Wednesday 9 September 2020

سلمان ندوی صاحب کی شرمناک فتنہ انگیزی

سلمان ندوی صاحب کی شرمناک فتنہ انگیزی

-------------------------------
--------------------------------

جناب سلمان ندوی صاحب قسمت کے بہت دھنی واقع ہوئے تھے کہ انہوں نے ایسے مادری خانوادے میں آنکھیں کھولیں جس کی وجاہت اور عظمت کی چھاپ دینی وادبی حلقوں میں بہت گہری رہی  ہے۔ اسی نانیہالی خاندانی پس منظر اور نسبت نے ان کی شخصیت کو حلقہ علماء میں محبوبیت ومقبولیت بخشی، لوگوں سے عقیدت ومحبت کی بے تحاشا سوغاتیں ملیں۔ مفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ جیسی نابغہ روزگار ہستی  سے خاندانی وعلمی انتساب کی وجہ سے حلقہ علماء میں انھیں ایک عزت ووقار ملا۔ ہندوستان سے عربستان تک اسی نسبت نے ان کی شخصیت کو متعارف کروانے میں اہم  کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ذاتی صلاحیت واستعداد سے بھی مالا مال تھے۔ شستہ زبانی، طلاقت لسانی، عربی زبان وادب پہ یکساں عبور و قدرت، طرز القاء، منفرد طرز خطابت اور پرکشس لب ولہجہ کے باعث وہ ہندوستان کے علاوہ عربوں میں بھی کافی مقبول ہوئے ۔۔۔۔

عوام وخواص کی اس ارزاں پذیرائی کے باعث شعوری یا غیرشعوری طور پر وہ عشق ذات اور عجب نفس میں بری طرح گرفتار ہوگئے۔ ۔۔۔  انہیں اپنی مقبولیت، شہرت وخطابت پہ ناز ہونے لگا۔ شخصیت میں کبر ونخوت دبے پاؤں سرایت کرگئی۔ وہ اپنے خیال میں ہی خود کو اکلوتے ادیب، محدث، مفسر، داعی، مجاہد اور دین ودنیا کے سب سے قابل ترین فرد شمار کرنے لگے۔ اپنی رائے، اپنی عقل اور اپنے فہم کو اٹل جاننے لگے۔شاید انھیں شبہ ہوچلا کہ وہی 'عقل کل' ہیں۔ ان کے سارے اعمال 'آب زمزم' سے دھلے ہوئے ہیں۔ مغالطہ سے شاید وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاعر نے غالبا انہی کے لئے کہا تھا:

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو! 

دامن نچوڑدیں تو فرشتے وضو کریں

یہ نشہ اعصاب پہ اس طرح سوار ہوا اور پختہ ہوتا چلا گیا کہ ان کی ذات و شخصیت کے سوا ساری خلق خدا انہیں خس وخاشاک یا حشرات الارض کے مانند ہیچ وبے مایہ نظر آنے لگی، ان کی "بولعجبی"  کا اولیں  ظہور یہاں سے ہوا کہ سب سے پہلے  انہوں نے کتاب الہی قرآن کریم کی چودہ سو سالہ متفق ومجمع علیہ ترتیب پہ تشکیکی وار کئے، اس کے تقدس کو پامال کیا ، موجودہ ترتیب قرآنی کی تغلیط کی اور اپنی مزعومہ ترتیب کے مطابق قران مجید شایع کروایا اور یوں  امت مسلمہ میں فتنہ وفساد کی نئی داغ بیل ڈال دی، پھر اس کے بعد  کاتب وحی خال المومنین حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں دریدہ دہنی کا مظاہرہ کیا اور وہی مبتذل ہفوات بکیں  جنہیں شیعہ امامیہ صدیوں سے بکتے چلے آئے ہیں،  پھر حضرات شیخین کی شان میں بد تمیزیاں کیں اور عشرہ مبشرہ کے دیگر اصحاب حضرت طلحہ، حضرت زبیر،اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو گھٹیا درجے کا صحابی بتایا ۔

تنقیص و توہین صحابہ کی شامت سے ان کا قلب و نظر ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاہ تر ہوتا چلاگیا، دریدہ دہنی روز افزوں ہوتی گئی، توہین آمیز بیانات وفحش گوئی کا سلسلہ دراز ہوتا گیا، ایسے وقت اور حالات میں جبکہ قوم وملت کو متحد کرنے کی سخت ضرورت تھی سلمان ندوی صاحب نے ذاتی فضل وکمال کے اظہار اور شخصی  تفوّق و برتری کے لئے، اصول پسند دلیلوں سے انحراف اور طبع زاد بودی دلیلوں سے استشہاد کے ذریعہ، اپنی رائے، فکر، سوچ اور انفرادیت کو شدت وتنقیص آمیز و جارحانہ اسلوب میں بزعم خود فیصلہ کُن بناکر پیش کیا، فرسودہ راگوں کو چھیڑناشروع کردیا ، دور ازکار فروعی اور ضمنی مباحث میں خود بھی الجھے دوسروں کو بھی الجھایا، لاطائل طبع آزمائی کی، قوم وملت کی بیش قیمت اور صالح ذہانتوں کو انتشار کا شکار کیا، اصحاب رسول سے ہوتے ہوئے علماء، مشائخ، دینی ادارے، مقدس شخصیات  کی تضحیک، تحقیر وتنقیص اور فتنہ وفساد کے نئے دروازے کھولے اور تشویش و اضطراب کا زنجیری سلسلہ قائم کیا۔ سعودی حکومت، مختلف ادارے، افراد وشخصیات پہ کیچڑ اچھالنا شروع کردیا، بعض معاصر علمی شخصیات پہ علمی نقد کے ساتھ کردارکشی بھی کی۔ من گھڑت اور بے بنیاد الزامات لگانے سے بھی باز نہ آئے۔ بعضوں کا ملک کا باغی قرار دینے کی سازشیں رچی، انتہائی قابل احترام شخصیات کو مباہلہ کا چیلنج تک ٹھونک دیا ۔ ازہر ہند دارالعلوم دیوبند  کے نصاب تعلیم اور اکابر پہ انتہائی توہین آمیز رکیک تبصرے اور جملے بازی کی۔

جس مسلم پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے ان کی شناخت ہوئی۔ جس کے اسٹیج سے ان کی شعلہ بیانی عوامی حلقے میں متعارف ہوئی۔جسے وہ خود مسلمانوں کا متحدہ پلیٹ فارم کہتے نہیں تھکتے تھے۔ اچانک اب تیس سال بعد اسے انگریزوں کی تخلیق کہنے لگے ۔۔۔۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد 25 سال تک خاموش رہنے والی شخصیت کو اب پچیس سال بعد بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام اچانک یاد آگیا۔ مشہور مسلم دشمن سادھو ڈبل شری کے ساتھ بابر مسجد کے عوض  مبینہ پانچ ہزار کروڑ روپے کی خفیہ سودا بازی اور کسی سے صلاح مشورہ کئے بغیر  اچانک مسجد کی اراضی کو مندر سے تبادلہ کی کوشش کردی۔ حسب عادت شریفہ میڈیا میں اپنی اس گھنائونے اجتہادی کوشش کو متعارف بھی کروایا۔

علم وفضل، صلاح وتقوی، خاندانی وجاہت وشرافت میں ان سے کافی ممتاز، لائق وفائق بورڈ کے ذمہ داران نے جب  پوری لجاجت وعاجزی، خیر خواہی ودلسوزی کے ساتھ انہیں سمجھانے کی اور ان کے موقف کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تو الٹے ان سے نوک جھونک اور تلخ کلامی پہ اتر آئے۔ ان کی ضد، ہٹ دھرمی اور تلون مزاجی کے باعث سینکڑوں اکابر علماء و مشائخ سمیت مسلمانوں کے متحدہ پلیٹ فارم کی جگ ہنسائی  ہوئی۔ سینکڑوں وہزاروں علماء اور لاکھوں کروڑوں عوام کو سخت ذہنی اذیت وتشویش لاحق ہوئی۔ بھگوائی میڈیا کو مسلمانوں پہ ہنسنے کا ایک نیا چٹپٹا عنوان ہاتھ آگیا۔ بالآخر بورڈ کے چار رکنی کمیٹی جس میں ان کے ماموں جان صدر بورڈ جیسے ولی صفت بزرگ بھی ہیں، نے افہام وتفہیم سے بات حل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جناب  سلمان ندوی  صاحب انہی ذمہ داروں کے خلاف میڈیا اور ٹاک شوز میں آکر رکیک حملے کرکے انھیں ارایس ایس کا ایجنٹ قرار دینے لگے۔ پرسنل لا بورڈ کے متوازی شرعیت اپلیکشن بنانے کا عندیہ  بھی دیدیا۔۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور بات بننے کی بجائے مزید خراب تر ہوتی چلی گئی تو مجبورا انھیں بورڈ سے خارج کرنے کی سفارش کی گئی۔ اور انہیں اتفاق رائے کے ساتھ  بورڈ سے برطرف کردیا گیا۔ بورڈ سے برطرفی کے بعد سلمان صاحب کافی جذباتی نظر آئے۔ دوران درس ان کی آنکھ اشکبار بھی ہوئی۔ رونے کی آواز بھی بنائی۔ رلانے والے کو بددعائیں بھی دیں ۔۔۔۔ لیکن یہ نہ سوچا کہ ان کی سابقہ زبان درازیوں اور حالیہ شرمناک موقف وہٹ دھرمی سے کتنے اصحاب رسول، ائمہ دین ، علماء، دانشوران، زاہد شب زندہ دار، وکلاء سماجی کارکن اور عوام روئے! 

حصارغرور میں محصور، عشق ذات میں گرفتار، خبط عظمت اور عجب نفس کے شکار، جناب سلمان ندوی  صاحب کی تلون مزاجی اور شخصیات مقدسہ کے خلاف توہین آمیز زبان جب کسی طور نہ رکی اور وہ بدستور اپنے خانوادے، اور ادارے کے لیے جگ ہنسائی اور بدنامی کا باعث بنتے ہی رہے تو مرکز علم ودانش دارالعلوم ندوة العلماء کی انتظامیہ نے ان کی ناقابل اصلاح گمراہ کن شرمناک حرکتوں سے اظہار برات کرتے ہوئے انہیں ندوے سے بھی باہر کی راہ دکھادی، اب کیا تھا؟ یہ اور غصہ سے پہٹ پڑے، ارباب ندوہ اور اپنے اساتذہ کو ہی بد دیانت اور خائن ٹھہرانے لگے، اپنے اندر کی بوکھلاہٹ اور پرسنل لا بورڈ اور ندوے سے برطرفی کا نزلہ پھر سے اصحاب رسول پہ اتارنا شروع کردیا، لفظ صحابی کی تحقیق کے پس پردہ مشاجرات صحابہ پر پھر سے لاف زنی شروع کردی، الزامات  واتہامات کی ایسی بوچھاڑ کرنے لگے کہ سننے والا بالکل دم بخود، سربہ گریباں، متحیر، حواس باختہ اور مہر بہ لب ہو بیٹھے کہ خدا یا! اس بندے کو آخر ہو کیا گیا ہے؟ اور مزید یہ کس حد تک جانا چاہتے ہیں؟ 

ان کی طرف سے ہر آئے روز اصحاب رسول پہ بے اعتمادی بلکہ توہین وتنقیص کا سلسلہ جاری ہے. سال گزشتہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے  قابل مذمت بیانات جاری کئے تھے جس کا علمی وتحقیقی رد مختلف علماء نے کتابی شکل میں کیا، عاجز نے بھی "اصحاب رسول" کے نام سے قریب سو صفحات پہ مشتمل ایک تفصیلی مضمون لکھا جو باضابطہ کتابی شکل میں دستیاب ہے. 

آج پھر دوسرے صحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پہ سوالات اٹھا دیئے،  انہیں احادیث چھپانے والے ڈرپوک اور بنوامیہ کا سرکاری مولوی قرار دے ڈالا والعیاذباللہ، عوامی طبقے میں ان کی ایسی ہفوات سے انتہائی غلط تاثر جارہا ہے، لوگ اصحاب رسول سے بدظن ہونا شروع ہوگئے ہیں. لوگوں کو ارتداد کی طرف دھکیلنے میں ان کے بیانات موثر رول ادا کررہے ہیں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی فقاہت، ثقاہت اعتبار واستناد کو مستشرقین کی طرح انہوں  نے کٹہرے میں کھڑا کردیا، جس صحابی نے سب سے زیادہ احادیث کی روایت کی ہو جن کی فقاہت وثقاہت مسلم ہو جب انہیں ہی تشکیک کے دائرے میں لاکھڑا کیا جائے اور انہیں غیرمعتبر ثابت کردینے کی ناپاک استشراقی کوشش کی جائے تو پھر ذرا سوچیئے کہ اور باقی کیا رہ جائے گا؟ 

بلاتفریق، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے صحابہ آسمان ہدایت کے روشن ستارے ہیں. ان کے ہر ہر فرد کی اجتماعی وانفرادی  کردار و اعمال فرزندان توحید کے لئے قیامت تک کے لئے مشعل راہ ہے۔ ان کے عقائد و ایمان، دیانت وتقوی ،صدق واخلاص کی سند خود رب العالمین نے قرآن پاک میں دی ہے، وہ انبیاء کی طرح اگرچہ معصوم تو نہیں تھے؛ لیکن  بر بنائے بشریت اجتہادی واضطراری  جو غلطیاں ان سے ہوئیں، رب کریم نے سب پہ معافی کا قلم پھیرکر علی الاطلاق سب کو اپنی رضا کا پروانہ "رضى الله عنهم" عطا کردیا ۔

برگزیدہ، پاکباز، پاک طینت، وفا شعار وجان نثار یہی وہ جماعت ہے جن کے ذریعہ ہم تک قرآن وسنت اور نبی کریم کی سیرت طیبہ پہنچی، انہی کے ذریعہ اسلام کا تعارف ہوا، انہی  کے سینوں  میں کلام الہی محفوظ ہوکرہم تک  پہنچا، اگر تنقید وتنقیص کے ذریعہ انہیں غیرمعتبر قرار دیدیا گیا تو پھر تو اسلام کی عمارت ہی منہدم ہوجائے گی، نہ قرآن معتبر بچے گا نہ سنت طیبہ پہ اعتبار ووثوق باقی رہے گا! اللہ نے ان کے ایمان کی پختگی، اعمال کے صلاح، اتباع سنت، تقوی وطہارت کی سند دی ہے- 

پھر نبی کریم کی زبانی انہیں چراغ راہ اور نجوم ہدایت قرار دے کر ان کی تعریف و توصیف کی گئی ہے۔ اسی لئے امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ صحابہ خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے! سب کے سب ثقہ،عادل، قابل اعتبار و استناد ہیں، ان کی ثقاہت و عدالت پہ نصوص قطعیہ موجود ہیں، بلا چوں وچرا ان کی ثقاہت کو ماننا ضروری ہے کوئی ایک صحابی بھی فسق سے متصف نہیں ہوسکتا،

ان کے آپسی اختلافات اور بشری خطائوں اور چپقلشوں پہ کف لسان کرنا باجماعت امت واجب وضروری ہے۔ روایت حدیث ہی کی طرح عام معاملات زندگی میں بھی ان کی عدالت کی تفتیش یا ان کی کسی خبر پہ گرفت جائز نہیں۔

ابتدا سے ہی روافض، شیعہ امامیہ اور سبائیوں نے بعض اصحاب رسول کے خلاف اپنے دل کی کالک سے صفحات تاریخ سیاہ کئے ہیں۔ جناب سلمان ندوی صاحب چند سالوں سے جو کچھ کہ رہے ہیں یہ  وہی سب گھسی پٹی بے بنیاد اور  پھسپھسی باتیں  ہیں جو شیعہ صدیوں سے کہتے چلے آئے  ہیں ـ شروع میں علماء نے تحمل سے کام لیتے ہوئے ان کی مذموم حرکات کو ناقابل اعتناء سمجھتے ہوئے اگنور کردیا؛ لیکن عوامی طبقوں میں ان کی  منحرف افکار اور گمراہ نظریات کا بہت خطرناک اثر جارہا ہے، اب مزید خاموش رہنے کا کوئی جواز نہیں بچا۔

سلمان ندوی صاحب باصلاحیت آدمی ہیں، اپنی صلاحیتوں کو مثبت اور تعمیری کام میں لگائیں، خیر کا ذریعہ بنیں، شر وفساد کی کنجی نہ بنیں، اس حدیث نبوی کو سامنے رکھ کر اپنے غلط روش سے تائب ہوجائیں: 

إِنَّ لِلْخَيْرِ خَزَائِنَ مَفَاتِيحُها الرِّجَالُ فَطوبى لِرجلٍ جعلَهُ اللهُ مِفْتَاحًا لِلْخَيْرِ مِغْلاقًا لِلشَّرِّ ووَيْلٌ لِرجلٍ جعلَهُ اللهُ مِفْتَاحًا لِلشَّرِّ مِغْلاقًا لِلْخَيْر۔ (أنس بن مالك وسهل بن سعد. الجامع الصغير للسیوطی: 5608.۔۔۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ خیر خزانے ہیں، اور ان خزانوں کی کنجیاں بھی ہیں، اس بندے کے لیے خوشخبری ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خیر کی کنجی، اور شر کا قفل بنا دیا ہو، اور اس بندے کے لیے ہلاکت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے شر کی کنجی، اور خیر کا قفل بنایا ہو“۔) 

ردو قدح، بحث وتمحیص اور تنقید وتحقیق؛ قوم وملت کے وسیع تر تعمیری مفاد یا اصلاح، اور ارشاد و ہدایت کے جذبے  سے ہو تو یہ بامقصد، دور رس، نتیجہ خیز اور ثمرآور کوشش کہلاتی ہے، جس سے قوم وملت کی فلاح و بہبود متعلق ہوتی ہے۔

علم، حِلم اور عقل تینوں کا معتدلانہ و حقیقت پسندانہ فطری مجموعہ سے معاشرے میں صالح انقلاب وحقیقی تبدیلی آتی ہے۔ حلم وعقل پہ تسلط وغلبہ کے بغیر، نِرا علم یا چرب زبانی نے عوام کے لئے سوائے فتنے اور گمراہی کے کبھی کچھ نہیں دیا ہے۔

جذبات کا شکار ہوکر حلم وعلم کے مقتضیات کو کھو بیٹھنا خشک مزاجوں“ خوش فہموں انا پرستوں“ اور فتنہ انگیزوں“ کا کام ہے۔ اگر سلمان ندوی صاحب نے اپنی روش ترک نہ کی تو اب حضرات علماء وارباب افتاء اجتماعی شکل میں آئیں گے اور قرآن وسنت کی روشنی میں ان کی حقیقت واضح کرکے زمینی سطح پر ان کا کامیاب  تعاقب کریں گے ۔ان شاء اللہ!

شکیل منصور القاسمی

18 محرم 1442 ہجری

https://saagartimes.blogspot.com/2020/09/blog-post_28.html



No comments:

Post a Comment