ایک زمینی فرشتہ کی رحلت!
'زندگی' اور 'موت ' کائنات کی اٹل حقیقت ہے، ہر آنے والے کو جانا ہے، یوں تو زندگی پہلے ہے اور موت بعد میں؛ لیکن موت کی حقیقت پر نظر رکھنے کے مقصد سے قرآن نے موت کا تذکرہ حیات سے پیشتر کیا ہے۔ موت ایک ناقابل تسخیر وشکست قوت ہے۔ اس سے پنگا لینے یا راہ فرار اختیار کرنے کی سکت کسی میں بھی نہیں ہے، کیسے کیسے کو اس نے ایسے ویسے کردیا ہے:
اجل نے نہ کسری ہی چھوڑا نہ دارا
اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا
خاک سے بنے جسم خاکی کو یہ خاک میں ملاکر (سوائے انبیاء کے) بے نام ونشان کرکے اسے بھولی بھسری تاریخ بنا ڈالتی ہے:
ملے خاک میں اہل شاں کیسے کیسے
مکیں ہوگئے لامکاں کیسے کیسے
موت کے لئے اللہ نے ایک وقت متعین کردیا ہے، اس سے آگے پیچھے ہونا عزرائیل کے بس میں بھی نہیں، لمحہ بھر کی تقدیم وتاخیر کی گنجائش بھی اس میں متصور نہیں، ہر کوئی اپنے وقت موعود پہ جاتا ہے، آدم سے آج تک اور آج سے قیامت تک یہ سلسلہ یوں ہی رواں ہے اور رہے گا، لاکھوں کروڑوں آئے اور خاک میں پنہاں ہوگئے۔
لیکن انسانوں سے بھری اس دنیا کے تاریخی اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ جو انسان ذاتی مفادات کے لئے نہیں؛ بلکہ ایک اعلی اور بلند ترین مقصد کے لئے جیتا ہے، اسی کے لئے جفاکشی، محنت، ریاضتیں۔ ایثار وخدمات انجام دیتا ہے، سچائی، دین ومذہب کی سربلندی اور دوسروں کی نفع رسانی کی خاطر بے لوث جدو جہد کرتا ہے۔ اس کے لئے اپنی عزیز سے عزیز ترین نعمت کو بھی بے دریغ قربان کرنے سے نہیں ہچکچاتا، تودین ومذہب کے لئے دی جانے والی یہ خدمات، بلند ترین ملی مفادات کے لئے یہ ریاضتیں ایسی فولادی طاقت کا روپ دھارلیتی ہیں کہ موت کا بے رحم پنجہ بھی اسے فنا نہیں کرپاتا ۔ موت جسموں کو بھلے فنا کردے؛ پر اجتماعی مفادات کے لئے جینے والے شخص کی بے لوث خدمات، ایثار، کارنامے، خدمات، محاسن وکمالات اور ریاضتیں کبھی ختم نہیں کرسکتی۔ وہ تاریخ کے صفحات میں اور آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں ہمیشہ زندہ جاوید اور امر رہتی ہیں۔
دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز سپوت، معروف عالم دین، محبوب العلماء، کئی دماغوں کا ایک خاموش انساں، حضرت مولانا معزالدین احمد صاحب قاسمی آج بروز اتوار 24 محرم 1442 ہجری مطابق 13 ستمبر 2020 عیسوی رحلت فرماگئے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون. خدا تعالی ان کی مغفرت کرے اور فردوس بریں میں جگہ عطا فرمائے
مولانا معزالدین احمد صاحب قاسمی (ناظم ادارۃ المباحث الفقہیۃ وامارتِ شرعیہ جمعیت علمائے ہند) یقینا انہی خوش نصیب شخصیات میں تھے جنہوں نے ایک عظیم مقصد کی خاطر زندگی وقف کردی تھی، وہ شخصی مفادات حصولیابیوں کے لئے نہیں؛ بلکہ دین ومذہب کے استحکام وبقاء کے لئے زندہ رہے، ان کی فکر، ایثار، خلوص اورشبانہ روز کی عملی جد وجہد کے نقوش انہیں زندہ رکھیں گے۔ موت ان کی تین دہائیوں سے زائد دورانیے پہ محیط مثالی کارناموں کو مار نہیں سکتی، جن لوگوں نے ممدوح مرحوم کو قریب سے دیکھا اور ان کی شخصیت کو پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ کیسی کیسی خوبیوں اور گوناگوں کمالات کے حامل تھے، پبلسٹی، تشہیر ذات، بالادستی کے خبط، خود نمائی، خود ستائی، خود بینی، دنیاوی عزت، اخباری سرخیوں اور ذکر وتذکرے سے دور، سادہ وضع کے حامل غایت درجہ شفیق ومہرباں، عبقری شخصیت کے مالک انساں تھے۔ تحقیق وجستجو کے رسیا اور کتابوں کا کیڑا تھے۔
خود ایک جیّد ،قابل اور بالغ نظر عالم دین ہونے کے باوجود علمی وتحقیقی ذوق رکھنے والے تمام فضلاء دیوبند سے ربط رکھتے، انہیں نئے و سلگتے مسائل پہ لکھنے کی ترغیب دیتے، حوصلہ بڑھاتے، علمی مواد فراہم کرتے۔ اور متعلقہ کتابیں فراہم کرتے، ممتاز فضلاء کی صلاحیتوں کا وسعت ظرفی کے ساتھ اعتراف کرتے اور انہیں مفید وتعمیری کاموں میں استعمال کرتے۔ جمعیت العلماء کے فقہی سیمیناروں کے سوالات کی ترتیب، ملک کے ممتاز علماء وارباب افتاء سے رابطے، اجلاس کے انتظامات سب کچھ ہی حسن و خوبی کے ساتھ باحسن وجوہ انجام دیتے ۔ ہر پہلو سے وہ میرے اکابر میں تھے، لیکن خورد نوازی کی انتہاء تھی کہ راقم الحروف کو برابر فون کرتے، اہم اور سلگتے مسائل پہ مقالات و مضامین لکھنے کے لئے عاجز سے مشفقانہ ربط فرماتے، سیمینار کے سوالنامہ ارسال فرماتے، میرے بے ربط تحریروں وجوابات پہ کافی ہمت افزائی کرتے ۔ میرے سالوں کے بے تکلف رفیق درس، فاضل نوجواں محترم مفتی سید محمد عفان صاحب منصورپوری زید مجدہ سے برابر اس حقیر کا ذکر خیر کرتے، متعدد نو فاضلین کو میرے بعض مضامین و مقالات پڑھنے کی تاکید کرتے ۔جب بھی راقم سے بات ہوتی ، دہلی آنے پہ ملاقات کی خواہش ظاہر فرماتے، میں ہامی بھی بھر لیتا، اور سوچتا کہ اطمنان سے کسی سفر میں زیارت کرلوں گا، کیا پتہ تھا کہ وہ اتنی جلد چل بسیں گے؟ یہ قلق مجھے ہمیشہ تڑپا ئے گا۔ ابھی لاک ڈائون کے قہر میں جعفر آباد دہلی میں بیگوسرائے بہار کے قریب بیس مزدور پہنسے ہوئے تھے، راشن ختم تھا، باہر پولیس کا جبری پہرہ تھا، ان بے کس مزدوروں کو فاقہ کشی کی نوبت آپہنچی تھی، حضرت الاستاذ مولانا محمد صابر نظامی صاحب القاسمی، جنرل سکریٹری جمعیت علمائے بیگوسرائے کی ہدایت پہ حضرت مولانا معز الدین احمد صاحب سے عاجز نے ربط کیا اور ان پریشان حال مزدوروں تک امدادی اشیاء پہنچانے کی درخواست کی، صبح ہوتے ہی مولانا مرحوم نے جمعیت کی گاڑی سے ان کے روم تک پورے ایک ماہ کا راشن پہنچوادیا، ان کا یہ احسان عظیم بھلا کیسے بھلا پائیں گے؟ انسانوں کی اس آبادی میں مجھے وہ ایک زمینی فرشتہ نظر آتے تھے۔
حدیث، فقہ، اصول فقہ، افتاء و قضاء، سیر وتواریخ، علم فرائض اور دیگر فنون کی سینکڑوں نایاب کتابوں کی پی ڈی ایف فائل اپنے پاس محفوظ کر رکھی تھی اور اپنے با ذوق متعلقین و احباب کو خود ہی عطا فرماتے، خود مجھے سینکڑوں کتابیں بشکل پی ڈی ایف عنایت فرمائی ہیں جو میرے لئے قیمتی سرمایہ ہے۔
ان کی علالت کی خبروں سے ویسے ہی پریشان تھا، آج ان کی رحلت کی جانکاہ والمناک خبر نے پورے وجود کو ہلا کے رکھدیا ہے۔ ایسی، مخلص، بے ضرر وبے نفس مغتنم شخصیات اب کم ہی پیدا ہوتی ہیں ۔انہیں کبھی کسی عہدے کی طلب رہی نہ داد وتحسین کی کوئی پروا! بے لوث ومخلصانہ خدمات نے انہیں حیات جاودانی عطا کردی ہے.
مولانا معزالدین احمد صاحب رحمہ اللہ کی رحلت کا صدمہ صرف ان کے خانوادے یا جمعیت العلماء کا تنہا صدمہ نہیں؛ پورے علماء دیوبند اور ملی تنظیموں کا اجتماعی صدمہ ہے ، وہ صرف جمعیت کا متاع گراں مایہ نہیں؛ بلکہ پورے حلقہ دیوبند کا قیمتی سرمایہ تھے، ان کی وفات حسرت آیات ہم تمام کے لئے بڑا خسارہ ہے، ہم سب ایک دوسرے کی طرف سے تعزیت مسنونہ کے مستحق ہیں ،ان کی رحلت بالخصوص جمعیت علمائے ہند کے لئے عالم اسباب میں بظاہر ناقابل بھرپائی خلاء ہے؛ کیونکہ ان کی وفات سے جمعیت نے اپنا ایک بے لوث ووفاشعار علمی ترجمان اور فکری نمائندہ کھودیا ہے، جس پہ ہم مرحوم کے خانوادہ کے ساتھ جمعیت کے صدر محترم حضرت الاستاذ مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصور پوری مدظلہ اور مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب مدظلہ کو سب سے زیادہ خصوصی تعزیت وتسلی کا مستحق سمجھتے ہیں اور انہیں بطور خاص تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور دعاء کرتے ہیں کہ اللہ تعالی جمعیت العلماء کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، لواحقین کو صبر جمیل اور بچوں کے تکفل کا غیبی نظم فرمائے۔
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے؟
24 محرم 1442 ہجری
https://saagartimes.blogspot.com/2020/09/blog-post_67.html
No comments:
Post a Comment