Tuesday 23 February 2016

وضو کی محافظت کیلئے 5 احتیاطیں

حضرت جی پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم عالیہ اور وضو کی حفاظت :
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
لَا یُخَافِظُ عَلیَ الْوُضُوْءِاِلَّامُؤْمِن:
وضو کی حفاظت تو مومن ہی کر سکتا ہے."
صحیح ابن حبان،رقم:1037 ، جامع العلوم والحکم:1/215
محافظت وضو پر اللہ تعالٰی نے آپ کو ایسا ملکہ عطافرمایا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.
کئی دفعہ دیکھا گیا کہ آپ کا وضو گھنٹوں برقرار رہتا ہے۔ آپ کی عادت شریفہ ہے کہ آپ شروع ہی سے وضو کی حفاظت فرماتے ہیں.
آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی بے وضو نہیں لیتے۔
راقم الحروف نے ایک دفعہ عرض کیا کہ وضو رکھنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ حضرت جی دامت برکاتہم نے اس کے ضمن میں چند حکمت آمیز باتیں ارشاد فرمائیں ،جن کا راقم کو بہت زیادہ فائدہ ہوا۔
ارشاد فرمایا:
1. ہمیشہ ان چیزوں سے پرہیز کریں جو آپ کو گیس پیدا کرتی ہیں۔
2. جب قضاء حاجت کیلئے بیٹھیں تو اچھی طرح فارغ ہوں۔
3. جب کھانا کھائیں تو بھوک سے ذرا کم کھائیں۔
4. پیٹ کا ایک حصہ کھانے کیلئے ، ایک حصہ پینے کیلئے اور ایک حصہ سانس آنے کیلئے بھی رہنے دیں۔
5. سب سے اہم یہ بات کہ وضو کی محافظت کیلئے اللہ تعالٰی سے بار بار التجائیں کرتے رہیں۔
باوضو رہنا اولیا کی نشانی ہے۔ اس سے بھی وضو جیسی نعمت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔باوضو آدمی کو بے شمار روحانی فوائد کے حصول کیساتھ ساتھ یہ آسانی بھی ہو جاتی ہے کہ اس کو وسوسے اور خیالات کم آتے ہیں۔
وضو کا بیان
وضو کرنے والی کو چاہیے کہ وضو کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کر کے کسی اونچی جگہ بیٹھے کہ چھینٹیں اڑ کر اوپر نہ پڑیں۔ اور وضو شروع کرتے وقت بسم اللہ کہے۔ اور سب سے پہلے تین دفعہ گٹوں تک ہاتھ دھوئے۔ پھر تین دفعہ کلی کرے اور مسواک کرے۔ اگر مسواک نہ ہو تو کسی موٹے کپڑے یا صرف انگلی سے اپنے دانت صاف کر لے کہ سب میل کچیل جاتا رہے اور اگر روزہ دار نہ ہو تو غرغرہ کر کے اچھی طرح سارے منہ میں پانی پہنچاوے اور اگر روزہ ہو تو غرغرہ نہ کرے کہ شاید کچھ پانی حلق میں چلا جائے۔ پھر تین بار ناک میں پانی ڈالے اور بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرے۔ لیکن جس کا روزہ ہو وہ جتنی دور تک نرم نرم گوشت ہے اس سے اوپر پانی نہ لے جاوے۔ پھر تین دفعہ منہ دھوئے۔ سر کے بالوں سے لے کر ٹھوڑی کے نیچے تک اور اس کان کی لو سے اس کان کی لو تک سب جگہ پانی بہ جائے۔ دونوں ابروؤں کے نیچے بھی پانی پہنچ جاوے کہیں سوکھا نہ رہے۔ پھر تین بار داہنا ہاتھ کہنی سمیت دھوئے پھر بایاں ہاتھ کہنی سمیت تین دفعہ دھوئے۔ اور ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر خلال کرے اور انگوٹھی چھلا چوڑی جو کچھ ہاتھ میں پہنے ہو ہلا لے وے کہ کہیں سوکھا نہ رہ جائے۔ پھر ایک مرتبہ سارے سر کا مسح کرے پھر کان کا مسح کرے اندر کی طرف کا کلمہ کی انگلی سے۔ اور کان کے اوپر کی طرف کا انگوٹھوں سے مسح کرے۔ پھر انگلیوں کی پشت کی طرف سے گردن کا مسح کرے۔ لیکن گلے کا مسح نہ کرے کہ یہ برا اور منع ہے۔ کان کے مسح کے لیے نیا پانی لینے کی ضرورت نہیں ہے سر کے مسح سے جو بچا ہوا پانی ہاتھ میں لگا ہے وہی کافی ہے۔ اور تین بار داہنا پاؤں ٹخنے سمیت دھوئے۔ پھر بایاں پاؤں ٹخنے سمیت تن دفعہ دھوئے اور بائیں ہاتھ کی چھنگلیاں سے پر کی انگلیوں کا خلال کرے۔ پیر کی داہنی چھنگلیاں سے شروع کرے اور بائیں چھنگلیا پر ختم کرے۔
یہ وضو کرنے کا طریقہ ہے لیکن اس میں بعض چیزیں ایسی ہیں کہ اگر اس میں سے ایک بھی چھوٹ جائے یا کچھ کمی رہ جائے تو وضو نہیں ہوتا جیسے پہلے بے وضو تھی اب بھی بے وضو رہے گی۔ ایسی چیزوں کو فرض کہتے ہیں۔ اور بعضی باتیں ایسی ہیں کہ ان کے چھوٹ جانے سے وضو تو ہو جاتا ہے لیکن ان کے کرنے سے ثواب ملتا ہے۔ اور شریعت میں ان کے کرنے کی تاکید بھی آئی ہے۔ اگر کوئی اکثر چھوڑ دیا کرے تو گناہ ہوتا ہے۔ اسی چیزوں کو سنت کہتے ہیں اور بعضی چیزیں ایسی ہیں کہ کرنے سے ثواب ہوتا ہے اور نہ کرنے سے کچھ گناہ نہیں ہوتا اور شرع میں ان کے کرنے کی تاکید بھی نہیں ہے ایسی باتوں کو مستحب کہتے ہیں۔ مسئلہ۔ وضو میں فرض فقط چار چیزیں ہیں۔ ایک مرتبہ سارا منہ دھونا۔ ایک ایک دفعہ کہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھونا۔ ایک چار چوتھائی سر کا مسح کرنا۔ ایک ایک مرتبہ ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں دھونا۔ بس فرض اتنا ہی ہے۔ اس میں سے اگر ایک چیز بھی چھوٹ جائے گی یا کوئی جگہ بال برابر بھی سوکھی رہ جائے گی تو وضو نہ ہو گا۔
مسئلہ۔ پہلے گٹوں تک دونوں ہاتھ دھونا اور بسم اللہ کہنا اور کلی کرنا۔ اور ناک میں پانی ڈالنا۔ مسواک کرنا۔ سارے سر کا مسح کرنا۔ ہر عضو کو تین تین مرتبہ دھونا۔ کانوں کا مسح کرنا۔ ہاتھ اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کرنا۔ یہ سب باتیں سنت ہیں اور اس کے سوا جو اور باتیں ہیں وہ سب مستحب ہیں۔
مسئلہ۔ جب یہ چار عضو جن کا دھونا فرض ہے دھل جائیں تو وضو ہو جائے گا چاہے وضو کا قصد ہو یا نہ ہو جیسے کوئی نہاتے وقت سارے بدن پر پانی بہا لے اور وضو نہ کرے یا حوض میں گر پڑے یا پانی برسنے میں باہر کھڑا ہو جائے اور وضو کے یہ اعضاء دھل جائیں۔ تو وضو ہو جائے گا لیکن ثواب وضو کا نہ ملے گا۔
مسئلہ۔ سنت یہی ہے کہ اسی طرح سے وضو کرے جس طرح ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ اور اگر کوئی الٹا وضو کر لے کہ پہلے پاؤں دھو ڈالے پھر مسح کرے پھر دونوں ہاتھ دھوئے پھر منہ دھو ڈالے یا اور کسی طرح الٹ پلٹ کر وضو کرے تو بھی وضو ہو جاتا ہے لیکن سنت کے موافق وضو نہیں ہوتا اور گناہ کا خوف ہے۔
مسئلہ۔ اسی طرح اگر بایاں ہاتھ بایاں پاؤں پہلے دھویا تب بھی وضو ہو گیا لیکن مستحب کے خلاف ہے۔
مسئلہ۔ ایک عضو کو دھو کر دوسرے عضو کے دھونے میں اتنی دیر نہ لگائے کہ پہلا عضو سوکھ جائے بلکہ اس کے سوکھنے سے پہلے دوسرا عضو دھو ڈالے۔ اگر پہلا عضو سوکھ گیا تب دوسرا عضو دھویا تو وضو ہو جائے گا لیکن یہ بات سنت کے خلاف ہے۔
مسئلہ۔ ہر عضو کے دھوتے وقت یہ بھی سنت ہے کہ اس پر ہاتھ بھی پھیر لے تاکہ کوئی جگہ سوکھی نہ رہے سب جگہ پانی پہنچ جائے۔
مسئلہ۔ وقت آنے سے پہلے ہی وضو نماز کا سامان اور تیاری کرنا بہتر اور مستحب ہے۔
مسئلہ۔ جب تک کوئی مجبوری نہ ہو خود اپنے ہاتھ سے وضو کرے کسی اور سے پانی نہ ڈلوائے اور وضو کرنے میں دنیا کی کوئی بات چیت نہ کرے بلکہ ہر عضو کے دھوتے وقت بسم اللہ اور کلمہ پڑھا کرے اور پانی کتنا ہی فراغت کا کیوں نہ ہو چاہے دریا کے کنارے پر ہو لیکن تب بھی پانی ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کرے اور نہ پانی میں بہت کمی کرے کہ اچھی طرح دھونے میں دقت ہو۔ نہ کسی عضو کو تین مرتبہ سے زیادہ دھوئے اور منہ دھوتے وقت پانی کا چھینٹا زور سے منہ پر نہ مارے۔ نہ پھنکار مار کر چھینٹیں اڑائے اور اپنے منہ اور آنکھوں کو بہت زور سے نہ بند کرے کہ یہ سب باتیں مکروہ اور منع ہیں اگر آنکھ یا منہ زور سے بند کیا اور پلک یا ہونٹ پر کچھ سوکھا رہ گیا یا آنکھ کے کوئے میں پانی نہیں پہنچا تو وضو نہیں ہوا۔
مسئلہ۔ انگوٹھی چھلے چوڑی کنگن وغیرہ اگر ڈھیلے ہوں کہ بے ہلائے بھی ان کے نیچے پانی پہنچ جائے تب بھی ان کا ہلالینا مستحب ہے۔ اور اگر ایسے تنگ ہوں کہ بغیر ہلائے پانی نہ پہنچنے کا گمان ہو تو ان کو ہلا کر اچھی طرح پانی پہنچا دینا ضروری اور واجب ہے۔ نتھ کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر سوراخ ڈھیلا ہے اس وقت تو ہلانا مستحب ہے اور جب تنگ ہو کہ بے پھرائے اور ہلائے پانی نہ پہنچے گا تو منہ دھوتے وقت گھما کر اور ہلا کر پانی اندر پہنچانا واجب ہے۔
مسئلہ۔ اگر کسی کے ناخن میں آٹا لگ کر سوکھ گیا اور اس کے نیچے پانی نہیں پہنچا تو وضو نہیں ہوا۔ جب یاد آئے اور آٹا دیکھے تو چھڑا کر پانی ڈال لے اور اگر پانی پہنچانے سے پہلے کوئی نماز پڑھ لی ہو تو اس کو لوٹا دے اور پھر سے پڑھے۔
مسئلہ۔ کسی کے ماتھے پر افشاں چنی ہو اور اوپر اوپر سے پانی بہا لیوے کہ افشاں نہ چھوٹنے پائے تو وضو نہیں ہوتا۔ ماتھے کا سب گند چھڑا کر منہ دھونا چاہیے۔
مسئلہ۔ جب وضو کر چکے تو سورہ انا انزلنا اور یہ دعا پڑھے۔
اے اللہ کر دے مجھ کو توبہ کرنے والوں میں سے اور کر دے مجھ کو گناہوں سے پاک ہونے والے لوگوں میں سے اور کر دے مجھ کو اپنے نیک بندوں میں سے اور کر دے مجھ کو ان لوگوں میں سے کہ جن کو دونوں جہانوں میں کچھ خوف نہیں۔ اور نہ وہ آخرت میں غمگین ہوں گے۔
مسئلہ۔ جب وضو کر چکے تو بہتر ہے کہ دو رکعت نماز پڑھے۔ اس نماز کو جو وضو کے بعد پڑھی جاتی ہے تحیۃ الوضو کہتے ہیں۔ حدیث شریف میں اس کا بڑا ثواب آیا ہے۔
مسئلہ۔ اگر ایک وقت وضو کیا تھا پھر دوسرا وقت آ گیا اور ابھی وضو ٹوٹا نہیں ہے تو اسی وضو سے نماز پڑھنا جائز ہے۔ اور اگر دوبارہ وضو کرے تو بہت ثواب ملتا ہے۔
مسئلہ۔ جب ایک دفعہ وضو کر لیا اور ابھی وہ ٹوٹا نہیں تو جب تک اس وضو سے کوئی عبادت نہ کرلے اس وقت تک دوسرا وضو کرنا مکروہ اور منع ہے۔ تو اگر نہاتے وقت کسی نے وضو کیا ہے تو اسی وضو سے نماز پڑھنا چاہیے۔ بغیر اس کے ٹوٹے دوسرا وضو کرے ہاں اگر کم سے کم دو ہی رکعت نماز وضو سے پڑھ چکی ہو تو دوسرا وضو کرنے میں کچھ حرج نہیں بلکہ ثواب ہے۔
مسئلہ۔ کسی کے ہاتھ یا پاؤں پھٹ گئے اور اس میں موم روغن یا اور کوئی دوا بھر لی اور اس کے نکالنے سے ضرر ہو گا تو اگر بے اس کے نکالے اوپر ہی اوپر پانی بہا دیا تو وضو درست ہے۔
مسئلہ۔ وضو کرتے وقت ایڑی یا کسی اور جگہ پانی نہیں پہنچا اور جب پورا وضو ہو چکا تب معلوم ہوا کہ فلانی جگہ سوکھی ہے تو وہاں پر فقط ہاتھ پھیر لینا کافی نہیں ہے بلکہ پانی بہانا چاہیے۔
مسئلہ۔ اگر ہاتھ پاؤں وغیرہ میں کوئی پھوڑا ہے یا کوئی اور ایسی بیماری ہے کہ اس پر پانی ڈالنے سے نقصان ہوتا ہے تو پانی نہ ڈالے۔ وضو کرتے وقت صرف بھیگا ہاتھ پھیر لیوے اس کو مسح کہتے ہیں۔ اور اگر یہ بھی نقصان کرے تو ہاتھ بھی نہ پھیرے اتنی جگہ چھوڑ دے۔ مسئلہ۔ اگر زخم پر پٹی بندھی ہو اور پٹی کھول کر زخم پر مسح کرنے سے نقصان ہو۔ یا پٹی کھولنے باندھنے میں بڑی دقت اور تکلیف ہو تو پٹی کے اوپر مسح کر لینا درست ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پٹی پر مسح کرنا درست نہیں پٹی کھول کر زخم پر مسح کرنا چاہیے۔
مسئلہ۔ اگر پوری پٹی کے نیچے زخم نہیں ہے تو اگر پٹی کھول کر زخم کو چھوڑ کر اور سب جگہ دھو سکے تو دھونا چاہیے۔ اور اگر پٹی نہ کھول سکے تو ساری پٹی پر مسح کر لے جہاں زخم ہے وہاں بھی اور جہاں زخم نہیں ہے وہاں بھی۔
مسئلہ۔ ہڈی کے ٹوٹ جانے کے وقت بانس کی کھپچیاں رکھ کے ٹکھٹی بنا کر باندھتے ہیں اس کا بھی یہی حکم ہے کہ جب تک ٹکھٹی نہ کھول سکے ٹکھٹی کے اوپر ہاتھ پھیر لیا کرے۔ اور فصد کی پٹی کا بھی یہی حکم ہے اگر زخم کے اوپر مسح نہ کر سکے تو پٹی کھول کر کپڑے کی گدی پر مسح کرے اور اگر کوئی کھولنے باندھنے والا نہ ملے تو پٹی ہی پر مسح کر لے۔
مسئلہ۔ ٹکھٹی اور پٹی وغیرہ میں بہتر تو یہ ہے کہ ساری ٹکھٹی پر مسح کرے اور اگر ساری پر نہ کرے بلکہ آدھی سے زائد پر کرے تو بھی جائز ہے اگر فقط آدھی یا آدھی سے کم پر کرے تو جائز نہیں۔
مسئلہ۔ اگر ٹکھٹی یا پٹی کھل کر گر پڑے اور زخم ابھی اچھا نہیں ہوا تو پھر باندھ لے اور وہی پہلا مسح باقی ہے پھر مسح کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر زخم اچھا ہو گیا کہ اب باندھنے کی ضرورت نہیں ہے تو مسح ٹوٹ گیا۔ اب اتنی جگہ دھو کر نماز پڑھے۔ سارا وضو دہرانا ضروری نہیں ہے۔
وضو کے توڑنے والی چیزوں کا بیان
مسئلہ۔ پاخانہ پیشاب اور ہوا جو پیچھے سے نکلے اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے البتہ اگر آگے کی راہ سے ہوا نکلے جیسا کہ کبھی بیماری سے ایسا ہو جاتا ہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹا اور اگر آگے یا پیچھے سے کوئی کیڑا جیسے کینچوا یا کنکری وغیرہ نکلے تو بھی وضو ٹوٹ گیا۔
مسئلہ۔ اگر کسی کے کوئی زخم ہوا اس میں سے کیڑا نکلے یا کان سے نکلا یا زخم میں سے کچھ گوشت کٹ کے گر پڑا اور خون نہیں نکلا تو اس سے وضو نہیں ٹوٹا۔
مسئلہ۔ اگر کسی نے فصد لی یا نکسرت پھوٹی یا چوٹ لگی اور خون نکل آیا۔ یا پھوڑے پھنسی سے یا بدن بھر میں اور کہیں سے خون نکلا یا پیپ نکلی تو وضو جاتا رہا۔ البتہ اگر زخم کے منہ ہی پر رہے زخم کے منہ سے آگے نہ بڑھے تو وضو نہیں گیا۔ تو اگر کسی کے سوئی چبھ گئی اور خون نکل آیا لیکن بہا نہیں ہے تو وضو نہیں ٹوٹا۔ اور جو ذرا بھی بہہ پڑا ہو تو وضو ٹوٹ گیا۔
مسئلہ۔ اگر کسی نے ناک سنکی اور اس میں جمے ہوئے خون کی پھٹکیاں نکلیں تو وضو نہیں گیا۔ وضو جب ٹوٹتا ہے کہ پتلا خون نکلے اور بہ پڑے۔ سو اگر کسی نے اپنی ناک میں انگلی ڈالی پھر اس کو نکالا تو انگلی میں خون کا دھبہ معلوم ہوا لیکن وہ خون بس اتنا ہی ہے کہ انگلی میں تو ذرا سا لگ جاتا ہے لیکن بہتا نہیں تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
مسئلہ۔ کسی کی آنکھ کے اندر کوئی دانہ وغیرہ تھا وہ ٹوٹ گیا۔ یا خود اس نے توڑ دیا اور اس کا پانی بہہ کر آنکھ میں تو پھیل گیا لیکن آنکھ سے باہر نہیں نکلا تو اس کا وضو نہیں ٹوٹا اور اگر آنکھ کے باہر پانی نکل پڑا تو وضو ٹوٹ گیا۔ اسی طرح اگر کان کے اندر دانہ ہو اور ٹوٹ جائے تو جب تک خون پیپ سوراخ کے اندر اس جگہ تک رہے جہاں پانی پہنچانا غسل کرتے وقت فرض نہیں ہے تب تک وضو نہیں جاتا۔ اور جب ایسی جگہ پر جائے جہاں پانی پہنچانا فرض ہے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ۔ کسی نے اپنے پھوڑے یا چھالے کے اوپر کا چھلکا نوچ ڈالا اور اس کے نیچے خون یا پیپ دکھائی دینے لگا لیکن وہ خون پیپ اپنی جگہ پر ٹھہرا ہے کسی طرف نکل کے بہا نہیں تو وضو نہیں ٹوٹا اور جو بہہ پڑا تو وضو ٹوٹ گیا۔
مسئلہ۔ کسی کے پھوڑے میں بڑا گہرا گھاؤ ہو گیا تو جب تک خون پیپ اس گھاؤ کے سوراخ کے اندر ہی اندر ہے باہر نکل کر بدن پر نہ آوے اس وقت تک وضو نہیں ٹوٹتا۔
مسئلہ۔ اگر پھوڑے پھنسی کا خون آپ سے نہیں نکلا بلکہ اس نے دبا کے نکالا ہے تب بھی وضو ٹوٹ جائے گا جبکہ وہ خون بہ جائے۔
مسئلہ۔ کسی کے زخم سے ذرا ذرا خون نکلنے لگا اس نے اس پر مٹی ڈال دی یا کپڑے سے پونچھ لیا۔ پھر ذرا سا نکالا پھر اس نے پونچھ ڈالا۔ اس طرح کئی دفعہ کیا کہ خون بہنے نہ پایا تو دل میں سوچے اگر ایسا معلوم ہو کہ اگر پونچھا نہ جاتا تو بہہ پڑتا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ اور اگر ایسا ہو کہ پونچھا نہ جاتا تب بھی نہ بہتا تو وضو نہ ٹوٹے گا۔
مسئلہ۔ کسی کے تھوک میں خون معلوم ہوا تو اگر تھوک میں خون بہت کم ہے اور تھوک کا رنگ سفیدی یا زردی مائل ہے تو وضو نہیں گیا اور اگر خون زیادہ یا برابر ہے اور رنگ سرخی مائل ہے تو وضو ٹوٹ گیا۔
مسئلہ۔ اگر دانت سے کوئی چیز کاٹی اور اس چیز پر خون کا دھبہ معلوم ہوا یا دانت میں خلال کیا اور خلال میں خون کی سرخی دکھائی دی لیکن تھوک میں بالکل خون کا رنگ معلوم نہیںہوتا تو وضو نہیں ٹوٹا۔
مسئلہ۔ کسی نے جونک لگوائی اور جونک میں اتنا خون بھر گیا کہ اگر بیچ سے کاٹ دو تو خون بہ پڑے تو وضو جاتا رہا اور جو اتنا نہ پیا ہو بلکہ بہت کم پیا ہو تو وضو نہیں ٹوٹا۔ اور اگر مچھر یا مکھی یا کھٹمل نے خون پیا تو وضو نہیں ٹوٹا۔
مسئلہ۔ کسی کے کان میں درد ہوتا ہے اور پانی نکلا کرتا ہے تو یہ پانی جو کان سے بہتا ہے نجس ہے اگرچہ کچھ پھوڑا یا پھنسی نہ معلوم ہوتی ہو۔ پس اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا جب کان کے سوراخ سے نکل کر اس جگہ تک جائے جس کا دھونا غسل کرتے وقت فرض ہے۔ اسی طرح اگر ناف سے پانی نکلے اور درد بھی ہوتا ہو تو اس سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔ ایسے ہی اگر آنکھیں دکھتی ہوں اور کھٹکھتی ہوں تو پانی بہنے اور آنسو نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اور اگر آنکھیں نہ دکھتی ہوں نہ اس میں کچھ کھٹک ہو تو آنسو نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
مسئلہ۔ اگر چھاتی سے پانی نکلتا ہے اور درد بھی ہوتا ہے۔ تو وہ بھی نجس ہے اس سے وضو جاتا رہے گا اور اگر درد نہیں ہے تو نجس نہیں ہے اور اس سے وضو بھی نہیں ٹوٹے گا۔
مسئلہ۔ اگر قے ہوئی اور اس میں کھانا یا پانی یا پت گرے تو اگر منہ بھر قے ہوئی ہو تو وضو ٹوٹ گیا اور منہ بھر قے نہیں ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹا۔ اور منہ بھر ہونے کا یہ مطلب ہے کہ مشکل سے منہ میں رکے اور اگر قے میں نرا بلغم گرا تو وضو نہیں گیا چاہے جتنا ہو۔ منہ بھر ہو چاہے نہ ہو سب کا ایک حکم ہے۔ اور اگر قے میں خون گرے تو اگر پتلا اور بہتا ہوا ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا چاہے کم ہو چاہے زیادہ۔ منہ بھر ہو یا نہ ہو۔ اور اگر جما ہوا ٹکڑے ٹکڑے گرے اور منہ بھر ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا اوار اگر کم ہو تو وضو ہو جائے گا۔
مسئلہ۔ اگر تھوڑی تھوڑی کر کے کئی دفعہ قے ہوئی لیکن سب ملا کر اتنی ہے کہ اگر ایک دفعہ گرتی تو منہ بھر ہو جاتی تو اگر ایک ہی متلی برابر باقی رہی اور تھوڑی تھوڑی قے ہوتی رہی تو وضو ٹوٹ گیا۔ اور اگر ایک ہی متلی برابر نہیں رہی بلکہ پہلی دفعہ کی متلی جاتی رہی تھی اور جی اچھا ہو گیا تھا پھر دہرا کر متلی شروع ہوئی اور تھوڑی قے ہو گئی۔ پھر جب یہ متلی جاتی رہی تو تیسری دفعہ پھر متلی شروع ہو کر قے ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹا۔
مسئلہ۔ لیٹے لیٹے آنکھ لگ گئی یا کسی چیز سے ٹیک لگا کر بیٹھے بیٹھے سو گئی اور ایسی غفلت ہو گئی کہ اگر وہ ٹیک نہ ہوتی تو گر پڑتی تو وضو جاتا رہا۔ اور اگر نماز میں بیٹھے بیٹھے یا کھڑے کھڑے سو جائے تو وضو نہیں گیا۔ اور اگر سجدے میں سو جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔
مسئلہ۔ اگر نماز سے باہر بیٹھے بیٹھے سوئے اور اپنا چوتڑ ایڑی سے دبا لیے اور دیوار وغیرہ کسی چیز سے ٹیک بھی نہ لگائے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔
مسئلہ۔ بیٹھے ہوئے نیند کا ایسا جھونکا آیا کہ گر پڑی تو اگر گر کے فورا ہی آنکھ کھل گئی ہو تو وضو نہیں گیا۔ اور جو گرنے کے ذرا بعد آنکھ کھلی ہو تو وضو جاتا رہا۔ اور اگر بیٹھی جھومتی رہی گری نہیں تب بھی وضو نہیں گیا۔
مسئلہ۔ اگر بیہوشی ہو گئی یا جنون سے عقل جاتی رہی تو وضو جاتا رہا۔ چاہے بیہوشی اور جنون تھوڑی ہی دیر رہا ہو۔ ایسے ہی اگر تمباکو وغیرہ کوئی نشہ کی چیز کھا لی اور اتنا نشہ ہو گیا کہ اچھی طرح چلا نہیں جاتا اور قدم ادھر ادھر بہکتا اور ڈگمگاتا ہے تو بھی وضو جاتا رہا۔
مسئلہ۔ اگر نماز میں اتنے زور سے ہنسی نکل گئی کہ اس نے آپ بھی آواز سن لی اور اس کے پاس والیوں نے بھی سب نے سن لی جیسے کھل کھلا کر ہنسنے میں سب پاس والیاں سن لیتی ہیں اس سے بھی وضو ٹوٹ گیا اور نماز بھی ٹوٹ گئی اور اگر ایسا ہوا کہ اپنے کو تو آواز سنائی دے مگر سب پاس والیاں نہ سن سکیں اگرچہ بہت ہی پاس والی سن لے اس سے نماز ٹوٹ جائے گی۔ وضو نہ ٹوٹے گا۔ اور اگر ہنسی میں فقط دانت کھل گئے آواز بالکل نہیں نکلی تو وضو ٹوٹا نہ نماز گئی۔ البتہ اگر چھوٹی لڑکی جو ابھی جوان نہ ہوئی ہو زور سے نماز میں ہنسے یا سجدہ تلاوت میں بڑی عورت کو ہنسی آئے تو وضو نہیں جاتا۔ ہاں وہ سجدہ اور نماز جاتی رہے گی جس میں ہنسی آ ئی۔
مسئلہ۔ وضو کے بعد ناخن کٹائے یا زخم کے اوپر کی مردار کھال نوچ ڈالی تو وضو میں کوئی نقصان نہیں آیا نہ تو وضو کے دہرانے کی ضرورت ہے اور نہ اتنی جگہ کے پھر تر کرنے کا حکم ہے۔
مسئلہ۔ وضو کے بعد کسی کا ستر دیکھ لیا یا اپنا ستر کھل گیا۔ یا ننگی ہو کر نہائی اور ننگے ہی وضو کار تو اس کا وضو درست ہے پھر وضو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ بدون لاچاری کے کسی کا ستر دیکھنا یا اپنا دکھلانا گناہ کی بات ہے۔
مسئلہ۔ جس چیز کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے و ہ چیز نجس ہوتی ہے اور جس سے وضو نہیں ٹوٹا وہ نجس بھی نہیں تو اگر ذرا سا خون نکلا کہ زخم کے منہ سے بہا نہیں آیا ذرا سی قے ہوئی منہ بھر نہیں ہوئی اور اس میں کھانا یا پانی یا پت یا جما ہوا خون نکلا تو خون زخم سے بہہ گیا تو وہ نجس ہے اس کا دھونا واجب ہے اور اگر اتنی قے کر کے کٹورے یا لوٹے کو منہ لگا کر کے کلی کے واسطے پانی لیا تو برتن ناپاک ہو جائے گا اس لیے چلو سے پانی لینا چاہیے۔
مسئلہ۔ چھوٹا لڑکا جو دودھ ڈالتا ہے اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر منہ بھر نہ ہو تو نجس نہیں ہے اور جب منہ بھر ہو تو نجس ہے۔ اگر بے اس کے دھوئے نماز پڑھے گی تو نماز نہ ہو گی۔
مسئلہ۔ اگر وضو کرنا تو یاد ہے اور اس کے بعد وضو ٹوٹنا اچھی طرح یاد نہیں کہ ٹوٹا ہے یا نہیں تو اس کا وضو باقی سمجھا جائے گا۔ اسی سے نماز درست ہے لیکن وضو پھر کر لینا بہتر ہے۔
مسئلہ۔ جس کو وضو کرنے میں شک ہوا کہ فلانا عضو دھویا یا نہیں تو وہ عضو پھر دھو لینا چاہیے اور اگر وضو کر چکنے کے بعد شک ہوا تو کچھ پروا نہ کرے وضو ہو گیا۔ البتہ اگر یقین ہو جائے کہ فلانی بات رہ گئی ہو تو اس کو کر لے۔
مسئلہ۔ بے وضو قرآن مجید کا چھونا درست نہیں ہے ہاں اگر ایسے کپڑے سے چھولے جو بدن سے جدا ہو تو درست ہے۔ دوپٹہ یا کرتے کے دامن سے جبکہ اس کو پہنے اوڑھے ہوئے ہو چھونا درست نہیں۔ ہاں اگر اترا ہوا ہو تو اس سے چھونا درست ہے۔ اور زبانی پڑھنا درست ہے اور اگر کلام مجید کھلا ہوا رکھا ہے اور اس کو دیکھ دیکھ کر پڑھا لیکن ہاتھ نہیں لگایا یہ بھی درست ہے۔ اسی طرح بے وضو ایسے تعویذ اور ایسی تشتری کا چھونا بھی درست نہیں ہے جس میں قرآن کی آیت لکھی ہو خوب یاد رکھو۔
معذور کے احکام
مسئلہ۔ جس کو ایسی نکسیر پھوٹی ہو کہ کسی طرح بند نہیں ہوتی یا کوئی ایسا زخم ہے کہ برابر بہتا رہتا ہے کوئی ساعت بہنا بند نہیں ہوتا۔ یا پیشاب کی بیماری ہے کہ ہر وقت قطرہ آتا رہتا ہے اتنا وقت نہیں ملتا کہ طہارت سے نماز پڑھ سکے تو ایسے شخص کو معذور کہتے ہیں۔ اس کا حکم یہ ہے کہ ہر نماز کے وقت وضو کر لیا کرے جب تک وہ وقت رہے گا تب تک اس کا وضو باقی رہے گا۔ البتہ جس بیماری میں مبتلا ہے اس کے سوا اگر کوئی اور بات ایسی پائی جائے جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تو وضو جاتا رہے گا اور پھر سے کرنا پڑے گا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کسی کو ایسی نکسیر پھوٹی کہ کسی طرح بند نہیں ہوتی اس نے ظہر کے وقت وضو کر لیا تو جب تک ظہر کا وقت رہے گا نکسیر کے خون کی وجہ سے اس کا وضو نہ ٹوٹے گا۔ البتہ اگر پاخانہ پیشاب آ گیا یا سوئی چبھ گئی اس سے خون نکل پڑا تو وضو جاتا رہا پھر وضو کرے۔ جب یہ وقت چلا گیا دوسری نماز کا وقت آ گیا تو اب دوسرے وقت دوسرا وضو کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہر نماز کے وقت وضو کر لیا کرے اور اس وضو سے فرض نفل جو نماز چاہے پڑھے۔
مسئلہ۔ اگر فجر کے وقت وضو کیا تو آفتاب نکلنے کے بعد اس وضو سے نماز نہیں پڑھ سکتی دوسرا وضو کرنا چاہیے اور جب آیت نکلنے کے بعد وضو کیا تو اس وضو سے ظہر کی نماز پڑھنا درست ہے۔ ظہر کے وقت نیا وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے جب عصر کا وقت آئے گا تب نیا وضو کرنا پڑے گا۔ ہاں اگر کسی اور وجہ سے ٹوٹ جائے تو یہ اور بات ہے۔
مسئلہ۔ کسی کے ایسا زخم تھا کہ ہر دم بہا کرتا تھا۔ اس نے وضو کیا۔ پھر دوسرا زخم پیدا ہو گیا اوربہنے لگا تو وضو ٹوٹ گیا پھر سے وضو کرے۔
مسئلہ۔ آدمی معذور جب بنتا ہے اور یہ حکم اس وقت لگاتے ہیں کہ پورا ایک وقت اسی طرح گزر جائے کہ خون برابر بہا کرے اور اتنا بھی وقت نہ ملے کہ اس وقت کی نماز طہارت سے پڑھ سکے۔ اگر اتنا وقت مل گیا کہ اس میں طہارت سے نماز پڑھ سکتی ہے تو اس کو معذور نہ کہیں گے۔ اور جو حکم ابھی بیان ہوا ہے اس پر نہ لگائیں گے۔ البتہ جب پورا ایک وقت اسی طرح گزر گیا کہ اس کو طہارت سے نماز پڑھنے کا موقع نہیں ملا یہ معذور ہو گئی۔ اب اس کا وہی حکم ہے کہ ہر وقت نیا وضو کر لیا کرے۔ جب دوسرا وقت آئے تو اس میں ہر وقت خون کا بہنا شرط نہیں ہے بلکہ وقت بھر میں اگر ایک دفعہ بھی خون آ جایا کرے اور سارے وقت بند رہے تو بھی معذور باقی رہے گی۔ ہاں اگر اس کے بعد ایک پورا وقت ایسا گزر جائے جس میں خون بالکل نہ آئے تو اب معذور نہیں رہی اب اس کا حکم یہ ہے کہ جس دفعہ خون نکلے گا وضو ٹوٹ جائے گا۔ خوب اچھی طرح سمجھ لو۔
مسئلہ۔ ظہر کا وقت کچھ ہو لیا تھا تب زخم وغیرہ کا خون بہنا شروع ہوا تو اخیر وقت تک انتظار کرے اگر بند ہو جائے تو خیر، نہیں تو وضو کر کے نماز پڑھ لے۔ پھر اگر عصر کے پورے وقت میں اسی طرح بہا کہ نماز پڑھنے کی مہلت نہیں ملی تو اب عصر کا وقت گزرنے کے بعد معذور ہونے کا حکم لگا دیں گے۔ اور اگر عصر کے وقت کے اندر ہی اندر بند ہو گیا تو وہ معذور نہیں ہے جو نمازیں اتنے وقت میں پڑھی ہیں وہ درست نہیں ہوئیں۔ پھر سے پڑھے۔
مسئلہ۔ ایسی معذور نے پیشاب پاخانہ کی وجہ سے وضو کیا اور جس وقت وضو کیا تھا اس وقت خون بند تھا۔ جب وضو کر چکی تب خون آیا تو اس خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ البتہ جو وضو نکسیر وغیرہ کے سبب کیا ہے خاص وہ وضو نکسیر کی وجہ سے نہیں ٹوٹا۔
مسئلہ۔ اگر یہ خون کپڑے وغیرہ میں لگ جائے تو دیکھو اگر ایسا ہو کہ نماز ختم کرنے سے پہلے ہی پھر لگ جائے گا تو اس کا دھونا واجب نہیں ہے اور اگر یہ معلوم ہو کہ اتنی جلدی نہ بھرے گا نماز طہارت سے ادا ہو جائے گی تو دھو ڈالنا واجب ہے۔ اگر ایک روپے سے بڑھ جائے تو بے دھوئے ہوئے نماز نہ ہو گی۔

http://iftikhar391.blogspot.in/2014/04/blog-post_2055.html?m=1
http://www.jamiabinoria.net/efatawa/tharat.html

No comments:

Post a Comment