Monday, 28 September 2020

آخر اتنا واویلا کیوں؟

آخر اتنا واویلا کیوں؟
———————
سعودی عرب کے رابطہ عالم اسلامی کے ماتحت عالمی مقابلہ سیرت نگاری منعقدہ ربيع الأول سنہ 1396هـ‏ / بمقام پاکستان، میں الرحیق المختوم نامی عربی مقالے کو اوّل نمبر مِلا نہیں؛ بلکہ دلوایا گیا“ تھا۔
ملکی یا بین الاقوامی ایوارڈ وامتیازات اپنے نام کروانے میں اہلیت سے زیادہ تعلقات، سفارشات و شخصی روابط کی کرشمہ سازی ہوتی ہے، عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ قابل اور فائق شخصیات و قلمکار بیٹھی رہ جاتی ہیں اور دوسرے لوگ امتیازات لے اُڑتے ہیں۔
واقفان حال بتاتے ہیں کہ اس مسابقے میں موصول قریب ایک سو ستر 170 مقالہ جات میں سے الرحیق المختوم کو اوّل پوزیشن دلوانے میں سعودی مقتدر حلقوں تک رسائی بلکہ اثر ورسوخ رکھنے والے اس سلفی برادری کا ناقابل انکار رول رہا ہے جس کی مہربانیوں سے ترجمہ شیخ الہند کی طباعت واشاعت پہ قدغن لگائی گئی۔
کسی مقالے کا اوّل پوزیشن کا حصول اس فن میں دستیاب کتابوں میں بھی سب سے لائق وفائق ہوجانے کو مستلزم  نہیں ہے۔ 
ویسے اس امر میں کوئی شک وشبہ یقیناً نہیں ہے کہ عمدہ والبیلی ترتیب، شستہ زبانی، سہل نگاری اور سیرت رسول کو جدید رنگ وآہنگ میں پوری سلیقہ مندی اور کمال ہنرمندی کے ساتھ ایجاز مُخِل اور تطویل مُمِل“ کے بغیر پیش کردینا الرحیق المختوم کی امتیازی خصوصیات ہیں. 
اس پہلو سے یہ کتاب شاہکار ہے اور مصنف کتاب لائق تحسین وقابل داد ہیں 
طرزنگارش اور اسلوب وبیاں کی جدت وحلاوت ہی کا اثر ہے کہ کتاب کو علمی حلقوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی، کتاب ہر مکتب فکر میں شوق کے ہاتھوں لی گئی اور قدر کی نگاہوں سے پڑھی گئی۔
دنیا کی متعدد زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے، بعد میں مؤلف نے اصل کتاب کی تلخیص بھی فرمادی تھی۔
ان تمام خصوصیات کے علی الرغم کتاب کی اصل حیثیت صرف تفصیلی مقالہ و بحث ہی کی ہے؛ اسی لئے سیر ومغازی کی تفصیلی وتحقیقی مباحث کا استیعاب اس میں کیا گیا ہے، نہ ہی کوئی ایسی نادر تحقیقات اس میں پیش کی گئی ہیں جو سیرت کی دیگر کتابوں میں دستیاب نہ ہوں۔
اس کے بالمقابل سیرت کی جن کتابوں کی نشاندہی فتوی میں کی گئی ہے وہ اپنے موضوع پہ تفصیلی بھی ہیں اور وقیع وتحقیقی بھی، ان کتابوں میں سیرت نبوی کا کوئی گوشہ تشنہ محسوس نہیں ہوتا 
جبکہ الرحیق المختوم میں جابجا اس کی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔
ہر گل را بوئے دیگر است 
ہر کتاب کی اپنی خصوصیت ہوتی ہے 
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اگر کسی مخصوص پس منظر اور سیاق وسباق میں رحیق مختوم کے حوالے سے سطحی ہونے کا تبصرہ کیا گیا ہے تو وہ مطلق نہیں؛ بلکہ ایک مخصوص پس منظر میں ہے 
اور وہ بھی مفتی صاحب کی اپنی رائے ہے، ہر صاحب نظر عالم دین ومفتی کو دلائل کی روشنی میں اپنی علمی رائے قائم کرنے کا حق حاصل ہے، ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ کسی کے حق اظہار پہ قدغن لگائیں اور اس کے قلم و زبان سے جبریہ اپنی پسند کی باتیں اگلوائیں۔
میرا خیال ہے عوامی فتوی کے پیش نظر اس دعوی سطحیت کی مثال ودلیل پیش نہ کی گئی ہے، مسافران علم وتحقیق کو پوری اجازت ہے دارالافتاء کے ویب سائیٹ پہ جاکر اس دعوی کی دلیل طلب کریں 
اس سے قبل اس پہ واویلا کرنا، آسمان سر پہ اٹھالینا اور محرر مفتی صاحب کے حوالے سے غیرعلمی وغیرشائستہ ریمارکس دینا یا میڈیا ٹرائل کرنا بالکل ہی غیرمناسب طرزعمل ہے 
انہوں نے اسے نسبۃً سطحی وغیرمعیاری کہا ہے تو یقینا ان کے پاس اس کی بنیاد بھی ہوگی، ان سے رابطہ واستفسار سے قبل کچھ کہنا قرین انصاف نہیں۔ 
ہمارے جو فضلاء صرف سطحی کہے جانے پہ بیجا تپے ہوئے ہیں انہوں نے آخر کیوں غور نہیں کیا؟ کہ ان کرم فرمائوں کی جانب سے ہماری کتاب فیض الباری“ آثار السنن“ اعلاء السنن وغیرہ پہ کیا کچھ نہیں کہا گیا؟
سیر“ اور سوا سیر“ والا یہ دہرا معیار کیوں؟ 
کمپوزنگ کی غلطیوں کو بنیاد بناکر صاحب فتوی پہ تنقیص آمیز جملے کسنا بھی انتہائی تکلیف دہ ہے، کمپوز کرنے والے عام ملازم ہوتے ہیں، کوئی کہنہ مشق و صاحب نظر فقیہ نہیں، کتابت کی ایسی خامیاں باعث استعجاب نہیں ہوتیں!
فقط۔ ابواسامہ الحسنی ۱۰ صفر ۱۴۴۲ ہجری
-------------
ہم میں سے تقریباً سبھی یا بیشتر الرحیق المختوم کو معیاری کتاب محض اس وجہ سے سمجھتے ہیں کہ اس پر سعودی حکومت کی طرف سے معیاریت کا ٹھپہ ہے اور حکومت نے ایوارڈ دیا تھا. جو تھوڑے لوگ اس کتاب کو پڑھے ہوئے ہیں وہ بھی یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ کن بنیادوں اور نمایاں اوصاف کی وجہ سے ایوارڈ دیا گیا ہے. آئندہ جب بھی یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں بنیادوں اور نمایاں اوصاف کی وجہ سے ایوارڈ ملا تو انہی اوصاف تک کتاب کی معیاریت کو محدود رکھنا انصاف کی بات ہوگی. لہذا ابھی جب سبھی مذکورہ بالا چیزوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے کتاب کی اصل حقیقت سے ناواقف ٹھہرے تو اپنی ناواقفیت کی بنیاد پر کتاب کی معیاریت کا دفاع کیسے درست اور معقول ہوسکتا ہے بالخصوص جبکہ مستزاد یہ معلوم ہو کہ ایوارڈ دینے والی حکومت معیاری ترجمہِ قرآن کو غیر معیاری وسطحی قرار دے چکی ہے اور غیر معیاری ترجمے کو معیاری قرار دے چکی ہے اور اس کا ہم مشاہدہ بھی کرچکے ہیں؟
لہذا ہمیں افراط وتفریط سے بچتے ہوئے بنظرِ انصاف کام لینا چاہیے اور محض ایوارڈ کی بنیاد پر اور معیاریت کی بنیادوں کو نہ جاننے کے باوجود اس کتاب کا دفاع نہیں کرنا چاہئے. اور جن مفتی صاحب نے اپنے علم کی بنیاد پر اسے سطحی قرار دیا ہے اور سیرۃ النبی وسیرۃ المصطفی کو recommend کیا ہے ان سے اس کی وجہ معلوم کرنی چاہیے. وجہ معلوم کیئے بغیر جذباتی ہوکر تنقید اور طنز کے تیر چلانا معقول اور مقبول بات نہیں ہوسکتی ہے. سنجیدگی کے ساتھ وجہ کی دریافت پر مشتمل ایک استفتاء دارالعلوم کو بھیجا جاسکتا ہے اور جواب کا انتظار کیا جاسکتا ہے.
(مفتی) عبیداللہ قاسمی 
(نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2020/09/blog-post_39.html

No comments:

Post a Comment