Thursday 24 September 2020

طلاق: عورت ہی کیوں پریشان اور رسوا ہوتی ہے؟

طلاق: عورت ہی کیوں پریشان اور رسوا ہوتی ہے؟

علماء کے ایک بڑے واٹس ایپ گروپ میں یہ سوال کیا گیا کہ جب احکامِ شرعیہ میں معقولیت کا عنصر بھی ضرور ہوتا ہے تو طلاق کے نتیجے میں ہر حال میں آخر عورت ہی کیوں پریشان اور رسوا ہوتی ہے؟ شوہر کیوں نہیں؟ احقر کی طرف سے جواب 👇
طلاق محض چند حروف کے مجموعے کے تلفظ کا نام نہیں ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت ہے. اور وہ حقیقت یہ ہے کہ شوہر اس کے تلفظ کے ذریعے علیحدگی اور نکاح کو ختم کرنے کا اعلان کرتا ہے. علیحدگی/ نکاح کو ختم کرنے/ طلاق دینے کا یہ اختیار اللہ تعالی نے صرف شوہر کو دیا ہے. وجہ اس کی یہ ہے کہ نکاح کے نتیجے میں لذتِ نکاح اور ذہنی آسودگی میں دونوں شریک ہیں مگر اس کے باوجود چونکہ بیوی کے تمام مالی اخراجات، مکان، نان ونفقہ وغیرہ کی اضافی ذمہ داریاں شوہر پر رکھی گئیں ہیں اور اگر بچے ہوتے ہیں تو ان سب کی مالی ذمہ داریاں مکان وغیرہ بھی یکطرفہ طور پر شوہر پر ڈالی گئی ہیں لہذا اس اضافی بار اور ذمہ داری کی وجہ سے طلاق دینے اور علیحدگی کا اختیار صرف شوہر کو دیا گیا ہے، بیوی کو نہیں جو بلاشبہہ ایک معقول بات ہے. اب جب علیحدگی اور طلاق دینے کا اختیار صرف شوہر کو ہے تو ضرورت محسوس ہونے پر جب وہ طلاق دے گا تو ظاہر ہے پڑے گی بیوی پر ہی یعنی شوہر کے گھر اور تمام ذمہ داریوں سے علیحدہ بیوی کو ہی ہونا پڑے گا کیونکہ بیوی کو اپنے گھر میں تمام مالی ذمہ داریوں اور بارِ گراں کے ساتھ شوہر نے ہی رکھا تھا. 
اب اس پر یہ اعتراض کہ اس طلاق اور علیحدگی سے بیوی کی رسوائی ہوئی غیرمعقول بات ہے کیونکہ: 
اولاً: نکاح کے وقت بیوی کو سب کچھ معلوم تھا کہ شوہر پر مجھے گھر، کھانا کپڑا دینے کی ذمہ داریاں ہیں اور اس کے پاس مجھے کسی بھی وقت علیحدہ کرنے اور طلاق دینے کا اختیار ہے مگر اس کے باوجود وہ اس پر راضی رہی اور نکاح کو قبول کیا. اب اگر بعد میں وہی ہوا جس پر وہ پہلے سے راضی تھی تو اس کو شوہر کی طرف سے بیوی کی رسوائی کہنا غیرمعقول بات ہوگی. اگر دو بزنس پارٹنر ہوں جن میں سے ایک کو زیادہ یا ساری مالی ذمہ داریوں کی اضافی حیثیت کی وجہ سے باہمی رضامندی سے یکطرفہ طور پر معاہدہ contract ختم کرنے کا اختیار طے ہوجائے اور پھر وہ کسی وقت معاہدہ ختم کردے تو اسے دنیا کا کوئی بھی شخص غلط کرنے والا اور اپنے پارٹنر کو رسوا کرنے والا ہرگز نہیں کہہ سکتا ہے، خود وہ بھی نہیں کہہ سکتا ہے جو اس کا پارٹنر رہا ہے. طلاق یعنی نکاح کو ختم کرنے کے معاملے میں شوہر اور بیوی کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے لہذا طلاق دینے کی وجہ سے شوہر کو بیوی کو رسوا کرنے والا نہیں کہا جاسکتا ہے. ایسا کہنا انتہائی غیر معقول بات ہوگی.
ثانیاً: چونکہ نکاح میں شوہر لازمی طور پر اپنی بیوی کو ایک خطیر رقمِ مہر پیش کرتا ہے لہذا اگر وہ نکاح کے بعد نکاح کو بذریعہِ طلاق ختم کردیتا ہے تو وہ اپنا ہی بڑا نقصان کرتا ہے. خطیر رقمِ مہر اور مالی ذمہ داریاں اسے نکاح کو ختم کرنے سے روکنے کا ظاہری سبب بنتی ہیں. لہذا اس سے یہ تصور نہیں کیا جاسکتا ہے کہ وہ بلاوجہ طلاق دے کر اپنا بھاری نقصان کرلے.
ثالثاً: طلاق اگر معقول وجہ سے شوہر دیتا ہے تو ظاہر ہے اسے قصوروار ٹھہرانا غلط ہے اور اس صورت میں قصوروار بیوی ہوگی اور قابلِ مذمت بھی وہی، اور اگر طلاق کی وجہ سے اس کی رسوائی ہوئی تو وہ ہونی ہی چاہئے. لیکن شوہر اگر غیر معقول اور بلاوجہ طلاق دیتا ہے تو اس میں یقیناً شوہر سخت قابلِ ملامت ومذمت ہے، بیوی ہرگز قابلِ مذمت نہیں. معاشرے اور سماج کو اس صورت میں رسوا اور ذلیل شوہر کو ہی کرنا اور سمجھنا چاہیے اور ایسی طلاق میں بیوی کی رسوائی اور ذلت سمجھنا الٹی بات ہوگی. لیکن اگر معاشرہ بھی الٹا ہو اور رسوا بہر حال بیوی کو ہی کرے تو ایسا معاشرہ ہی قصوروار ہے اور قابلِ اصلاح ہے. عورت کی رسوائی کی ذمہ داری حکمِ شرعی پر ہرگز نہیں ہوئی. 
رابعاً: اسلام صرف ہندوستان کے لئے نازل نہیں ہوا اور نہ صرف موجودہ زمانے کے لئے نازل ہوا ہے بلکہ دنیا کے تمام اقوام کے لئے اور قیامت تک کے لئے نازل ہوا ہے. لہذا اگر کسی علاقے میں اور کسی زمانے میں معاشرہ غیر اسلامی ہوجائے اور اس کی وجہ سے بعضوں کو احکامِ اسلام کی وجہ سے کچھ پریشانی ہو تو اس کی ذمہ داری اسلام پر ہرگز نہیں ڈالی جاسکتی ہے. ہندوستان میں ہمارا معاشرہ بالخصوص نکاح وطلاق کے معاملے میں اسلامی تعلیمات سے ہٹا ہوا ہے لہذا اس کی وجہ سے بہت ساری پریشانیاں محسوس ہوتی ہیں. مسلمانوں نے یہاں اسلامی ہدایت کے برعکس نکاح کو مشکل بنادیا ہے اور بالخصوص عورتوں کے لئے اور الٹا مالی اخراجات جہیز وغیرہ کی شکل میں عورتوں پر ڈالدیا ہے. لہذا اس غیر اسلامی معاشرے کی وجہ سے اسلامی احکام میں اگر کوئی پریشانی محسوس ہوتی ہے تو اس کا قصوروار غیر اسلامی معاشرہ ہوا جس کا ذمہ دار اسلام نہیں ہے. اسلام کے احکام تو پوری دنیا کے لئے uniform اور یکساں ہیں اور ہمیشہ کے لئے ہیں. 
خامسا: اصولی طور پر تو شوہر جب چاہے بیوی کو طلاق دے سکتا ہے خواہ وجہ معقول ہو یا غیرمعقول کیونکہ اس پر بڑی اضافی ذمہ داریاں ہیں. مگر اسلام نے بلاوجہ طلاق دینے کی سخت حوصلہ شکنی کی ہے، اسے سخت معصیت اور گناہ قرار دیا ہے اور آخرت میں اس کے لئے سخت سزا متعین کی ہے.
خلاصہ یہ ہے کہ شوہر نے اگر طلاق معقول وجہ سے دی ہے تو یہ اس کا حق ہے اور اس طلاق کے نتیجے میں اگر معاشرے میں بیوی کی رسوائی ہوئی تو اس کی ذمہ دار وہ خود ہے. اور اگر شوہر نے غیر معقول اور غیرشرعی وجہ سے طلاق دی ہے تو شوہر گنہگار، اور معاشرے کے ذریعے قابلِ مذمت وملامت اور قابلِ رسوائی ہے. ایسی صورت میں معاشرے کو بیوی کو رسوا وذلیل سمجھنے کی بجائے شوہر کو رسوا وذلیل کرنا اور سمجھنا چاہیے. اگر معاشرہ ایسا نہیں کرتا ہے اور الٹا کرتا ہے تو ایسا معاشرہ قابلِ اصلاح ہے. علماء اور قوم کے باشعور لوگوں کو اصلاح کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور یہی اس کا حل ہے.
بقلم مفتی عبیداللہ قاسمی (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2020/09/blog-post_24.html


No comments:

Post a Comment