Monday 8 February 2016

حضرت خضر علیہ السلام

حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ''بلیا'' اور ان کے والد کا نام ''ملکان'' ہے۔ ''بلیا'' سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ ''احمد'' ہے۔ ''خضر'' ان کا لقب ہے اور اس لفظ کو تین طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ خَضِر، خَضْر، خِضْر۔
''خضر'' کے معنی سبز چیز کے ہیں۔ یہ جہاں بیٹھتے تھے وہاں آپ کی برکت سے ہری ہری گھاس اُگ جاتی تھی اس لئے لوگ ان کو ''خضر'' کہنے لگے۔
یہ بہت ہی عالی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ان کے آباؤ اجداد بادشاہ تھے۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان ان کا اور ان کے والد کا نام اور ان کی کنیت یاد رکھے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔ (صاوی، ج۴،ص۱۲۰۷،پ۱۵،الکہف:۶۵)
تو آپ بھی ہوسکے تو اس کنیت کو یاد رکھئے گا۔ ابوالعباس بلیا بن ملکان۔
یہ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت ذوالقرنین حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔ (صاوی،ج۴،ص۱۲۱۴،پ۱۶، الکہف:۸۳)

خضر (علیہ السلام) زندہ ہیں یا ان کی وفات ہو چکی :
قرآن کریم میں جو واقعہ حضرت خضر (علیہ السلام) کا مذکور ہے اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ خضر (علیہ السلام) اس واقعے کے بعد وفات پاگئے یا زندہ رہ گئے اسی لئے قرآن و سنت میں اس کے متعلق کوئی صریح بات مذکور نہیں بعض روایات و آثار سے ان کا اب تک زندہ ہونا معلوم ہوتا ہے بعض روایات سے اس کے خلاف مستفاد ہوتا ہے اس لئے اس معاملے میں ہمیشہ سے علماء کی راہیں مختلف رہی ہے جو حضرات ان کی حیات کے قائل ہیں ان کا استدلال ایک تو اس روایت سے ہے جس کو حاکم نے مستدرک میں حضرت انس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوئی تو ایک شخص سیاہ سفید داڑھی والے داخل ہوئے اور لوگوں کے مجمع کو چیرتے پھاڑتے اندر پہنچے اور رونے لگے پھر صحابہ کرام (رض) اجمعین کی طرف متوجہ ہو کر یہ کلمات کہے ۔
ان فی اللہ عزآء من کل مصیبۃ وعوضا من کل فآئت وخلفا من کل ھالک فالی اللہ فانیبوا والیہ فارغبوا ونظرہ الیکم فی البلاء فانظروا فانما المصاب من لم یجیر۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صبر ہے ہر مصیبت سے اور بدلہ ہے ہر فوت ہونے والی چیز کا اور وہی قائم مقام ہے ہر ہلاک ہونے والے کا اس لئے اسی کی طرف رجوع کرو اسی کو طرف رغبت کرو اور اس بات کو دیکھو کہ وہ تمہیں مصیبت میں مبتلا کر کے تم کو آزماتا ہے اصل مصیبت زدہ وہ ہے جس کی مصیبت کی تلافی نہ ہو ۔
یہ آنے والے کلمات مذکورہ کہہ کر رخصت ہوگئے تو حضرت ابوبکر صدیق اور علی المرتضی (رض) نے فرمایا کہ یہ خضر (علیہ السلام) تھے اس روایت کو جزری رحمۃ اللہ علیہ نے حصن حصین میں بھی نقل کیا ہے۔ جن کی شرط یہ ہے کہ صرف صحیح السند روایات اس میں درج کرتے ہیں ۔
اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ دجال مدینہ طیبہ کے قریب ایک جگہ تک پہنچے گا تو مدینہ سے ایک شخص اس کے مقابلہ کے لئے نکلے گا جو اس زمانے کے سب انسانوں میں بہتر ہوگا یا بہتر لوگوں میں سے ہوگا ابو الحق نے فرمایا کہ یہ شخص حضرت خضر (علیہ السلام) ہوں گے (قرطی)
اور ابن ابی الدنیا نے کتاب الہواتف میں سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کی تو خضر (علیہ السلام) نے ان کو ایک دعا بتلائی جو کہ اس کو ہر نماز کے بعد پڑھا کرے اس کے لئے ثواب عظیم اور مغفرت و رحمت ہے وہ دعا یہ ہے۔
یامن لا یشغلہ سمع عن سمع ویامن لا تغلطہ المسآئل ویامن لایبرم من الحاح الملحین اذقنی برد عفوک وحلاوۃ مغفرتک۔ (قرطبی)
اے وہ ذات جس کو ایک کلام کا سننا دوسرے کلام کے سننے سے مانع نہیں ہوتا اور اے وہ ذات جس کو بیک وقت ہونے والے (لاکھوں کروڑوں) سوالات میں کوئی مغالطہ نہیں لگتا اور وہ ذات جو دعا میں الحاح و اسرار کرنے اور بار بار کہنے سے ملول نہیں ہوتا مجھے اپنے عفو و کرم کا ذائقہ چکھا دیجئے اور اپنی مغفرت کی حلاوت نصیب فرمائیے
اور پھر اسی کتاب میں بعینہ یہی واقعہ اور یہی دعا اور خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کا واقعہ حضرت فاروق اعظم (رض) سے بھی نقل کیا ہے (قرطبی)
اس طرح اولیاء امت میں حضرت خضر (علیہ السلام) کے بےشمار واقعات منقول ہیں اور جو حضرات خضر (علیہ السلام) کی حیات کو تسلیم نہیں کرتے ان کا بڑا استدلال اس حدیث سے ہے جو صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک رات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں عشاء کی نماز میں اپنی آخر حیات میں پڑھائی سلام پھیرنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوگئے اور یہ کلمات ارشاد فرمائے۔
ارءیتکم لیلتکم ہذہ فان علی راس مائۃ سنۃ منھا لایبقی ممن ھو علی ظہر الارض احد ۔
کیا تم اپنی آج کی رات کو دیکھ رہے ہو اس رات سے سو سال گذرنے پر کوئی شخص ان میں سے زندہ نہ رہے گا جو آج زمین کے اوپر ہے۔
حضرت ابن عمر (رض) نے یہ روایت نقل کرکے فرمایا کہ اس روایت کے بارے میں لوگ مختلف باتیں کرتے ہیں مگر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ تھی کہ سو سال پر یہ قرآن ختم ہو جائے گا یہ روایت مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے بھی تقریبا انہی الفاظ کے ساتھ منقول ہے لیکن علامہ قرطبی نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس میں ان لوگوں کے لئے کوئی حجت نہیں جو حیات خضر (علیہ السلام) کو باطل کہتے ہیں کیونکہ اس روایت میں اگرچہ تمام بنی آدم کے لئے عموم کے الفاظ ہیں اور عموم بھی مؤ کد کرکے لایا گیا ہے مگر پھر بھی اس میں نص نہیں کہ یہ عموم تمام اولاد آدم (علیہ السلام) کو شامل ہی ہو کیونکہ اولاد آدم میں تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ہیں جن کی نہ وفات ہوئی اور نہ قتل کئے گئے اس لئے ظاہر یہ ہے کہ حدیث کے الفاظ عَلَی الاَرض میں الف لام عہد کا ہے اور مراد ارض سے ارض عرب ہے پوری زمین جس میں ارض یاجوج و ماجوج اور بلاد شرق اور جزائر جن کا نام بھی عربوں نے نہیں سنا اس میں شامل نہیں یہ علامہ قرطبی کی تحقیق ہے ۔
اسی طرح بعض حضرات نے مسئلہ ختم نبوت کو حیات خضر کے منافی سمجھا ہے اس کا جواب بھی ظاہر ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیات ختم نبوت کے منافی نہیں حضرت خضر (علیہ السلام) کی حیات بھی ایسی ہی ہوسکتی ہے۔
بعض حضرات نے حیات خضر پر یہ شبہ کیا ہے کہ اگر وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں موجود ہوتے تو ان پر لازم تھا کہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ کے تابع ہو کر اسلامی خدمات میں مشغول ہوتے کیونکہ حدیث میں ارشاد ہے لَو كَانَ مُوسٰی حَیًّا لَّما وَسِعَہ اِلَّااتِّبَاعِی یعنی اگر موسیٰ (علیہ السلام) آج زندہ ہوتے تو ان کو بھی میرا ہی اتباع کرنا پڑتا (کیونکہ میرے آنے سے دین موسوی منسوخ ہوچکا ہے) لیکن یہ کچھ بعید نہیں کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کی زندگی اور ان کی نبوت عام انبیاء علیہم السلام شریعت سے مختلف ہو ان کو چونکہ تکوینی خدمات منجانب اللہ سپرد ہیں وہ ان کے لئے مخلوق سے الگ تھلگ اپنے کام پر مامور ہیں رہا اتباع شریعت محمدیہ تو اس میں کوئی بعد نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے بعد سے انہوں نے اپنا عمل شریعت محمدیہ پر شروع کردیا ہو واللہ اعلم
ابوحیان نے تفسیر بحر محیط میں متعدد بزرگوں کے واقعات حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کے بھی نقل کئے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ ۔
والجمہور علی انہ مات (بحر ص ١٤٧ ج ٢)
جمہور علماء اس پر ہیں کہ خضر (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی۔
تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے فرمایا کہ تمام اشکالات کا حل اس میں ہے جو حضرت سید احمد سرہندی مجدد الف ثانی نے اپنے مکاشفہ سے فرمایا وہ یہ کہ میں نے خود حضرت خضر (علیہ السلام) سے اس معاملہ کو عالم کشف میں دریافت کیا انہوں نے فرمایا کہ میں اور الیاس (علیہ السلام) ہم دونوں زندہ نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ قدرت بخشی ہے کہ ہم زندہ آدمیوں کی شکل میں متشکل ہو کر لوگوں کی امداد مختلف صورتوں میں کرتے ہیں واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
یہ بات میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کی موت وحیات سے ہمارا کوئی اعتقادی یا عملی مسئلہ متعلق نہیں اسی لئے قرآن و سنت میں اس کے متعلق کوئی صراحت و وضاحت نہیں کی گئی اس لئے اس میں زیادہ بحث و تمحیص کی بھی ضرورت نہیں نہ کسی ایک جانب کا یقین رکھنا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے لیکن چونکہ مسئلہ عوام میں چلا ہوا ہے اس لئے مذکورہ صدر تفصیلات نقل کردی گئی ہیں ۔

معارف القرآن ادریسی سورۂ کہف

1 comment:

  1. Ma Shaa Allah, good information. May Allah bless you with more knowledge. Aameen summa Aameen.

    ReplyDelete