Monday 7 September 2020

غیرمسلم کے جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہونا؟

غیرمسلم کے جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہونا؟

-------------------------------
--------------------------------

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ 

مفتی صاحب کیا غیرمسلم کے جنازے کو دیکھ کر کام کاج چھوڑکر کھڑے ہونا یا کچھ قدم جنازے کے پیچھے چلنا کیسا ہے ۔۔۔۔۔؟

قاری محمد ندیم کاندھلوی

الجواب وباللہ التوفیق: 

شروع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی کے جنازہ کے لئے کھڑے ہوگئے تھے:

كنَّا معَ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ إذ مرَّت بنا جَنازةٌ فقامَ لَها، فلمَّا ذَهَبنا لنحمِلَ إذا هيَ جَنازةُ يَهوديٍّ، فقُلنا: يا رسولَ اللَّهِ، إنَّما هيَ جَنازةُ يَهوديٍّ؟ فقالَ: إنَّ الموتَ فزَعٌ، فإذا رأيتُمْ جَنازةً فقوموا۔

عن جابر بن عبدالله.أخرجه البخاري (1311)، ومسلم (960)، وأبوداود (3174) واللفظ له، والنسائي في (السنن الكبرى) (2049)، وأحمد (14427).

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ ایک جنازہ گزرا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے دیکھ کر کھڑے ہوگئے ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھڑے ہوگئے، پھر ہم نے (کندھا دینے گئے تو پتہ چلا  کہ جنازہ مسلمان کا نہیں ہے) عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! یہ ایک یہودی کا جنازہ تھا! (کسی مسلمان کا جنازہ تو تھا نہیں کہ جس کی تعظیم و تکریم کے لیے اٹھا جاتا) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: موت خوف اور گھبراہٹ کی چیز ہے جب تم جنازہ دیکھو تو (اگرچہ وہ جنازہ کافر ہی کا کیوں نہ ہو اٹھ کھڑے ہو۔ عرصہ تک تو آپ کا معمول یہ رہا کہ جب جنازہ دیکھتے تو کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔ لیکن بعد میں یہ صورت رہی کہ آپ جنازہ دیکھ کر اٹھتے نہیں تھے بلکہ بیٹھے ہی رہا کرتے تھے۔ یعنی جنازہ کے لئے اٹھنے کا معمول بعد میں منسوخ ہوگیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:

حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوتے دیکھا چنانچہ ہم بھی کھڑے ہوگئے. جب آپ بیٹھے ہم بیٹھ گئے۔اور حضرت مالک اور حضرت ابوداؤد کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوئے اور اس کے بعد بیٹھے۔

أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ قام في الجنائزِ ثم قعَد بعد۔  عن علي بن أبي طالب.سنن أبي داود: 3175.

جو شخص جنازہ کے ساتھ جانے اور تشییع وتدفین کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اکثر علماء کے نزدیک اس کے لیے جنازہ دیکھ کر اٹھ کر کھڑے رہنا مکروہ ہے۔ ائمہ ثلاثہ کا یہی مذہب ہے۔ جو ساتھ چلنا چاہتا ہو وہ کھڑا ہوسکتا ہے. کافر کی تدفین میں مسلم کی شرکت جائز نہیں ہے. اس لئے اس کے جنازے کے لئے کھڑا نہیں ہونا چاہئے. جنازہ کے لئے (مسلم کا ہو یا کافر کا) کھڑے ہونے کا حکم: 'إذَا رَأَيْتُمُ الجِنَازَةَ، فَقُومُوا' <البخاري 1311> ومسلم <(960>." جمہور علماء کے نزدیک منسوخ ہے یعنی صرف جنازہ کی تعظیم میں کھڑا ہونا مکروہ ہے. جبکہ بعض علماء کھڑا ہونے اور نہ ہونے دونوں کا اختیار دیتے ہیں۔ علامہ نووی لکھتے ہیں:

والقيامُ لِلجِنازةِ على السَّواءِ لِلمَيتِ مُسلِمًا كان أو كافرًا؛ قيل: إنَّه نُسِخَ بأحاديثَ أُخرى لم يَقُمْ فيها النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عِندَما مَرَّتْ به، وقد أخرَجَ مسلمٌ عن عليِّ بنِ أبي طالِبٍ رَضيَ اللهُ عنه أنَّه قال: «رأَيْنا رسولَ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قامَ فقُمْنا، وقعَدَ فقَعَدْنا، يعني: في الجنازةِ»؛ فدَلَّ هذا على أنَّ القِيامَ لِلجَنازةِ كان أوَّلًا، ثمَّ نُسِخَ. وقيلَ: إنَّ المَرءَ مُخيَّرٌ؛ لِمَجيءِ الأمرَيْنِ عن النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، ويُعمَلُ بالدَّليلَيْنِ ما أمْكَنَ، ولا يُقالُ: أحَدُهما مَنسوخٌ.

علامہ ابن الہمام لکھتے ہیں:

القاعد على الطريق إذا مرت به، أو على القبر إذا جيء به: فلا يقوم لها , وقيل يقوم , واختير الأول؛ لما روي عن علي: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرنا بالقيام في الجنازة، ثم جلس بعد ذلك  وأمرنا بالجلوس. بهذا اللفظ لأحمد " انتهى. "فتح القدير" (2/135)

شوافع کی کتاب میں ہے:

"يكره القيام للجنازة إذا مرت به ولم يرد الذهاب معها كما صرح به في "الروضة"، وجرى عليه ابن المقري، خلافا لما جرى عليه المتولي من الاستحباب" انتهى. "مغني المحتاج" (2/20)، والمجموع" (5/241)

حنابلہ کی کتاب میں ہے:

"(وإن جاءت) الجنازة (وهو جالس أو مرت به) وهو جالس (كره قيامه لها) لحديث ابن سيرين قال: مر بجنازة على الحسن بن علي وابن عباس , فقام الحسن ولم يقم ابن عباس، فقال الحسن لابن عباس: أما قام لها النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال ابن عباس: قام ثم قعد . رواه النسائي" انتهى. "كشاف القناع" (2/130)

مسلم جنازہ کی تدفین میں شرکت کی نیت سے کھڑا ہونا، کام کاج چھوڑ کر ساتھ چلنا اور جنازے کو کندھا دینا حقوق میت میں سے ہے اور جائز ہے. مسلم جنازہ کی تعظیم محض کے کھڑا ہونا درست اور بہتر نہیں. کافر جنازہ کو کندھا دینا، مرگھٹ جانا یا اس کے مذہبی امور میں شریک ہونا جائز نہیں ہے، اس کے جنازہ کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا بھی درست نہیں۔

واللہ اعلم 

شکیل منصور القاسمی

https://saagartimes.blogspot.com/2020/09/blog-post_10.html



No comments:

Post a Comment