Wednesday 24 February 2016

اناطولیہ کی عظیم الشان مسجد کبیر

ایس اے ساگر 

ترکی کے شہر اناطولیہ کے وسطی علاقہ سیواس  میں واقع مسجد کبیر .اس عظیم الشان  مسجد کو احمد شاہ بادشاہ نے 1128 اور 1129 عیسوی کے دوران تعمیر کروایا تھا. 

دراصل ترکی ایک یوریشیائی ملک ہے جو جنوب مغربی ایشیا میں جزیرہ نما اناطولیہ اور جنوبی مشرقی یوروپ کے علاقہ بلقان تک پھیلا ہوا ہے۔ اس ملک کی سرحدیں 8 ممالک سے متصل ہیں جن میں شمال مغرب میں بلغاریہ، مغرب میں یونان، شمال مشرق میں گرجستان (جارجیا)، مشرق میں آرمینیا، ایران اور آذربائیجان کا علاقہ نخچوان اور جنوب مشرق میں عراق اور شام شامل ہیں۔ علاوہ ازیں شمال میں ملکی سرحدیں بحیرہ اسود، مغرب میں بحیرہ ایجیئن اور بحیرہ مرمرہ اور جنوب میں بحیرہ روم سے ملتی ہیں۔ آج یہ جمہوری، لادینی، آئینی جمہوریت ہے جس کا موجودہ سیاسی نظام 1923ء میں سقوط سلطنت عثمانیہ کے بعد مصطفیٰ کمال اتاترک کی زیر قیادت تشکیل دیا گیا۔ یہ اقوام متحدہ اور موتمر عالم اسلامی کا بانی رکن اور 1949ء سے یوروپی مجلس اور 1952ء سے شمالی اوقیانوسی معاہدے کا رکن ہے۔ ریاست کی یورپی اتحاد میں شمولیت کیلئے مذاکرات طویل عرصے سے جاری ہیں۔

لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یوروپ اور ایشیا کے درمیان محل وقوع کے اعتبار سے اہم مقام پر واقع ہونے کی وجہ سے ترکی مشرقی اور مغربی ثقافتوں کے تاریخی چوراہے پر واقع ہے۔ گیارہویں صدی کے وسط میں اناطولیہ میں آباد ترکوں کی طرف سے تعمیر کروائی جانے والی عمارتیں فن معماری میں ایک دور کے آغاز کی بنیاد بنیں ۔ان کے درمیان منگو قوم کے بارے میں اناطولیہ کے سیاسی نقشے پر کافی کم معلومات کی موجودگی کے باوجود ان کی فن معماری انفرادیت کی حامل رہی ہے ۔سن ایک ہزار اکہتر میں ہونے والی ملازگرت کی جنگ کے بعد منگو قوم نے اناطولیہ میں دریائے فرات کے بالائی حصے میں ایک ریاست قائم کی ۔ اس ریاستی دور میں بارہویں اور تیرہویں صدی کے دوران ارزن جان ،کماح اور دیو ریعی میں خاص کر فن تعمیر میں سنگ سازی کو کمال حاصل رہا ۔ ان عمارتوں میں بالخصوص منگو ریاست کے حکمراں احمد شاہ اور اس کی بیگم ملکہ خاتون کی طرف سے تعمیر کردہ اولو جامع مسجد اور دارالشفا کو مقبولیت حاصل ہے ۔ان دونوں عمارتوں کو اپنی منفرد طرز تعمیر کی وجہ سے غیر ملکی محققین نے اناطولیہ کے الحمرا کا لقب دیا ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے مشرقی اناطولیہ کے علاقے میں واقع دیوریعی ضلع سیواس کی ایک تحصیل ہے ۔ یہاں کی زمین سے فولاد نکالا جاتا ہے کہ جس کا سلسلہ کئی صدیوں سے جاری ہے۔ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل یہاں کی جامع مسجد 'الکبیر' اور دارالشفا علاقے کے قابل قدر تاریخی مقامات میں شامل ہیں۔

دیورعی کے قلعے کے مغرب میں سن بارہ سو اٹھائیس میں ایک کلیہ تعمیر کروایا گیا تھا کہ جس میں واقع مسجد میں داخلے کےلیے تین دروازے موجود ہیں۔اس مسجد میں پتھروں کی کاری گری کا کام انتہائی نفاست سے کیا گیا ہے مسجد کی تعمیر میں منفرد فن معماری کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے ۔دارالشفا مسجد کے مغربی جانب واقع ہے کہ جو اوپر سے بند ہے ۔اس عمارت کے اندرونی حصے کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کے لیے دروازے موجود ہیں جن پر خوبصورت نقش و نگاری کی گئی ہے۔ اس شفا خانے کا مرکزی دروازہ اور اس پر کی گئی کاری گری اسے دوسرے دروازوں سے منفرد ہے کیونکہ اس پر ہونے والی کاری گری ایرانی، افغانی اور ہندوستانی فن نقش و نگاری سے متاثر دکھائی دیتی ہے ۔
دیوریعی کی ان دونوں عمارتوں کی زیارت کرنے والے قریب واقع قلعے جامع مسجد کی بھی زیارت کر سکتے ہیں کہ جسے شہنشاہ بن سلیمان نے تعمیر کروایا تھا ۔ مسجد کا مرکزی دروازہ آذری طرز تعمیر حسن بن فیروز کے ماہرانہ ہاتھوں کی کاوش ہے ۔
دیوریعی میں منگو قوم کی جانب سے ایک دیگر عمارت مقبرے کی شکل میں موجود ہے کہ جسے دور حاضر میں ستہ ملک کہا جاتاہے ۔اس مقبرے کو منگو ریاست کے حکمراں سلیمان شاہ کیلئے بنوایا گیا تھا ۔بارہویں صدی میں تعمیر کردہ اس عمارت میں بھی نقش و نگاری کی اعلی مثال موجود ہے ۔

No comments:

Post a Comment