئی ذکر نہیں؛ بلکہ اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ منکر نکیر کے سوال کے وقت شیطان میت کو بچلانا چاہتا ہے اور اس کا طریقہ خود پیغمبر علیہ السلام نے یہ بتایا ہے کہ میت کو دفن کرنے والے میت کے حق میں صحیح صحیح جواب دینے پر ثبات قدمی کی دعا کریں، جیساکہ خود حضرت سفیان ثوریؒ کے قول میں صراحت ہے۔ پس اس مقصد کے لئے اذان دینے کا حکم کہیں بھی ثابت نہیں ہے؛ لہٰذا قبر پر اذان دینا یقینا کھلی ہوئی بدعت ہے، اس کا دین ومذہب اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں، اذان ایک مذہبی شعار ہے، جس کا مقصد نماز کے لئے دعوت دینا ہے غیر محل میں اذان کا استعمال پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
وفي الاقتصار علی ما ذکر من الوارد إشارۃ إلی أنہ لایسن الأذان عند إدخال المیت في قبرہ کما ہو المعتاد الآن، وقد صرح ابن حجر في فتاویہ أنہ بدعۃ، ویکرہ النوم عند القبر وقضاء الحاجۃ؛ بل أولی وکل مالم یعہد من السنۃ والمعہود منہا لیس إلا زیارتہا، والدعاء عندہا قائماً کما کان یفعل صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (فتح القدیر ۲؍۱۴۲)
فروي عن سفیان الثوري أنہ قال: إذا سئل المیت من ربک فراء لہ الشیطان في صورۃ، فیشیر إلی نفسہ، أي أنا ربک فہذہ فتنۃ عظیمۃ جعلہا اللّٰہ مکرمۃ للمؤمن إذا ثبتہ ولقنہ الجواب، فلذلک کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یدعو الثبات فیقول: اللّٰہم ثبت عند المسائل منطقہ وافتح أبواب السماء لروحہ۔ (نوادر الأصول في معرفۃ أحادیث الرسول للحکیم الترمذي ۲؍۲۲۱، فتاوی محمودیہ ۱؍۱۹۶، فتاوی رحیمیہ ۶؍۱۹۷، أحسن الفتاوی ۱؍۳۳۷، عزیز الفتاوی ۱۰۶) 
فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۴؍۸؍۱۴۲۸ھ 
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ 
https://saagartimes.blogspot.com/2018/12/blog-post_13.html

No comments:

Post a Comment