Thursday 18 February 2016

کیا ہے قنوت نازلہ کا حکم اور ادائیگی کا طریقہ؟

ایس اے ساگر

اللہ نے ہر مسئلہ اور پریشانی کا حل دین میں رکھا ہے. دور حاضر میں بدامنی، مظالم اور قتل و غارت گری کسی سے پوشیدہ نہیں ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم کیلئے دعا کرتے یا کسی پر بددعا کرتے تو فرض نماز کی آخری رکعت میں رکوع سے اٹھ کر سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر بلند آواز سے قنوت کرتے تھے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں آمین کہتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل آپ کی پوری زندگی رہا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں سے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیساتھ مشابہ ہوں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہو گئے پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھا کر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے کہ کچھ لوگوں کے نام لے کر ان کیلئے دعا کرتے فرماتے اے اللہ ولید بن ولید، سلمۃ بن ہشام، عیاش بن ربیعہ کو پکڑلے اور کمزور مسلمانوں کو نجات عطا فرما ، اے اللہ کفار پر اپنی پکڑ اور عذاب سخت کر دے اور ان پر ایسی قحط سالی نازل فرما جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں تھی۔
(بخاری، کتاب الآذان، باب یھوی بالتکبیر حین یسجد، حدیث۳۰۸،۴۰۸)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل ایک مہینہ تک ظہر ، عصر، مغرب عشاء اور صبح کی نماز کی آخری رکعت میں سع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد بنو سلیم کے قبائل رعل ، ذکوان، عصیۃ کے لیے بددعا کرتے اور لوگ آپ کے پیچھے آمین کہتے۔
(ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ، باب قنوت فی الصلوات، حدیث: ۳۴۴۱)

اس کے علاوہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی صحیح احادیث ہیں۔ جن میں مختلف نمازوں میں قنوت کرنا ثابت ہوتا ہے.

غزوہ احد کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر زخمی ہوا نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا سر زخمی کر دیا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں اور نماز کے علاوہ بھی صفوان بن امیہ ، سہیل بن عمرو، حارث بن ھشام اور ابو سفیان رضی اللہ عنہم کے خلاف بددعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آل عمران کی ۸۲۱ آیت نازل فرمائی۔
(بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ احد، حدیث: ۹۶۰۴)

جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بیئرمعونہ موقع پر جب ۰۷ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دھوکے سے شہید کر دیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  مسلسل ایک مہینہ تک بددعا کرتے رہے۔ جنگِ احد سن ۳ ہجری میں ہوئی جبکہ بیئر معونہ کا سانحہ سن۴ ہجری میں غزوہ احد کے تین ماہ بعد ہوا ہے۔
(البدایۃ و النہایۃ، جلد ۴، صفحہ۲۷)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی قنوت کرتے رہے، ابو عثمان النہدی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ صبح کی نماز میں قنوت کروایا کرتے تھے۔
(السنن الکبریٰ، جلد۲، صفحہ۲۱۲)
شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کے مفتی محمد راشد صاحب ڈسکوی کے مطابق سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد روزِ روشن کی طرح واضح ہو کر سامنے آجاتاہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”والذي نفسي بیدہ! لا تذھب الدنیا حتیٰ یأتي علی الناس یومٌ لا یدري القاتلُ فیم قتَل، ولا المقتولُ فیم قُتِل“․ فقلتُ: فکیف ذالک؟ قال: ”الھرج ُ ! القاتل والمقتول في النار“․ (رواہ مسلم في صحیحہ،عن أبي ھریرة رضي اللّٰہ عنہ،کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب لا تقوم الساعة حتیٰ یمر الرجل بقبر الرجل، رقم الحدیث: 2908،ص:1182، دارالسلام)

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ آں جناب صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ یہ دنیا ختم نہیں ہوگی یہاں تک کہ ایک ایسا دن آجائے کہ قاتل کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ وہ کس وجہ سے قتل کر رہا ہے اور نہ ہی مقتول کو معلوم ہو گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا؟! “

اور پھر اسی پر بَس نہیں یہ قتل وغارت اتنی بڑھی کہ اس کا رُخ ایک عالمی طاغوتی منصوبہ کے تحت باقاعدہ طور پر عامة الناس سے وارثانِ انبیاء ،علماء اور طلباء کی طرف موڑ دیا گیا،اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وارثانِ انبیاء تو شہادت جیسے مرتبہ عظمیٰ پر فائز ہونے والے ہیں، لیکن ان کے قتل کے منصوبے بنانے والے اور اس فعلِ بد میں میں شریک ہونے والوں کی بد بختی کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ان اہلُ اللہ کی دشمنی پر کمر بستہ ہیں۔

قربِ قیامت میں علم اٹھا لیا جائے گا:
ان اہلِ علم شخصیات کا قتلِ عام بھی علاماتِ قیامت میں سے ہے ،جیسا کہ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”إن اللہ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد ولکن یقبض العلم بقبض العلماء، حتیٰ إذا لم یبق عالما اتخذ الناس رء وساً جھالاً،فسُئلوا، فأفتوا بغیر علمٍ، فضلوا وأضلوا“․ (رواہ الإمام البخاري في صحیحہ،عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم، رقم الحدیث:100، 1/32، دار طوق النجاة)
ترجمہ: ”بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان سے علم کو اس طرح ختم نہیں فرمائیں گے کہ اسے دفعةً اٹھا لیں بلکہ علماء ِ دین کے اٹھانے کی صورت میں علم کو اٹھا لیں گے، یہاں تک کہ جب کوئی بھی عالم (حقیقی) باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے، ان جہلاء سے سوال کئے جائیں گے تو یہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے“۔

موجودہ حالات میں ایک سنت عمل
ان حالات میں کہ جب مسلمانوں پر کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے ، مثلاً: طاعون کی وباء پھیل جائے ، یا کفار حملہ کر دیں، یا خود مسلمانوں میں ہی قتل و غارت عام ہو جائے تو ایسے مواقع میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ایک خاص عمل کرنا ثابت ہے، جسے قنوتِ نازلہ کہتے ہیں۔

حضرت اَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک نمازِ فجر میں قنوت(نازلہ) پڑھی، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے عرب کے بعض قبیلوں مثلاً: رِعْل، ذکوان، عُصَیَّةاور بنی لِحیان کے خلاف بددعا فرمائی تھی“۔

عن اَنَس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال : أن نبي اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم قنت شھراً في صلاة الصبح، یدعوا علیٰ أحیاء العرب علیٰ رِعْلٍ و ذَکْوان و عُصَیِّة وبني لِحیان․ (صحیح البخاري، کتاب المغازي، باب غزوة الرجیع ورعل وذکوان وبئر معونة،رقم الحدیث:1579،ص:، دارالسلام)

چنانچہ ملک کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر صدرِ وفاق المدارس العربیہ و مہتمم جامعہ فاروقیہ ،حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور مہتمم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاوٴن ،حضرت شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے متوسلین اور ائمہ مساجد کو نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اپنی اپنی مساجد میں قنوتِ نازلہ شروع کردیں تو اللہ رب العزت کی ذاتِ اقدس سے قوی امید ہے کہ حالات میں بہتری پیدا ہو جائے گی اور مسلمانوں کی دلی تسلی کیساتھ ان قاتل اور بدبخت لوگوں کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت کا عمل بھی شروع ہو جائے گا۔

اس لئے کہ ایسے حالات میں مصائب وبلیّات اور سختیاں دور کروانے کے لیے، مسلمانوں کی فتح اور کافروں کی شکست (اور آفات کی دوری) کیلئے بالاتفاق نماز ِ فجرکی جماعت میں قنوتِ نازلہ پڑھنا مسنون و مستحب ہے۔

چنانچہ خاتمة المحققین علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے :
(ولا یقنت لغیرہ إلا) لنازلة، فیقنت الإمام في الجھریة․ وفي حاشیة ابن عابدین تحت قولہ:”إلا لنازلة“ قال في الصحاح: النازلة: الشدیدة من شدائد الدھر، ولا شک أن الطاعون من أشد النوازل…قال أبو جعفر الطحاوي:إنما لا یقنت عندنا في صلاة الفجر من غیر بلیة، فإن وقعت فتنة أو بلیة فلا بأس بہ، فعلہ رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم․ (حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب:في القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)

قنوتِ نازلہ سے متعلق بعض متفرق مسائل

تنہا نماز پڑھنے والے کیلئے قنوتِ نازلہ پڑھنا درست نہیں ہے۔
(فیقنت الإمام في الجھریة)․ وفي حاشیة ابن عابدین تحت قولہ:”فیقنت الإمام في الجھریة“و ظاھر تقییدھم بالإمام أنہ لا یقنت المنفرد․(حوالہ بالا)

احناف کے نزدیک صرف فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی جا سکتی ہے ،البتہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک قنوت ِ نازلہ کا تمام نمازوں میں پڑھنا درست ہے۔
(وأما القنوت في الصلوٰت کلھا للنوازل فلم یقل بہ إلا الشافعي رحمہ اللہ ، وکأنھم حملوا ما روي عنہ علیہ الصلاة والسلام أنہ قنت في الظھر والعشاء کما في مسلم، وأنہ قنت في المغرب أیضاً کما في البخاري علی النسخ لعدم ورود المواظبة والتکرار الواردین في الفجر عنہ علیہ الصلاہ والسلام، وھو الصریح في أن قنوت النازلة عندنا مختص بصلاة الفجر دون غیرھا من الصلوات الجھریة․(حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب:في القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)

قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ
قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد ”سَمِعَ اللّٰہ ُ لِمَنْ حَمِدَہ“ کہہ کر امام کھڑا ہو جائے ،اور قیام کی حالت میں دعائے قنوت ،جو آگے آ رہی ہے، پڑھے اور مقتدی اس کی دعا پرآہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں،پھر دعا سے فارغ ہو کر ”اللہ اکبر“کہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں اور بقیہ نماز امام کی اقتداء میں اپنے معمول کے مطابق ادا کریں۔
وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعي علی قنوت الفجر، وفیہ تصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماوٴنا علی القنوت للنازلة، ثم رأیت الشرنبلالي في مراقي الفلاح صرح بأنہ بعدہ؛ واستظھر الحموي أنہ قبلہ، والأظھر ما قلناہ، واللّٰہ أعلم․ (حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب:في القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)

اگر دعائے قنوت مقتدیوں کو یاد ہو تو امام بھی آہستہ پڑھے اور مقتدی بھی آہستہ آواز میں پڑھے اور اگر مقتدیوں کو یاد نہ ہو جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے، تو امام بلند آواز سے دعا کے کلمات کہے اور سب مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہتے رہیں۔
وھل المقتدي مثلہ أم لا؟ و ھل القنوت ھنا قبل الرکوع أم بعدہ ؟ لم أرہ․ والذي یظھر لي أن المقتدي یتابع إمامہ، إلا إذا جھر، فیوٴمن․ (حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة ، مطلب:في القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)

قنوتِ نازلہ کے دوران دعا میں ہاتھوں کو لٹکایا جائے یا دعا کے انداز میں دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جائے؟ اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اس حالت میں احتمالاً تین طرح کی صورتیں اپنائی جا سکتی ہیں:
1. ناف کے نیچے ہاتھوں کو باندھا جائے ،جیسا کہ عام طور سے قیامِ نماز میں باندھے جاتے ہیں۔
2. دونوں ہاتھ نیچے کی طرف لٹکائے جائیں۔
3. دعا مانگنے کے انداز میں ہاتھ اُوپراٹھا لئے جائیں۔
ان تین صورتوں میں سے پہلی دونوں صورتیں درست ہیں،لیکن ان میں سے دوسری صورت ،یعنی ہاتھوں کو لٹکائے رکھنا)بہتر ہے۔جبکہ تیسری صورت یعنی دعا کی طرح ہاتھوں کو اٹھانا مناسب نہیں ہے۔

جیسا کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”بوادر النوادر“ میں لکھا ہے:
”مسئلہ مجتہد فیہ ہے، دلائل سے دونوں طرف (یعنی: پہلی دو صورتوں کی طرف)گنجائش ہے اور ممکن ہے کہ ترجیح قواعد سے وضع(ہاتھ باندھنے) کو ہو۔کما ھو مقتضیٰ مذہب الشیخین، لیکن عارضِ التباس و تشویشِ عوام کی وجہ سے اِرسال کو ترجیح دی جاسکتی ہے،کماھومذھب محمد“۔(بوادر النوادر، نوے واں نادرہ، تحقیق اِرسال یا وضع یدین در قنوتِ نازلہ:6/122،123، ادارہ اسلامیات)

قنوتِ نازلہ کی دعا پڑھنے کی حالت میں جو مسبوقین امام کیساتھ نماز میں شریک ہوں ، وہ تکبیر ِ تحریمہ کہنے کے بعد قیام کی حالت میں امام کی دعا پر آہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں، ان کی یہ رکعت شمار نہیں ہو گی ، (کیوں کہ ان کی شرکت امام کے رکوع سے اُٹھ جانے کے بعد ہوئی ہے) بلکہ وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی دونوں رکعتوں کو حسبِ قاعدہ پورا کریں گے۔

قنوت ِنازلہ کتنے دنوں تک جاری رکھی جائے؟ اس بارے میں کوئی مقدار متعین نہیں ہے کہ اتنے دن تک پڑھی جائے اور اس کے بعد پڑھنا جائز نہیں۔بلکہ ضرورت کے موافق اس دعا کو جاری رکھا جائے، تاہم اتباع ِسنت کی غرض سے ایک مہینہ تک اس کو جاری رکھا جائے ، جیسا کہ شروع میں ذکر کی گئی حدیثِ نبوی صلی الله علیہ وسلم میں ذکر ہوا۔

قلت و فیہ بیان غایة القنوت للنازلة أنہ ینبغي أن یقنت أیاماً معلومةً عن النبي صلی الله علیہ وسلم، وھي قدرُ شھرٍ، کما في الروایات عن أنس: ”أنہ صلی الله علیہ وسلم قنَت شھراً ثم ترک“ فاحفظْہ فھذا غایةُ اتباع السنة النبویة صلی الله علیہ وسلم․ (إعلاء السنن، أحکام القنوت النازلة: 6/118، إدارة القرآن، کراتشي)

قنوتِ نازلہ کی دعا
دعائے قنوتِ نازلہ بہت سی روایات میں قدرے مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے ، ان سب کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حالات کے مطابق علماء ِعصر نے ایک جامع دعا نقل کی ہے:

﴿اللّٰہمَّ اھْدِنَا فِيْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِيْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِيْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِيْ مَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، إِنَّکَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ، وَإِنَّہ لَا یَذِلُّ مَنْ وَالَیْتَ، وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنا وَتَعالَیْتَ، نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ إِلَیْکَ، وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِيِّ الْکَرِیْمِ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُوٴْمِنِیْنَ وَلِلْمُوٴْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَأَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَاجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِھِمُ الْإِیْمَانَ وَالْحِکْمَةَ،وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّةِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعْھُمْ أَنْ یَشْکُرُوا نِعْمَتَکَ الَّتِيْ أَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ وَأَنْ یُوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِيْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ؛ لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ، اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَةَ وَالْمُشْرِکِیْنَ لَا سِیَمَا الرَّافِضَةَ وَمَنْ حَذَا حَذْوَھُمْ مِنَ الْأَحْزَابِ وَالْمُنَافِقِیْنَ الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَاءَ کَ مِنَ الطُّلَّابِ وَالْعُلَمَآءِ وَالْمُسْلِمِیْنَ، اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِيْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذيْ لَا تَرُدُّہ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ﴾․
ترجمہ:یا اللہ ! ہمیں راہ دکھلا اُن لوگوں میں جن کو آپ نے راہ دکھلائی، اور عافیت دے اُن لوگوں میں جن کو آپ نے عافیت عطا فرمائی، اور کارسازی فرمائیے ہماری ان لوگوں میں جن کے آپ کارسازہیں، اور ہمیں ان چیزوں میں برکت عطا فرمائیے جو آپ نے ہمیں عطا فرمائی، اور ہماری ان چیزوں کے شر سے حفاظت فرمائیے جن کا آپ نے فیصلہ فرمایا، کیوں کہ آپ ہی فیصلہ کرنے والے ہیں، اور آپ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، بے شک آپ جس کی مدد فرمائیں وہ ذلیل نہیں ہو سکتا، اور عزت نہیں پا سکتا وہ شخص جو آپ سے دشمنی کرے، اے ہمارے رب آپ بابرکت ہیں اور بلند و بالا ہیں۔ہم تجھ ہی سے مغفرت طلب کرتے ہیں اورآپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل فرمائیے اس نبی پر جو بڑے کریم ہیں، اے اللہ! ہمارے اور موٴمن مردوں اور عورتوں کے اور مسلمان مَردوں اور عورتوں کے گناہ معاف فرما دے، اور ان کے دلوں میں باہم الفت پیدا فرمادیجئے، اور ان کے باہمی تعلقات کو درست فرمادیجئے، اور ان کے دلوں میں ایمان و حکمت کو قائم فرما دیجئے، اور ان کو اپنے رسول کے دین پر ثابت قدم رکھ، اور توفیق دے انہیں کہ شکر کریں آپ کی اس نعمت کا جو آپ نے انہیں دی ہے اور یہ کہ وہ پورا کریں آپ کے اس عہد کو جوآپ نے ان سے لیا ہے،اور ان کی اپنے اور ان کے دشمنوں کے خلاف مدد فرما،اے اللہ! ان کافروں اور مشرکوں پر لعنت فرما،خصوصاً روافض پر اور ان گروہوں پر جو ان کے نقشِ قدم پرچلتے ہیں اور منافقین پر جو آپ کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں،اور آپ کے اولیاء کو قتل کرتے ہیں،بالخصوص علماء، طلبہ اور عامة المسلمین کو، اے اللہ ! خود انہیں کے اندر آپس میں اختلاف پیدا فرما، اور ان کی جماعت کو متفرق کر دے، اور ان کی طاقت پارہ پارہ کر دے، اور ان کے قدموں کو اُکھاڑ دے،اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دے ، اور ان کو ایسے عذاب میں پکڑ لے جس میں قوت و قدرت والا پکڑا کرتا ہے اور اُن پر اپنا ایسا عذاب نازل فرما جو آپ مجرم قوموں سے دور نہیں کرتے۔

پانچوں نمازوں کے بعد امام و مقتدی سب یہ دعا کریں
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے جواہر الفقہ میں لکھا ہے کہ پانچوں نمازوں کے بعد امام اور مقتدی یہ دعا بھی مانگیں ، وہ دعاموجودہ حالات کے پیشِ نظر قدرے تغیرو تبدل کیساتھ نقل کی جاتی ہے،

﴿اَللّٰھَمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ، سَرِیْعَ الْحِسَابِ، اَللّٰہُمَّ اھْزِمِ الْاَحْزَابَ، اَللّٰہُمَّ اھْزِمْھِمْ وَزَلْزِلْھُمْ، اَللّٰھُمَّ انْصُرِ الإِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُجَاھِدِیْنَ الَّذِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِيْ سَبِیْلِکَ حَقّاً، وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَائِمٍ فِيْ مَشَارِقِ الْأَرْضِ وَمَغَارِبِھَا، اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا وَاحْفَظِ الطُّلَّابَ وَالْعُلَمَآءَ خَاصَّةً وَالْمُسْلِمِیْنَ عَامَّةً وَکَافَّةً، وَالْمَدَارِسَ وَالْمَعَاھِدَ الدِّیْنِیَّةَ کُلَّھَا، اَللّٰھُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَوْعَاتِنَا، وَاکْنُفْنَا بِرُکْنِکَ الَّذِيْ لَا یُرَامُ، وَاَعِنَّا وَلَا تُعِنْ عَلَیْنَا، وَانْصُرْنَا وَلَا تَنْصُرْ عَلَیْنَا، وَامْکُرْلَنَا وَلَا تَمْکُرْبِنَا، وَاھْدِنَا وَیَسِّرِ الْھُدیٰ لَنَا، اَللّٰھُمَّ إِلَیْکَ نَشْکُوْا ضُعْفَ قُوَّتِنَا، وَقِلَّةَ حِیْلَتِنَا، وَھَوَانَنَا عَلیٰ النَّاسِ، إِنَّہُ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَ مِنْکَ إِلَّا إِلَیْک﴾َ۔
ترجمہ:اے اللہ! اے کتاب نازل کرنے والے! جلد حساب لینے والے! یا للہ! ان طاقتوں کو شکست دیدے، یا اللہ! اسلام ، مسلمان اور ان مجاہدین کی مدد فرما،جو تیرے راستے میں زمین کے مشرق و مغرب میں جہاد کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کرتے، یااللہ! ہماری حفاظت فرما، خاص طور پر طلبہ اور علماء کی اور عام طور پر عام مسلمانوں کی اور مدارس و تمام مراکز دینیہ کی حفاظت فرما۔ یا للہ! ہماری کمزوریوں پر پردہ دال دے اور خوف کی چیزوں سے ہم کو امن عطا فرما۔اور ہمیں اپنی اس طاقت کی پناہ میں لے جس کاکسی دشمن کی طرف سے بھی ارادہ نہیں کیا جاسکتا، اور ہماری مدد فرما اور ہمارے مقابل کی مدد نہ فرما اور ہم کو فتح دے، ہمارے مقابل کو فتح نہ دے، اور ہمارے مخالف کی مدد نہ فرما، اور ہم کو ہدایت عطا فرما، اور ہمارے لئے ہدایت کو آسان فرما، یا اللہ! ہم آپ ہی کے سامنے اپنی کمزوری ، بے سامانی اور لوگوں کی نظروں میں بے وقعتی کی شکایت پیش کرتے ہیں، کیوں کہ آپ کے عذاب سے نجات و پناہ بجز آپ کے کوئی نہیں دے سکتا۔

No comments:

Post a Comment