لڑکا پیدا ہونے پر عقیقہ کی نذر ماننا؟
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ ایک عورت کو تین لڑکیاں پیدا ہوئی. چوتھی مرتبہ حاملہ ہوئی تو دعا کیا کہ اے الله لڑکا پیدا ہوا تو عقیقہ کرونگی عورت غریب ہے دس سال ہوگیا ہے وسعت نہیں ہورہا ہے کیا اس منت کا بدل ہے؟ نیز اگر عقیقہ کرتی ہے تو گوشت کا کیا حکم ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
نذر کی وجہ سے واجب ہوجائے گا، عقیقہ کی نذر منعقد ہونے کی فقہی صراحت تو مجھے نہ ملی، البتہ ”ومن جنسها واجب“ کے پیش نظر اس کے جنس کی قربانی واجب ہے اور خود عقیقہ کرنے پر بچوں کی بیماری سے تحفظ جیسی بشارت بھی حدیث میں آئی ہے جس سے عقیقے کا قربت مقصودہ ہونا مفہوم ہوتا ہے
اس لئے لڑکا پیدا ہونے پر عقیقہ کرنے کو معلق کرنا گویا اس کی نذر ماننا ہے اور میرے خیال ناقص میں یہ نذر منعقد ہوجائے گی. چونکہ ایفائے نذر کی کوئی وقتی تحدید اس نے نہیں کی تھی؛ اس لئے اس کے ذمہ یہ باقی رہے گا، زندگی میں جب بھی مالی وسعت ہو اسے پورا کرے اور ساتویں روز کی ظاہری رعایت کرلے. عام نذر کا حکم زکات کا ہے. یعنی نذر کا مصرف وہی ہے جو زکات کا مصرف ہے. ناذر نہ خود کھاسکتا ہے نہ مالدار لوگ اسے کھاسکتے ہیں. مستحقین زکات میں گوشت تقسیم کرنا ضروری ہوتا ہے. لیکن یہاں یہ عام نذر نہیں ہے؛ بلکہ نذر اضحیہ کی طرح نذر عقیقہ ہے جس کا مقصد محض ذبح حیوان نہیں؛ بلکہ تقرب الی اللہ بھی ہے، لہذا صاحب بدائع کی صراحت کے بموجب اس نذر عقیقہ (نذر اضحیہ) کا گوشت ناذر اور غنی بھی کھاسکتا ہے:
وبه یعلم أن الأصح أن المراد بالواجب مایشمل الفرض و الوا جب الإصطلاحي لاخصوص الفرض فقط (شامي، کتاب الأیمان، مطلب في أحکام النذر، قبیل مطلب النذر غیرالمعلق، مکتبہ زکریا دیوبند 523/5)
وفي فتح القدیر مما ھو طاعة مقصودۃ لنفسها ومن جنسها واجب (ج 4 ص 374)
ومنها أن یکون قربة مقصودة (بدائع الصنائع، کتاب النذر، شروط النذر، مکتبہ زکریا دیوبند 228/3)
إن الدماء أنواع ثلاثة: نوع یجوز لصاحبه أن یاکل منه بالإجماع و نوع لا یجوزله أن یاکل منه بالإجماع و نوع اختلف فيه، فالأول: دم الأضحیة نفلاً کان أو واجباً منذوراً کان أو واجباً مبتدأً، والثانی: دم الإحصار و جزاء الصید … دم النذر بالذبح، والثالث: دم المتعة والقران فعندنا یؤکل و عند الشافعی رحمہ اللہ لا یؤکل (بدائع، کتاب التضحیة، باب یستحب فی الأضحیة أن تکون سمینة، زکریا 223/4، بذل المجھود 566/9)
واللہ اعلم
https://saagartimes.blogspot.com/2020/09/blog-post_7.html
No comments:
Post a Comment