Monday, 28 September 2020

مسلمان اور تبلیغِ دین سے دوری

مسلمان اور تبلیغِ دین سے دوری

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

معلوم نہیں مسلمانوں کے باشعور طبقہ کو بھی اس بات کا احساس ہے یا نہیں کہ سرزمین ہند میں ان کے خیموں کی طنابیں آہستہ آہستہ اکھڑتی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کا سب سے بڑا خیمہ جسے قلعہ کہنا چاہئے دینی مدارس تھے. اب ان کے بند ہونے کی خبریں آرہی ہیں، یہ اسلامی قلعے آہستہ آہستہ زمیں بوس ہورہے ہیں۔ مسلمانوں کا ایک بڑا خیمہ مسلم پرسنل لابورڈ تھا، کئی سال سے نہ اس کا سالانہ جلسہ ہوا ہے نہ کوئی نیا انتخاب نہ اس کی کارگذاری نہ کوئی نقل وحرکت نہ کوئی بیان نہ کوئی اعلان، کچھ اپنی غلط اندیشی کچھ حکومت کی دشمنی کی وجہ سے چاروں خانے چت۔ حالات کا دباو اتنا سخت ہے کہ نہ کہیں فکر امروز ہے نہ اندیشہ فردا کا سراغ ہے۔ تبلیغی جماعت مسلمانوں کی سب سے بڑی اصلاحی اور تربیتی جماعت تھی، اب نظام الدین میں اس کا دروازہ مقفل اورسارا کام معطل ہوچکا ہے، وہاں سے اب نہ کوئی جماعت جاتی ہے نہ وہاں آتی ہے، جو جماعتیں آئی تھیں ان پر عدالتوں میں مقدمات درج ہیں، حکومت نے جو چارج شیٹ داخل کی ہے اور تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد سے حکومت نے جو منقمانہ سوالات کئے ہیں ویسے سوالات آج تک کسی تنظیم سے نہیں کئے گئے ان سوالات کا جواب آسان نہیں یعنی اب برسوں تک جماعت کے ذمہ دار کو الجھا کر رکھنا ہے اور تبلیغی سرگرمیوں کولا محدود مدت تک بندر کھنا ہے، نظام الدین کی تبلیغی جماعت کی جو متوازی تبلیغی تنظیم ہے جسے شوری گروپ کہا جاتا ہے اس نے بھی خود کوحالات کی وجہ سے تقریبا لاک ڈاون کرلیا ہے۔ دار المصنفین بہت اہم علمی اور تصنیفی ادارہ ہے اس کا سفینہ گرداب میں ہے، ندوہ اور دیوبند کے بارے میں نہ جانے کب کیا خبر آجائے ،مسلمانوں کے سارے ادارے موت اور زیست کی کشمکش سے دوچار ہیں،خوف کا یہ عالم ہے کہ محض استمالت کے لئے اورمحض اظہار وفاداری کے لئے ایک شہر میں عیدین کے امام کے ایک مدرسہ میں مسٹر مودی کے خم ابرو کودیکھ کراور نگاہ خشمگیں سے ڈرکر اور خاطرداری اور خوشنودی کے لئے تھالیاں بجائی گئیں اور دیپک جلائے گئے اور حکومت کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے کے لئے جلسہ کا انعقاد ہوا، اب امت کا سفینہ موج حوادث کی زد میں ہے، خزاں نے مسلمانوںکے ایک ایک چمن پر چھاپہ مارا ہے، خوف ہے کہ مسلمانوں کی دینی تعلیمی ادارے یادگا رونق محفل بن کر رہ جائیں گے جن کا ذکرآئندہ تاریخ کی کتابوں میں ہوگا اور مسلمانوں کی تہذیبی آثار کو دیکھ کر غم وحسرت کے ساتھ، دیدہ گریاں کے سا تھ کوئی شخص اقبال کا یہ شعر پڑھے گا

آگ بجھی ہوی ادھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر

نہ جانے اس مقام سے گذرے ہیںکتنے کارواں

ایسا لگتا ہے مسلمانوں میں نہ کوئی مفکر ہے نہ دانشور، نہ کوئی منصوبہ سازقائد، نہ حالات کا تجزیہ نگار مبصر، اور نہ قرآن وحدیث اور تاریخ کی روشنی میں رہنمائی کرنے والا کوئی عالم دین۔ البتہ اب بھی کچھ لوگ ہیں جو اپنی قامت کی درازی ثابت کرنے کے لئے اپنے نام کے ساتھ القاب کا طرہ پرپیچ وخم لگاتے ہیں، صورت حال یہ ہے کہ دہلی میں سڑکوں کا نام تک بدلا جارہا ہے شہروں کے نام جن سے اسلامیت کی خو اور بو آتی تھی منسوخ کئے جارہے ہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ اورمسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا تاریخی اور اسلامی کردار بھی اب اس دھوپ کی طرح ہے جو آفتاب کے ساتھ جاتی ہے۔ بابری مسجد جس پر اب دیدہ خونابہ بار کے آنسو کبھی نہیں رکیں گے تاریخ کے اوراق کے حوالہ ہے، چار مینار کے شہر میں ایک مینار نما شخصیت ہے مگر وہ کب تک اور اس کی درازیاں کب تک ۔درسگاہ جہاد وشہادت کا ایک تناور درخت تھا جو آخری دم تک تیزوتند ہواوںکا مقابلہ کرتا رہا آخر کار وہ بھی پیوند زمیں ہوگیا، اس کا بیٹا ناصر بن نصیرصید زبوں ہے، اسیر زنداں ہے، جو باپ کے جنازہ میں بھی شریک نہیں ہوسکا۔ عہد حاضر کے سب سے بڑے محدث بلکہ امیر المومنین فی الحدیث مولانا محمد یونس جونپوریؒ کہا کرتے تھے: ’’اس وقت ہندوستان میں مسلمان مکی دور سے زیادہ سخت حالات سے گذر رہے ہیں وہاں مکہ والوں کے پاس حکومت نہیں تھی فوج نہیں تھی، بس قبائل تھے جواپنے بل بوتے پر مخالفت کرتے تھے، یہاں پوری حکومت ہے فوج ہے، سازشیں ہیں منصوبے ہیں، اس لئے بہت احتیاط سے رہنے کی ضرورت ہے.‘‘ (شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جونپوری مرتبہ محمود حسن حسنی ندوی ص ۳۰۵) موجودہ ہندوستان کے بارے میں اقبال کا شعر صادق آتا ہے

دیو استبداد ہے جمہوری قبا میں پایہ کوب

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

واقعہ ہے کہ یہاں گجرات اور دیگر فسادات میں مسلمانوں پر جو گذری وہ مکی زندگی کے مصائب سے زیادہ ہے ۔وہ ہندوستان جس کے چپہ چپہ پر مسلمانوں کی تہذیب وتمدن کی نشانیاں ہیں اس کو ہندو استھان بنا یا جارہا ہے جب مسلمانوں کی عزت اور عظمت کی تمام نشانیاں اس ملک میں مٹادی جائیں گی اور صرف کھنڈرات باقی رہ جائیں گے اور اسپین کی تاریخ دہرائی جائے گی تومستقبل کے سیاحوں کے لئے جو گائیڈ ہوگا وہ تاریخ کا حوالہ دے کر کہے گا

چمن میں تخت پر جس دم شہ گل کا تجمل تھا

ہزاروں بلبلیں تھیں باغ میں اک شور تھا غل تھا

کھلی جب آنکھ نرگس کی نہ تھا جز خار کچھ باقی

سناتا باغباں رورو یہاں غنچہ یہاں گل تھا

مستقبل کی منصوبہ بندی ضروری ہے لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو سمجھیں، اگر ہم اپنی غلطیوں کونہیں جانیں گے توصحیح منصوبہ بندی نہیں کرسکیں گے۔ ہمارے قائدین نے غلطی کو نہیں سمجھا۔ غلطی کو چند لفظوں میں بیان کریں تو ہم کہیں گے کہ اسلام جو ایک دعوتی مشن تھا. اس کی گاڑی پٹری سے اترگئی ہے یہاں کوئی شخص پوچھ سکتا ہے گذشتہ صدیوں میں آخرجو اسلامی خدمات انجام دی گئیں وہ آخرکیا تھیں، ان کا تعلق دعوتی مشن سے کیا نہیں تھا۔ ذیل کی چند سطروں میں علماء دین کی ان خدمات کا ذکر کیا جارہا ہے جو ہماری تاریخ کا جلی عنوان ہیں۔

بلاشبہ ہندوستان مسلمانوں کی دعوتی تجدیدی اور اصلاحی کوششوں کا مرکز رہا ہے ہندوستان کی اسلامی تایخ کے ابتدائی دور میں کاروان اہل دل نے اسلام کی اشاعت کا کام کیا اور ہزاروں اورلاکھوں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوے مسلم سلاطین کی سرپرستی میں یہ ملک مسلمانوں کے لئے گلشن بے خار بن گیا۔ یہ داستان فصل گل راقم سطور نے اپنی کتاب ’’دعوت اسلام، اقوام عالم اور برادران وطن کے درمیان‘‘ میں بڑی خوش دلی اور فرحت وانبساط کے ساتھ بیان کی ہے۔ ہندوستان میں مشائخ روحانی اور علماء ربانی کے ذریعہ اور ان سے پہلے مسلمان تاجروں کے ذریعہ یہ کام انجام پایا۔ ایک عرصہ کے بعد علماء دین نے محسوس کیا کہ ہندوستان کے قدیم مذاہب اور تہذیبوں کے خیالات وعادات بھی مسلمانوں پر اثر انداز ہورہے ہیں اس لئے دعوتی اور تبلیغی کام کا رخ حفاظت دین اور تطہیرعقائد، ردبدعات واصلاح رسوم کی طرف مڑگیا۔ یعنی اب دفاعی نوعیت کے کام کی طرف مسلمان علماء متوجہ ہوگئے۔دعوتی کام یا اقدامی نوعیت کا کام پس پشت چلا گیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک بحیثت مجموعی مسلم علماء اور قائدین کے کام کا رخ یہی رہا ہے، بعد میں سیاسی تحریکیں بھی مسلمانوں میں اٹھیں لیکن برادران وطن کے درمیان دعوتی فکر کا زمانہ واپس ہی نہیں آیا۔ صورت بایں جا رسید کہ دیوی دیوتاوں کی کثرت اور ان کی عبادت اور شرک کے طوفان کو دیکھ کر بھی اہل دین میں وہ بے چینی پیدا نہیں ہوئی جو ہونی چا ہئے اور جو پیغمبروں کو ہوتی تھی اور جس کا ذکر بار بارقرآن میں آیا ہے کہ کیا آپ ان (مشرکوں) کے ایمان نہ لانے سے خود کو ہلاک کرڈالیں گے۔ انسان فورا عملی اقدام نہ کرسکے یہ بات قابل معافی ہے لیکن شرک کی گرم بازاری کو دیکھ کر دل کی بیچینی کا نہ ہونااور صرف مسلمانوں کے درمیان اصلاحی کام پر مطمئن ہوجانا ایمان کے کمزورہوجانے کی علامت ہے، دل کی بیچینی اگر ہوگی تو انسان سوچے گا اور کام کا منصوبہ بنائے گا لیکن شرک کے طوفان اور کفر کے سیلاب کو دیکھ کوئی پریشانی دل کونہ ہو یہ ایمان کی صحت مندی کی علامت نہیں۔

ہندوستان میں مسلمانوں کا ابتدائی دور دعوت وتبلیغ کا دور رہا ہے اس کے بعد مسلمانوں کی تاریخ کے سارے ابواب یا تو سیاست وحکومت کے ابواب ہیں یا علماء کی جانب سے حفاظت دین کے ابواب ہیں، حفاظت دین کے ابواب میں علم حدیث کی ترویج واشاعت اور ان کی تدریس کا کام بھی ہے اور طریقت کو شریعت پر ترجیح دینے کے فلسفہ اور وحدۃ الوجود اور وصول الی اللہ کے غیراسلامی طریقوں کے خلاف جہاد بھی ہے جس کی نمائندگی امام ربانی اور مجدد الف ثانی کرتے ہیں حفاظت دین کے ابواب میں قرآن وحدیث کی تعلیمات کی اشاعت اور قرآن وسنت سے براہ راست واقفیت کی تحریک بھی ہے اوراس باب کا معروف نام اور جلی عنوان حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کا خانوادہ ہے جنہوں نے قرآن مجید کے ترجمے کئے ،صحاح ستہ کے درس کو رواج دیا ۔حفاظت دین کے ابواب میں مشرکانہ عقائد وتہذیب اور بدعات ورسوم کے مقابلہ کی تحریک بھی ہے جس کی نمائندگی سید احمد شہید اور حضرت اسماعیل شہید کرتے ہیں۔ حفاظت دین کے ابواب میں مدارس دینیۃ کا قیام اور علوم دینیہ کی اشاعت کا کام بھی ہے جس کا دور داراالعلوم دیوبند سے شروع ہوتا ہے جس کے بانی مولانا قاسم نانوتوی تھے۔ حفاظت دین کے ابواب میں مسلمان عوام وخواص تک اور شہر ودیہات تک دین کی بنیادی باتیںپہونچانے کی تحریک بھی ہے جس کے قائد مولانا الیاس کاندھلوی تھے، حفاظت دین کے ابواب میں مسلمانوں میں روحانیت پیدا کرنے اور عشق الہی کی چنگاری کو شعلہ بنادینے کا کام بھی ہے جو خانقاہوں نے انجام دیا آخر زمانہ میں یہ کام سیدالطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی کے ذریعہ انجام پایا ء حفاظت دین کے ابواب میں مغربی تہذیب، کمیونزم اور الحاد کے مقابلہ اور مسلمانوں کو احساس کمتری سے بچانے کی تحریک بھی ہے جس کی قیادت علامہ اقبال اور مولانا ابوالاعلی مودودی نے کی۔ حفاظت دین کے ابواب میں اردوزبان میں اعلی درجہ کے اسلامی لٹریچر کی اشاعت کا کام بھی ہے جس کی سربراہی علامہ شبلی اور ان کے شاگردوں نے کی ہے حفاظت دین کے ابواب میں سائنس اور مذہب کی کشمکش میں مذہب کی طاقتور حمایت کا کام بھی ہے یہ کام ڈاکٹر رفیع الدین، مولانا عبدالباری ندوی اور وحیدالدین خان نے بہتر طور پر انجام دیا مسلمانوں کی حفاظت کے ابواب میں مسلمانوں کو عصری تعلیم سے آراستہ کرنے کا کام بھی ہے جسے سرسید احمد خاں اور ان کے رفقاء نے انجام دیا۔ یہ سب ہندوستان کی تاریخ میں ہمارے کاموں کا مختصرطائرانہ منظرنامہ ہے۔ یہ سارے کام مسلمانوں میں دین کی اشاعت کے کام بھی تھے اور دفاعی نوعیت کے کام بھی انہیں کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اس پوری تاریخ میں برادران وطن تک دین توحیدکی اشاعت کے کام کا خلا ہے بہت مختصر طور بات کہی جائے تو اس طرح کہی جاسکتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ بحیثیت مجموعی مشرکین کو دعوت الی اللہ دینے کے بجائے پشتینی مسلمانوںکو رجوع الی اللہ کی دعوت دینے کی تاریخ ہے یا مسلمانوںکو فکری اور نظریاتی حملوں سے بچانے کی تاریخ ہے۔ ابتداء میں مسلمان تاجروں خاص طور پر چشتی سلسلہ کے بزرگان دین نے دعوت دین کا جو شاداب درخت لگایا تھا جو برگ وبار لایا تھا وہ بعد میں خزاں رسیدہ بن گیا اور مسلمانوں کو آج جن حالات سے سابقہ پڑ رہا ہے وہ دعوت کے اسی بنیادی کام کے چھوٹ جانے کی وجہ سے پید ہوے ہیں دعوت کے بنیادی کام سے مراد وہ کام ہے جو پیغمبروں کی کوششوں کا محور رہا ہے ۔ یہ کام بے توجہی کا شکار کیوں ہوا اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان علماء کے سامنے نمونہ حجاز کی سرزمین تھی اور خلافت کی مرکزی حکومت تھی وہاں دعوت کا یہ کام نہیں ہوتا تھا وہاں یہ کام اس لئے نہیں ہوتا تھا کہ وہاں غیر مسلم تھے ہی نہیں جو غیر مسلم چھوٹی سی اقلیت میں تھے وہ ذمی کی حیثیت سے رہتے تھے لیکن جہاں مسلمان ایسی سرزمین میں رہتے ہوں جہاں غالب اکثریت غیر مسلموں کی ہو وہاں نمونہ قرن اول کی مکی زندگی ہے اس زندگی کو مسلمانوں نے نمونہ اسپین سسلی ہندوستان کہیں نہیں بنایا اور کہیں دعوت کا کام نہیں کیا۔ حالات کے رخ کو اگر اپنے فائدہ اور غلبہ کی طرف موڑنا ہے اور پیغمبروں کے اسوہ پر عمل کرنا ہے اور آخری پیغمبر صلى الله عليہ وسلم کی زندگی کو نمونہ بنانا ہے توہمیں دعوت کا نیا محاذ اس ملک میں قائم کرنا ہوگا۔ کہ یہی انبیاء کا اصل محاذ ہے، اس ضروری اور بنیادی کام کی طرف جو تمام انبیاء کرام کا اور پیغمبر آخر الزمان صلى الله عليہ وسلم کا اصل کام رہا ہے سب سے زیادہ توجہ اس دور میں (لٹریچر کی اشاعت کی حد تک) جماعت اسلامی نے کی ہے کہ اس نے ہندوستان کی تمام زبانوں میں قرآن کے ترجمے شائع کئے اور اسلامی لٹریچر تیار کیا۔غیر مسلموں میں کام کے اس خلا کی طرف علماء کو متوجہ کرنا مشکل اس لئے ہے کہ علماء حقیقت پسندی سے زیادہ عقیدت مندی کا مزاج رکھتے ہیں ہر مسئلہ میں وہ اس طرح سوچتے ہیں کہ واقعی یہ کام ضروری ہے تو ہمارے بزرگوں نے کیوں نہیں کیا۔ ہندوستان کے علماء میں اس کام کی ضرورت کا سب سے زیادہ احساس مولانا ابوالحسن علی ندوی کو تھا کہ سیرت کا مطالعہ ان کی زندگی کا اورھنا بچھونا تھا انہیں برادران وطن کے درمیان کام کے خلا کاشدت کے ساتھ احساس تھا اور یہ احساس ہر اس شخص کو ہونا چاہئے جس نے انبیاء کرام کا اورسیرت نبوی کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہو، انبیاء اکرام پر ان کی کتاب النبوۃ والانبیاء فی ضوء القرآن ہے اورسیرت نبوی پر ان کی ایک نہیں متعدد کتابیں عربی اور اردو دونوں زبانوں میں ہیں، اللہ تعالی نے انہیں حکمت نبوی کا خوشہ چیں بھی بنایا تھا انہیں محسوس ہوا کہ قرن اول میں صحابہ کرام اور مشرکین مکہ کے درمیان روابط اور تعلقات موجو دتھے رشتہ داریاں بھی تھیں اور لسان قوم بھی ایک ہی تھی، سب ایک دوسرے کے شناسا تھے، اس لئے دعوت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن ہندوستان میں تعلقات کا یہ سارا پلیٹ فارم جس پر دعوت کی بنیاد رکھنی تھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے اس لئے پہلے اہل وطن کو مانوس کرنے اور اسلام اور مسلمانوں سے ان کی اجنبیت دور کرنے کی ضرورت ہے اس لئے سوچ سمجھ کر انہوں نے پیام انسانیت کے نام سے تحریک شروع کی اور پورے ہندوستان میں شہر بشہر جلسے کئے اور برادران وطن کو خطاب کیا، مولانا عبد الکریم پاریکھ ان کے رفیق اور معاون خاص تھے ۔تصنیف وتالیف کے علاوہ دینی تحریکات کی رہنمائی مولانا کا میدان تھا،مولانا علی میاں کی سرگرمیاں عرب وعجم تک پھیلی ہوئی تھیں، ان سب کے ساتھ ہندوستان برادران وطن سے مسلسل خطاب۔ اس قد وقامت کی کوئی شخصیت برصغیر میں ماضی میں اور حال میں معاصرین میں اور متقدمین میں نہیں ملتی ہے۔

ہجرت حبشہ کے زمانہ میں حضرت جعفر طیار نے نجاشی کے دربار میں دین اسلام کا جو تعارف کروایا تھا اسے غور پڑھئے انہوں نے کہا تھا:

’’اے بادشاہ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے بتوں کو پوجتے تھے مردا رکھاتے تھے بدکاریاں کرتے تھے ہمسایوں کو ستاتے تھے

بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا زبردست زیر دستوں کوکھا جاتے تھے اس اثناء میں ایک شخص ہم میں پیدا ہوا س نے ہم کو سکھایا کہ ہم

پتھروں کو پوجنا چھوڑدیں سچ بولیں خونریزی سے باز آئیں یتیموں کا مال نہ کھائیں ہمسایوں کو آرام دیں ۰۰۰‘‘

یہ ہے دعوت اسلام کی تصویر اور مکی زندگی میں مسلمانوں کے کاموں کی جھلک۔کوئی شخص انصاف سے بتائے کہ کیا ہماری تصویر ہندوستان میں اس تصویر کے مطابق ہے یا ماضی میں اس کے مطابق رہی ہے اور اگر نہیں ہے تو ہم یہ حکم لگانے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام کی گاڑی پٹری سے اترگئی ہے اور صدیوں سے اتر گئی ہے۔ آج بتوں کو پوجنے سے روکنا کتنا مشکل ہوگیا ہے اس لئے کہ جب روکنا اور لوگوں کو سمجھانا آسان تھا اور ہماری حکومت تھی اس وقت ہم نے یہ کام نہیں کیا.

مسلمانوں کی اس ملک میں بہت سی تنظیمیں اور جماعتیں موجود ہیں بہت سے دارالعلوم اور تعلیمی ادارے موجود ہیں اگر ان کی تعداد کئی گنی ہوجائے اور ان کے کاموں کا دائرہ کئی گنا وسیع ہوجائے جب بھی صورت حال میں کوئی نمایاں تبدیلی واقع نہیں ہوگی جب تک کہ اس غلطی درست نہیں کیا جائے جو ہم کئی سو سال سے کرتے آرہے ہیں بحیثت ہم نے دفاعی نوعیت کے کام انجام دئے ہیں ہم نے مسلمانوں کی اصلاح کی تحریکیں اٹھائی ہیں ان کی افادیت اپنی جگہ پر بیسکن یہ وہ مکمل دعوتی کام نہیں ہے جو انبیاء نے انجام دیا۔ برادران وطن کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنے کا کام اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کا کام جو دعوت اسلام کا پہلا زینہ ہے فورا شروع کرنے کی ضرورت ہے یہ کام صرف کسی ایک ادارہ اور تنظیم کے کرنے کا نہیں ہے اورنہ اس کی کوئی ایک متعین شکل ہے اس کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں ’’ہر گلے را رنگ وبوئے دیگرست‘‘ جماعتوں اور تنظیموں کے قائدین سے استدعا ہے کہ وہ اپنے کو عقل کل سمجھنا چھوڑ دیں اور ان کے معتقدوں نے انہیں جس فلک چہارم کی زرکار کرسی پر جلوس افروز کردیا اس سے نیچے اتریں اور ہم جیسے فقیر راہ نشیں اور غم امروز و فردا سے رنجور وحزیں شخص کی بات بھی سن لیا کریں۔ اس وقت برادران وطن کے سماج میں فجاسوا خلال الدیار کے انداز میں ہر دروازہ پر دستک دینے کی ضرورت ہے ہر شخص کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہے اور ہر مسلم نظیم کو اس بات کو حرز جان بنانے کی ضرورت ہے کہ سب کے ساتھ الفت ومحبت سے پیش آنا بلا تفریق مذہب سب کے ساتھ انصاف کرنا اور مخلوق خدا کی نفع رسانی کے لئے سرگردان ہونا اس کی بڑی فضیلت ہے اور اللہ کے نزدیک یہ محبوب عمل ہے۔ مولانا علی میاں نے اگرپیام انسانیت کے نام سے تحریک شروع کی تھی تو خدمت خلق کے عنوان سے دوسری جگہ دوسری تحریک شروع ہوسکتی ہے ۔ مقصد ایک ہے برادران وطن کے دلوںکو جیتنا اور ان کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنا اور روابط کے استحکام کے بعد دین توحید کوان کے دلوں تک پہنچانا ۔ یہ کام مسلم دور حکومت میں آسان تھا اور اب ہندو احیائی تحریکوں کے عروج کے زمانہ میں مشکل ہوگیا ہے ظاہر ہے اس کام کا اجر بھی اب زیادہ ہوگیا ہے لیکن اب بھی تعلقات اور مراسم استوار کئے بغیر یہ کام نہیں انجام پاسکتا ہے، کوششوں کا اتنا فائدہ تو ضرور حاصل ہوگا کہ نفرتیں کم ہوں گی اور اگر روابط مضبوط ہوجائیں گے تو جانے کتنے کیمیاگرداعی ہوںگے جن کی کوششیں رنگ لائیں گی اور جو کسی یار مہرباں کے بارے میں کہیں گے

لائے اس بت کو التجاء کرکے

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے

ضروری ہے کہ یہ دعوتی شعور عام ہو اور مسلمانوں کا ہر مدرسہ چھوٹا ہو یا بڑا ’’لسا ن قوم‘‘ میں مہارت والے علماء تیار کرنے کی کوشش کرے اور غیر مسلموں سے مکالمہ کی اور ان کے درمیان لسان قوم میں تقریروں کی مشق طلبہ کو کرائے۔ برادران وطن کی تہذیب اور مذہب کے مطالعہ کو کورس میں داخل کرے ۔اور صرف

ایسے ہی مدارس کو اہل شعور کا اور بالغ نظر علماء کا مدرسہ سمجھا جائے ۔صحاح ستہ پڑھانے والے علماء اور شیوخ الحدیث کو بھی یہ بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اصل حدیثی خصوصیت جو امت کو ملنی چاہئے وہ پیغمبرانہ دعوتی کردار ہے جو آنحضرت صلى الله عليہ وسلم کی مکی اور مدنی زندگی میںنظر آتا ہے۔لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ۔ جماعت تبلیغ کے بزرگوں کویہ بات دین اسلام کی روشنی میں کہنے کی تھی کہ تبلیغ کے چھ اصول اگرچہ کہ صحیح ہیں لیکن منزل من اللہ نہیں ہیں کہ ان میں معمولی تبدیلی بھی نہ ہوسکے۔ غیرمسلموں کو براہ راست دعوت نہ سہی اگر اکرام مسلم کے اصول کے ساتھ برادران وطن کے ساتھ خدمت خلق اور خدمت انسانیت کی ایک شق کا کا اضافہ کرلیا جاتا تو آج تبلیغی جماعت کی بدولت لاکھوں غیرمسلم مسلمانوں کے قدراں ہوچکے ہوتے اور آج جو افسوسناک معاملہ تبلیغی جماعت کے ساتھ پیش آیا وہ پیش نہ آتا۔ لیکن ہندوستان کے مسلم قائدین نے گویا طے کر رکھا ہے کہ اپنی کسی غلطی کوتسلیم نہیں کریں گے۔ اور غلطی پر غلطی کرتے چلے جائیں گے۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

http://saagartimes.blogspot.com/2020/09/blog-post_92.html?m=1



No comments:

Post a Comment