جمعیت علماء اور جماعت تبلیغ ایک واقعہ
ایک واقعہ سناتا ہوں، یہ واقعہ بندہ نے حضرت مولانا عبد الحنان صاحب (سابق صدر جمیعت علماء گجرات) سے بھی سنا۔ اور وہ مسجد میں کھڑے ہوکر سناتے تھے کہ یہ واقعہ میں نے حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے بیٹھ کر سنا ہے۔
ارشاد فرمایا کہ ہندوستان کی جب آزادی ہوئی ۱۹۴۷ء میں اور ملک کی نئی پارلیمنٹ بنی تو آر ایس ایس والوں نے اور آر ایس ایس کے ترجمان ممبر آف پارلیمنٹ نے ملک کے پہلے وزیر اعظم نہرو جی کے سامنے فتنہ کھڑا کیا کہ دعوت وتبلیغ کے کام پر ملک میں پابندی لگنی چاہئے، ان تبلیغ والوں سے کہو کہ پاکستان چلے جائیں، ان کو یہ بد گمانی ہوئی ہوگی کہ تبلیغ کا کام مسلم لیگ کا ہے، حالانکہ یہ سراسر تہمت ہے، (حضرت جی مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تو متحدہ ہندستان کے حامی تھے، حضرت شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آپ بیتی میں اس کی تفصیل موجود ہے)
اسی طرح مولٰنا آزاد مرحوم کی کتاب ’انڈیا ونس فریڈم‘
میں اس کی تفاصیل موجود ہیں ۔ تو کہا کہ تبلیغ والوں سے کہو کہ تمہارا مرکز نظام الدین سے ہٹالو اور پاکستان چلے جاؤ ۔ بہت ہنگامہ ہوا پارلیمنٹ میں تو نہروجی نے مولانا آزاد کی طرف اشارہ کیا، مولانا اس وقت ملک کے وزیر تعلیم تھے، مولانا نے مخاطب کیا نہروجی کو اور پوری پارلیمنٹ کو سنایا:
’’نہروجی! یہ لوگ جس دعوت وتبلیغ کے کام پر پابندی لگانے کی بات کررہے ہیں وہ میرا ہے میں اس کام کا ایک فرد ہوں اور وہ میرا کام ہے ۔‘‘
بس مولانا آزاد کے ایک جملہ نے پارلیمنٹ کو ہلادیا، فوراً نہرو جی نے کھڑے ہوکر کہا: بس مولانا اب اس ملک میں کوئی اس دعوت کے کام پر پابندی نہیں لگاسکتا، نہروجی نے بھری پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر اعلان کردیا۔
حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرد مومن کا ایک جملہ؛اس کام کو اس ملک میں اور اس ملک کے ذریعہ پورے عالم میں قیامت تک جمانے کا ذریعہ بنا۔
اس لئے حضرت جی مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور حضرت مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دونوں حضرات مولانا آزاد کی کوٹھی پر یعنی جو حکومت کی طرف سے بنگلہ ملتا ہے، وہاں جب تک مولانا آزاد حیات رہے، وہاں اہتمام سے ملنے جاتے تھے۔
اس ملک میں اور اس ملک کے طفیل میں پورے عالم میں جتنا دعوت کا کام ہورہا ہے اس کے ثواب کا بڑا حصہ مولانا آزاد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا، یہ ایک ان کا تائیدی جملہ ہے کہ جس نے اس تبلیغ والے کام کی حفاظت فرمائی، معلوم ہوا جمعیت علماء اور دعوت وتبلیغ یہ کوئی ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہے۔
خطبات محمود: جلد 3 صفحہ 190
پٹیل، پہلانائب وزیر اعظم ہند کا ارادہ تبلیغی جماعت کو بند کرنے کا تھا۔ مولانا آزاد نے جواہر لال نہرو وزیر اعظم ہند اول سے کہا۔ یہ جماعت کلمہ نماز کو کہتی ہے۔ اس کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کو روکنا نہیں چاہئے، اگر اس کو منع کیا گیا تو دوسرے ملک میں یہ پیغام جائے گا کہ ہندوستان میں کلمے نماز کو منع کیا جارہا ہے۔
یہ بات جواہر لال نہرو کی سمجھ میں آگئی۔
مولانا حفظ الرحمن نے بھی کہا کہ یہ اخلاقی قدروں پر کام کرنے والی جماعت ہے، اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے بند نہیں کرنا چاہئے۔
حیات فریدی
No comments:
Post a Comment