تداخلِ عبادات کی تفصیلات
احداث وطہارات یعنی وسائلِ عبادات میں باتفاق ائمہ مجتہدین تداخل جائز ہے، یعنی جو نیت بھی کی جائے گی اس کے مطابق مختلف اعمال صحیح ہوجائیں گے
چنانچہ غسل کرتے ہوئے وضو، غسل جنابت، غسل حیض، غسل عیدین اور غسل جمعہ کی نیت کرلے تو ایک عملِ غسل سے حسبِ نیت، طہارت کی یہ ساری قسمیں حاصل ہوجائیں گی اور ہر غسل صحیح ہوجائے گا؛ ہندیہ میں ہے:
إذا اغتسل الجنب غسل الجنابة والجمعة أو العيد صح غسله، وان نوى رفع الحدث أو
الجنابة دون التمييز بينهما صح ذلك، واذا تيمم الجنب يريد به الوضوء صح فعله، واذا تيمم لصلاة
الجنازة أولسجدة التلاوةأجأزه أن يصلي بهالصلاةالمكتوبة بلاخلاف۔ (الھندیہ 1990، ص16).
چنانچہ غسل کرتے ہوئے وضو، غسل جنابت، غسل حیض، غسل عیدین اور غسل جمعہ کی نیت کرلے تو ایک عملِ غسل سے حسبِ نیت، طہارت کی یہ ساری قسمیں حاصل ہوجائیں گی اور ہر غسل صحیح ہوجائے گا؛ ہندیہ میں ہے:
إذا اغتسل الجنب غسل الجنابة والجمعة أو العيد صح غسله، وان نوى رفع الحدث أو
الجنابة دون التمييز بينهما صح ذلك، واذا تيمم الجنب يريد به الوضوء صح فعله، واذا تيمم لصلاة
الجنازة أولسجدة التلاوةأجأزه أن يصلي بهالصلاةالمكتوبة بلاخلاف۔ (الھندیہ 1990، ص16).
مقاصد، یعنی عبادتوں میں تداخل کے حوالے سے ائمہ اربعہ متبوعین کے مابین قدرے اختلاف ہے،
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا خیال یہ ہے کہ
فرض نماز میں تداخل کی قطعی گنجائش نہیں، حتی کہ اگر کوئی شخص ایک فرض نماز مثلاً پڑھتے ہوئے فرض عصر کی بھی نیت کرلے تو دونوں نمازیں باطل ہوجائیں گی! یعنی کہ فرض نماز میں تداخل کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
ہاں اگر فرض روزہ کے قضا میں قضاء وکفارہ دونوں کی نیت کرلے تو شیخین کے یہاں تداخل تو درست نہیں ہے لیکن یہ روزہ قضا کا ہوگا کفارہ کا نہیں، جبکہ امام محمد اسے قضا کا مانتے ہیں نہ کفارہ کا! بلکہ وہ اسے نفلی روزہ ہی گردانتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا خیال یہ ہے کہ
فرض نماز میں تداخل کی قطعی گنجائش نہیں، حتی کہ اگر کوئی شخص ایک فرض نماز مثلاً پڑھتے ہوئے فرض عصر کی بھی نیت کرلے تو دونوں نمازیں باطل ہوجائیں گی! یعنی کہ فرض نماز میں تداخل کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
ہاں اگر فرض روزہ کے قضا میں قضاء وکفارہ دونوں کی نیت کرلے تو شیخین کے یہاں تداخل تو درست نہیں ہے لیکن یہ روزہ قضا کا ہوگا کفارہ کا نہیں، جبکہ امام محمد اسے قضا کا مانتے ہیں نہ کفارہ کا! بلکہ وہ اسے نفلی روزہ ہی گردانتے ہیں۔
فرض پڑھتے ہوئے سنت یا نفل کی نیت کرنے سے امام ابو یوسف کے یہاں فرض ادا ہوگی، نفل کی نیت باطل ہوجائے گی ۔ جبکہ امام محمد رحمہ اللہ فرض ونفل میں نیتِ تداخل کو مفسِد گردانتے ہوئے دونوں نیتوں کو باطل کہتے ہیں یعنی اس صورت میں نہ فرض صحیح ہوگی نہ نفل!
ہاں زکات دیتے ہوئے فرض زکات کی بھی اور صدقہ نافلہ کی بھی نیت کرلی جائے تو البتہ امام محمد کے یہاں صرف زکات ادا ہوگی نفلی صدقہ نہیں!
ہاں زکات دیتے ہوئے فرض زکات کی بھی اور صدقہ نافلہ کی بھی نیت کرلی جائے تو البتہ امام محمد کے یہاں صرف زکات ادا ہوگی نفلی صدقہ نہیں!
وقتی سنت موکدہ اور نفل کو ایک ساتھ جمع کرلے مثلاً فجر کی سنت دوگانہ میں تحیہ المسجد وغیرہ کی نیت کرلے تو تداخل جائز ہے
اور اسی دو رکعت میں دونوں نمازوں (سنت فجر اور تحیہ المسجد وغیرہ) کا ثواب مل جائے گا
اور اسی دو رکعت میں دونوں نمازوں (سنت فجر اور تحیہ المسجد وغیرہ) کا ثواب مل جائے گا
ہاں اگر دو نوں سنن مستقل و مقصود بالذات ہوں تو ایک کی ادائی سے دوسری سنت ادا نہ ہوگی
مثلا عشاء کی سنت موکدہ میں ظہر کی سنت موکدہ کے تداخل کی نیت کرلی جائے تو اس سے ظہر کی سنت ادا نہ ہوگی
کیونکہ دونوں سنیتں اپنی اپنی فرض کے تابع ہیں اور وسائل کے قبیل سے نہیں بلکہ مقصودبالذات ہیں ان دونوں کی ادائی کا اپنا اپنا متعین ومخصوص وقت بھی ہے
لہذا ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوسکتے
اور چونکہ نفل محض مقصود بالذات نہیں ہوتیں اور کسی فرض کے تابع نہیں ہوتیں اس لئے نفل محض کا تداخل سنت موکدہ میں تو ہوسکتا ہے! لیکن سنت موکدہ میں سنت موکدہ کا تداخل نہیں ہوسکتا
(الاشباہ والنظائر لابن نجيم صفحہ 40,42 ,البحر الرائق 96/1.الفتح القدير 438/2
الذخيرة 251/1) میں اس مسئلے کی تفصیل موجود ہے
الموسوعة الفقهية جلد 42 میں ہے:
قال الحنفية:
الجمع بين عبادتين إما أن يكون في الوسائل أو في المقاصد فإن كان في الوسائل فإن الكل صحيح، قالوا: لو أغتسل يوم الجمعة للجمعة ولرفع الجنابة أرتفعت جنابته وحصل له ثواب غسل الجمعة .
مثلا عشاء کی سنت موکدہ میں ظہر کی سنت موکدہ کے تداخل کی نیت کرلی جائے تو اس سے ظہر کی سنت ادا نہ ہوگی
کیونکہ دونوں سنیتں اپنی اپنی فرض کے تابع ہیں اور وسائل کے قبیل سے نہیں بلکہ مقصودبالذات ہیں ان دونوں کی ادائی کا اپنا اپنا متعین ومخصوص وقت بھی ہے
لہذا ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوسکتے
اور چونکہ نفل محض مقصود بالذات نہیں ہوتیں اور کسی فرض کے تابع نہیں ہوتیں اس لئے نفل محض کا تداخل سنت موکدہ میں تو ہوسکتا ہے! لیکن سنت موکدہ میں سنت موکدہ کا تداخل نہیں ہوسکتا
(الاشباہ والنظائر لابن نجيم صفحہ 40,42 ,البحر الرائق 96/1.الفتح القدير 438/2
الذخيرة 251/1) میں اس مسئلے کی تفصیل موجود ہے
الموسوعة الفقهية جلد 42 میں ہے:
قال الحنفية:
الجمع بين عبادتين إما أن يكون في الوسائل أو في المقاصد فإن كان في الوسائل فإن الكل صحيح، قالوا: لو أغتسل يوم الجمعة للجمعة ولرفع الجنابة أرتفعت جنابته وحصل له ثواب غسل الجمعة .
وإن كان الجمع في المقاصد: فإنما أن ينوي فرضين أو نفلين أو فرضا ونفلا:
أما الأول: فلا يخلو إما أن يكون في الصلاة أو في غيرها ، فإن كان في الصلاة لم تصح واحدة منهما ، قال في السراج الوهاج : لو نوى صلاتي فرض كالظهر والعصر لم يصح أتفاقا ، ولو نوى في الصوم القضاء والكفارة كان عن القضاء ، وقال محمد: يكون تطوعا وإن نوى كفارة الظهار وكفارة اليمين يجعل لأيهما شاء، وقال محمد: يكون تطوعا ولو نوى الزكاة وكفارة الظهار جعله عن أيهما شاء، ولو نوى الزكاة وكفارة اليمين فهو عن الزكاة ، ولو نوى مكتوبة وصلاة جنازة فهي مكتوبة .
وإن نوى فرضا ونفلا ، فإن نوى الظهر والتطوع ، قال أبويوسف : تجزئه عن المكتوبة ويبطل التطوع ، وقال محمد : لاتجزئه عن المكتوبة ولا التطوع ، وإن نوى الزكاة والتطوع يكون عن الزكاة، وعند محمد عن التطوع ، ولو نافلة وجنازة فهي نافلة .
وأما إذا نوى نافلتين ، كما نوى بركعتي الفجر تحية المسجد وسنة الفجر أجزأت عنهما . وأما التعدد في الحج ، فلو أحرم نذرا ونفلا كان نفلا أو فرضا وتطوعا كان تطوعا عندهما في الأصح ، ولو أحرم بحجتين معا أو على التعاقب لزماه عند أبي حنيفة وأبي يوسف ، وعند محمد : يلزمه في المعية إحداهما وفي التعاقب الأولى فقط .
واما إذا نوى عبادة ثم نوى في أثنائها الإنتقال عنها إلى غيرها ، فإن كبر ناويا الإنتقال إلى غيرها صار خارجا عن الأولى ، وإن نوى ولم يكبر لايكون خارجا ، كما إذا نوى تجديد الأولى وكبر .
(الموسوعة الفقهية جلد 42،التشريك في النية)
والله اعلم
شكيل منصور القاسمي
https://saagartimes.blogspot.com/2018/12/blog-post_37.html
أما الأول: فلا يخلو إما أن يكون في الصلاة أو في غيرها ، فإن كان في الصلاة لم تصح واحدة منهما ، قال في السراج الوهاج : لو نوى صلاتي فرض كالظهر والعصر لم يصح أتفاقا ، ولو نوى في الصوم القضاء والكفارة كان عن القضاء ، وقال محمد: يكون تطوعا وإن نوى كفارة الظهار وكفارة اليمين يجعل لأيهما شاء، وقال محمد: يكون تطوعا ولو نوى الزكاة وكفارة الظهار جعله عن أيهما شاء، ولو نوى الزكاة وكفارة اليمين فهو عن الزكاة ، ولو نوى مكتوبة وصلاة جنازة فهي مكتوبة .
وإن نوى فرضا ونفلا ، فإن نوى الظهر والتطوع ، قال أبويوسف : تجزئه عن المكتوبة ويبطل التطوع ، وقال محمد : لاتجزئه عن المكتوبة ولا التطوع ، وإن نوى الزكاة والتطوع يكون عن الزكاة، وعند محمد عن التطوع ، ولو نافلة وجنازة فهي نافلة .
وأما إذا نوى نافلتين ، كما نوى بركعتي الفجر تحية المسجد وسنة الفجر أجزأت عنهما . وأما التعدد في الحج ، فلو أحرم نذرا ونفلا كان نفلا أو فرضا وتطوعا كان تطوعا عندهما في الأصح ، ولو أحرم بحجتين معا أو على التعاقب لزماه عند أبي حنيفة وأبي يوسف ، وعند محمد : يلزمه في المعية إحداهما وفي التعاقب الأولى فقط .
واما إذا نوى عبادة ثم نوى في أثنائها الإنتقال عنها إلى غيرها ، فإن كبر ناويا الإنتقال إلى غيرها صار خارجا عن الأولى ، وإن نوى ولم يكبر لايكون خارجا ، كما إذا نوى تجديد الأولى وكبر .
(الموسوعة الفقهية جلد 42،التشريك في النية)
والله اعلم
شكيل منصور القاسمي
https://saagartimes.blogspot.com/2018/12/blog-post_37.html
No comments:
Post a Comment