Monday, 3 December 2018

مسجد کی وقف زمین کا تبادلہ

مسجد کی زمین کا تبادلہ
السلام علیکم ورحمت اللہ
کیا فرماتے ہیں مفتیانے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں
مسئلہ یہ ہے کہ ایک نئی مسجد ہے اسکی بنیاد بھری ہوئی ہے اور وہ مسجد بستی کے لئے وقف کی ہوئی ہے اور اسی کے برابر میں مدرسہ ہے تو مدرسہ والے اور بستی والوں میں جھگڑا یورہا ہے کہ مسجد ہماری ہے تو اب مسئلہ یہ ہے کہ اس مسجد کی زمین کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں کیا اس زمین کو بیچ کرکے دوسری جگہ لے سکتے ہیں یا نہی یا وہی تعمیر ضروری ہے حالانکہ وہاں اور بھی فساد ہونے کا اندیشہ ہے 
منجانب محمد راشد تحسین رشیدی
الجواب وباللہ التوفيق:
کوئی گنجائش نہیں ہے۔
درج ذیل فتوی میں استبدال وقف کے حوالے سے تفصیلی احکام کا علم ہوسکتا ہے:
بنائے مسجد کے لئے وقف زمین کا تبادلہ؟
------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
کیا فرماتے ہیں مفتیان دین مسئلہ ذیل کے بارے میں  کہ مرحوم حاجی عبد الرحمن صاحب نے اپنی وفات سے ایک سال پہلے اپنے بڑے بیٹے عبدالغفار صاحب غوری کو اپنی ایک زمین کے متعلق یہ وصیت نامہ لکھوادیا تھا کہ میری اس زمین میں سے تقریبا 2600 فٹ زمین مسجد کیلئے وقف ہے
اور مرحوم کی منشاء یہ تھی کہ میری اس زمین میں مسجد بنے اور لوگ دعوت کی محنت میں لگیں اور اس مسجد سےلوگ اللہ کے راستے میں نکلنے والے بنے
لیکن حالات یہ ہیکہ اس زمین کے آس پاس اھل بدعت کا غلبہ ہے مسلک اکابر دیوبند سے وابستہ کوئی بھی شخص وہاں نہیں ہے اگر اس زمین میں مسجد بنادی جاتی ہے  تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ مسجد اھل بدعت کے قبضے میں چلی جائے گی اور مرحوم کی منشاء کے خلاف ہوگا
اب اس وقف شدہ زمین کے متعلق حضرت والا سے چند مسائل دریافت کرنے ہیں 
(1) حالات مذکورہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس وقف شدہ زمین کو بیچ کر ان پیسوں سے دوسری زمین (جہاں آس پاس میں تبلیغی جماعت کے ساتھیوں کے مکانات موجود ہیں) مسجد کیلئے خریدی جاسکتی ہے یا نہیں؟
(2) کیا اس وقف شدہ زمین کو بیچ کر ان پیسوں کو اس وقف شدہ زمین سے قدرے دوری پر اہل دیوبند کی مسجد کی تعمیر میں خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں 
(3) اگر از روءے شرع اس وقف شدہ زمین کو بیچ کر اسکے عوض میں زمین ہی خریدی جائے گی تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ وہ پیسے ایک ہی زمین میں لگانا ضروری ہے یا تھوڑا تھوڑا کر کے الگ الگ زمینوں میں بھی لگاسکتے ہیں)
(4) اگر از روءے شرع فتوی یہ آتا ہے کہ زمین کے عوض میں زمین ہی خریدی جائے گی توواقف کےبڑے بیٹے نےاب تک اس وقف شدہ زمین کی قیمت کا اندازہ لگاکر تقریبا ۳۰ فیصد پیسے دو الگ الگ مسجد میں تعمیر کے لئے دے چکے ہیں تو اب ان پیسوں کا کیا حکم رہیگا 
بینوا و توجروا
فقط والسلام
-----------------
الجواب وباللہ التوفيق:
جب حاجی عبد الرحمن صاحب نے اپنی 2600 فٹ زمین بنائے مسجد (نہ کہ منافع مسجد کے لئے) دعوت دین کے لئے وقف کردی تو اب وہ زمین ان کی ملکیت سے نکل کر اللہ کی ملکیت میں داخل ہوگئی 
واقف اپنی زمین کے ارد گرد آباد لوگوں کے فکری ومسلکی پس منظر سے ضرور واقف ہونگے 
اسی لئے تو انہوں نے یہاں بنائے مسجد اور دعوت دین کے مرکز کے لئے اپنی زمین وقف کی ہے، اس سے مراد ومنشاء واقف کا علم بھی بخوبی ہورہا ہے، واقف تمامیت وقف سے قبل اگر اپنے یا اپنے کسی غیر کے لئے ارض موقوفہ میں تبدیلی کی شرط نہ لگائے تو اب بعد میں خود اس واقف کو بھی وقف میں تغیر، تصرف و استبدال کا حق باقی نہیں رہتا! 
لہذا جب تک اس زمین پہ بناء مسجد کا امکان باقی ہے محض اہل بدعات کے تسلط و قبضہ کے شبہات میں اسے فروخت و استبدال کا حق متولی کو شرعا نہیں مل سکتا 
متولی مسلمانوں کی ایک کمیٹی قائم کرکے اس وقف کے تحفظ اور دیکھ ریکھ کو یقینی بناتے ہوئے مراد واقف کی تعمیل کی کوشش کرے 
سوال میں درج مجبوریوں کی وجہ سے اس زمین کی فروخت اور  اس کا تبادلہ شرعا جائز نہیں ہے 
مسجد کے منافع کے لئے موقوف  اراضی اور بنائے مسجد ہی کے لئے وقف کردہ اراضی کے مابین حکم میں تفاوت ہے 
وإذا خربت أرض الوقف وأراد القیم أن یبیع بعضا منہا لیرمّ الباقی بثمن ما باع، لیس لہ ذٰلک۔ (فتاویٰ تاتارخانیۃ زکریا ۸/۶۶ رقم: ۱۱۲۲۱)
المالک ہو المتصرف في الأعیان المملوکۃ کیف شاء۔ (بیضاوي ۷)
الوقف إخراج المال عن الملک علی وجہ الصدقۃ، فلا یصح بدون التسلیم کسائر التصرفات۔ (بدائع الصنائع / کتاب الوقف ۵؍۳۲۸ زکریا)

وکذلک سائر الوقوف عندہ إلا أنہا إذا خرجت عند انتفاع الموقوف علیہم بہ جاز استبدالہا بأذن الحاکم بأرض أو دور آخر تکون وقفًا مکانہا۔ (إعلاء السنن / کتاب الوقف ۱۳؍۱۱۲)
وحکی أنہ وقع مثلہ في زمن سیدنا الإمام الأجل في رباط بعض الطرق خرب ولا ینتفع المارۃ بہ، ولہ أوقاف عامرۃ فسئل، ہل یجوز نقلہا إلی رباط آخر ینتفع الناس بہ، قال نعم؛ لأن الواقف غرضہ انتفاع المارۃ ویحصل ذٰلک بالثاني۔ (شامي / مطلب في نقل أنقاض المسجد ونحوہ ۶؍۵۵۰-۵۵۱ زکریا، ۴؍۳۶۰ کراچی)
واللہ اعلم بالصواب 
شکیل منصور القاسمی
-------------------
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں. . ایک صاحب نے مسجد کے وقف کی زمین کے پاس گھر تعمیر کی. ... پھر کچھ دنوں بعد گھر کی توسیع کی اور اس میں وقف کی زمین کا بھی کچھ حصہ شامل کر لیا، اب وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس مسجد کی (جس کی زمین انہوں نے گھر میں داخل کیا) اسکے کچھ تعمیری کام انہوں نے کروایا ہے ..تو وہ اسکا بدل ھوجا ئے گا.... 
(۱) تو کیا ان کی بدل کی نیت کرنا شرعا قابل قبول ہے ؟
(۲) یا اس زمین کے بدلہ میں کوئی دوسری زمین دینا ہوگا ؟
(۳)یا گھر توڑکر زمین خالی کرنا ہوگا، یا کوئی اور صورت ہے ؟ برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں۔ نوازش ہوگی۔ 
جواب: بسم الله الرحمن الرحيم
(۱، ۲، ۳) اگر یہ بات سچ ہے کہ مذکور فی السوال شخص نے مسجد پر موقوفہ زمین کا کچھ حصہ اپنے گھر میں شامل کرلیتا ہے تو اس نے ایک ناجائز اور حرام کام کا ارتکاب کیا، اس شخص پر ضروری ہے کہ جتنی زمین گھر میں شامل کی ہے پوری زمین مسجد کے حوالے کرے، چاہے اس کے لیے جو بھی طریقہ اختیار کرنا پڑے، یہ شخص نہ تو اپنے کام (جو اس نے مسجد میں کرایا ہے)کے بدلے میں یہ زمین رکھ سکتا ہے اور نہ اس کے بدلے دوسری زمین دینا کافی ہوگا؛ کیوں کہ وقف شدہ زمین ملکِ خدا ہوتی ہے، اس میں بیع، ہبہ یا کوئی دوسرا تصرف جو اس نوع کا ہو مثلاً تبادلہ شرعاً جائز نہیں ہے۔ (الوقف) ہو حبسہا علی حکم ملک اللہ تعالیٰ وصرف منفعتہا علی من أحبّ (درمختار) وفي رد المحتار: قدر لفظ حکم لیفید أن المراد أنہ لم یبق علی ملک الواقف ولا انتقل إلی ملک غیرہ، بل صار علی حکم ملک اللہ تعالی الذی لا ملک فیہ لأحد سواہ․ (درمختار مع الشامي: ۶/ ۵۲۲، ۵۲۱، ط: زکریا) وفیہ (ص: ۵۳۹) فإذا تمّ ولزم لا یُمٴلَکُ ولا یُمَلَّکُ ولا یعار ولا یُرہَن الخ۔
واللہ تعالیٰ اعلم

https://saagartimes.blogspot.com/2018/12/blog-post_28.html

No comments:

Post a Comment