Sunday, 20 September 2020

خدا کا انتخاب

خدا کا انتخاب 
تاج محل کو دنیا کے تعمیری عجائب میں شمار کیا گیا ہے، جو شاہجہاں کی دَین ہے، جب یہ عمارت بن رہی تھی، تب بھی اس نے ہزاروں مزدوروں، کاریگروں اور ماہرین کو روزگار دیا ہوگا، اور آج بھی ہر سال لاکھوں افراد کے لئے روزگار کا ذریعہ بنتی ہے، کتنے ہی ٹیکسی چلانے والوں، گھوڑا گاڑی ہنکانے والوں، گائڈوں، ہوٹل اور چائے خانے والوں، تاجروں؛ یہاں تک کہ تصویر کشی کرنے والوں کے لئے یہ اچھے خاصے روزگار کا سبب بنتا ہے، یہ عمارت واقعی اتنی حسین اور پرُکشش ہے کہ آنکھیں دیکھتی رہ جاتی ہیں، لگتا ہے کہ موم کے سانچے میں ڈھالی ہوئی کوئی پری پیکر ہے، جو لوگوں کو دعوت نظارہ دے رہی ہے، اس عمارت کی خوبصورتی، اس کے ڈیزائن کی نزاکت، اس کے نقش و نگار کی لطافت، اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھروں کی خصوصیات، اور اس کے گرد و پوش کا ماحول وغیرہ پر مشرق و مغرب کے مصنفین نے خوب لکھا ہے، نثرنگاروں نے گیسوئے جاناں کی طرح قلم سے اس کی تصویر کھینچی ہے اور شعراء نے اپنی قوت تخیل کو اس پر آزمایا ہے۔
اگر آپ تاج محل دیکھ کر آئیں اور اپنے دوستوں اور بچوں سے اس کی تعریف کریں تو سوچیے کہ یہ کس کی تعریف ہے؟ کیا یہ بے جان پتھروں کی تعریف ہے؟ کیا تاج محل کے گونگے ستونوں کی تعریف ہے؟ کیا یہ اس نقش و نگار کی تعریف ہے جو روح سے خالی اور زندگی سے عاری ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں، یہ ان فنکاروں کی تعریف ہے، جنہوں نے اس کا نقشہ بنایا ہے، یہ ان معماروں کی تعریف ہے، جن کے ہاتھوں نے حسن و جمال کی اس لازوال یادگار کو وجود بخشا ہے، یہ ان حکمرانوں کی تعریف ہے، جن کے دماغ میں اس حسین و جمیل تعمیر کا تصور آیا، یعنی تعریف بنانے والے کی ہوتی ہے نہ کہ اس چیز کی جو خود نہ بنی ہو، جس کو دوسروں نے بنایا ہو۔
جو صورت جمادات کی ہے، وہی کیفیت انسان کی ہے، اچھے طالب علم کو دیکھ کر اس کے استاذ کی تعریف کی جاتی ہے، نیک بخت اولاد کو اس کے والدین کی حسن تربیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے، اس پس منظر میں ہمیں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے صحابہ کا منصب اور ان کی حیثیت کو سمجھنا چاہئے، علم و عمل اور اخلاق و کردار کے تاج محل اِن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پیغمبراسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے تراشا ہے، ان میں اخلاق و کردار کی جو خوشبوئے جانفزا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کا عکس ہے، ان کی تعریف درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ہے، اسلام سے پہلے عرب کے معاشرے میں جو برائیاں تھیں، صحابہؓ نے بلا تکلف ان کو بیان کیا ہے، اور اپنی ان کوتاہیوں کو ذکر کرنے میں ذرا بھی بخل سے کام نہیں لیا ہے، جو حضور کے دامن تربیت سے وابستہ ہونے سے پہلے ان کے اندر پائی جاتی تھیں، اورصاف طور پر اس بات کو واضح کردیا ہے کہ ہمارے اندر جو کچھ خوبیاں نظر آتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا عطیہ اور آپ کی نگاہ توجہ کا صدقہ ہے؛ اس لئے صحابہ کی مدح در اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح ہے، اور صحابہ کی تنقیص دراصل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص ہے، جب کوئی شخص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہتا ہے تو گویا وہ دعویٰ کرتا ہے کہ نعوذباللہ حضور کی تربیت ناقص تھی، آپ کی اصلاح کی کوششیں ناکام رہیں، جن لوگوں پر آپ نے 23 سال محنت کی، شب و روز ان کی تربیت فرمائی، صبح و شام آپ ان کو سمجھاتے رہے، اور زندگی کے ایک ایک مسئلہ میں آپ نے ان کی رہنمائی فرمائی، ان کا حال یہ ہوا کہ ِادھر آپ دنیا سے رخصت ہوئے اور اُدھر اُن سبھوں نے اللہ اور اس کے رسول سے موڑ لیا، انہوں نے آپ کے محبوب کے ساتھ بدترین عداوت کا مظاہرہ کیا، انہوں نے خود آپ کی اولاد کے ساتھ ظلم و جور کا یہ رویہ اختیار کیا، انہوں نے دین کے بنیادی تصور ہی کو پلٹ ڈالا۔
سوچئے اور بار بار سوچئے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت کی تنقیص ہے یا تعریف؟ یہ نعوذباللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ناکام مصلح اور نامراد داعی ثابت کرنے کی کتنی عجیب کوشش ہے؟ جو لوگ دولتِ ایمان سے محروم ہیں، وہ بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ سورج کی آنکھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی انقلاب انگیز شخصیت نہیں دیکھا، جس نے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی، تہ در تہ تاریکی کا بستر لپیٹ دیا، اور ان کے طفیل عدل و انصاف کا سورج طلوع ہوا؛ یہاں تک کہ اکیسویں صدی کا ایک مستشرق تاریخ انسانی کی اُن شخصیتوں پر قلم اٹھاتا ہے، جس نے سب سے زیادہ زیادہ انسانیت پر اثر ڈالا ہے، تو وہ پہلے نمبر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی کو رکھتا ہے؛ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے زبان حال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ ایک ناکام مصلح ثابت کرنا چاہتے ہیں، مسلمانوں کے سامنے دونوں راستے کھلے ہوئے ہیں یا تو صحابہ کے بارے میں سلف صالحین اور امت کے مصلحین و مجددین کے اس نقطہ نظر کو قبول کریں، کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت ایمان و عمل، ورع وتقوی، اللہ کی خشیت، رسولؐ اور آل رسولؐ کی محبت کے اعلی مقام پر تھی، جہاں امت کا کوئی اور طبقہ نہیں پہنچ سکتا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے سب سے بہتر لوگ ہمارے زمانہ کے لوگ ہیں "خیر القرون قرنی"، اور اس کے بعد درجہ بدرجہ ان میں زوال آتا جائے گا، قرن عربی لغت کے اعتبار سے ایک صدی کا احاطہ کرتا ہے (المعجم الوسیط:۲/۷۳۱)، اور پہلی صدی ہجری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صدی ہے، آخری صحابی حضرت ابوطفیل عامر بن واثلہ لیثی رضی اللہ عنہ کی وفات 110ھ میں ہوئی (معرفۃ الصحابہ لابی نُعیم: ۵/۲۹۴۳)، ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے سب سے بہترین افراد قرار دیا، یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اس تصویر کو قبول کیا جائے، جس کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی ان کے دل و دماغ بدل گئے، اور چند افراد کو چھوڑ کر سب کے سب کفر ونفاق، ظلم و بربریت اور بد اخلاقی و بداطواری میں مبتلا ہو گئے، کوئی بھی شخص جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہو، اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ان میں سے کونسا تصور ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان ہے، اور جس سے آپ کی عظمت میں اضافہ ہوتا ہے؟ 
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں تاریخی روایات کو پڑھتے ہوئے یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہئے کہ جیسے اسلام سے پہلے آنے والے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی، اور ایسے منافقین پیدا ہوئے، جنہوں نے دین حق کی شکل کو مسخ کردینا چاہا، جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کے نبی سے خدا کا بیٹا بنادیا گیا؛ حالانکہ تورات میں اللہ تعالی کے ساتھ شرک کو بہت ہی سخت مثالوں کے ذریعے سمجھایا گیا ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ایسے لوگ پیدا ہوئے، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو بگاڑنا چاہا، قرآن مجید کے الفاظ میں تو وہ کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے تھے؛ اس لئے کہ اس کی حفاظت اللہ تعالی نے اپنے ذمے لی ہے؛ لیکن انہوں نے دین کو بے اعتبار کرنے کے لئے تین راستے اختیار کئے: 
ایک یہ ہے کہ ایسی روایتیں وضع کی جائیں، اور آپ کی طرف ان کی نسبت کی جائے، جو عقل، واقعات اور مشاہدات کے خلاف ہوں؛ تاکہ جو لوگ اسے پڑھیں، وہ دین کا مذاق اڑائیں، اور انہیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھٹھا کرنے کا موقع مل جائے.
دوسرے: قرآن مجید کی تفسیر میں ایسی باتیں شامل کردی جائیں کہ اہل دانش کی نظر میں قرآن ایک غیرمعتبر کتاب اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک بے اعتبار شخصیت قرار پائیں؛ کیوں کہ جب پیغمبر اور ان کی لائی ہوئی کتاب پر سے اعتماد اٹھ جائے، تو پھر اس قوم کو ہدایت کے راستے سے ہٹا دینا چنداں دشوار نہیں ہوگا؛ چنانچہ تفسیر میں ایسی باتیں موجود ہیں، ام المومنین حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے سلسلے میں بعض روایتیں اس کی واضح مثال ہیں، اور یہی مستشرقین کے پروپیگنڈوں کا سرمایہ ہے۔
تیسرا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقائے عالی مقام کو متہم اور بے وزن کیا جائے، انہیں ظالم و غاصب ثابت کیا جائے، اور عام دنیادار لوگوں کی زندگی جس انداز کی ہوتی ہے، ان کو اس سے بھی بدتر ثابت کرنے کی کوشش کی جائے؛ کیوں کہ احکامِ دین کا سب سے بڑا ذخیرہ حدیث ہے، قرآن میں اصولی احکام اور دین کے مبادی کو بیان کیا گیا ہے؛ لیکن عقائد اور عبادات سے لے کر خاندانی زندگی، مالی معاملات اور اجتماعی نظام سے متعلق قوانین ہمیں حدیث ہی میں ملتے ہیں، لہذا اگر حدیث کو بے اعتبار کردیا جائے، تو دین کی صورت کو مسخ کرنا اور خود قرآن مجید میں معنوی تحریف کا راستہ کھولنا مشکل باقی نہیں رہے گا، اب اگر اس مقصد کے لیے یہ دعوی کیا جاتا کہ نعوذ با اللہ آپ نے دروغ گوئی سے کام لیا تو کوئی مسلمان ہرگز اس پر توجہ نہیں دیتا؛ بلکہ عجب نہیں کہ غیرت مند مسلمان اس کی زبان ہی حلق سے کھینچ لیتے؛ اس لئے بہت سوچ سمجھ کر یہ راستہ اختیار کیا گیا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بے اعتبار کیا جائے؛ کیوں کہ قرآن ہو یا حدیث، اسلام کے یہ دنوں بنیادی مصادر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کے واسطے سے ہم تک پہنچے ہیں؛ اگر صحابہ غیرمعتبر قرار پائیں تو احکام شریعت کے ان دونوں بنیادی مصادر کی اہمیت خود بخود کم ہوجائے گی، اسی لئے خاص طور پر سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جن سے احادیث کی سب سے بڑی تعداد یعنی پانچ ہزار سے زیادہ منقول ہیں، انہیں خاص طور پر نشانہ بنایا گیا، اور مستشرقین نے صحابہ میں سب سے زیادہ انہیں کے خلاف لکھا، عہدصحابہ کے بعد دوسری نسل میں سب سے بڑے راوی ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ ہیں، ان کو بھی ناقابل اعتماد ٹھہرانے کی کوشش کی گئی؛ یہاں تک کہ اسلام سے بغض رکھنے والے مصنفین نے ان دونوں پر مستقل کتابیں تصنیف کیں، غرض کہ صحابہؓ کی تنقیص بالواسطہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص اور قرآن و حدیث کو مشکوک بنانے کی کوشش ہیں۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو نبوت ختم ہوچکی ہے؛ لیکن جب نبوت باقی تھی، تب بھی کوئی شخص عبادت و ریاضت اور محنت و کوشش کے ذریعہ مقام نبوت تک نہیں پہنچ سکتا تھا، نبوت کے سارے معاملات انتخاب الٰہی پر مبنی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے نبوت کے لئے منتخب فرمایا: 
’’ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء‘‘ (الجمعہ:۴)،
اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ سے متعلق تمام چیزیں انتخاب پر مبنی ہیں، اللہ تعالی نے اپنی حکمت بالغہ سے آپؐ کے معاونین و انصار کا انتخاب فرمایا، مثلا ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما کے سلسلے کو دیکھیں، تو ان میں دو شخصیتیں نمایاں نظر آتی ہیں، ایک: ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا، دوسری؛ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا، مکی زندگی میں حضرت خدیجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں، جن کی جاں نثاری، وفاشعاری اور غمگساری کے علاوہ معاملہ فہمی، آپ سے اٹوٹ محبت نے مکہ کی پُر ابتلاء زندگی میں ظاہری طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دیا، بہت سے مواقع پر مالی وسائل انسان کے لئے تقویت کا باعث بنتے ہیں، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا دولت مند خاتون تھیں، اور انہوں نے اپنا پورا اثاثہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں رکھ دیا، ہوتا تو وہی جو اللہ تعالی کا فیصلہ تھا؛ لیکن ظاہری اسباب کے درجہ میں حضرت خدیجہ کی غمگساری اور حضرت ابو طالب کی پشت پناہی شریکِ حال نہیں ہوتی، تو آپ کے لئے مکہ کی تیرہ سالہ زندگی دشوار تر ہوجاتی؛ اس لئے اس مرحلہ میں آپ کی رفاقت کے لئے اللہ کی طرف سے ان کا انتخاب کیا گیا، مدنی زندگی شریعت اسلامی کی توضیح و تشریح کا دور تھا، اس وقت آپ کے لئے ایک ایسی ذہین و ذکی، علم کی شیدائی اور فہم و رسا کی مالک رفیقئہ حیات کی حاجت تھی، جو آپ کی باتوں کو محفوظ کرسکیں، اس کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھ بھی سکیں اور اس کی تفہیم بھی کرسکیں، اس کے لئے اُس وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی خاتون موزوں نہیں ہوسکتی تھیں، اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ حدیث کا بہت بڑا ذخیرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت سے متعلق زندگی کے بعض احوال و واقعات کے جاننے کا ذریعہ تنہا وہی ہیں، انصار کے اندر خود سپردگی کا بے پناہ جذبہ تھا؛ اس لیے اللہ تعالی نے ان کو اولین مرحلہ میں ایمان کی توفیق عطا فرما دی، اس سے ان کے اندر شکر و امتنان کا جذبہ بڑھ گیا، قریش مکہ کی گردنیں تکبر سے اکڑی ہوئی تھیں؛ اس لیے انہیں بدر و احزاب کی ذلتوں سے گزارا گیا اور فتح مکہ کے ذریعہ جب ان کی گردنیں جھک گئیں، توپھر ان کو ایمان کی توفیق دی گئی؛ تاکہ ان میں یہ احساس نہ پیدا ہو کہ ان کی قیادت اور طاقت کی وجہ سے اسلام کو غلبہ حاصل ہوا ہے۔
اگر اہل مکہ کو اس مرحلے سے گزارا نہ جاتا، تو وہ قلیل التعداد قبیلہ سے تعلق رکھنے والے حضرت ابو بکرؓ و عمرؓ کی خلافت کو شاید ہی قبول کرتے،حضرت عثمان ذوالنورین ؓاور حضرت علی مرتضیؓ کو آپ کے داماد ہونے کا شرف بخشا گیا؛ کیوں کہ رشتہ نکاح محبت کے تعلق کو اور استوار کر دیتا ہے؛ اسی لئے ام المومنین حضرت ا م حبیبہؓ بنت ابو سفیان سے نکاح کے بعد اہل مکہ اور مسلمانوں کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی، یہ دونوں صحابہؓ مکہ کے مضبوط ترین قبائل بنو ہاشم اور بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے، بنو ہاشم تو شروع سے آپ کے معاونین و مددگار رہے؛ لیکن جب بنو امیہ ایمان لے آئے تو اب پورے جزیرۃ العرب میں اسلام کے خلاف کوئی طاقت باقی نہیں رہی، جو اسلام کے مقابلہ میں کھڑی ہو، مکہ کے سرکش مخالفینِ اسلام کو مدینہ کے انصار کے ذریعہ شکست دی گئی، اور یمن کے مرتدین کے فتنہ کو مکہ وطائف کے جنگجو نومسلموں کے ذریعہ دبایا گیا، ابھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا، ۷ھ میں مشرف بہ اسلام ہوئے، (المختصر الکبیرفی سیرۃ الرسول، ص: ۶۵)، ان کو صرف ڈھائی سال کے قریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہوئی؛ لیکن انہوں نے آپ کی باتوں کو سننا اور اسے اپنے ذہن میں محفوظ کرنا شب و روز کا مشغلہ بنالیا تھا، اس کا نتیجہ ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر حضرت عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین، مکہ کے مہاجرین، مدینہ کے انصار، ان سب سے زیادہ روایتیں انہیں سے منقول ہیں، اس کو اللہ تعالی کے غیبی نظام کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ غرض کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری سیرت اللہ تعالی کے ایک بنائے ہوئے منصوبہ کے تابع نظر آتی ہے؛ اس لئے یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ ہی کی طرف سے آپ کی رفاقت کے لئے منتخب کیا گیا؛ پس ان پر اعتراض فیصلہ خداوندی پر اعتراض ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو اختلافات رونما ہوئے، وہ بھی اللہ تعالی کی بے پناہ مصلحت کا حصہ ہے، اللہ کو یہ بات منظور تھی کہ امت آئندہ جن اختلافات سے دوچار ہوگی، اس کے لئے نمونہ عمل موجود رہے، جن آزمائشوں سے پیغمبر کو گزارا جا سکتا تھا، ان سے آپؐ کو گزارا گیا، اور جو آزمائشیں آپؐ کے شایان شان نہیں تھیں، ان سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گزارا گیا، امت کا اختلاف اور آپسی جنگ و جدال نبی کے لئے موزوں نہیں تھے؛ اس لئے صحابہ کو ان احوال سے گزارا گیا، غور کیجئے کہ ایک طرف یہ ورع و تقویٰ ہے کہ جب شراب حرام قرار دی گئی تو جن کے ہاتھوں میں شراب کے جام تھے، وہ جام ہونٹوں تک نہیں پہنچ پائے، اور جن کے ہونٹوں تک شراب پہنچ گئی تھی، انہوں نے حلق تک نہیں پہنچنے دی، دوسری طرف یہ نوبت بھی آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض رفقاء پر شراب پینے کی سزا جاری کی اور بعض کو بار بار پینے کی سزا دی گئی، عہدنبوت کی یہ دو مختلف تصویریں ہمارے سامنے آتی ہیں، شاید اس لئے کہ امت میں جیسے متقی و پرہیزگار شخصیتیں پیدا ہونے والی تھیں، وہیں ایسے لوگ بھی جنم لینے والے تھے، جو اس گناہ سے اپنے آپ کو بچا نہیں پائیں گے؛ اس لئے ضروری تھا کہ جیسے اصحاب تقویٰ اور اہل ورع کے لئے نمونہ موجود ہو، اسی طرح ان لوگوں کے لئے بھی راہ عمل موجود ہو، جن کی زندگی اس معیار پر نہ ہو، اس کے لیے قدرت الہی نے صحابہؓ کا انتخاب کیا، اور ایک طرح سے ان سے قربانی لی گئی؛ تاکہ یہ امت زندگی کے تمام مراحل میں رہنمائی سے محروم نہ ہو؛ اسی لئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ جب امت میں اختلاف پیدا ہو تو ہمارے لیے کون سا طریقہ درست ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا اور میرے صحابہؓ کا طریقہ (ما انا علیہ و اصحابی) (سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۲۶۴۱) یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اسوہ بھی ضروری ہے؛ اگر صحابہؓ سے ہم محبت و یقین کا رشتہ ہی توڑ لیں تو پھر کیسے ہم اس شاہ راہ کو پار کرسکیں گے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے بنائی ہیں۔
فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
ترجمان وسکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
(نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2020/09/blog-post_20.html

َ

No comments:

Post a Comment