Thursday 17 September 2020

نماز میں مسنون قرأت کی تحدید سورتوں سے ہے یا مقدار آیات سے؟

نماز میں مسنون قرأت کی تحدید سورتوں سے ہے یا مقدار آیات سے؟

-------------------------------
--------------------------------
حضرت مفتی شکیل منصور القاسمی صاحب دامت برکاتھم العالية! 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

نمازوں میں قرأت کیلئے قرآن کریم سے مقدار مسنونہ کی تعین کی گئیں ہیں، جنکو مفصلات کے نام سے جانتے ہیں، 

*   فجر اور ظہر میں طوال مفصل 

*   عصر اور عشاء میں اوساط مفصل 

*  مغرب میں قصار مفصل 

1۔  سوال: نمازوں میں ان مفصلات کی سورتوں سے ہی قرأت مسنون ہوگی یا پھر ان مفصلات کی سورتوں کے مقدار کے مطابق قرآن کریم کے کسی بھی پارہ یا سورة سے قرأت کرنا  

کیا قرأت مسنونہ ہوجائیگی؟

2 : اگر کوئی شخص قصدا یہ سمجھ کر نمازوں میں مفصلات کی سورتوں سے نہ پڑھ کر اسی مقدار کے مطابق قرآن کریم کے کسی بھی پاروں یا سورہ سے پڑھے تو اس کا یہ عمل خلاف سنت ھو گا یا نہیں؟

نورالایضاح کے حاشیہ میں لکھا ھے: وافاد ان القرأةفی الصلوۃ من غیرالمفصل خلاف السنة

 ﴿بحر و طحطاوی و مراقی﴾ محمد افتخار وصی القاسمی /  بیگوسرائے

الجواب وباللہ التوفیق: 

سورہ فاتحہ کے بعد پورے قرآن کریم میں سے کہیں سے بھی "ماتجوز به الصلوۃ " مقدار پڑھ لے تو کافی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو نماز سکھاتےہوئے ارشاد فرمایا تھا: (ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ) رواه البخاري ( 757) ومسلم (397) ۔

جواز نماز کے لئے سورہ فاتحہ کے بعد کوئی مخصوص و محدود سورہ کی قراءت لازم وضروری ہے نہ اس بابت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت قولیہ مروی ہے ، علامہ زرقانی اور ابن عبد البر رحمہما اللہ  نے اس بابت اجماع امت نقل کرتے ہوئے تحریر فرما یا ہے: 

«وتخفيفه صلى الله عليه وسلم مرة، وربما طول يدل على أن لا توقيت في القراءة بعد الفاتحة، وهذا إجماع» قاله الزرقاني في شرح الموطأ، رقم: 172172). 

وقال ابن عبدالبر: «لا توقيت في القراءة عند العلماء بعد فاتحة الكتاب، وهذا إجماع من علماء المسلمين ويشهد لذلك قوله - عليه السلام - (من أم الناس فليخفف) الاستذكار لابن عبدالبر 426/1)؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت عمومی اور عام معمول مبارک سے  نماز میں پڑھی جانے والی مخصوص  سورتوں کی ترتیب کا پتہ چلتا ہے: 

كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقرَأُ في الفجرِ ما بين السِّتِّينَ إلى المائةِ آيةٍ۔ رواه البخاري (541)، ومسلم (461) واللفظ له.

وعن جابرِ بنِ سمُرةَ رضيَ اللهُ عنه، قال: (كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يُصلِّي الصَّلواتِ كنحوٍ مِن صلاتِكم التي تُصلُّون اليومَ، ولكنَّه كان يُخفِّفُ، كانت صلاتُه أخفَّ من صلاتِكم، وكان يقرَأُ في الفجرِ الواقعةَ ونحوَها من السُّوَرِ۔ رواه أحمد (5/104) (21033)، والطبراني (2/222) (1914)، والبيهقي في (السنن الكبرى) (5284). صحَّحه ابن حجر في (نتائج الأفكار) (1/430)

وعن جابرِ بنِ سمُرةَ رضيَ اللهُ عنه: (أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم كان يقرَأُ في الفجرِ بـ: ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ [ق: 1] ونحوِها، فكانت صلاتُه بعدُ إلى التَّخفيفِ۔ رواه مسلم (458)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عام معمول مبارک سے جن سورتوں کا پڑھنا ثابت ہے  اسی ترتیب سے نماز میں قرآءت کرنا مسنون ہے، اس کے علاوہ پورے قرآن میں ضابطہ فقہیہ کے مطابق ادھر ادھر سے پڑھنا بھی خود سنت رسول وخلفائے راشدین کے عمل سے ہی ثابت  اور جائز ہے ؛ لیکن وہ عام معمول نبوی نہیں تھا ۔

حضور کا اور خلفائے راشدین کا عامۃً معمول یہی تھا کہ وہ فجر وظہر میں طوال مفصل، عصر اور عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب میں قصار مفصل پڑھتے تھے ۔

طوال، اوساط وقصار کی تحدید میں فقہاء کے بارہ کے قریب اقوال ہیں، ہمارے یہاں سورہ "الحجرات"  سے سورہ "البروج"  تک طوال مفصل، سورہ "الطارق" سے سورہ لم "یکن" تک اوساط مفصل اور سورہ "اذا زلزلت"  سے آخر قرآن تک کو قصار  مفصل کہتے ہیں۔

طوال، اوساط اور قصار کی تعریف و تحدید میں گرچہ ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے؛ لیکن اس مسئلے پہ تقریباً سب کا اتفاق ہے کہ نمازوں میں مفصلات کی  ترتیب سے قرآن پڑھنا سنت ہے:

عن سُلَيمانَ بن يسارٍ، عن أبي هُرَيرةَ رضيَ اللهُ عنه، قال: (ما صلَّيْتُ وراءَ أحدٍ أشبَهَ صلاةً برسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم مِن فلانٍ، قال سليمانُ: كان يُطيلُ الرَّكعتينِ الأُوليَيْنِ من الظُّهرِ، ويخفِّفُ الأخيرتينِ، ويُخفِّفُ العصرَ، ويقرَأُ في المغرِبِ بقِصارِ المُفصَّلِ، ويقرَأُ في العِشاءِ بوسَطِ المُفصَّلِ، ويقرَأُ في الصُّبحِ بطِوالِ المُفصَّلِ ۔ رواه النسائي (2/167)، وأحمد (2/300) (7978). صحَّح إسناده النَّووي في (المجموع:  3/383) (اعلاء السنن 4/22-21، باب ما جاء فی القراء ة فی الحضر، رقم الحدیث991)

سلیمان بن یسار حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اور ابوہریرہ   فرماتے ہیں کہ فلاں شخص سے زیادہ حضور کی نماز سے مشابہ ہم نے کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھی، سلیمان بن یسار فرماتے ہیں فلاں شخص (یعنی خلیفہ راشد سیدنا عمر بن عبدالعزيز) ظہر کی پہلی دو رکعتیں لمبی پڑھاتے ہیں اور عصر کی نماز ہلکی (یعنی مختصر) پڑھاتے ہیں اور مغرب میں قصار مفصل، عشاء میں اوساط مفصل اور فجر میں طوال مفصل سے قرأت کرتے ہیں۔) 

علامه ظفر احمد عثمانی اس روایت کی وضاحت  میں لکھتے ہیں:

احتج به أصحابنا علی أن سنة القرأءة أن یقرأ في المغرب بقصار المفصل، وفي العشاء بأوساطه، وفي الفجر بطواله، ووجه الاستدلال في قول أبي هریرة: ”ما صلیت وراء أحد أشبه صلاة برسول اللہ صلی الله علیہ وسلم من هذا“ مع بیان الراوي حال قراءته أنه کان یقرأ في المغرب بقصار المفصل، وفي العشاء بوسطه، وفي الصبح بطواله، وهذا یشعر بمواظبته صلی الله علیہ وسلم علی ذلك․ 

(ہمارے علماء نے اس حدیث سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ مسنون قرأت یہ ہے کہ مغرب میں قصار مفصل، عشاء میں اوساط مفصل اور فجر میں طوال مفصل پڑھی جائے اور طریقہ استدلال یہ ہے کہ راوی نے جب یہ بیان کیا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ مغرب میں قصار مفصل، عشاء میں اوساط مفصل اور فجر میں طوال مفصل پڑھتے ہیں تو ابو ہریرہ نے فرمایا کہ یہ نماز حضور صلی الله علیہ وسلم کی نماز کے زیادہ مشابہ ہے اور حضرت ابوہریرہ کے اس قول سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس ترتیب سے قراء ت کرنا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا معمول تھا۔(اعلاء السنن 4/22-21، باب ما جاء فی القراء ة فی الحضر، رقم الحدیث991)

عن الحسن وغیرہ قال: کتب عمر إلی أبي موسی أن اقرأ في المغرب بقصار المفصل، وفي العشاء بوسط المفصل، وفي الصبح بطوال المفصل․ 

حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ مغرب میں قصارمفصل، عشاء میں اوساط مفصل اور فجر میں طوال مفصل کی قرأت کیا کرو۔ (اعلاء السنن 4/35، باب ما جاء فی القراء ة فی الحضر، رقم الحدیث: 1010)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو اس ترتیب سے نمازوں میں قرأت کرنے کی ہدایت اس لیے فرمائی ہے کہ یہی مستحسن اور سنت طریقہ ہے اور انہوں نے دیکھا تھا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم زیادہ تر انہی سورتوں کی نمازمیں قرأت کیا کرتے تھے۔ (اعلاء السنن 4/43-36) 

متعدد روایات سے پتہ چلتا ہے کہ نماز میں اس ترتیب سے قرآن پڑھنا آپ صلی الله علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کا زیادہ ترمعمول مبارک تھا، احیاناً اس کے خلاف کرنا بھی ثابت ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مغرب میں سورہ الأعراف  سے (رواه البخاري (764)، اور فجر میں سورة المؤمنون سے (رواه مسلم (455) اور ظهر میں سورة لقمان سے (المجموع (3/345) پڑھنا بھی ثابت ہے؛ لیکن یہ عام معمول نہیں تھا۔ ان روایات حدیث کے پیش نظر ہمارا مذہب یہ ہے کہ حالت حضر واقامت کے معتدل و مطمئن احوال میں امام و منفرد کے لئے اسی ترتیب سے قرآن پڑھنا مسنون ہے بشرطیکہ یہ مسنون قراءت مقتدی پر گراں نہ گزرے، شامی میں ہے:

ویسن (في الحضر) لإمام ومنفرد، ذکرہ الحلبي - والناس عنہ غافلون - (طوال المفصل) من الحجرات إلی آخر البروج (في الفجر والظهر، و) منها إلی آخر لم یکن، (أوساطه في العصر والعشاء و) باقيه  (قصارہ في المغرب) أي کل رکعة سورة مما ذکر (شامی 2/261-259، باب صفة الصلاة، فصل فی القراء ة)

حضر میں امام او رمنفرد کے لیے فجر اور ظہر کی نماز میں طوال مفصل، یعنی سورہ حجرات سے سورہ بروج تک قرأت کرنا مسنون ہے، حلبی نے اسے بیان کیا ہے اور لوگ اس کی طرف سے غفلت میں ہیں اور عصر اور عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب میں قصار مفصل مسنون ہے، یعنی ہر رکعت میں ان سورتوں میں سے کوئی ایک سورت پڑھی جائے۔ 

الأصل للشيباني (162/1)، البحرالرائق (361 ،360/1)، المبسوط (162/1)، بدائع الصنائع (205/1)، تحفة الفقهاء (130/1، 131)، الهداية شرح البداية (55/1)، العناية  شرح الهداية (334/1)، المحيط البرهاني (300/1، 301)، حاشية ابن عابدين (540/1). 

بعض کتابوں میں قرأت مفصلات  کو مستحب لکھا گیا ہے؛ مگر علامہ حلبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں استحباب سے سنت مراد ہے: على أن المراد من الاستحباب هنا السنية، على ماصرح به في أكثر الكتب. (غنية المتملی: 33/1) 

یہ تفصیلات تو سورتوں کے لحاظ سے مسنون قرأت کی  ہوگئی. لیکن اگر کوئی شخص مفصلات سے ہٹ کر ابتداء قرآن سے بالترتیب نماز میں قرأت کرنا چاہے اور اس میں مفصلات کی طوالت یا اتنی آیات کی مقدار کا لحاظ کرکے پڑھے تو کیا یہ مسنون ہوگا یا خلاف مسنون؟ یعنی قراءت مسنونہ مفصلات کی تلاوت کے ساتھ ہی مخصوص ہے یا اس مقدار میں ادھر ادھر سے تلاوت کرنے سے بھی سنیت قراءت ادا ہوجائے گی؟ تو اس بابت فقہ حنفی میں متضاد روایتیں آئی ہیں، شامی نے قدرے تفصیل کے ساتھ اس پہ بحث کی ہے جسے ہم نیچے کے سطور میں نقل کریں گے؛ لیکن ملتقی الابحر اور بحر وغیرہ کی صراحت سے پتہ چلتا ہے کہ قراءت مسنونہ آیتوں کی متعین و مخصوص تعداد (نیچے آرہی ہے) کے ساتھ ہی  خاص ہے، اصل اور ظاہر روایت یہی ہے، مفصلات سے پڑھنا ظاہر روایت نہیں ؛ بلکہ مشایخ حنفیہ نے اسے بطور استحسان ثابت کیا ہے: 

وسنتها ... في الحضر أربعون آية، أو خمسون، واستحسنوا طوال المفصل فيها» ( ملتقى الأبحر (ص: 158، 159)

علامہ ابن نجیم مصری تحریر فرماتے ہیں: 

 «وأفاد أن القراءة في الصلاة من غير المفصل خلاف السنة، ولهذا قال في المحيط، وفي الفتاوى: قراءة القرآن على التأليف في الصلاة لا بأس بها؛ لأن أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم كانوا يقرؤون القرآن على التأليف في الصلاة، ومشايخنااستحسنوا قراءة المفصل ليستمع القوم ويتعلموا اهـ».ابن نجيم في البحر الرائق (360/1) ، الجوهرة النيرة (58/1)

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

واستحسنوا في الحضر طوال المفصل في الفجر، والظهر، وأوساطه في العصر، والعشاء، وقصارہ في المغرب، کذا في الوقایة، (ہندیہ، کتاب الصلاۃ، باب في صفۃ الصلاۃ،الفصل الرابع في القراء ۃ ۱/۷۷)

اس صراحت سے واضح ہے کہ اگر کوئی شخص ان سورتوں کے علاوہ انہی کی آیتوں کے مقدار میں دیگر مقامات سے آیات پڑھنا چاہے تو اس کے لئے سنت یہ ہے کہ نماز فجر کی دونوں رکعتوں میں الحمد کے علاوہ چالیس یا پچاس آیتیں پڑھے اور ایک روایت کے مطابق ساٹھ سے سو تک پڑھے، ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں بھی فجر کے مثل یا اس سے کم پڑھے، عصر اور عشا کی پہلی دو رکعت میں الحمد کے سوا پندرہ یا بیس آیتیں اور مغرب میں پہلی دو رکعتوں میں سے ہر رکعت میں پانچ آیتیں یا کوئی چھوٹی سورت پڑھے، یہ آیتوں کی مقدار کے لحاظ سے قرأت مسنونہ ہوگی (زبدۃ الفقہ، حصہ سوم، قرات کا بیان) 

ہم ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ نماز میں مسنون قرأت کی دو سنت ہوئی: ایک سنت بہ لحاظ سورت: وہ طوال، اوساط اور قصار مفصل کی قرأت ہے۔ جبکہ دوسری سنت بہ لحاظ آیت: 

یعنی فجر وظہر میں چالیس تا سو، (حسب موقع و بشاشت) عصر و عشاء میں پندرہ تا بیس، اور مغرب کی دونوں رکعتوں میں پانچ پانچ کرکے دس آیات! یہ دونوں مستقل سنتیں ہیں، اور جیساکہ اوپر واضح کیا گیا اصل سنت متعینہ آیات کی تلاوت ہے، صحیحین کی روایت میں تحدید بالآیہ ہی  ہے: 

كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقرَأُ في الفجرِ ما بين السِّتِّينَ إلى المائةِ آيةٍ۔ رواه البخاري (541)، ومسلم (461) واللفظ له.

 اتنی مقدار چاہے جہاں سے بھی پڑھے،  یا تو مفصلات سے  پڑھ لے یا مفصلات کے علاوہ دیگر مقامات سے پڑھنا چاہے تو مفصلات کی آیات کے بقدر مذکورہ مقدار آیات پڑھ لے، یہ دونوں طریقے سنت ہیں لیکن مفصلات کا اختیار کرنا مسنون میں بھی مستحسن ہے کیونکہ یہ عام معمول نبوی تھا، علامہ شامی نے اس پہ تفصیلی بحث کی ہے، ملاحظہ ہو:

الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) (1/ 540): 

(طوال المفصل) من الحجرات إلى آخر البروج (في الفجر والظهر، و) منها إلى آخر – لم يكن – (أوساطه في العصر والعشاء، و) باقية (قصاره في المغرب)

(قوله أي في كل ركعة سورة مما ذكر) أي من الطوال والأوساط والقصار، ومقتضاه أنه لا نظر إلى مقدار معين من حيث عدد الآيات مع أنه ذكر في النهر أن القراءة من المفصل سنة والمقدار المعين سنة أخرى. ثم قال: وفي الجامع الصغير: يقرأ في الفجر في الركعتين سورة الفاتحة وقدر أربعين أو خمسين واقتصر في الأصل على الأربعين وفي المجرد: ما بين الستين إلى المائة، والكل ثابت من فعله – عليه الصلاة والسلام – ويقرأ في العصر والعشاء خمسة عشر في الركعتين في ظاهر الرواية، كذا في شرح الجامع لقاضي خان، وجزم به في الخلاصة. وفي المحيط وغيره يقرأ عشرين وفي المغرب آيات في كل ركعة.

الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) (1/ 541): 

(قوله واختار في البدائع عدم التقدير إلخ) وعمل الناس اليوم على ما اختاره في البدائع رملي. والظاهر أن المراد عدم التقدير بمقدار معين لكل أحد وفي كل وقت، كما يفيده تمام العبارة، بل تارة يقتصر على أدنى ما ورد كأقصر سورة من طوال المفصل في الفجر، أو أقصر سورة من قصاره عند ضيق وقت أو نحوه من الأعذار، «لأنه – صلى الله عليه وسلم – قرأ في الفجر بالمعوذتين لما سمع بكاء صبي خشية أن يشق على أمه» وتارة يقرأ أكثر ما ورد إذا لم يمل القوم، فليس المراد إلغاء الوارد ولو بلا عذر، ولذا قال في البحر عن البدائع: والجملة فيه أنه ينبغي للإمام أن يقرأ مقدار ما يخف على القوم ولا يثقل عليهم بعد أن يكون على التمام، وهكذا في الخلاصة۔

قوله (إلى آخر البروج) عزاه في الخزائن إلى شرح الكنز للشيخ باكير وقال بعده وفي النهر لا يخفى دخول الغاية في المغيا هنا ا ه.

فالبروج من الطوال وهو مفاد عبارة الهدية المذكورة آنفا لكن مفاد ما نقلناه بعدها عن شرح المنية وشرح المجمع أنها من الأوساط ونقله في الشرنبلالية عن الكافي بل نقل القهستاني عن الكافي خروج الغاية الأولى والثانية وعليه فسورة لم يكن من القصار وتوقف في ذلك كله صاحب الحلية وقال العبارة لا تفيد ذلك بل يحتاج إلى ثبت في ذلك من خارج والله أعلم أي لأن الغاية تحتمل الدخول والخروج فافهم.

قوله (في الفجر والظهر) قال في النهر هذا مخالف لما في منية المصلي من أن الظهر كالعصر لكن الأكثر على ما عليه المصنف ا ه.

قوله (وباقيه) أي باقي المفصل.

قوله (أي في كل ركعة سورة مما ذكر) أي من الطوال والأوساط والقصار ومقتضاه أنه لا نظر إلى مقدار معين من حيث عدد الآيات مع أنه ذكر في النهر أن القراءة من المفصل سنة والمقدار المعين سنة أخرى.

ثم قال وفي الجامع الصغير يقرأ في الفجر في الركعتين سورة الفاتحة وقدر أربعين أو خمسين واقتصر في الأصل على الأربعين.

وفي المجرد ما بين الستين إلى المائة والكل ثابت من فعله عليه الصلاة والسلام ويقرأ في العصر والعشاء خمسة عشر في الركعتين في ظاهر الرواية كذا في شرح الجامع لقاضيخان وجزم به في الخلاصة.

وفي المحيط وغيره يقرأ عشرين وفي المغرب خمس آيات في كل ركعة ا ه .

أقول كون المقروء من سورالمفصل على الوجه الذي ذكره المصنف هو المذكور في المتون كالقدوري والكنز والمجمع والوقاية والنقاية وغيرها وحصر المقروء بعدد على ما ذكره في النهر والبحر مما علمته مخالف لما في المتون من بعض الوجوه .

كما نبه عليه في الحلية فإنه لو قرأ في الفجر أو الظهر سورتين من طوال المفصل تزيدان على مائة آية كالرحمن والواقعة أو قرأ في العصر أو العشاء سورتين من أوساط المفصل تزيدان على عشرين أو ثلاثين آية كالغاشية والفجر يكون ذلك موافقا للسنة على ما في المتون لا على الرواية الثانية ولا تحصل الموافقة بين الروايتين إلا إذا كانت السورتان موافقة للعدد المذكور ويلزم على ما مر عن النهر من أن المقدار المعين سنة أخرى أن تكون قراءة السورتين الزائدتين على ذلك المقدار خارجة عن السنة إلا أن يقتصر من كل سورة منهما على ذلك المقدار مع أنهم صرحوا بأن الأفضل في كل ركعة الفاتحة وسورة تامة.

فالذي ينبغي المصير إليه أنهما روايتان متخالفتان اختار أصحاب المتون إحداهما ويؤيده أنه في متن الملتقى ذكر أولا أن السنة في الفجر حضرا أربعون آية أو ستون ثم قال واستحسنوا طوال المفصل فيها وفي الظهر إلخ .

فذكر أن الثاني استحسان فيترجح على الرواية الأولى لتأيده بالأثر الوارد عن عمر رضي الله عنه أنه كتب إلى أبي موسى الأشعري أن اقرأ في الفجر والظهر بطوال المفصل وفي العصر والعشاء بأوساط المفصل وفي المغرب بقصار المفصل .

قال في الكافي وهو كالمروي عن النبي لأن المقادير لا تعرف إلا سماعاً آہ.

الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) (1/ 540)

اطمنان کے احوال میں بھی مفصل یا آیات مسنونہ کے خلاف پڑھنا وہ بھی بطور دوام؛ عام معمول نبوی کے خلاف (خلاف السنة) ہونے کی وجہ سے خلاف اولی وافضل، یعنی مکروہ تنزیہی ہے، بحر میں ہے: 

وأفاد أن القراءة في الصلوة من غيرالمفصل خلاف السنة .(البحرالرائق 594/1)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے: مسنون یہی ہے کہ ان سورتوں کو پڑھا جائے، کبھی کبھی ان سورتوں کے علاوہ دوسری سورتوں کا پڑھنا بھی ثابت ہے؛ مگر عامة ً انہی سورتوں کو پڑھنا چاہیے۔

دوسری جگہ ہے: عادةً ایسا کرنا (یعنی حدیث میں موجود ترتیب کے ساتھ نمازوں میں قرأت نہ کرنا اور ادھر اُدھر سے پڑھنا) خلاف افضل کو اختیار کرنا ہے، توجہ دلانا چاہیے۔ (فتاوی محمودیہ 7/78-76، ادارہ الفاروق کراچی)

جن فقہی کتابوں میں خلافِ مفصل (ادھر ادھر سے) پڑھنے کو خلاف سنت کہا گیا ہے اس سے مراد عام معمول نبوی کے خلاف کرنا ہے، واگرنہ ضرورتوں کے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم اور خلفائے راشدین سے کبھی کبھار ایسا کرنا بھی سنت ہی سے ثابت ہے، ہاں اسکی عادت بنالینا حضورصلی الله علیہ وسلم کے معمول کے خلاف ہونے کی وجہ سے خلاف اولی و افضل ہے۔

واللہ اعلم بالصواب 

شکیل منصور القاسمی

https://saagartimes.blogspot.com/2020/09/blog-post_17.html



No comments:

Post a Comment