Monday 8 February 2016

جماعت ثانیہ

مسجد میں ایک بار جماعت ہوجانے کے بعد جماعت ثانیہ کرنا بہتر ہے یا اکیلے اکیلے پڑھنا بہتر ہے؟
اس میں ظاہر الروایہ کیا ہے؟ ؟

کیا دور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اس کی نظیر ملتی ہے؟ ؟

صلوٰۃ المعادات (لوٹائی جانے والی نماز) میں کوئی شخص (جس کی نماز باقی ہو) شریک ہو سکتا ہے؟
صلوۃ المعادات کسی ترک فرض کی وجہ سے ہو یا ترک واجب کی وجہ سے ہو..دونوں کا حکم مع قول راجح مطلوب ہے ....

اس مسئلہ پر سیر حاصل بے غبار  مع الدلائل بحث فرمائیں....

الجواب وباالله التوفيق.

جس مسجد میں ہمیشہ پابندی کیساتھ پانچ وقت کی نماز با جماعت ہوتی ہو. وہاں پر ایک مرتبہ محلہ کے لوگوں نے باجماعت نماز پڑھ لی تو اس کے بعد مسجد کے کسی بھی حصے میں خواہ صحن مسجد ہی کیوں نہ ہو جماعت ثانیہ مکروہ تحریمی ہے.جماعت کے بعد آنے والے لوگوں کو تنہا تنہا نماز پڑھنی چاہئے.ایک مرتبہ آپ صل اللہ علیہ وسلم انصار میں صلح کروانے کیلئے تشریف لے گئے.صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے جماعت کیساتھ نماز ادا کرلی تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرہ مبارک میں تشریف لے جا کر لوگوں کو جمع کر کے گھر میں با جماعت نماز ادا کی.اگر مسجد میں جماعت ثانیہ مکروہ نہ ہوتی تو آپ صل اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں با جماعت ادا کرتے.
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ  صحابہ کرام کی جب جماعت چھوٹ جاتی تو مسجد میں تنہا تنہا نماز ادا کرتے.نیز جماعت ثانیہ کا مکروہ ہونا اس وجہ سے بھی ہے کہ اگر جماعت ثانیہ کی جائے تو پہلی جماعت میں لوگ کم ہو جایئں گے.اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا مقصد ختم ہو جائیگا.جب لوگوں کو جماعت کے چھوٹ جانے کا خوف رہے گا پہلی جماعت میں شریک  ہونے میں جلدی کریں گے.

نیز کفایة المفتي میں ہے جس مسجد میں وقت کی پابندی کے ساتھ جماعت ہوتی ہو اس میں جماعت ثانیہ مکروہ ہے.اگر جماعت اولی کے بعد کچھ لوگ  آجایئں تو وہ علیحدہ نماز پڑھ لیا کرے. ہکذا دیگر کتب فقہ

کفایة المفتي ۹۴/۳

روضة الفتاوي ۲/ ۱۸۹. شامی ۲/۶۴

★ نوٹ حضرت امام ابو یوسف رحمة الله عليه نے حالت بدل جانے سے یعنی محراب سے ہٹ کر جماعت ثانیہ کرنے کو جائز کہا ہے.اور طرفین رحمة الله عليهما نے کسی بھی حالت میں جماعت ثانیہ کو مکروہ کہا ہے.فقہ کے اصول کے مطابق حنفی علماء میں اختلاف ہو تو سب سے پہلے امام ابو حنیفہ رحمة الله عليه کے قول پر فتوی دیا جائیگا.

و الاصح انه يفتي بقول الامام علي الاطلاق ثم بقول الثاني.
رسم المفتي

★ جب جماعت چھوٹ جائے تو ظاہری روایت یہی ھیکہ تنہا تنہا نماز پڑھ لی جائے.

شامی میں ہے

فلو دخل جماعة المسجد بعد ما صلي اهله فيه فانهم يصلون وحدانا. وهو ظاهر الرواية.

شامی ۶۴/۲ نیز مبسوط میں ہے

قال ( وإذا دخل القوم مسجدا قد صلى فيه أهله كرهت لهم أن يصلوا جماعة بأذان وإقامة ولكنهم يصلون وحدانا بغير أذان ولا إقامة )

لحديث الحسن قال كانت الصحابة إذا فاتتهم الجماعة فمنهم من اتبع الجماعات ومنهم من صلى في مسجده بغير أذان ولا إقامة وفي الحديث { أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج ليصلح بين الأنصار فاستخلف عبد الرحمن بن عوف فرجع بعد ما صلى فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم بيته وجمع أهله فصلى بهم بأذان وإقامة } فلو كان يجوز إعادة الجماعة في المسجد لما ترك الصلاة في المسجد والصلاة فيه أفضل ، وهذا عندنا

، وقال الشافعي رضي الله تعالى عنه لا بأس بتكرار الجماعة في مسجد واحد لأن جميع الناس في المسجد سواء وإنما لإقامة الصلاة بالجماعة وهو قياس المساجد على قوارع الطرق فإنه لا بأس بتكرار الجماعة فيها

( ولنا ) أنا أمرنا بتكثير الجماعة وفي تكرار الجماعة في مسجد واحد تقليلها لأن الناس إذا عرفوا أنهم تفوتهم الجماعة يعجلون للحضور فتكثر الجماعة وإذا علموا أنه لا تفوتهم يؤخرون فيؤدي إلى تقليل الجماعات وبهذا فارق المسجد الذي على قارعة [ ص: 136 ] الطريق لأنه ليس له قوم معلومون فكل من حضر يصلي فيه فإعادة الجماعة فيه مرة بعد مرة لا تؤدي إلى تقليل الجماعات ثم في مسجد المحال إن صلى غير أهلها بالجماعة فلأهلها حق الإعادة لأن الحق في مسجد المحلة لأهلها ألا ترى أن التدبير في نصب الإمام والمؤذن إليهم فليس لغيرهم أن يفوت عليهم حقهم ، فأما إذا صلى فيه أهلها أو أكثر أهلها فليس لغيرهم حق الإعادة إلا في رواية عن أبي يوسف رحمه الله تعالى قال إن وقف ثلاثة أو أربعة ممن فاتتهم الجماعة في زاوية غير الموضع المعهود للإمام فصلوا بأذان فلا بأس به وهو حسن .

لما روي أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى بأصحابه فدخل أعرابي وقام يصلي فقال صلى الله عليه وسلم ألا أحد يتصدق على هذا يقوم فيصلي معه فقام أبو بكر رضي الله عنه وصلى معه .

المبسوط

  نیز البحر الرائق میں ہے

قوله ومنها حكم تكرارها في مسجد واحد إلخ ) قال قاضي خان في شرح الجامع الصغير رجل دخل مسجدا قد صلى فيه أهله فإنه يصلي بغير أذان وإقامة لأن في تكرار الجماعة تقليلها ، وقال الشافعي لا بأس بذلك لأن أداء الصلاة بالجماعة حق المسلمين والآخرون فيها كالأولين والصحيح ما قلنا وهكذا روي عن أصحاب النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أنهم إذا فاتتهم الجماعة صلوا وحدانا وعن أبي يوسف رحمه الله أنه قال إنما يكره تكرار الجماعة إذا كثر القوم أما إذا صلوا وحدانا في ناحية المسجد لا يكره وهذا إذا كان صلى فيه أهله

فإن صلى فيه قوم من الغرباء بالجماعة فلأهل المسجد أن يصلوا بعدهم بجماعة بأذان وإقامة لأن إقامة الجماعة في هذا المسجد حقهم ، ولهذا كان لهم نصب المؤذن وغير ذلك فلا يبطل حقهم بإقامة غيرهم وهذا إذا لم يكن المسجد على قارعة الطريق ، فإن كان كذلك فلا بأس بتكرار الجماعة فيه بأذان وإقامة لأنه ليس له أهل معلوم فكانت حرمته أخف ، ولهذا لا يقام فيه باعتكاف الواجب فكان بمنزلة الرباط في المفاوز وهناك تعاد مرة بعد أخرى فهذا كذلك ا هـ .

بحروفه ومثله في الحقائق وقدمنا نحوه في الأذان عن الكافي والمفتاح وذكر مثله المؤلف عن السراج ، أقول : ومفاد هذه النقول كراهة التكرار مطلقا أي ولو بدون أذان وإقامة وأن معنى قول قاضي خان المار يصلي بغير أذان وإقامة أنه يصلي منفردا لا بالجماعة بدليل التعليل والاستدلال بالمروي عن الصحابة ، ويؤيده قوله في الظهيرية

وظاهر الرواية أنهم يصلون وحدانا ا هـ وحينئذ يشكل ما نقله الرملي عن رسالة العلامة السندي عن الملتقط وشرح المجمع وشرح درر البحار والعباب من أنه يجوز تكرار الجماعة بلا أذان ولا إقامة ثانية اتفاقا . قال وفي بعضها إجماعا ثم ذكر أن ما يفعله أهل الحرمين مكروه اتفاقا وأنه نقل عن بعض مشايخنا إنكاره صريحا حين حضر الموسم بمكة سنة إحدى وخمسين وخمسمائة منهم الشريف الغزنوي وأنه أفتى الإمام أبو قاسم الجان المالكي سنة خمسين وخمسمائة بمنع الصلاة بأئمة متعددة وجماعات مترتبة وعدم جوازها على مذهب العلماء الأربعة ، ورد على من قال بخلافه [ ص: 367 ] ونقل إنكار ذلك عن جماعة من الحنفية والشافعية والمالكية حضروا الموسم سنة إحدى وخمسين وخمسمائة ا هـ .

البحر الرائق

دیوبند کا فتوی ملاحظہ ہو

مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جاتی ہے مگر اکثر مسجد وار جماعت (تبلیغی جماعت) کے ساتھی باجماعت نماز چھوٹ جانے پر مسجد کے صحن میں جماعت بناکر نماز ادا کرتے ہیں۔ ذمہ دار مسجد انھیں روکتے نہیں۔ مگر اب تو ساتھیوں نے معمول بنالیا ہے مسجد کی جماعت چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی جماعت بناکر نماز ادا کرتے ہیں۔ اندیشہ ہے کہ کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو۔ کیا مسجد میں جماعت کے بعد بھی علیحدہ جماعت بناکر نماز ادا کرنا صحیح ہے؟ اگر نہیں ہے تو انھیں کیسے روکیں گے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں رہبری فرمائیں۔
  Feb 07,2010   Answer: 18980
فتوی(ل): 123=115-2/1431
جس مسجد میں پنج وقتہ نماز اپنے مقررہ اوقات پر ادا کی جاتی ہو اور امام وموٴذن متعین ہوں اس میں جماعت ثانیہ (دوسری جماعت کرنا) مکروہ ہے، صحن مسجد سے اگر مسجد کا برآمدہ مراد ہے، تو اس کا حکم بھی مسجد ہی کا ہے اور اس میں بھی جماعت ثانیہ مکروہ ہے، آپ جماعت کے ساتھیوں سے اصل مسئلہ بتاکر حکمت سے ان کو جماعت ثانیہ سے منع کردیں، ان شاء اللہ وہ باز آجائیں گے۔
واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

نیز احسن الفتاوی میں ہے

مسجد میں جماعتِ ثانیہ سے متعلق کیا حکم ہے؟

تکرار جماعت کی صورتیں مختلف ہیں اور ان کا حکم بھی مختلف ہے، لہٰذا ہر صورتکا حکم الگ الگ بیان کیا جاتا ہے:
(۱)مسجدِ طریق ہو، یعنی اس کے نمازی معیّن نہ ہوں۔
(۲) اس مسجد میں امام اور مؤذن معیّن نہ ہوں۔
(۳) مسجدِ محلہ میں غیر اہلِ محلہ نے جماعت کی ہو۔
(۴) مسجد محلہ میں اہلِ محلہ نے بلا اعلان اذان یا بلااذان جماعت کی ہو۔
ان چاروں صورتوں میں تکرار جماعت (اگرچہ تکرار اذان واقامت کے ساتھ ہو) بالاجماع جائز بلکہ افضل ہے۔
(۵)مسجدِ محلہ میں اہلِ محلہ نے اعلانِ اذان سے جماعت کی ہو اور تکرارِ جماعت بھی اذان سے ہو۔
(۶) صورتِ مذکورہ میں تکرارِ جماعت بلا اذان ہو اور جماعت ہیئتِ اولیٰ پر ہی ہو، یعنی عدول عن المحراب نہ کیا گیا ہو۔
ان دونوں صورتوں میں بالاتفاق مکروہِ تحریمی ہے۔
(۷)مذکورہ صورت میں جماعت ثانیہ ہیئتِ اولیٰ پر نہ ہو، یعنی عدول عن المحراب کیا گیا ہو، امام وسطِ مسجد میں محراب یا محراب کے محاذات میں نہ کھڑا ہوا ہو، اس حالت میں کراہت شیخین میں مختلف فیہا ہے۔
(احسن الفتاویٰ:۳/۳۲۲، زکریا بکڈپو، دیوبند)  

★ فرض نماز اس طرح اداء کی گئی کہ کوئی واجب سہواً ترک ہوگیا، اگر سجدہٴ سہو کرلیا گیا تو نماز بالکل ادا ہوگئی، کوتاہی کی تلافی بھی ہوگئی اور ذمہ سبک دوش ہوگیا۔ سلامِ قطع سے پہلے حرمتِ صلاة جو تکبیر تحریمہ سے ثابت ہوئی تھی وہ باقی ہے؛ اس لیے اگر سجدہٴ سہو کے بعد کوئی نووارد شخص اقتداء کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ”وَأجْمَعُوْا عَلٰی أنَّہ لَوْ عَادَ الٰی سُجُوْدِ السَّہْوِ ثُمَّ اقْتَدَیٰ بِہ رَجُلٌ یَصِحُّ اقْتِدَائُہ بِہ “․ (بدائع ج۱،ص۱۴۷) اور اگر سجدہٴ سہو نہیں کیا اور سلام پھیردیا تو نماز کا اعادہ واجب ہے۔ اعادہٴ نماز سے مقصود نقصان کی تلافی ہے، پس معادہ نماز سے جبر ہوگیا اور ذمہ بالکل فارغ ہوگیا۔
یہاں سوال یہ ہے کہ مکلف کے ذمہ جو فرض الوقت تھا، اس فرض سے ذمہ سبک دوش ہوا؛ مگر صلاةِ اولیٰ سے یا ثانیہ (اعادہ) سے؟ اگر اعادہ صلاة وقت گذرنے کے بعد کیا تب تو بالاتفاق ذمہ پہلی نماز سے ساقط ہوگیا ہے اور اس معادہ نماز کی حیثیت نافلہ کی ہوگی اور اگر اعادہ قبل ختم الوقت ہے، تب بھی جمہور فقہاء کے نزدیک ذمہ پہلی نماز سے ساقط ہوا؛ چونکہ رکن یا شرط فوت نہ ہونے کی وجہ سے پہلی نماز فرض ہی ادا ہوئی ہے؛ اس لیے سقوطِ فرض اعادہ پر موقوف نہیں رہا اور معادہ نماز فرض کے مقابلہ میں نفل کہلائے گی؛ اس لیے کہ تکرار فرض مشروع نہیں ہے۔

(۱)وَوَجَبَ عَلَیْہِ اعَادَةُ الصَّلاَةِ بِجَبْرِ نَقْصِہَا فَتَکُوْنُ مُکَمِّلَةً وَسَقَطَ الْفَرْضُ بِالْأولیٰ (مراقی)
(۲)وَالْمُخْتَارُ أنَّ الْمُعَادَةَ لِتَرْکِ وَاجِبٍ نَفْلٌ جَابِرٌ وَالْفَرْضُ سَقَطَ بِالأُوْلٰی لِأنَّ الْفَرْضَ لاَیَتَکَرَّرُ (طحطاوی علی المراقی)
(۳)وَالْمُخْتَارُ أنَّ الْفَرْضَ ہُوَ الْأَوَّلُ وَالثَّانِيْ جَبْرٌ لِلْخَلَلِ الْوَاقِعِ فِیْہِ (غنیة المستملی شرح منیة المصلی)
(۴)وَالْمُخْتَارُ أنَّہَا جَابِرٌ لِلْأوَّلِ لِأنَّ الْفَرْضَ لاَیَتَکَرَّرُ قَالَہ الْمُصَنِّفُ وَغَیْرُہ (الدار المنتقی فی ہامش مجمع الانہر ص۱۳۳)
(۵)وَلاَ اشْکَالَ فِیْ وُجُوْبِ الْاعَادَةِ اذْ ہُوَ الْحُکْمُ فِیْ کُلِّ صَلاَةٍ أُدِّیَتْ بِکَرَاہةِ التَّحْرِیْمِ وَیَکُوْنُ جَابِرًا لِلْأوَّلِ لِأنَّ الْفَرْضَ لاَ یَتَکَرَّرُ (حاشیہ الشلبی علی تبیین الحقائق ص۲۷۷ عن فتح القدیر)
(۶)قَولُہ ”اَلْمُخْتَارُ أنَّہ “ أيِ الْفِعْلُ الثَّانِيْ جَابِرٌ لِلْأوَّلِ بِمَنْزِلَةِ الْجَبْرِ بِسُجُوْدِ السَّہْوِ وَالْأوَّلُ یَخْرُجُ بِہ عَنِ الْعُہْدَةِ وَانْ کَانَ عَلیٰ وَجْہِ الْکَرَاہَةِ عَلیٰ الأصَحِّ․ (ردالمحتار)
صلاة ثانیہ (معادہ نماز) کا صلاة اولیٰ کے لیے جابر اور مکمل ہونا نیز پہلی نماز سے فرض کا ساقط ہوجانا جمہور کے نزدیک گویا مسلّم ہے اور علامہ شامی نے بھی اسی کو اصح قرار دیا ہے۔ پس نووارد شخص کی شرکت اعادہٴ صلاة میں جمہور کے مختار واصح قول کے مطابق درس نہیں ہے۔
(۱) چنانچہ دارالعلوم دیوبند کے اولین مفتی حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی نے یہی فتویٰ دیا۔ ملاحظہ ہو، سوال․․․․․ جواب: اس صورت میں اس کی نماز صحیح نہ ہوگی؛ کیونکہ اس صورت میں اس جماعت کے فرض اگرچہ ناقص رہے؛ مگر ادا ہوگئے، لہٰذا اب یہ دوسری نفل ہوگی اور مفترض کی اقتداء متنفل کے پیچھے صحیح نہیں۔ (فتاویٰ دارالعلوم ج۳، ص۲۴۶)
(۲) مفتی اعظم وصدر جمعیة العلماء ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی
تحریر فرماتے ہیں: جواب: اُن لوگوں کی نمازِ فرض ادا نہیں ہوئی جو اعادہ والی نماز میں آکر شریک ہوئے اور پہلے وہ شریکِ جماعت نہ تھے۔ (کفایت المفتی ج۳،ص۹۸)

اور فقیہ الامت مفتی اعظم ہندو دارالعلوم دیوبند حضرت اقدس مفتی محمود حسن گنگوہی نوراللہ مرقدہ نے بھی یہی فتویٰ لکھا ہے، ملاحظہ ہو: ”حامداً ومصلیا ومسلما“ اگر فرض ترک ہونے کی بنا پر اعادہ ہوا ہے تو اس میں شریک ہونا نئے آدمی کا درست ہے؛ کیونکہ پہلی نماز باطل ہوگئی اوراگر ترکِ واجب کی وجہ سے اعادہ ہوا ہے تو نئے آدمی کی شرکت درست نہیں؛ کیونکہ فرض پہلی نماز سے ادا ہوچکا ہے اور یہ صرف تکمیل ہے اَلْمُعَادَةُ لِتَرْکِ وَاجِبٍ نَفْلٌ وَالْفَرْضُ سَقَطَ بِالْأُوْلیٰ طحطاوی، ص۱۳۴۔( فتاویٰ محمودیہ ص۴۴۴، ج۶ نسخہ پاکستان)
(۴) فقیہ النفس مفتی اعظم گجرات حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری
تحریر فرماتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ جو نماز پہلے پڑھی تھی وہ بیکار نہیں گئی، وہ اس درجہ میں قائم رہی کہ فرض ساقط ہوگیا؛ کیونکہ اس نماز کے سارے ارکان ادا ہوگئے، صرف ایک واجب رہ گیا تھا اس کے فوت ہونے سے نماز میں جو کمی رہی ہے، اس کی تکمیل کے لیے اعادہ کا حکم ہے، یہ اعادہ کردہ نماز بہ منزلہٴ سجدہٴ سہو ہے، جس طرح سجدہٴ سہو سے کمی و نقص دور ہوتا ہے، اسی طرح نماز کے اعادہ سے نماز کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ (اعادہ کردہ) نماز اصل اور مستقل نماز نہیں ہے؛ لہٰذا جو شخص پہلی نماز یعنی جماعتِ اول میں شامل نہ ہو وہ اگر اس دوسری میں شریک ہوگا تو اس کا فرض رہ جائے گا، یعنی اس کی اصل نماز ادا نہ ہوگی۔ الخ (فتاویٰ رحیمیہ ج۱،ص۱

مذکورہ تبصرہ اور جائزہ کے ساتھ یہ بات بھی بطور خاص ذہن نشین کیجیے کہ پورے مقالہ میں ایک ایسی عبارت بھی متقدمین یا متأخرین فقہاء میں سے کسی سے پیش نہ کی جس میں متفرق کی اقتدا معادہ نماز میں بطور استشہاد مذکور ہو۔ اور بعض قرائن وعلامات سے معادہ کا فرض ہونا ظاہر ہوتا ہے جس پر بعض اہل علم نے صحت اقتدا کو متفرع کیا ہے، تو دوسرے قرائن ایسے ہیں جن سے معادہ کا نفل ہونا واضح ہوتا ہے اور صریح حدیث کے مطابق ہے کما قال الجمہور۔ اس لیے نووارد کی معادہ نماز میں اقتدا صحیح نہیں ہے۔
خلاصہٴ کلام یہ کہ دلائل کے اعتبار سے جمہور کا مسلک ہی قوی ہے اور اسی کو مختار، اصح اور راجح قرار دیاگیا ہے اور وہی امت میں معمول بہ اور اہل علم کے نزدیک مفتی بہ ہے اور صحت اقتدا کا قول ضعیف اور غیرمفتی بہ ہے۔
ہذا ما وضح لی وتبین فی ہذہ المسئلة لتقریر قول الجمہور واللّٰہ اعلم․ وعلمہ اتم واحکم وللّٰہ الحمد اوّلاً وآخرًا والصلاة والسلام علی نبینا محمد ابدا ابدا

جمہور کے نزدیک جماعتِ ثانیہ مکروہ تحریمی ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس کی اجازت دیتے ہیں،  ان کی دلیل وہ  حدیث ہے جس کو ترمذی نے روایت کیا ہے، کہ ایک صاحب مسجد میں آئے جنھوں نے نماز نہیں پڑھی تھی، انھوں نے نماز کا ارادہ کیا تو آپ صلی الله تعالی علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کون ہے جو ان کے ساتھ تجارت کرے گا،  حضرت ابوبکر رض اٹھے اور جماعت فرمائی.

جمہور کی کئی دلائل ہے ، ان میں یہ کہ آپ نے جماعت سے پیچھے رہ جانے والوں کو جلادینے کا ارادہ کیا،

دوسری یہ کہ ایک مرتبہ آپ کی کسی جگہ گئے تو لوٹنے میں تاخیر ہوگئی تو جماعت ہوچکی تھی آپ نے اپنے گھر میں نماز ادا فرمائی .(مجمع)

تیسری دلیل یہ ہے کہ جماعتِ ثانیہ کا واقعہ پوری زندگی میں کبھی پیش نہ آیا حالاں کہ کئی صحابہ جماعت سے پیچھے رہے ہوں گے، لہٰذا ترک جماعتِ ثانیہ پر مواظبتِ تامہ ہے.

رہی امام احمد رح کی ذکر کردہ دلیل کا جواب یہ ہے کہ جماعتِ ثانیہ اس کو کہتے ہیں جس میں امام اور مقتدی دونوں مفترض ہوں دوسرا جواب یہ ہے کہ ممکن ہو یہ مسجدِ طریق ہو، 
کیوں کہ اس کے راوی حضرت انس رض ہیں جن کا قول یہ بھی ہے کہ صحابہ کی جماعت فوت ہوجاتی تو وہ فرادی نماز ادا کرتے.

▪مذکورہ دلائل سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جماعتِ ثانیہ مکروہ ہے، چاہے صحن میں ہو چاہے ھیئۃ اولی کے طریق کے علاوہ.
اسی وجہ سے امام ِ اعظم رح کی ظاہری روایت یہی ہے،  اور فتوی ظاہری روایت پر ہی دیا جاتا ہے،
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ جماعتِ ثانیہ کے مکروہ ہو نے کی عقلی دلیل یہ ہے کہ جماعتِ اولی کی حیثیت کم نہ ہوجائے ورنہ جو بھی بعد  کو آئے گا وہ اپنی الگ سے جماعت بنالے گا.
یہ عقلی دلیل صحن اور مسجد،  ھیئۃ اولی اور غیر الہیئۃ دونوں کو عام ہے،
اسی وجہ سے حضرت مفتی مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری رحمہ اللہ (صدر مفتی دار العلوم دیوبند)
دار الافتاء سے دیکھتے کہ کوئی طالبِ علم مسجد قدیم کے صحن میں جماعتِ ثانیہ کررہا ہے تو اس کو منع فرماتے اور کہتے کہ جاؤ جاکے درسگاہ میں جماعت کرو.
از افادات حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ

No comments:

Post a Comment