جس کا کوئی امیر نہیں، کیا شیطان اس کا امیر ہے؟
الجواب و باللہ التوفیق:
من لا أمير لهم فالشيطان أميرهم
ان لفظوں میں کوئی بھی حدیث حتی کہ مقطوع حدیث بھی نہیں ہے
یہ لوگوں کی خانہ ساز، اور اپنی چلائی ہوئی باتیں ہیں
ہاں! اسلام میں اجتماعیت کی بڑی اہمیت آئی ہے، اسی لئے سفر جیسی عارضی حالت میں بھی اجتماعیت کو اس قدر پسند کیا گیا ہے
کہ تنہا سفر کرنے والے کو شیطان کہا گیا
اسی لئے انتظامی و حکومتی منتظم (امیر، حاکم ) کی اتباع کی بڑی اہمیت حدیث میں آئی ہے
اگر مسافر امیر سفر کی اور عوام الناس امیر مملکت کی تابع داری نہ کریں تو اجتماعی معاملات بدنظمی کا شکار ہوجائیں گے اور پھر شیطان ان میں دخل اندازی کر شر و فساد مچانا شروع کردے گا
اس معنی کی حدیث حضرت
عبدالله بن عمرو سے مروی ہے:
الراكب شيطان والراكبًان شيطانان والثلاثة ركب .
سنن أبي داود - الرقم: 2607
سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
و أخرجه الترمذي (1674)، والنسائي في ((السنن الكبرى)) (8798 )، وأحمد (6748)
اثنائے سفر، اجتماعی امور اور خصوصا امور مملکت میں بحیثیت منتظم ومقتدر ایک آدمی کے طے ہونے سے سارے اجتماعی کام افرا تفری کے بغیر بحسن و خوبی انجام پاتے ہیں
منتظم و مدبر کی حیثیت سے اثنائے سفر چلہ کش تبلیغی جماعتیں بھی اصول مذکور کی روشنی میں تجربہ کار، حلم مزاج، متبع سنت، اور مسائل شرعیہ سے واقف امیر منتخب کرلیں تو بہتر ہے
لیکن خصوصیت سے اس منتظم کے بارے میں کوئی نص حدیث وارد نہیں
مذکورہ عربی مقولے کو انہی الفاظ میں حدیث نبوی کہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط بات منسوب کرنا ہے جو حرام وموجب جہنم ہے
اسی طرح سفری و اسلامی حکومتی امور میں امیر کی ضرورت اور اس کی اتباع کے لزوم میں توسیع کرکے عام حالات پہ اسے منطبق کرنا بھی درست نہیں
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
کیا یہ حضرت مولانا عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہوتا ہے؟
یہ محاوہ ابو حامد غزالی نے احیاء میں نقل کیا ہے
یہ شیخ عبد القادر کا قول نہیں ہے
عوارف المعارف میں بھی مختلف صوفیاء کے حوالے سے یہ محاورہ منقول ہے
يحتاج المريد إلى شيخ وأستاذ يقتدي به لا محالة ليهديه إلى سواء السبيل، فإن سبيل الدين غامض، وسبل الشيطان كثيرة ظاهرة فمن لم يكن له شيخ يهديه، قاده الشيطان إلى طرقه لا محالة. فمن سلك سبل البوادي المهلكة بغير خفير فقد خاطر بنفسه وأهلكها، ويكون المستقل بنفسه كالشجرةِ التي تنبت بنفسها فإنها تجف على القرب، وإن بقيت مدة وأورقت لم تثمر، فمعتَصَمُ المريد شيخُهُ، فليتمسك به.
["الإحياء" ج3/ص65]
أبو حامد الغزالي
اس مقولہ کا ماحصل صرف اس قدر ہے کہ انسان چونکہ ہمہ وقت شیطان کے وساوس کی زد میں رہتا ہے؛ اس لئے انسان کو کسی متبع سنت شیخ سے قلبی تعلق قائم کرکے اصلاح نفس کرتے رہنا چاہئے
شیخ کامل کی نگرانی میں وتربیت سے اس کی اصلاح ہوگی، اگر کسی شیخ سے اصلاحی تعلق قائم نہ ہو تو پہر شیطان کو کھلے مہار اسے بہکانے و گمراہ کرنے کا موقع مل جائے گا ؛ کیونکہ شیطان تو انسان کے خون کی رگوں میں دوڑتا رہتا ہے
بدون قلبی تعلق محض رسمی بیعت وپیری اس مقولہ کی مراد نہیں ہے
صوفیاء کے اس محاورے کا مفہوم یہ بھی نہیں ہے کہ ایمان کی حفاظت شیخ سے بیعت پہ موقوف ہے
کیونکہ یہ عقیدہ نصوص کے خلاف ہے
ہاں نفس کی اصلاح گناہوں سے بچنے اور دین پر چلنے میں
کسی متبع سنت بزرگ سے رابطہ کرلینا چاہئے
شکیل منصور القاسمی
https://saagartimes.blogspot.com/2018/12/blog-post_71.html
https://saagartimes.blogspot.com/2018/12/blog-post_71.html
No comments:
Post a Comment